یہ ہے ان دلائل کی کل کائنات جو سود خوری کے وکیل اس کو عقل و انصاف کی رو سے ایک جائز و مناسب چیز ثابت کرنے کے لیے پیش کرتے ہیں۔ تنقید سے آپ کو معلوم ہوگیا کہ معقولیت سے اس ناپاک چیز کو دور کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔کسی وزنی دلیل سے بھی اس بات کی کوئی معقول وجہ پیش نہیں کی جاسکتی کہ سود کیوں لیا اور دیا جائے۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ جو چیز اس قدر غیر معقول تھی، مغرب کے علماء اور مفکرین نے اس کو بالکل بدیہیات و مسلمات میں شامل کرلیا، اور نفس سود کی معقولیت کو گویا ایک طے شدہ صداقت اور مانی ہوئی حقیقت فرض کر کے ساری گفتگو اس امر پر مرکوز کر دی کہ شرح سود ’’معقول‘‘ ہونی چاہیے۔ دورِ جدید کے مغربی لٹریچر میں یہ بحث تو آپ کو کم ہی ملے گی کہ سود بجائے خود لینے اور دینے کے لائق چیز ہے بھی یا نہیں، البتہ جو کچھ بھی رد و قدح آپ ان کے ہاں دیکھیں گے وہ زیادہ تر اس امر سے متعلق ہوگی کہ فلاں شرح سود ’’بیجا‘‘ اور ’’حد سے بڑھی ہوئی‘‘ ہے اس لیے قابلِ اعتراض ہے، اور فلاں شرح ’’معقول‘‘ ہے اس لیے قابلِ قبول ہے۔
مگر کیا فی الواقع کوئی شرحِ سود معقول بھی ہے؟ تھوڑی دیر کے لیے ہم اس سوال کو نظر انداز کیے دیتے ہیں کہ جس چیز کا بجائے خود معقول ہونا ثابت نہیں کیا جاسکتا اس کی شرح کے معقول یا نامعقول ہونے کی بحث پیدا ہی کہاں ہوتی ہے؟ اس سوال سے قطع نظر کر کے ہم صرف یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ آخر وہ کون سی شرح سود ہے جس کو فطری اور معقول کہا جاتا ہے؟ اور ایک شرح کے لیے بے جا یا بجا ہونے کا آخر معیار کیا ہے؟ اور کیا درحقیقت دنیا کے سودی کاروبار میں شرحِ سود کا تعین کسی عقلی (rational) بنیاد پر ہو رہا ہے؟
اس سوال کی جب ہم تحقیق کرتے ہیں تو اولین حقیقت جو ہمارے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ ’’معقول شرح سود‘‘ نامی کوئی چیز دنیا میں کبھی نہیں پائی گئی ہے۔ مختلف شرحوں کو مختلف زمانوں میں معقول ٹھیرایا گیا ہے اور بعد میں وہی شرحیں نامعقول قرار دے دی گئی ہیں۔ بلکہ ایک ہی زمانے میں ایک جگہ معقول شرح کچھ ہے اور دوسری جگہ کچھ اور … قدیم ہندو دور میں کوتلیہ (koutilya)کی تصریح کے مطابق 15 سے 60 فیصدی سالانہ تک شرح سود بالکل معقول اور جائز سمجھی جاتی تھی، اور اگر خطرہ زیادہ ہو تو اس سے بھی زیادہ شرح ہوسکتی تھی۔ اٹھارویں صدی کے وسطِ آخر اور انیسویں صدی کے وسطِ اول میں ہندوستانی ریاستوں کے جو مالی معاملات ایک طرف دیسی ساہوکاروں سے اور دوسری طرف ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت سے ہوتے تھے ان میں بالعموم 48 فیصدی سالانہ شرح رائج تھی۔ 1914-18ء کی جنگ عظیم کے زمانے میں حکومت ہند نے 2½ فیصدی سالانہ سود پر جنگی قرضے حاصل کیے۔ 1920ء اور 1930ءکے درمیان کوآپریٹو سوسائیٹیوں میں عام شرحِ سود 12 سے 15 فیصدی تک رہی۔ 1930ء اور 1940ءکے دور میں ملک کی عدالتیں 9 فیصدی سالانہ کے قریب شرح کو معقول قرار دیتی رہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے لگ بھگ زمانے میں ریزرو بینک آف انڈیا کا ڈسکونٹ ریٹ 3 فیصدی سالانہ مقرر ہوا اور یہی شرح دورانِ جنگ میں بھی قائم رہی، بلکہ پونے تین فیصدی پر بھی حکومتِ ہند کو قرضے ملتے رہے۔
