آیئے اب ہم ان میں سے ایک ایک ’’فائدے‘‘ اور ’’ضرورت‘‘ کا جائزہ لے کر دیکھیں کہ آیا فی الحقیقت وہ کوئی فائدہ اور ضرورت ہے بھی یا یہ سب کچھ محض ایک شیطانی وسوسہ ہے۔
اولین غلط فہمی یہ ہے کہ معاشی زندگی کے لیے افراد کی کفایت شعاری اور زر اندوزی کو ایک ضروری اور مفید چیز سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ درحقیقت ساری معاشی ترقی و خوش حالی منحصر ہے اس پر کہ جماعت بحیثیتِ مجموعی جتنا کچھ سامانِ زیست پیدا کرتی جائے وہ جلدی جلدی فروخت ہوتا چلا جائے تا کہ پیداوار اور اس کی کھپت کا چکر توازن کے ساتھ اور تیز رفتاری کے ساتھ چلتا رہے۔ یہ بات صرف اسی صورت میں حاصل ہوسکتی ہے جب کہ لوگ بالعموم اس امر کے عادی ہوں کہ معاشی سعی و عمل کے دوران میں جتنی کچھ دولت ان کے حصہ میں آئے اسے صرف کرتے رہیں، اور اس قدر فراخ دل ہوں کہ اگر ان کے پاس ان کی ضرورت سے زیادہ دولت آگئی ہو تو اسے جماعت کے کم نصیب افراد کی طرف منتقل کر دیا کریں تا کہ وہ بھی بفراغت اپنے لیے ضروریات زندگی خرید سکیں۔ مگر تم اس کے برعکس لوگوں کو یہ سکھاتے ہو کہ جس کے پاس ضرورت سے زیادہ دولت پہنچی ہو وہ بھی کنجوسی برت کر (جسے تم ضبط نفس اور زہد اور قربانی وغیرہ الفاظ سے تعبیر کرتے ہو) اپنی مناسب ضروریات کا ایک اچھا خاصا حصہ پورا کرنے سے باز رہے، اور اس طرح ہر شخص زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرنے کی کوشش کرے۔ تمہارے نزدیک اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ سرمایہ اکٹھا ہو کر صنعت و تجارت کی ترقی کے لیے بہم پہنچ سکے گا۔ لیکن درحقیقت اس کا نقصان یہ ہوگا کہ جو مال اس وقت بازار میں موجود ہے اس کا ایک بڑا حصہ یونہی پڑا رہ جائے گا۔ کیوں کہ جن لوگوں کے اندر قوت خرید پہلے ہی کم تھی وہ تو استطاعت نہ ہونے کی وجہ سے بہت سا مال خرید نہ سکے، اور جو بقدرِ ضرورت خرید سکتے تھے انہوں نے استطاعت کے باوجود پیداوار کا اچھا خاصا حصہ نہ خریدا، اور جن کے پاس ان کی ضرورت سے زیادہ قوت خریداری پہنچ گئی تھی انہوں نے اسے دوسروں کی طرف منتقل کرنے کے بجائے اپنے پاس روک کر رکھ لیا۔ اب اگر ہر معاشی چکر میں یہی ہوتا رہے کہ بقدر ضرورت اور زائد از ضرورت قوت خرید پانے والے لوگ اپنی اس قوت کے بڑے حصے کو نہ تو خود پیداوار کے خریدنے میں استعمال کریں نہ کم قوت خرید رکھنے والوں کو دیں، بلکہ اسے روکتے اور جمع کرتے چلے جائیں، تو اس کا حاصل یہ ہوگا کہ ہر چکر میں جماعت کی معاشی پیداوار کا معتدبہ حصہ فروخت سے رکتا چلا جائے گا۔ مال کی کھپت کم ہونے سے روزگار میں کمی واقع ہوگی، روزگار کی کمی آمدنیوں کی کمی پر منتج ہوگی، اور آمدنیوں کی کمی سے پھر اموالِ تجارت کی کھپت میں مزید کمی رونما ہوتی چلی جائے گی۔ اس طرح چند افراد کی زر اندوزی بہت سے افراد کی بدحالی کا سبب بنے گی اور آخر کار یہ چیز خود ان زر اندوز افراد کے لیے بھی وبال جان بن جائے گی، کیونکہ جس دولت کو وہ خریداری میں استعمال کرنے کے بجائے سمیٹ سمیٹ کر مزید پیداوار میں استعمال کریں گے آخر اس کے ذریعے سے تیار کی ہوئی پیداوار کھپے گی کہاں؟
