آخری توجیہہ میں ذرا زیادہ ذہانت صرف کی گئی ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ:
انسان فطرۃً حاضر کے فائدے، لطف، لذت اور آسودگی کو دور دراز مستقبل کے فوائد و لذائذ پر ترجیح دیتا ہے۔ مستقبل جتنا دور ہو اسی قدر اس کے فوائد و لذائذ مشتبہ ہوتے ہیں اور اسی مناسبت سے آدمی کی نگاہ میں ان کی قیمت کم ہو جاتی ہے۔ اس ترجیحِ عاجلہ اور مرجوحیتِ آجلہ کے متعدد وجوہ ہیں۔ مثلاً:
۱۔ مستقبل کا تاریکی میں ہونا اور زندگی کا غیر یقینی ہونا، جس کی وجہ سے مستقبل کے فوائد مشتبہ بھی ہوتے ہیں اور ان کی کوئی تصویر بھی آدمی کی چشم تصور میں نہیں ہوتی۔ بخلاف اس کے آج جو نقد فائدہ حاصل ہو رہا ہے وہ یقینی بھی ہے اور اس کو آدمی بچشم سر دیکھ بھی رہا ہے۔
۲۔ جو شخص اس وقت حاجت مند ہے اس کی حاجت کا اس وقت پورا ہو جانا اس کے لیے اس سے بہت زیادہ قیمت رکھتا ہے کہ آئندہ کسی موقع پر اس کو وہ چیز ملے جس کا ممکن ہے کہ وہ اس وقت حاجت مند ہو اور ممکن ہے کہ نہ ہو۔
۳۔ جو مال اس وقت مل رہا ہے وہ بالفعل کار آمد اور قابلِ استعمال ہے، اس لحاظ سے وہ اس مال پر فوقیت رکھتا ہے جو آئندہ کسی وقت حاصل ہو گا۔
ان وجوہ سے حاضر کا نقد فائدہ مستقبل کے مشتبہ فائدے پر ترجیح رکھتا ہے۔ لہٰذا آج جو شخص ایک رقم قرض لے رہا ہے اس کی قیمت لازماً اس رقم سے زیادہ ہے جو وہ کل دائن کو ادا کرے گا، اور سود وہ قدرِ زائد ہے جو ادائیگی کے وقت اصل کے ساتھ شامل ہو کر اس کی قیمت کو اس رقم کے برابر کرتی ہے جو قرض دیتے وقت دائن نے اس کو دی تھی۔ مثال کے طورپر اس معاملے کو یوں سمجھئے کہ ایک شخص ساہوکار کے پاس آتا ہے اور اس سے سو روپے قرض مانگتا ہے۔ ساہوکار اس سے یہ بات طے کرتا ہے کہ آج جو سو روپے وہ اس کو دے رہا ہے ان کے بدلے میں وہ ایک سال بعد اس سے 103 روپے لے گا۔ اس معاملے میں دراصل حاضر کے 100 روپوں کا تبادلہ مستقبل کے103 روپوں سے ہو رہا ہے۔ تین روپے اس فرق کے برابر ہیں جو حاضر کے مال اور مستقبل کے مال کی نفسیاتی (نہ کہ معاشی) قیمت کے درمیان پایا جاتا ہے۔ جب تک یہ تین روپے ایک سال بعد کے سو روپوں کے ساتھ شامل نہ ہوں گے ان کی قیمت ان سو روپوں کے برابر نہ ہوگی جو قرض دیتے وقت دائن نے مدیون کو دیے تھے۔
یہ توجیہہ جس ہوشیاری کے ساتھ کی گئی ہے اس کی داد نہ دینا ظلم ہے۔ مگر درحقیقت اس میں حاضر اور مستقبل کی نفسیاتی قیمت کا جو فرق بیان کیا گیا ہے وہ ایک مغالطے کے سوا کچھ نہیں ہے۔