یہ تو ہے خود ہمارے اپنے برعظیم کا حال۔ ادھر یورپ کو دیکھیے تو وہاں بھی آپ کو کچھ ایسا ہی نقشہ نظر آئے گا۔ سولہویں صدی کے وسط میں انگلستان میں ۱۰ فیصدی شرح بالکل معقول قرار دی گئی تھی۔ 1920ء کے قریب زمانے میں یورپ کے بعض سنٹرل بینک آٹھ نو فیصدی شرح لگاتے تھے اور خود مجلسِ اقوام نے یورپ کی ریاستوں کو اپنی وساطت سے جو قرضے اس دور میں دلوائے تھے ان کی شرح بھی اسی کے لگ بھگ تھی۔ مگر آج یورپ اور امریکہ میں کسی کے سامنے اس شرح کا نام لیجیے تو وہ چیخ اٹھے گا کہ یہ شرح سود نہیں بلکہ لوٹ ہے۔ اب جدھر دیکھیے 2½ اور 3 فیصدی شرح کا چرچا ہے۔۴ فیصدی انتہائی شرح ہے اور بعض حالات میں ایک اور ½اور ¼فیصدی تک نوبت پہنچ جاتی ہے لیکن دوسری طرف غریب عوام کو سودی قرض دینے والے مہاجنوں کے لیے انگلستان میں 1927ء کے منی لینڈرس ایکٹ کی رو سے جو شرح جائز رکھی گئی ہے وہ 48 فیصدی سالانہ ہے، اور امریکہ کی عدالتیں سود خور مہاجنوں کو جس شرح سود کے مطابق سود دلوا رہی ہیں وہ ۳۰ سے شروع ہو کر 60 فیصدی سالانہ تک پہنچ جاتی ہے۔ بتایئے ان میں سے کس کا نام فطری اور معقول شرح سود ہے؟
اب ذرا آگے بڑھ کر اس مسئلے کا جائزہ لیجئے کہ کیا فی الحقیقت کوئی شرح سود فطری اور معقول ہو بھی سکتی ہے ؟ اس سوال پر جب آپ غور کریں گے تو آپ کی عقل خود بتا دے گی کہ شرح سود اگر معقول طور پر متعین ہوسکتی تھی تو صرف اس صورت میں جب کہ اس فائدے کی قیمت مشخص ہوتی (یا ہوسکتی ) جو ایک شخص کسی قرض لی ہوئی رقم سے حاصل کرتا ہے۔ مثلاً کہ یہ بات متعین ہو جاتی کہ ایک سال تک سو روپے کا استعمال ۲۵ روپے کے برابر فائدہ دیتا ہے تو البتہ یہ طے کیا جاسکتا تھا کہ اس فائدے میں سے 5 یا 2½ یا 1¼ روپیہ اس شخص کا فطری اور معقول حصہ ہے جس کی رقم دورانِ سال میں استعمال کی گئی ہے۔ مگر ظاہر ہے کہ اس طرح سے استعمال سرمایہ کا فائدہ نہ تو مشخص کیا گیا ہے، نہ کیا جاسکتا ہے ، اور نہ بازاری شرح سود کے تعین میں کبھی اس امر کا لحاظ کیا جاتا ہے کہ روپیہ قرض لینے والے کو اس سے کتنا فائدہ ہوگا، بلکہ کوئی فائدہ ہوگا بھی یا نہیں۔ عملاً جو کچھ ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ مہاجنی کاروبار میں تو قرض کی قیمت قرض مانگنے والے کی مجبوری کے لحاظ سے مشخص ہوتی ہے، اور تجارتی سودخوری کی منڈی میں شرح سود کا اتار چڑھائو کچھ دوسری بنیادوں پر ہوتا رہتا ہے جن کو عقل اور انصاف سے کوئی دور کا واسطہ بھی نہیں ہے۔