اس حقیقت پر اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اصل معاشی ضرورت تو ان اسباب اور محرکات کو دور کرنا ہے جن کی بنا پر افراد اپنی آمدنیوں کو خرچ کرنے کے بجائے روک رکھنے اور جمع کرنے کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ ساری جماعت کی معاشی فلاح یہ چاہتی ہے کہ ایک طرف اجتماعی طور پر ایسے انتظامات کر دیے جائیں جن کی بدولت ہر شخص کو اپنے برے وقت پر مالی مدد مل جایا کرے تا کہ لوگوں کو اپنی آمدنیاں جمع کرنے کی حاجت ہی نہ محسوس ہو، اور دوسری طرف جمع شدہ دولت پر زکوٰۃ عائد کی جائے تا کہ لوگوں کے اندر جمع کرنے کا میلان کم ہو، اور اس کے باوجود جو دولت رک جائے اس کا ایک حصہ بہرحال ان لوگوں تک پہنچتا رہے جنہوں نے گردشِ دولت میں سے کم حصہ پایا ہے۔ لیکن تم اس کے برعکس سود کا لالچ دے دے کر لوگوں کے طبعی بخل کو اور زیادہ اکساتے ہو، اور جو بخیل نہیں ہیں ان کو بھی یہ سکھاتے ہو کہ وہ خرچ کرنے کے بجائے مال جمع کریں۔
پھر اس غلط طریقے سے اجتماعی مفاد کے خلاف جو سرمایہ اکٹھا ہوتا ہے اس کو تم پیدائش دولت کے کاروبارکی طرف لاتے بھی ہو تو سود کے راستے سے لاتے ہو۔ یہ اجتماعی مفاد پر تمہارا دوسرا ظلم ہے۔ اگر یہ اکٹھی کی ہوئی دولت اس شرط پر کاروبار میں لگتی ہے کہ جتنا کچھ منافع کاروبار میں ہوگا اس میں سے سرمایہ دار کو تناسب کے مطابق حصہ مل جائے گا تب بھی چنداں مضائقہ نہ تھا۔ مگر تم اس کو اس شرط پر بازارِ مالیات میں لاتے ہو کہ کاروبار میں چاہے منافع ہو یا نہ ہو، اور چاہے کم منافع ہو یا زیادہ، بہرحال سرمایہ دار اس قدر فی صدی منافع ضرور پائے گا۔ اس طرح تم نے اجتماعی معیشت کو دوہرا نقصان پہنچایا۔ ایک نقصان وہ جو روپے کو خرچ نہ کرنے اور روک رکھنے سے پہنچا اور دوسرا یہ کہ جو روپیہ روکا گیا تھا وہ اجتماعی معیشت کی طرف پلٹا بھی تو حصہ داری کے اصول پر کاروبار میں شریک نہیں ہوا بلکہ قرض بن کر پورے معاشرے کی صنعت و تجارت پر لد گیا اور تمہارے قانون نے اس کو یقینی منافع کی ضمانت دے دی۔ اب تمہارے اس غلط نظام کی وجہ سے صورتِ حال یہ ہوگئی کہ معاشرے کے بکثرت افراد اس قوتِ خریداری کو جو انہیں حاصل ہوتی ہے، اجتماعی پیداوار کی خریداری میں صرف کرنے کے بجائے روک روک کر ایک سود طلب قرضے کی شکل میں معاشرے کے سر پر لادتے چلے جاتے ہیں۔ اور معاشرہ اس روز افزوں پیچیدگی میں مبتلا ہوگیا ہے کہ آخر وہ اس ہر لحظہ بڑھنے والے قرض و سود کو کس طرح ادا کرے جب کہ اس سرمائے سے تیار کیے ہوئے مال کی کھپت بازار میں مشکل ہے اور مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔ لاکھوں کروڑوں آدمی اسے اس لیے نہیں خریدتے کہ ان کے پاس خریدنے کے لیے پیسہ نہیں۔ اور ہزارہا آدمی اس کو اس لیے نہیں خریدتے کہ وہ اپنی قوتِ خریداری کو مزید سود طلب قرض بنانے کے لیے روکتے چلے جا رہے ہیں۔
