مہاجنی کاروبار میں ایک مہاجن بالعموم یہ دیکھتا ہے کہ جو شخص اس سے قرض مانگنے آیا ہے وہ کس حد تک غریب ہے، کتنا مجبور ہے اور قرض نہ ملنے کی صورت میں کس قدر زیادہ مبتلائے اذیت ہوگا ۔ انہی چیزوں کے لحاظ سے وہ طے کرتا ہے کہ مجھے اس سے کتنا سود مانگنا چاہیے۔ اگر وہ کم غریب ہے ، کم رقم مانگ رہا ہے اور بہت زیادہ پریشان نہیں ہے تو شرح سود کم ہوگی۔ اس کے برعکس وہ جتنا زیادہ خستہ حال اور جس قدر زیادہ سخت حاجت مند ہوگا اتنی ہی شرح بڑھتی چلی جائے گی، حتیٰ کہ اگر کسی فاقہ کش آدمی کا بچہ بیماری کی حالت میں دم توڑ رہا ہو تو چار پانچ سو فیصدی شرح سود بھی اس کے معاملہ میں کچھ ’’بے جا‘‘ نہیں ہے۔ اس طرح کی صورت حال میں ’’فطری‘‘ شرح سود قریب قریب اسی معیار کے لحاظ سے مشخص ہوتی ہے جس معیار کے لحاظ سے 1947ء کے ہنگامہ قیامت میں امرتسر کے اسٹیشن پر ایک سکھ نے ایک مسلمان سے پانی کے ایک گلاس کی ’’فطری‘‘ قیمت 300 روپے وصول کی تھی، کیوں کہ اس کا بچہ پیاس سے مر رہا تھا اور پناہ گزینوں کی ٹرین سے کوئی مسلمان نیچے اتر کر خود پانی نہیںلے سکتا تھا۔
رہا دوسری قسم کا بازارِ مالیات، تو اس میں شرحِ سود کا تعین اور اس کا اتار چڑھائو جن بنیادوں پر ہوتا ہے ان کے بارے میں ماہرین معاشیات کے دو مسلک ہیں:
ایک گروہ کہتا ہے کہ طلب اور رسد کا قانون اس کی بنیاد ہے۔ جب روپیہ لگانے کے خواہش مند کم ہوتے ہیں اور قرض دینے کے قابل رقمیں زیادہ ہو جاتی ہیں تو سود کی شرح گرنے لگتی ہے، یہاں تک کہ جب وہ بہت زیادہ گر جاتی ہے تو لوگ اس موقع کو غنیمت سمجھ کر کاروبار میں لگانے کے لیے روپیہ قرض لینے پر بکثرت آمادہ ہونے لگے ہیں۔ پھر جب روپے کی مانگ بڑھنی شروع ہوتی ہے اور قابل قرض رقمیں کم ہونے لگتی ہیں تو شرح سود چڑھنی شروع ہو جاتی ہے یہاں تک کہ وہ اس حد کو پہنچ جاتی ہے کہ قرض کی مانگ رک جاتی ہے۔
غور کیجئے، اس کے معنی کیا ہیں؟ سرمایہ دار یہ نہیں کرتا کہ سیدھے اور معقول طریقے سے کاروباری آدمی کے ساتھ شرکت کا معاملہ طے کرے اور انصاف کے ساتھ اس کے واقعی منافع میں اپنا حصہ لگائے۔ اس کے بجائے وہ ایک اندازہ کرتا ہے کہ کاروبار میں اس شخص کو کم از کم اتنا فائدہ ہوگا، لہٰذا جو رقم میں اسے دے رہا ہوں اس پر مجھے اتنا سود ملنا چاہیے۔ دوسری طرف کاروباری آدمی بھی اندازہ کرتا ہے کہ جو روپیہ میں اس سے لے رہا ہوں وہ مجھے زیادہ سے زیادہ اتنا نفع دے سکتا ہے لہٰذا سود اس سے زیادہ نہ ہونا چاہیے۔ دونوں قیاس (speculation) سے کام لیتے ہیں۔ سرمایہ دار ہمیشہ کاروبار کے منافع کا مبالغہ آمیز تخمینہ کرتا ہے اور کاروبار ی آدمی نفع کی امیدوں کے ساتھ نقصان کے اندیشوں کو بھی سامنے رکھتا ہے۔ اس بنا پر دونوں کے درمیان تعاون کے بجائے ایک دائمی کشمکش برپا رہتی ہے۔ جب کاروباری آدمی نفع کی امید پر سرمایہ لگانا چاہتا ہے تو سرمایہ دار اپنے سرمایہ کی قیمت بڑھانی شروع کر دیتا ہے یہاں تک کہ اتنی بڑھا جاتا ہے کہ اس قدر شرح سود پر روپیہ لے کر کام میں لگانا کسی طرح نفع بخش نہیں رہتا۔ اس طرح آخر کار روپے کا کاروبار میں لگنا بند ہو جاتا ہے اور معاشی ترقی کی رفتار یکایک رک جاتی ہے۔ پھر جب کساد بازاری کا سخت دورہ پوری کاروباری دنیا پر پڑ جاتا ہے اور سرمایہ دار دیکھتا ہے کہ اس کی اپنی تباہی قریب آلگی ہے تو وہ شرحِ سود کو اس حد تک گرا دیتا ہے کہ کاروباری آدمیوں کو اس شرح پر روپیہ لے کر لگانے میں نفع کی امید ہو جاتی ہے اور صنعت و تجارت کے بازار میں پھر سرمایہ آنا شروع ہو جاتا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ اگرمعقول شرائط پر سرمائے اور کاروبار کے درمیان حصے دارانہ تعاون ہوتا تو ایک ہموار طریقے سے دنیا کی معیشت کا نظام چل سکتا تھا۔ لیکن جب قانون نے سرمایہ دار کے لیے سود پر روپیہ چلانے کا راستہ کھول دیا تو سرمائے اور کاروبار کے باہمی تعلقات میں سٹے بازی اور جواری پن کی روح داخل ہو گئی اور شرحِ سود کی کمی و بیشی ایسے قمار بازانہ طریقوں پر ہونے لگی جن کی بدولت پوری دنیا کی معاشی زندگی ایک دائمی بحران میں مبتلا رہتی ہے۔
دوسرا گروہ شرح سود کی توجیہہ اس طرح کرتا ہے کہ جب سرمایہ دار روپے کو خود اپنے لیے قابل استعمال رکھنا زیادہ پسند کرتا ہے تووہ سود کی شرح بڑھا دیتا ہے ، اور جب اس کی یہ خواہش کم ہو جاتی ہے تو سود کی شرح بھی گھٹ جاتی ہے۔ رہا یہ سوال کہ سرمایہ دار نقد روپیہ اپنے پاس رکھنے کو کیوں ترجیح دیتا ہے؟ تو اس کا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ اس کے متعدد وجوہ ہیں۔ کچھ نہ کچھ روپیہ اپنی ذاتی یا کاروباری ضرورتوں کے لیے رکھنا ضروری ہوتا ہے اور کچھ نہ کچھ ناگہانی حالات اور غیر متوقع ضروریات کے لیے بھی محفوظ رکھنا پڑتا ہے۔ مثلاً کسی ذاتی معاملے میں کوئی غیر معمولی خرچ ، یا کسی اچھے سودے کا موقع یکایک سامنے آ جانا ۔ ان دو وجوہ کے علاوہ تیسری وجہ، اور زیادہ اہم وجہ یہ ہے کہ سرمایہ دار یہ پسند کرتا ہے کہ مستقبل میں کسی وقت قیمتیں گرنے یا شرح سود چڑھنے کی صورت میں فائدہ اٹھانے کے لیے اس کے پاس نقد روپیہ کافی موجود رہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان وجوہ کی بنا پر روپے کو اپنے لیے قابلِ استعمال رکھنے کی جو خواہش سرمایہ دار کے دل میں پیدا ہوتی ہے ، کیا وہ گھٹتی بڑھتی ہے کہ اس کا اثر شرحِ سود کے اتار چڑھائو کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے؟ اس کے جواب میں وہ کہتے ہیں کہ ہاں، مختلف شخصی، اجتماعی، سیاسی اور معاشی اسباب سے کبھی یہ خواہش بڑھ جاتی ہے، اس لیے سرمایہ دار شرحِ سود بڑھا دیتا ہے اور کاروبار کی طرف سرمایہ آنا کم ہو جاتا ہے۔ اور کبھی اس خواہش میں کمی آ جاتی ہے اس لیے سرمایہ دار شرح سود گھٹا دیتا ہے اور اس کے گھٹنے کی وجہ سے لوگ تجارت و صنعت میں لگانے کے لیے زیادہ سرمایہ قرض لینے لگتے ہیں۔
