دوسری بات یہ ہے کہ اسلام انسان کے اخلاقی نشوونما کو بنیادی اہمیت دیتا ہے اور اس مقصد کے لیے یہ ضروری ہے کہ معاشرے کے اجتماعی نظام میں فرد کو اختیاری حسنِ عمل کے لیے زیادہ سے زیادہ مواقع حاصل رہیں تا کہ انسانی زندگی میں فیاضی، ہمدردی، احسان اور دوسرے اخلاقی فضائل رو بعمل آسکیں۔ اسی بنا پر معاشی انصاف قائم کرنے کے لیے اسلام صرف قانون پر انحصار نہیں کرتا بلکہ اس معاملہ میں وہ سب سے بڑھ کر جس چیز کو اہمیت دیتا ہے وہ یہ ہے کہ ایمان، عبادات، تعلیم اور اخلاقی تربیت کے ذریعہ سے انسان کی داخلی اصلاح کی جائے، اس کے ذوق کو بدلا جائے، اس کے سوچنے کے انداز کو تبدیل کیا جائے اور اس کے اندر ایک مضبوط اخلاقی حِس (moral sence) پیدا کی جائے۔ جس سے وہ خود انصاف پر قائم رہے۔ ان ساری تدبیروں سے جب کام نہ چلے تو مسلمانوں کے معاشرے میں اتنی جان ہونی چاہیے کہ وہ اپنے اجتماعی دبائو سے آدمی کو حدود کا پابند رکھے۔ اس سے بھی جب کام نہ چلے تب اسلام قانون کی طاقت استعمال کرتا ہے تا کہ بزور انصاف قائم کیا جائے۔ اسلامی نقطۂ نظر سے ہر وہ اجتماعی نظام غلط ہے جو انصاف کے قیام کے لیے صرف قانون کی طاقت پر انحصار کرے اور انسان کو اس طرح باندھ کر رکھ دے کہ وہ اپنے اختیار سے بھلائی کرنے پر سرے سے قادر ہی نہ رہے۔