تم اس سود کا یہ فائدہ بتاتے ہو کہ اس کے دبائو کی وجہ سے کاروباری آدمی مجبور ہوتا ہے کہ سرمائے کے فضول استعمال سے بچے اور اس کو زیادہ سے زیادہ نفع بخش طریقے سے استعمال کرے۔ تم شرحِ سود کی یہ کرامت بیان کرتے ہو کہ وہ خاموشی کے ساتھ کاروبار کی ہدایت و رہنمائی کا فریضہ انجام دیتی رہتی ہے اور یہ اسی کا فیضان ہے کہ سرمایہ اپنے بہائو کے لیے تمام ممکن راستوں میں سے اس کاروبار کے راستے کو چھانٹ لیتا ہے جو سب سے زیادہ نافع ہوتا ہے ۔ لیکن ذرا اپنی اس سخن سازی کے پردے کو ہٹا کر دیکھو کہ اس کے نیچے اصل حقیقت کیا چھپی ہوئی ہے۔ دراصل سود نے پہلی خدمت تو یہ انجام دی کہ ’’فائدے‘‘ اور ’’منفعت‘‘ کی تمام دوسری تفسیریں اس کے فیض سے متروک ہو گئیں اور ان الفاظ کا صرف ایک ہی مفہوم باقی رہ گیا ہے، یعنی ’’مالی فائدہ‘‘ اور ’’مادی منفعت‘‘۔ اس طرح سرمائے کو بڑی یکسوئی حاصل ہو گئی۔ پہلے وہ ان راستوں کی طرف بھی چلا جایا کرتا تھا جن میں مالی فائدے کے سوا کسی اور قسم کا فائدہ ہوتا تھا۔ مگر اب وہ سیدھا ان راستوں کا رخ کرتا ہے جدھر مالی فائدے کا یقین ہوتا ہے پھر دوسری خدمت وہ اپنی شرحِ خاص کے ذریعے سے یہ انجام دیتا ہے کہ سرمائے کے مفید استعمال کا معیار سوسائٹی کا فائدہ نہیں بلکہ صرف سرمایہ دار کا فائدہ بن جاتا ہے۔ شرح سود یہ طے کر دیتی ہے کہ سرمایہ اس کام میں صرف ہوگا جو مثلاً 6فی صدی سالانہ یا اس سے زیادہ منافع سرمایہ دار کو دے سکتا ہو۔ اس سے کم نفع دینے والا کوئی کام اس قابل نہیں ہے کہ اس پر مال صرف کیا جائے۔ اب فرض کیجیے کہ ایک اسکیم سرمایہ کے سامنے یہ آتی ہے کہ ایسے مکانات تعمیر کئے جائیں جو آرام دہ بھی ہوں اور جنہیں غریب لوگ کم کرایہ پر لے سکیں۔ اور دوسری اسکیم یہ آتی ہے کہ ایک شاندار سینما تعمیر کیا جائے۔ پہلی اسکیم 6 فیصدی سے کم منافع کی امید دلاتی ہے اور دوسری اسکیم اس سے زیادہ نفع دیتی نظر آتی ہے۔ دوسرے حالات میں تو اس کا امکان تھا کہ سرمایہ ’’نادانی‘‘ کے ساتھ پہلی اسکیم کی طرف بہہ جاتا، یا کم از کم ان دونوں کے درمیان متردد ہو کر استخارہ کرنے کی ضرورت محسوس کرتا۔ مگر یہ شرح سود کا فیض ہدایت ہے کہ وہ سرمایہ کو بلاتامل دوسری اسکیم کا راستہ دکھا دیتا ہے اور پہلی اسکیم کو اس طرح پیچھے پھینکتا ہے کہ سرمایہ اس کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا۔ اس پر مزید کرامت شرح سود میں یہ ہے کہ وہ کاروباری آدمی کو مجبور کر دیتی ہے کہ وہ ہر ممکن طریقہ سے ہاتھ پائوں مار کر اپنے منافع کو اس حد سے اوپر ہی اوپر رکھنے کی کوشش کرے جو سرمایہ دار نے کھینچ دی ہے، خواہ اس غرض کے لیے اس کو کیسے ہی غیر اخلاقی طریقے اختیار کرنے پڑیں۔ مثلاً اگر کسی شخص نے ایک فلم کمپنی قائم کی ہے اور جو سرمایہ اس میں لگا ہوا ہے اس کی شرح سود ۶ فیصدی سالانہ ہے تو اس کو لامحالہ وہ طریقے اختیار کرنے پڑیں گے جن سے اس کے کاروبار کا منافع ہر حال میں اس شرح سے زیادہ رہے۔ یہ بات اگر ایسے فلم تیار کرنے سے حاصل نہ ہوسکے جو اخلاقی حیثیت سے پاکیزہ اور علمی حیثیت سے مفید ہوں، تو وہ مجبور ہوگا کہ عریاں اور فحش کھیل تیار کرے اور ایسے ایسے طریقوں سے ان کا اشتہار دے جن سے عوام کے جذبات بھڑکیں اور وہ شہوانیت کے طوفان میں بہہ کر اس کے کھیل دیکھنے کے لیے جوق در جوق امنڈ آئیں۔
یہ ہے ان فوائد کی حقیقت جو تمہارے نزدیک سود سے حاصل ہوتے ہیں اور جن کے حصول کا کوئی ذریعہ سود کے سوا نہیں ہے۔ اب ذرا اس ضرورت کا جائزہ بھی لے لیجئے جو آپ کے نزدیک سود کے بغیر پوری نہیں ہوسکتی۔ بلاشبہ قرض انسانی زندگی کو ضروریات میں سے ہے۔ اس کی ضرورت افراد کو اپنی شخصی حاجات میں بھی پیش آتی ہے، صنعت اور تجارت اور زراعت وغیرہ معاشی کاموں میں بھی ہر وقت اس کی مانگ رہتی ہے اور حکومت سمیت تمام اجتماعی ادارے بھی اس کے حاجت مند رہتے ہیں۔ لیکن یہ کہنابالکل غلط ہے کہ سود کے بغیر قرض کی بہم رسانی غیر ممکن ہے۔ دراصل یہ صورتِ حال کہ افراد سے لے کر قوم تک کسی کو بھی ایک پیسہ بلا سود قرض نہیں ملتا، اس وجہ سے پیدا ہوتی ہے کہ آپ نے سود کو قانوناً جائز کر رکھا ہے۔ اس کو حرام کیجئے اور معیشت کے ساتھ اخلاق کا بھی وہ نظام اختیار کیجیے جو اسلام نے تجویز کیا ہے، پھر آپ دیکھیں گے کہ شخصی حاجات اور کاروبار اور اجتماعی ضروریات، ہر چیز کے لیے قرض بلا سود ملنا شروع ہو جائے گا، بلکہ عطیے تک ملنے لگیں گے۔ اسلام عملاً اس کا ثبوت دے چکا ہے۔ صدیوں مسلمان سوسائٹی سود کے بغیر بہترین طریقے پر اپنی معیشت کا سارا کام چلاتی رہی ہے۔ آپ کے اس منحوس دورِ سود خوری سے پہلے کبھی مسلمان سوسائٹی کا یہ حال نہیں رہا ہے کہ کسی مسلمان کا جنازہ اس لیے بے کفن پڑا رہ گیا ہو کہ اس کے وارث کو کہیں بلا سود قرض نہیں ملا، یا مسلمانوں کی صنعت و تجارت اور زراعت اس لیے بیٹھ گئی ہو کہ کاروباری ضروریات کے مطابق قرض حسن بہم پہنچنا غیر ممکن ثابت ہوا، یا مسلمان حکومتیں رفاہِ عام کے کاموں کے لیے اور جہاد کے لیے اس وجہ سے سرمایہ نہ پاسکی ہوں کہ ان کی قوم سود کے بغیر اپنی حکومت کو روپیہ دینے پر آمادہ نہ تھی۔ لہٰذا آپ کا یہ دعویٰ کہ قرض حسن ناقابل عمل ہے اور قرض و استقراض کی عمارت صرف سود ہی پر کھڑی ہوسکتی ہے، کسی منطقی تردید کا محتاج نہیں ہے۔ ہم اپنے صدیوں کے عمل سے اسے غلط ثابت کر چکے ہیں۔