یہ تھے وہ فلسفے اور وہ عقائد وافکار جو فاتح تہذیب کے ساتھ آئے اور ہم پر مسلط ہوئے۔ اب دیکھیے کہ اخلاق کے معاملے میں ان آنے والوں کے ساتھ کس قسم کے نظریات اور عملیات یہاں درآمد ہوئے۔
خدا اور آخرت کو نظر انداز کر دینے کے بعد ظاہر ہے کہ اخلاق کے لیے مادی قدروں کے سوا کوئی قدر، اورتجربی بنیادوں کے سوا کوئی بنیاد باقی نہیں رہتی۔ اس معاملے میں اگر کوئی شخص چاہے کہ وہ قدریں جو مذہب نے دی تھیں، مذہب کے سوا کسی دوسری بنیاد پر قائم رہیں، تو یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے۔ اسی لیے اہل مغرب میں سے جن لوگوں نے اس کی کوشش کی وہ ناکام ہوئے۔ بے دینی اور انکارِ آخرت کی فضا میں فی الواقع جس فلسفۂ اخلاق کو فروغ نصیب ہوا، اور عملاً اہل مغرب کی زندگی میں جس نے رواج پایا، وہ تھا خالص افادیت (utilitarianism) کا فلسفہ جس کے ساتھ لذتیت (epicureanism) کے ایک سادہ سے مادہ پرستانہ خلاصے کی آمیزش ہو گئی تھی۔ اسی پر مغرب کے پورے تمدن اور مغربی زندگی کے پورے طرزِ عمل کی بِنا رکھی گئی۔ کتابوں میں افادیّت اور لذتیت کی جو تشریحات لکھی گئی ہیں، وہ چاہے جو کچھ بھی ہوں، مگر مغربی تہذیب اور سیرت وکردار میں اس کا جو جوہر جذب ہو اور وہ یہ تھا کہ قابلِ قدر اگر کوئی چیز ہے تو صرف وہ جس کا کوئی فائدہ میری ذات کو پہنچتا ہو، یا ’’میری ذات‘‘ کے تصور میں کچھ وسعت پیدا ہو جائے تو میری قوم کو پہنچتا ہو اور فائدے سے مراد ہے دنیوی فائدہ… کوئی راحت، کوئی لذت یا کوئی مادی منفعت۔ جس چیز سے اس طرح کا کوئی فائدہ میری طرف آئے یا میری قوم کی طرف آئے وہ نیکی ہے، قابل قدر ہے، مطلوب ومقصود ہے، اور وہی اس لائق ہے کہ اس کے پیچھے ساری کوششیں صرف کی جائیں اور جو ایسی نہیں ہے جس کا کوئی محسوس یا قابلِ پیمائش فائدہ اس دنیا میں مجھے یا میری قوم کو حاصل نہیں ہوتا وہ کسی توجہ کے لائق نہیں ہے اور اس کے برعکس جو چیز دنیوی حیثیت سے نقصان دہ ہے وہ دنیوی فائدوں اور لذتوں سے محروم کرنے والی ہے، وہی بدی اور وہی گناہ ہے۔ اس سے اجتناب لازم ہے۔
اس اخلاق میں خیروشر کا کوئی مستقل معیار نہیں ہے۔ کردار کے حسن وقبح کے لیے کوئی مستقل اصول نہیں ہے۔ ہر چیز اضافی اورعارضی ہے۔ ذاتی یا قومی منفعت کے لیے ہر اصول بنایا اور توڑا جا سکتا ہے۔ فائدوں اور لذتوں کو ہر طریقے سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ آج جو کچھ خیر ہے وہ کل شر ہو سکتا ہے، اور آج جو خیر ہے وہ کل شر قرار پا سکتا ہے۔ ایک کے لیے حق وباطل کا معیار اور ہے اور دوسرے کے لیے اور۔ حلال اور حرام کی کوئی مستقل تمیز جس کا ہر حال میں لحاظ رکھا جائے اور حق وباطل کا کوئی ابدی فرق جو کسی حال میں نہ بدلے ایک دقیانوسی تصور ہے جسے ترقی کے قدم بہت پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