اس خوش نما توجیہہ کے پیچھے ذرا جھانک کر دیکھیے کہ کیا چیز چھپی ہوئی ہے۔ جہاں تک خانگی ضروریات یا ذاتی کاروبار کی ضروریات کا تعلق ہے، ان کی بنا پر معمولی اور غیر معمولی سب طرح کے حالات میں، سرمایہ دار کی یہ خواہش کہ وہ سرمایہ کو اپنے لیے قابل استعمال رکھے، بمشکل اس کے پانچ فیصدی سرمائے پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اس لیے پہلی دونوں وجہوں کو خواہ مخواہ اہمیت دینا صحیح نہیں ہے۔ اپنا 95 فیصدی سرمایہ جس بنیاد پر وہ کبھی روکتا ہے اور کبھی بازارِ قرض کی طرف بہاتا ہے ، وہ دراصل تیسری وجہ ہے، اور اس کا تجزیہ کیجیے تو اس کے اندر سے اصل حقیقت یہ برآمد ہوگی کہ سرمایہ دار کمال درجہ خود غرضانہ ذہنیت کے ساتھ دنیا کے اور خود اپنے ملک اور قوم کے حالات کو دیکھتا رہتا ہے۔ ان حالات میں کبھی وہ کچھ مخصوص آثار دیکھتا ہے اور ان کی بنا پر چاہتا ہے کہ اس کے پاس وہ ہتھیار ہر وقت موجود رہے جس کے ذریعے سے وہ سوسائٹی کی مشکلات، آفات اور مصائب کا ناجائز فائدہ اٹھاسکے اور اس کی پریشانیوں میں اضافہ کر کے اپنی خوش حالی بڑھا سکے۔ اس لیے وہ سٹے بازی کی خاطر سرمایہ کو اپنے لیے روک لیتا ہے، شرح سود بڑھا دیتا ہے، تجارت و صنعت کی طرف سرمائے کا بہائو یک لخت بند کر دیتا ہے اور سوسائٹی پر اس بلائے عظیم کا دروازہ کھول دیتا ہے جس کا نام ’’کساد بازاری‘‘ (depression) ہے۔ پھر جب وہ دیکھتا ہے کہ اس راستے سے جو کچھ حرام خوری وہ کرسکتا تھا کر چکا، آگے مزید فائدے کا کوئی امکان باقی نہیں ہے، بلکہ نقصان کی سرحد قریب آلگی ہے، تو ’’سرمائے کو اپنے لیے قابل استعمال رکھنے کی خواہش‘‘ اس کے نفسِ خبیث میں کم ہو جاتی ہے اور وہ کم شرحِ سود کا لالچ دے کر کاروباری لوگوں کو صلائے عام دینے لگتا ہے کہ آئو، میرے پاس بہت سا روپیہ تمہارے لیے قابلِ استعمال پڑا ہے۔
شرح سود کی بس یہی دو توجیہات موجودہ زمانے کے ماہرین معاشیات نے کی ہیں، اور اپنی اپنی جگہ دونوں ہی صحیح ہیں ۔ مگر سوال یہ ہے کہ ان میں سے جو وجہ بھی ہو، اس سے آخر ایک ’’معقول‘‘ اور ’’فطری‘‘ شرح کس طرح متعین ہوتی یا ہو سکتی ہے؟ یا تو ہمیں عقل اور معقولیت اور فطرت کے مفہومات بدلنے پڑیں گے ، یا پھر یہ ماننا پڑے گا کہ سود خود جس قدر نامعقول چیز ہے اس کی شرح بھی اتنے ہی نامعقول اسباب سے متعین ہوتی اور گھٹتی بڑھتی ہے۔