فَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّہٗ وَالْمِسْكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ۰ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ لِّــلَّذِيْنَ يُرِيْدُوْنَ وَجْہَ اللہِ۰ۡوَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَo الروم38:30
پس (اے مومن) رشتے دار کو اس کا حق دے اور مسکین و مسافر کو (اس کا حق)۔ یہ طریقہ بہتر ہے ان لوگوں کے لیے جو اللہ کی خوشنودی چاہتے ہوں اور وہی فلاح پانے والے ہیں۔
اس آیت میں یہ نہیں فرمایا گیا ہے کہ رشتہ دار، مسکین اور مسافر کو خیرات دے۔ ارشاد یہ ہوا ہے کہ یہ اس کا حق ہے جو تجھے دینا چاہیے اور حق ہی سمجھ کر تو اسے دے۔ اس کو دیتے ہوئے یہ خیال تیرے دل میں نہ آنے پائے کہ یہ کوئی احسان ہے جو تو اس پر کر رہا ہے اور تو کوئی بڑی ہستی ہے دان کرنے والی اور وہ کوئی حقیر مخلوق ہے تیرا دیا کھانے والی۔ بلکہ یہ بات اچھی طرح تیرے ذہن نشین رہے کہ مال کے مالک حقیقی نے اگر تجھے زیادہ دیا ہے اور دوسرے بندوں کو کم عطا فرمایا ہے تو یہ زائد مال ان دوسروں کا حق ہے جو تیری آزمائش کے لیے تیرے ہاتھ میں دیا گیا ہے تا کہ تیرا مالک دیکھے کہ تو ان کا حق پہچانتا اور پہنچاتا ہے یا نہیں۔
اس ارشادِ الٰہی اور اس کی اصلی روح پر جو شخص بھی غور کرے گا وہ یہ محسوس کیے بغیر نہ رہے گا کہ قرآن مجید انسان کے لیے اخلاقی اور روحانی ارتقاء کا جو راستہ تجویز کرتا ہے اس کے لیے ایک آزاد معاشرہ اور آزاد معیشت کی موجودگی ناگزیر ہے۔ یہ ارتقا کسی ایسے اجتماعی ماحول میں ممکن نہیں ہے جہاں لوگوں کے حقوق ملکیت ساقط کر دیے جائیں، ریاست تمام ذرائع کی مالک ہو جائے، اور افراد کے درمیان تقسیم رزق کا پورا کاروبار حکومت کی مشینری سنبھال لے، حتیٰ کہ نہ کوئی فرد اپنے اوپر کسی کا کوئی حق پہچان کر دے سکے، اور نہ کوئی دوسرا فرد کسی سے کچھ لے اور اس کے لیے اپنے دل میں کوئی جذبۂ خیر سگالی پرورش کرسکے۔ اس طرح کا خالص کمیونسٹ نظام تمدن و معیشت جسے آج کل ہمارے ملک میں ’’اسلامی سوشلزم‘‘ اور ’’قرآنی نظامِ ربوبیت‘‘ وغیرہ پُرفریب ناموں سے زبردستی قرآن کے سرمنڈھا جا رہا ہے، قرآن کی اپنی اسکیم کے بالکل خلاف ہے۔کیوں کہ اس میں انفرادی اخلاق کا نشوونما اور انفرادی سیرتوں کی تشکیل و ترقی کا دروازہ قطعاً بند ہو جاتا ہے۔ قرآن کی اسکیم تو اسی جگہ چل سکتی ہے جہاں افراد کچھ وسائلِ دولت کے مالک ہوں، ان پر آزادانہ تصرف کے اختیارات رکھتے ہوں، اور پھر اپنی رضا و رغبت سے خدا اور اس کے بندوں کے حقوق اخلاص سے ادا کریں۔ اسی قسم کے معاشرے میں یہ امکان پیدا ہوتا ہے کہ فرداً فرداً لوگوں میں ایک طرف ہمدردی، رحم و شفقت، ایثار و قربانی، اور حق شناسی و ادائے حقوق کے اعلیٰ اوصاف پیدا ہوں، اور دوسری طرف جن لوگوں کے ساتھ بھلائی کی جائے ان کے دلوں میں بھلائی کرنے والوں کے لیے خیر خواہی، شکر گزاری، محبت و اخلاص اور جزاء الاحسان بالاحسان کے پاکیزہ جذبات نشوونما پائیں۔ یہاں تک کہ وہ مثالی حالت پیدا ہو جائے جس میں بدی کا رکنا اور نیکی کا فروغ پانا کسی قوت جابرہ کی مداخلت پر موقوف نہ ہو، بلکہ لوگوں کی اپنی پاکیزگیِ نفس اور ان کے اپنے نیک ارادے اس ذمّے داری کو سنبھالیں۔