[زمین کی ملکیت کا مسئلہ دورِ حاضر کے چند مہتم بالشان مسائل میں سے ایک ہے۔ اس پر اس قدر بحث و مباحثہ ہوا ہے کہ حقیقت اختلافات کے انبار تلے دب گئی ہے اور اس مسئلہ پر غور و فکر کا صحیح زاویہ مجروح و متاثر ہوا ہے۔ یا تو لوگ انفرادی ملکیت کی سرمایہ دارانہ شکل کی تائید کرتے ہیں، یا دوسری انتہا پر قومی ملکیت کے اشتراکی تصور کی۔ جو انفرادی ملکیت کی تائید کرتا ہے اس پر جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے ایجنٹ کی پھبتی کسی جاتی ہے، اور جو زمین داری و جاگیرداری کے موجود الوقت نظام کے مخالف ہیں وہ اس کی اصلاح کے لیے قومی ملکت کے سوا کسی دوسری متبادل شکل (alternate) کا تصور بھی کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں… نقطۂ نظر کا یہی بگاڑ ہے جس کی وجہ سے بعض لوگوں کو اسلام کے تصورِ ملکیت کو سمجھنے میں دشواریاں پیش آ رہی ہیں۔ مصنف محترم نے اس موضوع پر بہت کچھ لکھا ہے۔ ہم اس کے کچھ اقتباسات ایک نئی ترتیب سے پیش کر رہے ہیں تا کہ اسلام کا نقطۂ نظر واضح ہوسکے۔ اسلام کے تصورِ ملکیت پر اسلامی معیشت اور اسلامی نظام ہی کے پس منظر میں غور کیا جانا چاہیے، دوسرے نظاموں کے پس منظر میں نہیں۔
دوسری بنیادی بات یہ سامنے رہنی چاہیے کہ انفرادی ملکیت کا ادارہ سرمایہ داری نظام سے بہت پراناہے۔ نظامِ سرمایہ داری نے بلاشبہ اسے استعمال کیا اور اس کو ایک خاص شکل بھی دی اور جو بگاڑ اور فساد رونما ہوا ہے وہ نظامِ سرمایہ داری کی روح، اس کے بنیادی مقاصد، اور اس کے تصورات اور ادارات کی وجہ سے رونما ہوا ہے۔ لیکن اس مسئلے پر غور کرتے ہوئے انفرادی ملکیت، اور سرمایہ داری کے تحت اس کی بگڑی ہوئی شکل، کے درمیان اس خلطِ مبحث سے بچنا چاہیے جس میں اشتراکی اہلِ قلم لوگوں کو مبتلا کرتے ہیں۔ مرتب]