کیا فی الواقع انسانی فطرت حاضر کو مستقبل کے مقابلے میں زیادہ اہم اور زیادہ قیمتی سمجھتی ہے؟ اگر یہ بات ہے تو کیا وجہ ہے کہ بیشتر لوگ اپنی ساری کمائی کو آج ہی خرچ کر ڈالنا مناسب نہیں سمجھتے بلکہ اس کے ایک حصے کو مستقبل کے لیے بچا رکھنا زیادہ پسند کرتے ہیں؟ شاید آپ کو ایک فی صدی بھی ایسے آدمی نہ ملیں گے جو فکرِ فردا سے بے نیاز ہوں اور آج کے لطف و لذت پر اپنا سارا مال اڑا دینے کو ترجیح دیتے ہوں۔ کم از کم ۹۹ فیصدی انسانوں کا حال تو یہی ہے کہ وہ آج کی ضرورتوں کو روک کر کل کے لیے کچھ نہ کچھ سامان کر رکھنا چاہتے ہیں۔ کیوں کہ مستقبل میں پیش آنے والی بہت سی متوقع اور ممکن ضرورتیں اور اندیشناک صورتیں ایسی ہوتی ہیں جن کا خیالی نقشہ آدمی کی نگاہ میں ان حالات کی بہ نسبت زیادہ بڑا اور اہم ہوتا ہے جن سے وہ اس وقت کسی نہ کسی طرح لشتم پشتم گزرے جا رہا ہے۔ پھر وہ ساری دوڑ دھوپ اور تگ و دو جو ایک انسان زمانۂ حال میں کرتا ہے اس سے مقصود آخر اس کے سوا کیا ہوتا ہے کہ اس کا مستقبل بہتر ہو؟ اپنی آج کی محنتوں کے سارے ثمرات آدمی اسی کوشش میں تو کھپاتا ہے کہ اس کے آنے والے ایامِ زندگی آج سے زیادہ اچھی طرح بسر ہوں۔ کوئی احمق سے احمق آدمی بھی بمشکل آپ کو ایسا مل سکے گا جو اس وقت پر اپنے حاضر کو خوش آئند بنانا پسند کرتا ہو کہ اس کا مستقبل خراب ہو جائے یا کم از کم آج سے زیادہ بدتر ہو ۔ جہالت و نادانی کی بنا پر آدمی ایسا کر جائے، یا کسی وقتی خواہش کے طوفان سے مغلوب ہو کر ایسا کر گزرے تو بات دوسری ہے، ورنہ سوچ سمجھ کر تو کوئی شخص بھی اس رویے کو صحیح و معقول قرار نہیں دیتا۔
پھر اگر تھوڑی دیر کے لیے اس دعوے کو جوں کا توں مان بھی لیا جائے کہ انسان حاضر کے اطمینان کی خاطر مستقبل کے نقصان کو گوارا کرنا درست سمجھتا ہے، تب بھی وہ استدلال ٹھیک نہیں بیٹھتا جس کی بنا اس دعوے پر رکھی گئی ہے۔ قرض لیتے وقت جو معاملہ دائن اور مدیون کے درمیان طے ہوا تھا اس میں آپ کے قول کے مطابق حاضر کے ۱۰۰ روپوں کی قیمت ایک سال بعد کے ۱۰۳ روپوں کے برابر تھی۔ لیکن اب جو ایک سال کے بعد مدیون اپنا قرض ادا کرنے گیا تو واقعی صورتِ معاملہ کیا ٹھیری؟ یہ کہ حاضر کے ۱۰۳ روپے ماضی کے سو روپوں کے برابر ہو گئے۔ اور اگر پہلے سال مدیون قرض ادا نہ کرسکا تو دوسرے سال کے خاتمے پر ماضی بعید کے سو روپوں کی قیمت حاضر کے 106 روپوں کے برابر ہو گئی۔ کیا فی الواقع ماضی اور حال میں قدر و قیمت کا یہی تناسب ہے؟ اور کیا یہ اصول بھی صحیح ہے کہ جتنا جتنا ماضی پرانا ہوتا جائے اس کی قیمت بھی حال کے مقابلے میں بڑھتی چلی جائے؟ کیا پہلے گزری ہوئی ضرورتوں کی آسودگی آپ کے لیے اتنی ہی قابل قدر ہے کہ جو روپیہ آپ کو ایک مدت دراز پہلے ملا تھا اور جس کو خرچ کر کے آپ کبھی کانسیاً منسیاً کر چکے ہیں، وہ آپ کے لیے زمانے کی ہر ساعت گزرنے پر حاضر کے روپے سے زیادہ قیمتی ہوتا چلا جائے؟ یہاں تک کہ اگر آپ کو سو روپے استعمال کیے ہوئے پچاس برس گزر چکے ہوں تو اب ان کی قیمت ڈھائی سو روپے کے برابر ہو جائے!