سب سے پہلے دولت کمانے کے سوال کو لیجئے۔ اسلام نے انسان کے اس حق کو تسلیم کیا ہے کہ خدا کی زمین میں وہ اپنی طبیعت کے رجحان اور اپنی استعداد و قابلیت کے مطابق خود اپنی زندگی کا سامان تلاش کرے۔ لیکن وہ اس کو یہ حق نہیں دیتا کہ وہ اپنی معاش حاصل کرنے کے لیے اخلاق کو خراب کرنے والے یا تمدن کے نظام کو بگاڑنے والے ذرائع اختیار کرے۔ وہ کسبِ معاش کے ذرائع میں حرام اور حلال کی تمیز قائم کرتا ہے اور نہایت تفصیل کے ساتھ چن چن کر ایک ایک نقصان رساں طریقے کو حرام کر دیتا ہے۔ اس کے قانون میں شراب اور دوسری نشہ آور چیزیں نہ صرف بجائے خود حرام ہیں، بلکہ ان کا بنانا، بیچنا، خریدنا، رکھنا سب حرام ہے ۔ وہ زنا اور رقص و سرود اور اسی قسم کے دوسرے ذرائع کو بھی جائز ذرائع کسبِ معاش تسلیم نہیں کرتا ۔ وہ ایسے تمام وسائلِ معیشت کو بھی ناجائز ٹھیراتا ہے جن میں ایک شخص کا فائدہ دوسرے لوگوں کے یا سوسائٹی کے نقصان پر مبنی ہے۔ رشوت، چوری، جوا، اور سٹہ، دھوکے اور فریب کے کاروبار، اشیائے ضرورت کو اس غرض سے روک رکھنا کہ قیمتیں گراں ہوں، معاشی وسائل کو کسی ایک شخص یا چند اشخاص کا اجارہ قرار دینا کہ دوسروں کے لیے جدوجہد کا دائرہ تنگ ہو، ان سب طریقوں کو اس نے حرام ٹھیراتا ہے۔ نیز کاروبار کی ایسی تمام شکلوں کو اس نے چھانٹ چھانٹ کر ناجائز قرار دیا ہے جو اپنی نوعیت کے لحاظ سے نزاع (litigation) پیدا کرنے والی ہوں، یا جن میں نفع و نقصان بالکل بخت و اتفاق پر مبنی ہو، یا جن میں فریقین کے درمیان حقوق کا تعین نہ ہو۔ اگر آپ اسلام کے اس تجارتی قانون کا تفصیلی مطالعہ کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ آج جن طریقوں سے لوگ کروڑ پتی اور ارب پتی بنتے ہیں، ان میں سے بیشتر طریقے وہ ہیں جن پر اسلام نے سخت قانونی بندشیں عائد کر دی ہیں ۔ وہ جن وسائل کسبِ معاش کو جائز ٹھیراتا ہے ان کے دائرے میں محدود رہ کر کام کیا جائے تو اشخاص کے لیے بے اندازہ دولت سمیٹتے چلے جانے کا بہت کم امکان ہے۔