یہ قاعدہ بھی اس ریاست کے قواعد میں سے تھا کہ حکومت کے ذمہ دارانہ مناصب کے لئے عموما اور خلافت کے لئے خصوصا وہ لوگ سب سے زیادہ غیر موزوں ہیں جو خود عہدہ حاصل کرنے کے طالب ہوں اور اس کے لئے کوشش کریں ۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے : تِلْكَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَلَا فَسَادًا ۚ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ ﴿القصص:٨٣﴾ وہ آخرت کا گھر تو ہم اُن لوگوں کے لیے مخصوص کر دیں گے جو زمین میں اپنی بڑائی نہیں چاہتے اور نہ فساد کرنا چاہتے ہیں اور انجام کی بھَلائی متقین ہی کے لیے ہے۔ نبی ﷺ کا ارشاد ہے : انا واللہ لا نولی علی عملنا ھذا احدا سالہ او حرص علیہ ۔[30] "”بخدا ہ ہم اپنی اس حکومت کا منصب کسی ایسے شخص کو نہیں دیتے جو اس کا طالب ہو یا اس کا حریص ہو ۔”” ان اخونکم عندنا من طلبہ۔[31] "”تم میں سب سے بڑھ کر خائن ہمارے نزدیک وہ ہے جو اسے خود طلب کرے ۔”” انا لا نستعمل علی عملنا من ارادہ ۔[32] "”ہم اپنی حکومت میں کسی ایسے شخص کو عامل نہیں بناتے جو اس کی خواہش کرے ۔”” یا عبدالرحمن بن سمرۃ لا تساءل الامارۃ فانک اذا اوتیتھا عن مسئلۃ وکلت الیھا ،وان اوتیتھا عن غیر مسئلۃ اعنت علیھا۔[33] "” (عبد الرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے حضور ﷺ نے فرمایا ) اے عبد الرحمن بن سمرہ ! امارت کی درخواست نہ کرو ، کیونکہ اگروہ تمہیں مانگنے پر دی گی تو خدا کی طرف سے تم کو اسی کے حوالے کردیا جائے گا۔اور اگر وہ تمہیں بے مانگے ملی تو خدا کی طرف سے تم کو اس کا حق ادا کرنے میں مدد دی جائے گی ۔””