اجتماعی معیشت اور نظامِ مالیات میں بے شمار خرابیاں صرف اس وجہ سے پیدا ہوئی ہیں کہ قانون نے سود کو جائز کر رکھا ہے ۔ ظاہر بات ہے کہ جب ایک آدمی کے لیے سود کا دروازہ کھلا ہوا ہے تو وہ اپنے ہمسائے کو قرضِ حسن کیوں دے؟ اور ایک کاروباری آدمی کے ساتھ نفع و نقصان کی شرکت کیوں اختیار کرے؟ اور اپنی قومی ضروریات کی تکمیل کے لیے مخلصانہ اعانت کا ہاتھ کیوں بڑھائے؟ اور کیوں نہ اپنا جمع کیا ہوا سرمایہ ساہوکار کے حوالے کر دے جس سے اس کو گھر بیٹھے ایک لگا بندھا منافع ملنے کی امید ہو؟ آپ انسانی فطرت کے برے میلانات کو ابھرنے اور کھل کھیلنے کی کھلی چھٹی دے دینے کے بعد یہ توقع نہیں کرسکتے کہ نرے وعظ و تلقین اور اخلاقی اپیلوں کے ذریعے ہی سے آپ ان کے نشوونما اور نقصانات کو روک سکیں گے۔ پھر یہاں تو معاملہ صرف اس حد تک بھی محدود نہیں ہے کہ آپ نے ایک برے میلان کو محض کھلی چھٹی دے رکھی ہو۔ اس سے آگے بڑھ کر آپ کا قانون تو الٹا اس کا مددگار بنا ہوا ہے اور حکومت خود اس برائی پر اجتماعی مالیات کے نظام کو پال اور چلا رہی ہے۔ اس حالت میں آخر یہ کس طرح ممکن ہے کہ کس قسم کی جزوی ترمیمات اور فروعی اصلاحات سے اس کی برائیوں کا سدباب کیا جاسکے؟ ان کا سدباب اگر ہوسکتا ہے تو صرف اس طرح کہ سب سے پہلے اس دروازے کو بند کیا جائے جس سے خرابی آ رہی ہے۔
جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ پہلے کوئی غیر سودی نظامِ مالیات بن کر تیار ہو لے پھر سود یا تو آپ سے آپ بند ہو جائے گا، یا اسے قانوناً بند کر دیا جائے گا، وہ درحقیقت گھوڑے کے آگے گاڑی باندھنا چاہتے ہیں۔ جب تک سود اَز رُوئے قانون جاری ہے، جب تک عدالتیں سودی معاہدات کو تسلیم کر کے ان کو بزور نافذ کر رہی ہیں، جب تک ساہو کاروں کے لیے یہ دروازہ کھلا ہے کہ سود کا لالچ دے کر گھر گھر سے روپیہ اکٹھا کریں اور پھر آگے اسے سود پر چلائیں، اس وقت تک یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی غیر سودی نظام مالیات وجود میں آئے اور نشوونما پا سکے۔ لہٰذا اگر سود کی بندش اس امر پر موقوف ہے کہ پہلے ایسا کوئی مالی نظام پل کر جوان ہو لے جو موجودہ سودی نظام کی جگہ لے سکتا ہو، تو یقین رکھیے کہ اس طرح قیامت تک سود کے بند ہونے کی نوبت نہیں آسکتی۔ یہ کام تو جب کبھی کرنا ہو اسی طرح کرنا پڑے گا کہ اول قدم ہی پر سود کو ازروئے قانون بند کر دیا جائے۔ پھر خود بخود غیر سودی نظام مالیات پیدا ہو جائے گا اور ضرورت جو ایجاد کی ماں ہے، آپ سے آپ اس کے لیے ہر گوشے میں بڑھنے اور پھیلنے کا راستہ بناتی چلی جائے گی۔
سود نفسِ انسانی کی جن بری صفات کا نتیجہ ہے، ان کی جڑیں اس قدر گہری اور ان کے تقاضے اس قدر طاقت ور ہیں کہ ادھوری کارروائیوں اور ٹھنڈی ٹھنڈی تدبیروں سے کسی معاشرے میں اس بلا کا استیصال نہیں کیا جاسکتا۔ اس غرض کے لیے تو ضروری ہے کہ وہ ساری تدبیریں عمل میں لائی جائیں جو اسلام تجویز کرتا ہے اور اسی سرگرمی کے ساتھ اس کے خلاف نبرد آزمائی کی جائے جیسی کہ اسلام چاہتا ہے۔ اسلام سودی کاروبار کی محض اخلاقی مذمت پر اکتفا نہیں کرتا۔ بلکہ ایک طرف وہ اس کو مذہبی حیثیت سے حرام قرار دے کر اس کے خلاف شدید نفرت پیدا کرتا ہے۔ دوسری طرف جہاں جہاں اسلام کا سیاسی اقتدار اور حاکمانہ اثر و نفوذ قائم ہو وہاں وہ ملکی قانون کے ذریعے سے اس کو ممنوع قرار دیتا ہے۔ تمام سودی معاہدوں کو کالعدم ٹھیراتا ہے۔ سود لینے اور دینے اور اس کی دستاویز لکھنے اور اس پر گواہ بننے کو فوجداری جرم قابل دست اندازی پولیس قرار دیتا ہے اور اگر کہیں یہ کاروبار معمولی سزائوں سے بند نہ ہو تو اس کے مرتکبین کو قتل اور ضبطی جائیداد تک کی سزائیں دیتا ہے۔ تیسری طرف وہ زکوٰۃ کو فرض قرار دے کر اور حکومت کے ذریعے سے اس کی تحصیل و تقسیم کا انتظام کر کے ایک دوسرے نظامِ مالیات کی داغ بیل ڈال دیتا ہے اور ان سب تدبیروں کے ساتھ وہ تعلیم و تربیت اور دعوت وتبلیغ کے ذریعے سے عامۃ الناس کی اصلاح بھی کرتا ہے تا کہ ان کے نفس میں وہ صفات اور رجحانات دب جائیں جو سود خوری کے موجب ہوتے ہیں اور اس کے برعکس وہ صفات اور جذبات ان کے اندر نشوونما پائیں جن سے معاشرے میں ہمدردانہ و فیاضانہ تعاون کی روح جاری و ساری ہوسکے۔