قرآن نے اس تعلیم و ہدایت سے معاشرے کے افراد میں رضاکارانہ انفاق فی سبیل اللہ کی ایک عام روح پھونک دینے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ہدایت کی کہ آپ کم سے کم انفاق کی ایک حد مقرر کر کے ایک فریضہ کے طور پر اسلامی ریاست کی طرف سے اس کی تحصیل اور تقسیم کا انتظام کریں:
خُذْ مِنْ اَمْوَالِہِمْ صَدَقَـۃً التوبہ 103:9
(اے نبیؐ) ان کے اموال میں سے ایک صدقہ وصول کرو۔
یہ ’’ایک صدقہ‘‘ کا لفظ اس امر کی طرف اشارہ تھا کہ عام صدقات، جو فرداً فرداً بطور خود لوگ دیتے ہیں، ان کے علاوہ ایک خاص مقدارِ صدقہ ان پر فرض کر دی جائے، اور اس کا تعین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود کریں۔ چنانچہ اس حکم کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف اقسام کی ملکیتوں کے بارے میں ایک کم سے کم حد مقرر فرما دی جس سے کم پر فرض زکوٰۃ عائد نہ ہوگی، پھر بقدر نصاب یا اس سے زائد ملکیتوں پر مختلف اموال کے معاملے میں زکوٰۃ کی حسبِ ذیل شرح مقرر فرمائی:(۱)
(۱) سونے چاندی اور زرِنقد کی صورت میں جو دولت جمع (۲)ہو اس پر 2½ فیصد سالانہ
(۲) زرعی پیداوار پر، جبکہ وہ بارانی زمینوں سے ہو۱۰ فیصد
(۳) زرعی پیداوار پر، جبکہ وہ مصنوعی آب پاشی سے ہو۵ فیصد
(۴) معدنیات پر جبکہ وہ نجی ملکیت میں ہوں اور، دفینوں پر۲۰ فیصد
(۵) مواشی پر، جو افزائشِ نسل اور فروخت کی غرض سے پالے جائیں۔ زکوٰۃ کی شرح بھیڑ، بکری، گائے، اونٹ وغیرہ جانوروں کے معاملے میں مختلف ہے جس کی تفصیل کتب فقہ میں دیکھی جاسکتی ہے۔
یہ مقدارِ زکوٰۃ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے حکم سے اسی طرح مسلمانوں پر فرض کی ہے جس طرح روزانہ پانچ وقت کی چند رکعت نمازیں آپؐ نے اس کے حکم سے فرض کی ہیں۔ دینی فریضے اور لزوم کے اعتبار سے ان دونوں کی اہمیت میں کوئی فرق نہیں ہے۔ قرآن مجید اس بات کو اسلامی حکومت کے بنیادی مقاصد میں شمار کرتا ہے کہ وہ نماز اور زکوٰۃ کا نظام قائم کرے:
اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰہُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ۰ۭ الحج 41:22
(یہ اہل ایمان، جن کو دفاعی جنگ کی اجازت دی جا رہی ہے، وہ لوگ ہیں) جنھیں اگر ہم نے زمین میں اقتدار بخشا تو یہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم دیں گے، اور بدی سے روکیں گے۔
وَعَدَ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِي الْاَرْضِ ……. وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّكٰوۃَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَo
النور 55,56:24
اللہ نے ان لوگوں سے جو تم میں سے ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے یہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا… اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور رسولؐ کی اطاعت کرو تا کہ تم پر رحم کیا جائے۔
لیکن جیسا کہ اوپر کی آیات پر غور کرنے سے واضح ہوتا ہے ، فرض زکوٰۃ کی تحصیل اور تقسیم کا انتظام اگرچہ اسلامی حکومت کے فرائض میں شامل ہے، مگر اسلامی حکومت نہ ہونے کی صورت میں ، یا مسلم حکومت کے اس طرف سے غفلت برتنے کی صورت میں، مسلمانوں پر سے یہ فرض ساقط نہیں ہو جاتا، بالکل اسی طرح جس طرح نماز کا فرض ساقط نہیں ہوتا۔ کوئی اگر وصول کرنے اور تقسیم کرنے والا نہ ہو تو ہر صاحبِ نصاب مسلمان کو خود اپنے مال سے زکوٰۃ نکالنی اور تقسیم کرنی چاہیے۔