یہ نظامِ معیشت جس کا نہایت مختصر سا نقشہ میں نے پیش کیا ہے اس پر غور کیجئے ۔ کیا یہ شخصی ملکیت کے ان تمام نقصانات کو دور نہیں کر دیتا جو شیطان کی غلط تعلیم کے سبب سے رونما ہوتے ہیں؟ پھر آخر اس کی کیا حاجت ہے کہ ہم اشتراکی نظریہ یا فاشزم اور نیشنل سوشلزم کے نظریات کو اختیار کر کے معاشی انتظام کے وہ مصنوعی طریقے استعمال کریں جو ایک خرابی کو دور نہیں کرتے بلکہ اس کی جگہ دوسری خرابی پیدا کر دیتے ہیں؟ یہاں میں نے اسلام کے پورے نظامِ معاشی کو بیان نہیں کیا ہے۔ زمین کے انتظام اور کاروباری نزاعات (trade disputes) کے تصفیہ اور صنعت و حرفت کے لیے سرمایہ کی فراہمی کی جو صورتیں اسلام کے اصول پر اختیار کی جاسکتی ہیں اور جن کے لیے قانونِ اسلام میں پوری گنجائش رکھی گئی ہے، انہیں اس مختصر مقالے میں پیش کرنا مشکل ہے۔ نیز اسلام نے جس طرح درآمد برآمد کے محصولات اور اندرونِ ملک میں اموالِ تجارت کی نقل و حرکت پر چنگی کی پابندیوں کو اڑا کر اشیائے ضرورت کے آزاد مبادلہ کا راستہ کھولا ہے اس کا ذکر بھی میں نہیں کرسکا ہوں۔ ان سب سے بڑھ کر مجھے یہ بیان کرنے کا موقع بھی نہیں ملا ہے کہ ملکی انتظام اور سول سروس اور فوج کے مصارف کو انتہائی ممکن حد تک گھٹا کر اور عدالت سے اسٹامپ ڈیوٹی کو قطعی طور پر ہٹا کر اسلام نے سوسائٹی پر سے جس عظیم الشان معاشی بوجھ کو ہلکا کیا ہے، اور ٹیکسوں کو انتظام کے حد سے بڑھے ہوئے مصارف میں کھپا دینے کے بجائے سوسائٹی کی آسائش اور بہتری پر صرف کرنے کے جو مواقع اس نے پیدا کئے ہیں، ان کی بدولت اسلام کا معاشی نظام انسان کے لیے کتنی بڑی رحمت بن جاتا ہے ۔ اگر تعصب کو چھوڑ دیا جائے اور آبا ؤ اجداد سے جو جاہلانہ تنگ نظری وراثت میں ملی ہے، یا غیر اسلامی نظامات کے دنیا پر غالب آجانے سے جو مرعوبیت دماغوں پر چھا گئی ہے، اسے دور کر کے آزاد تحقیق کی نگاہ سے اس نظام کا مطالعہ کیا جائے تو میں توقع کرتا ہوں کہ ایک بھی معقول و منصف مزاج آدمی ایسا نہ ملے گا جو انسان کی معاشی فلاح کے لیے اس نظام کو سب سے زیادہ مفید، صحیح اور معقول تسلیم نہ کرے۔ لیکن اگر کسی شخص کے ذہن میں یہ غلط فہمی ہو کہ اسلام کے پورے اعتقادی، اخلاقی، تمدنی مجموعہ میں سے صرف اس کے معاشی نظام کو لے کر کامیابی کے ساتھ چلایا جاسکتا ہے تو میں عرض کروں گا کہ براہِ کرم وہ اس غلط فہمی کو دل سے نکال دے۔ اس معاشی نظام کا گہرا ربط اسلام کے سیاسی، عدالتی و قانونی اور تمدنی و معاشرتی نظام کے ساتھ ہے۔ پھر ان سب چیزوں کی بنیاد اسلام کے نظامِ اخلاق پر قائم ہے اور وہ نظامِ اخلاق بھی اپنے آپ پر قائم نہیں ہے بلکہ اس کے قیام کا پورا انحصار اس پر ہے کہ آپ ایک عالم الغیب قادرِمطلق خدا پر ایمان لائیں اور اپنے آپ کو اس کے سامنے جواب دہ سمجھیں، موت کے بعد آخرت کی زندگی کو مانیں، اور آخرت میں عدالتِ الٰہی کے سامنے اپنے پورے کارنامۂ حیات کے جانچے جانے اور اس جانچ کے مطابق جزا و سزا پانے کا یقین رکھیں ، اور یہ تسلیم کریں کہ خدا کی طرف سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ضابطۂ اخلاق و قانون آپ تک پہنچایا ہے، جس کا ایک جز یہ معاشی نظام بھی ہے، وہ بے کم و کاست خدا ہی کی ہدایت پر مبنی ہے۔ اگر اس عقیدے اور نظامِ اخلاق اور اس پورے ضابطۂ حیات کو آپ جوں کا توں نہ لیں گے تو نرا اسلامی نظامِ معاشی ایک دن بھی اپنی صحیح اسپرٹ کے ساتھ نہ چل سکے گا اور نہ اس سے آپ کوئی معتدبہ فائدہ اٹھا سکیں گے۔