پہلی قسم کی املاک کے معاملے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس اصول پر عمل فرمایا وہ یہ تھا:
اِنَّ الْقَوْمَ اِذَا اَسْلَمُوْا اَحْرَزُوْا دِمَاءَ ھُمْ وَاَمُوَالَھُمْ۔
(ابوداؤد ، کتاب الخراج، باب فی اقطاع الارضین)
جب لوگ اسلام قبول کرلیں تو وہ اپنی جانوں اور مالوں کو محفوظ کر لیتے ہیں۔
اِنَّہٗ مَنْ اَسْلَمَ عَلٰی شَیْءٍ فَھُوَلَہٗ (کتاب الاموال لابی عبید)
آدمی اسلام قبول کرتے وقت جن املاک کا مالک تھا وہ اسی کی ملک رہیں گی۔
یہ اصول جس طرح املاکِ منقولہ پر چسپاں ہوتا تھا اسی طرح غیر منقولہ پر بھی چسپاں ہوتا تھا، اور اس معاملے میں جو برتائو غیر زرعی جائیدادوں کے ساتھ تھا وہی زرعی جائیدادوں کے ساتھ بھی تھا۔ حدیث اور آثار کا پورا ذخیرہ اس پر شاہد ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب میں کسی جگہ بھی اسلام قبول کرنے والوں کی املاک سے ذرہ برابر کوئی تعرض نہیں فرمایا۔ جو جس چیز کا مالک تھا اسی کا مالک رہنے دیا گیا۔ اس باب میں اسلامی قانون کی تشریح امام ابو یوسف رحمتہ اللہ علیہ ان الفاظ میں کرتے ہیں:
’’جو لوگ اسلام قبول کرلیں ان کا خون حرام ہے۔ قبولِ اسلام کے وقت جن اموال کے وہ مالک ہوں وہ انھی کی ملک رہیں گے۔ اسی طرح ان کی زمینیں بھی انھی کی ملک رہیں گی اور وہ زمینیں عشری قرار دی جائیں گی۔ اس کی نظیر مدینہ ہے جس کے باشندوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا اور وہ اپنی زمینوں کے مالک رہے اور ان پر عشر لگا دیا گیا۔ ایسا ہی معاملہ طائف اور بحرین کے لوگوں سے بھی کیا گیا۔ اسی طرح بدویوں میں سے بھی جن جن لوگوں نے اسلام قبول کیا وہ اپنے اپنے چشموں اور اپنے اپنے علاقوں کے مالک تسلیم کئے گئے… ان کی زمین عشری زمین ہے ، وہ اس سے بے دخل نہیں کیے جاسکتے، اور انہیں اس پر بیع اور وراثت کے جملہ حقوق حاصل ہیں۔ بالکل اسی طرح جن علاقوں کے باشندے اسلام قبول کرلیں وہ اپنی املاک کے مالک رہیں گے۔‘‘ (کتاب الخراج: ص 35)
اسلامی قانونِ معیشت کے دوسرے جلیل القدر محقق امام ابو عبیدالقاسم بن سلام لکھتے ہیں:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے خلفاءؓ سے جو آثار ہم تک پہنچے ہیں وہ اراضی کے بارے میں تین قسم کے احکام لائے ہیں۔ ایک قسم ان اراضی کی جن کے مالک اسلام قبول کرلیں، تو قبولِ اسلام کے وقت وہ جن اراضی کے مالک ہوں وہ انہی کی ملک رہیں گی اور وہ عشری زمینیں قرار پائیں گی۔ عشر کے سوا ان پر اور کچھ نہ لگے گا… ‘‘ (کتاب الاموال: ص55)
آگے چل کر پھر لکھتے ہیں:
’’جس علاقے کے باشندے اسلام لے آئے وہ اپنی زمینوں کے مالک رہے، جیسے مدینہ، طائف، یمن اور بحرین۔ اسی طرح مکہ اگرچہ بزورِ شمشیر فتح ہوا، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے باشندوں پر احسان کیا اور ان کی جانوں سے تعرض نہ کیا اور ان کے اموال کو غنیمت نہ ٹھیرایا… پس جب ان کے اموال ان کی ملک میں چھوڑ دیے گئے اور اس کے بعد وہ مسلمان ہوگئے تو ان کی املاک کا حکم بھی وہی ہوگیا، جو دوسرے مسلمان ہونے والے لوگوں کی املاک کا تھا، اور ان کی زمینیں بھی عشری قرار دی گئیں۔ (ص512)
علامہ ابن القیم رحمتہ اللہ علیہ زادالمعاد میں لکھتے ہیں:
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ یہ تھا کہ جو شخص اسلام لانے کے وقت جس چیز پر قابض تھا وہ اسی کے قبضے میں رہنے دی گئی۔ یہ نہیں دیکھا گیا کہ اسلام لانے سے پہلے وہ چیز کس ذریعہ سے اس کے قبضے میں آئی تھی۔ بلکہ وہ اس کے ہاتھ میں اسی طرح رہنے دی گئی جس طرح وہ پہلے سے چلی آ رہی تھی۔‘‘ (ج 2 ص 96)
یہ ایک ایسا قاعدہ کلیہ ہے جس میں استثناء کی کوئی ایک مثال بھی عہد نبوت اور عہدِ خلافت راشدہ کے نظائر میں نہیں ملتی۔ اسلام نے اپنے پیروئوں کی معاشی زندگی میں جو صلاحیتیں بھی جاری کیں آئندہ کے لیے کیں، مگر جو ملکیتیں پہلے سے لوگوں کے قبضے میں چلی آ رہی تھیں ان سے کوئی تعرض نہ کیا۔