اب ہمیں دیکھنا چاہیے کہ خرابی کے اصل اسباب کیا ہیں، اور خرابی کی نوعیت کیا ہے۔
نظامِ معیشت کی خرابی کا نقطۂ آغاز خود غرضی کا حدِّ اعتدال سے بڑھ جانا ہے۔ پھر دوسرے رذائل اخلاق اور ایک فاسد نظامِ سیاست کی مدد سے یہ چیز بڑھتی اور پھیلتی ہے، یہاں تک کہ پورے معاشی نظام کو خراب کر کے زندگی کے باقی شعبوں میں بھی اپنا زہریلا اثر پھیلا دیتی ہے۔ ابھی میں بیان کر چکا ہوں کہ شخصی ملکیت اور بعض انسانوں کا بعض کی بہ نسبت بہتر معاشی حالت میں ہونا، یہ دونوں عین فطرت کے مقتضیات تھے اور بجائے خود ان میں کوئی خرابی نہ تھی۔ اگر انسان کی تمام اخلاقی صفات کو توازن کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملتا اور خارج میں بھی ایک ایسا نظام سیاست موجود ہوتا جو زور و قوت کے ساتھ عدل قائم رکھتا، تو ان سے کوئی خرابی پیدا نہ ہوسکتی تھی۔ لیکن جس چیز نے انہیں خرابیوں کی پیدائش کا ذریعہ بنا دیا وہ یہ تھی کہ جو لوگ فطری اسباب سے بہتر معاشی حیثیت رکھتے تھے وہ خود غرضی، تنگ نظری، بد اندیشی، بخل، حرص، بددیانتی اور نفس پرستی میں مبتلا ہو گئے۔ شیطان نے انہیں یہ سمجھایا کہ تمہاری اصلی ضرورت سے زائد جو وسائلِ معیشت تمہیں ملتے ہیں، اور جن پر تمہیں حقوقِ مالکانہ حاصل ہیں، ان کے صحیح و معقول مصرف صرف دو ہیں۔ ایک یہ کہ ان کو اپنی آسائش، آرائش، لطف، تفریح اور خوش باشی میں صرف کرو ۔ دوسرے یہ کہ ان کو مزید وسائل معیشت پر قبضہ کرنے کے لیے استعمال کرو، اور بن پڑے تو انھی کے ذریعے سے انسانوں کے خدا اور اَن داتا بھی بن جائو۔