اسلام نے تمام مسائل حیات میں اس قاعدے کو ملحوظ رکھا ہے کہ زندگی کے جو اصول فطری ہیں ان کو جوں کا توں برقرار رکھا جائے ، اور فطرت کے راستے سے جہاں انحراف ہوا ہے وہیں سے اس کو موڑ کر فطرت کے راستے پر ڈال دیا جائے۔ دوسرا اہم قاعدہ جس پر اسلام کی تمام اجتماعی اصلاحات مبنی ہیں وہ یہ ہے کہ صرف خارجی طور پر نظامِ تمدن میں چند ضابطے جاری کرنے ہی پر اکتفا نہ کیا جائے، بلکہ سب سے زیادہ زور اخلاق اور ذہنیت کی اصلاح پر صرف کیا جائے، تا کہ نفسِ انسانی میں خرابی کی جڑ کٹ جائے۔ تیسرا اساسی قاعدہ جس کا نشان آپ کو تمام اسلامی نظامِ شریعت میں ملے گا، یہ ہے کہ حکومت کے جبر اور قانون کے زور سے صرف وہیں کام لیا جائے جہاں ایسا کرنا ناگزیر ہو۔
ان تین قاعدوں کو ملحوظ رکھ کر اسلام زندگی کے معاشی شعبے میں ان تمام غیر فطری طریقوں کو زیادہ سے زیادہ اخلاقی اصلاح اور کم سے کم حکومتی مداخلت کے ذریعے سے مٹاتا ہے جو شیطانی اثر سے انسان نے اختیار کئے ہیں۔ یہ امر کہ انسان اپنی معاش کے لیے جدوجہد کرنے میں آزاد ہو، یہ بات کہ آدمی اپنی محنت سے جو کچھ حاصل کرے اس پر اسے حقوقِ مالکانہ حاصل ہوں، اور یہ کہ انسانوں کے درمیان ان کی قابلیتوں اور ان کے حالات کے لحاظ سے فرق و تفاوت ہو، ان سب چیزوں کو اسلام اس حد تک تسلیم کرتا ہے جس حد تک یہ منشائے فطرت کے مطابق ہیں۔ پھر وہ ان پر ایسی پابندیاں عائد کرتا ہے جو انہیں حدِ فطرت سے متجاوز اور ظلم و بے انصافی کا موجب نہ بننے دیں۔