تاہم مجرد اخلاقی تعلیم کے ذریعے سے، اور سوسائٹی کے اخلاقی اثر اور دبائو سے غیر معمولی حرص و طمع رکھنے والے لوگوں کی کمزوریوں کا بالکل استیصال نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے باوجود پھر بھی بہت سے ایسے لوگ باقی رہیں گے جو اپنی ضرورت سے زیادہ کمائی ہوئی دولت کو پھر مزید زائد از ضرورت دولت کمانے میں لگانا چاہئیں گے۔ اس لیے اسلام نے اس کے استعمال کے طریقوں پر چند قانونی پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ اس بچی ہوئی دولت کے استعمال کا یہ طریقہ کہ اسے سود پر چلایا جائے اسلامی قانون میں قطعی حرام ہے۔ اگر آپ کسی کو اپنا مال قرض دیتے ہیں تو خواہ اس نے وہ قرض اپنی ضرورتوں پر خرچ کرنے کے لیے لیا ہو، یا وسیلہ معاش پیدا کرنے کے لئے، بہرحال آپ اس سے صرف اپنا اصل مال ہی واپس لینے کے حق دار ہیں ۔ اس طرح اسلام ظالمانہ سرمایہ داری کی کمر توڑ دیتا ہے، اور اس سب سے بڑے ہتھیار کو کند کر دیتا ہے جس کے ذریعے سے سرمایہ دار محض اپنے سرمایہ کے بل پر آس پاس کی معاشی دولت سمیٹتا چلا جاتا ہے۔ رہا فاضل دولت کے استعمال کا یہ طریقہ کہ اسے انسان خود اپنی تجارت یا صنعت و حرفت یا دوسرے کاروبار میں لگائے ، یا دوسروں کے ساتھ نفع و نقصان کا شریک ہو کر سرمایہ فراہم کرے، تو اسلام اسے جائز رکھتا ہے، اور اسے سے جو زائد از ضرورت دولت اشخاص کے پاس سمٹ جاتی ہے اس کا علاج دوسرے طریقوں سے کرتا ہے۔