پس درحقیقت اشتراکی نظریہ انسان کے معاشی مسئلے کا کوئی صحیح فطری حل نہیں ہے بلکہ ایک غیر فطری مصنوعی حل ہے۔ اس کے مقابلے میں دوسرا حل فاشزم اور نیشنل سوشلزم نے پیش کیا ہے، اور وہ یہ ہے کہ وسائلِ معیشت پر شخصی تصرف تو باقی رہے، مگر جماعتی مفاد کی خاطر اس تصرف کو ریاست کے مضبوط کنٹرول میں رکھا جائے۔ لیکن عملاً اس کے نتائج بھی اشتراکی نظریے کے نتائج سے کچھ زیادہ مختلف نظر نہیں آتے ۔ اشتراکیت کی طرح یہ نظریہ بھی فرد کو جماعت میں گم کر دیتا ہے، اور اس کی شخصیت کے آزادانہ نشوونما کا کوئی موقع باقی نہیں چھوڑتا۔ مزید برآں جو ریاست اس شخصی تصرف کو قابو میں رکھتی ہے وہ اتنی ہی مستبد اور جابر و قاہر ہوتی ہے جتنی اشتراکی ریاست۔ ایک بڑے ملک کی تمام حرفت کو اپنے پنجۂ اقتدار میں رکھنے اور اپنے دیئے ہوئے نقشے پر کام کرنے کے لیے مجبور کرنا بڑی زبردست قوتِ قاہرہ چاہتا ہے، اور جس ریاست کے ہاتھ میں ایسی قاہرانہ طاقت ہو اس کے ہاتھ میں ملک کی آبادی کا بے بس ہو جانا اور حکمرانوں کا غلام بن کر رہ جانا بالکل یقینی ہے۔