اس کے بعد ان قرضوں کا معاملہ لیجیے جو کاروباری لوگوں کو اپنی آئے دن کی ضروریات کے لیے درکار ہوتے ہیں۔ موجودہ زمانے میں ان مقاصد کے لیے یا تو بینکوں سے براہِ راست قلیل المدت قرضے (short term loans) حاصل کیے جاتے ہیں، یا پھر ہنڈیاں (bills of exchange) بھنائی جاتی ہیں،( یہ وہی چیز ہے جس کے لیے ہماری اسلامی فقہ میں ’’سفاتج‘‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ جن تاجروں کا آپس میں بھی ایک دوسرے سے لین دین ہو اور بینک کے ساتھ بھی معاملہ ہو وہ نقد رقم ادا کیے بغیر بڑی مقدار میں ایک دوسرے سے مال قرض لے لیتے ہیں اور مہینہ، دو مہینے، چار مہینے کے لیے فریق ثانی کو ہنڈی لکھ کر دے دیتے ہیں۔ اگر فریق ثانی اس پر مدت مقررہ تک انتظار کرسکتا ہو تو انتظار کرتا ہے اور وقت آنے پر قرض ادا ہو جاتا ہے لیکن اگر دورانِ مدت میں اس کو روپے کی ضرورت پڑ جاتی ہے تو وہ اس ہنڈی کو اس بینک میں داخل کر دیتا ہے جس سے دونوں فریقوں کے لین دین ہو اور اس سے رقم حاصل کر کے اپنا کام چلا لیتا ہے۔ اسی چیز کا نام ہنڈی بھنانا ہے۔) اور دونوں صورتوں میں بینک ایک ہلکی سی شرح سود اس پر لگاتے ہیں۔ یہ تجارت کی ایک ایسی اہم ضرورت ہے جس کے بغیر کوئی کام آج نہیں چل سکتا۔ اس لیے جب کاروباری لوگ بندشِ سود کا نام سنتے ہیں تو انہیں سب سے پہلے جو فکر لاحق ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ پھر روز مرہ کی ان ضروریات کے لیے قرض کیسے ملے گا؟ اگر بینک کو سود کا لالچ نہ ہو تو آخر وہ کیوں ہمیں قرض دے گا اور کیوں ہماری ہنڈیاں بھنائے گا؟
لیکن سوال یہ ہے کہ جس بینک کے پاس تمام رقومِ امانت (deposits) بلاسود جمع ہوں، اور جس کے پاس خود ان تاجروں کا بھی لاکھوں روپیہ بلا سود رکھا رہتا ہو، وہ آخر کیوں نہ ان کو بلاسود قرض دے اور کیوں نہ ان کی ہنڈیاں بھنائے؟ وہ اگر سیدھی طرح اس پر راضی نہ ہوگا تو تجارتی قانون کے ذریعے سے اس کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ اپنے کھاتہ داروں (customers) کو یہ سہولت بہم پہنچائے ۔ اس کے فرائض میں یہ چیز شامل ہونی چاہیے۔
درحقیقت اس کام کے لیے خود تاجروںکی اپنی رکھوائی ہوئی رقمیں ہی کافی ہوسکتی ہیں۔ لیکن ضرورت پڑ جانے پر کوئی مضائقہ نہیں، اگر بینک اپنے دوسرے سرمایہ میں سے بھی تھوڑا بہت اس غرض کے لیے استعمال کرلے۔ بہرحال اصولاً یہ بات بالکل واجبی بھی ہے کہ جو سود لے نہیں رہا ہے وہ سود دے کیوں؟ اور اجتماعی معیشت کے نقطۂ نظر سے یہ مفید بھی ہے کہ تاجروں کو اپنی روز مرہ کی ضروریات کے لیے بلاسُود قرض ملتا رہے۔
رہا یہ سوال کہ اگر اس لین دین میں بینک کو سود نہ ملے تو وہ اپنے مصارف کیسے پورے کرے گا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جب چالو کھاتوں (current accounts) کی ساری رقمیں بینک کے پاس بلاسود رہیں گی تو اس کے لیے انہی رقموں میں سے دست گرداں قرضے بلا سود دینا کوئی نقصان دہ معاملہ نہ رہے گا۔ کیوں کہ اس صورت میں حساب کتاب اور دفتر داری کے جو تھوڑے بہت مصارف بینک کو برداشت کرنے ہوں گے ان سے کچھ زیادہ ہی فوائد وہ ان رقموں سے حاصل کرلے گا جو اس کے پاس جمع ہوں گی۔ تاہم اگر بالفرض یہ طریقہ قابلِ عمل نہ ہو، تو اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں کہ بینک اپنی اس طرح کی خدمات کے لیے ایک ماہوار یا ششماہی فیس اپنے تمام تجارت پیشہ کھاتہ داروں پر عائد کر دے جو اس مد کے مصارف پورے کرنے کے لیے کافی ہو۔ سود کی بہ نسبت یہ فیس ان لوگوں کو زیادہ سستی پڑے گی اس لیے وہ بخوشی اسے گوارا کرلیں گے۔