اس کے بعد سود کے وکلاء یہ بحث چھیڑ دیتے ہیں کہ سود ایک معاشی ضرورت ہے اور کچھ فوائد ایسے ہیں جو اس کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتے۔ اس دعوے کی تائید میں جو دلائل وہ دیتے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے:
۱۔ انسانی معیشت کا سارا کاروبار سرمائے کے اجتماع پر منحصر ہے، اور سرمائے کا جمع ہونا بغیر اس کے ممکن نہیں کہ لوگ اپنی ضروریات اور خواہشات پر پابندی عائد کریں اور اپنی ساری کی ساری آمدنیوں کو اپنی ذات پر خرچ نہ کرڈالیں بلکہ کچھ نہ کچھ پس انداز بھی کرتے رہا کریں۔ یہی ایک صورت ہے سرمایہ اکٹھا ہونے کی۔ لیکن آخر ایک آدمی کیوں اپنی ضروریات کو روکنے اور کفایت شعاری کرنے پر آمادہ ہو، اگر اسے اس ضبطِ نفس اور اس قربانی کا کوئی اجر نہ ملے؟ سود ہی تو وہ اجر ہے جس کی امید لوگوں کو روپیہ بچانے پر آمادہ کرتی ہے۔ تم اسے حرام کر دو گے تو سرے سے فاضل آمدنیوں کو محفوظ کرنے کا سلسلہ ہی بند ہو جائے گا جو سرمایہ کی بہم رسانی کا اصل ذریعہ ہے۔
۲۔ معاشی کاروبار کی طرف سرمائے کے بہائو کی آسان ترین صورت یہ ہے کہ لوگوں کے لیے اپنی جمع شدہ دولت کو سود پر چلانے کا دروازہ کھلا رہے۔ اس طرح سود ہی کا لالچ ان سے روپیہ جمع کراتا ہے، پھر سود ہی کا لالچ ان کو اس بات پر بھی آمادہ کرتا رہتا ہے کہ اپنی پس انداز کی ہوئی رقموں کو بیکار نہ ڈال رکھیں بلکہ کاروباری لوگوں کے حوالہ کر دیں اور ایک مقرر شرح کے مطابق سود وصول کرتے رہیں۔ اس دروازے کو بند کرنے کے معنی یہ ہیں کہ نہ صرف روپیہ جمع کرنے کا ایک اہم ترین محرک غائب ہو جائے بلکہ جو تھوڑا بہت سرمایہ جمع ہو وہ بھی کاروبار میں لگنے کے لیے حاصل نہ ہوسکے۔
۳۔ سود صرف یہی نہیں کرتا کہ سرمایہ جمع کراتا اور اسے کاروبار کی طرف کھینچ کر لاتا ہے، بلکہ وہی اس کے غیر مفید استعمال کو روکتا بھی ہے۔ اور شرح سود وہ چیز ہے جو بہترین طریقہ سے آپ ہی آپ اس امر کا انتظام کرتی رہتی ہے کہ سرمایہ کاروبار کی مختلف ممکن تجویزوں میں سے ان تجویزوں کی طرف جائے جو ان میں سب سے زیادہ بار آور ہوں۔ اس کے سوا کوئی تدبیر ایسی سمجھ میں نہیں آتی جو مختلف عملی تجویزوں میں سے نافع کو غیر نافع سے اور زیادہ نافع کو کم نافع سے ممیّز کرلے اور انفع کی طرف سرمائے کا رخ پھیرتی رہے۔ تم سود کو اڑا دو گے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اول تو لوگ بڑی بے پروائی سے سرمایہ استعمال کرنے لگیں گے، اور پھر بلالحاظِ نفع و نقصان، ہر طرح کے الٹے سیدھے کاموں میں اسے لگانا شروع کر دیں گے۔
۴۔ قرض وہ چیز ہے جو انسانی زندگی کی ناگزیر ضروریات میں سے ہے۔ افراد کو بھی اپنے ذاتی معاملات میں اس کی ضرورت پیش آتی ہے، کاروباری لوگوں کو بھی آئے دن اس کی حاجت رہتی ہے، اور حکومتوں کا کام بھی اس کے بغیر نہیں چل سکتا۔ اس کثرت سے اتنے بڑے پیمانے پر قرض کی بہم رسانی آخر نری خیرات کے بل پر کہاں تک ہوسکتی ہے؟ اگر تم صاحبِ سرمایہ لوگوں کو سود کا لالچ نہ دو گے اور اس امر کا اطمینان بہم نہ پہنچائو گے کہ ان کے راس المال کے ساتھ ان کا سود بھی ان کو ملتا رہے گا تو وہ بمشکل ہی قرض دینے پر آمادہ ہوں گے اور اس طرح قرضوں کی بہم رسانی رک جانے کا نہایت برا اثر پوری معاشی زندگی پر مترتب ہوگا۔ ایک غریب آدمی کو اپنے برے وقت پر مہاجن سے قرض مل تو جاتا ہے۔ سود کا لالچ نہ ہو تو اس کا مردہ بے کفن ہی پڑا رہ جائے اور کوئی اس کی طرف مدد کا ہاتھ نہ بڑھائے۔ ایک تاجر کو تنگ مواقع پر سودی قرض فوراً مل جاتا ہے اور اس کا کام چلتا رہتا ہے۔ یہ دروازہ بند ہو جائے تو نہ معلوم کتنی مرتبہ اس کا دیوالہ نکلنے کی نوبت آ جائے۔ ایسا ہی معاملہ حکومتوں کا بھی ہے کہ ان کی ضرورتیں سودی قرض ہی سے پوری ہوتی رہتی ہیں ، ورنہ کروڑوں روپے فراہم کرنے والے سخی داتا آخر انہیں روز روز کہاں مل سکتے ہیں؟