سوال: آپ کی کتاب’’پردہ‘‘ کے مطالعے کے بعد میں نے اور میری اہلیہ نے چند ہفتوں سے عائلی زندگی کو قوانین الٰہیہ کے مطابق بنانے کی سعی شروع کررکھی ہے۔ مگر ہمارے اس جدید رویے کی وجہ سے پورا خاندان بالخصوص ہمارے والدین سخت برہم ہیں اور پردے کو شرعی حدود وضوابط کے ساتھ اختیار کرنے پر برافروختہ ہیں۔خیال ہوتا ہے کہ کہیں ہم ہی بعض مسائل میں غلطی پر نہ ہوں۔ پس تسلی کے لیے حسب ذیل اُمور کی وضاحت چاہتے ہیں:
1۔ سورۃ الاحزاب کی یہ آیت کہ’’ عورتوں پر کچھ گناہ نہیں کہ وہ اپنے باپوں کے سامنے پردہ نہ کریں اور نہ اپنے بیٹوں کے سامنے … الخ‘‘ اس سے یہ بات صاف ظاہر ہوگئی کہ آیت میں جن اعزہ کا ذکر ہے،ان کے سوا عورتوں کا کسی دوسرے کے سامنے کسی بھی شکل اور حالت میں آنا (اِلاّبہ اشد مجبوری) صریحاً گناہ ہے۔ اس معاملے میں غیر محرم رشتہ دار اور غیر محرم اجانب بالکل برابر ہیں۔کیا میرا یہ خیال صحیح ہے ؟
جواب: آپ نے قرآن مجید کے اصل الفاظ پر غور نہیں کیا۔وہ آیت جس کا حوالہ آپ دے رہے ہیں،سورۃ الاحزاب میں نہیں ہے بلکہ سورہ النور میں ہے اور اس میں الفاظ یہ ہیں کہ ﴿وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَہُنَّ اِلَّا…﴾ ( النور 24:31 ( یعنی بجز ان لوگوں کے اور کسی کے سامنے اپنی زینت کا اظہار نہ کریں۔ دوسرے لفظوں میں بنائو سنگھار اور آرائش کے ساتھ غیر محرم لوگوں کے سامنے نہ آئیں۔ دوسری طرف گھر سے باہر نکلنے کی صورت میں یہ ہدایت دی گئی ہے کہ
﴿يُدْنِيْنَ عَلَيْہِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِہِنَّ ﴾ ( الاحزاب 33:(59
(یعنی اپنی چادروں کو اپنے اوپر گھونگٹ کے طور پر لٹکا لیا کریں)
ان دونوں آیتوں پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مردوں کی تین قسمیں ہیں اور ہر قسم کے الگ احکام ہیں۔ ایک وہ محرم رشتے دار وغیرہ جن کا ذکر سورۃ النور والی آیت میں آیا ہے۔ دوسرے بالکل اجنبی لوگ جن کا حکم سورۃ الاحزا ب والی آیت میں بیان ہوا ہے۔ تیسرے ان دونو ں کے درمیان ایسے لوگ جو محرم بھی نہیں ہیں اور اجنبی بھی نہیں۔ پہلی قسم کے مردوں کے سامنے عورت اپنے بنائو سنگھار کے ساتھ آسکتی ہے۔ دوسری قسم کے مردوں کو چہرہ تک نہیں دکھا سکتی۔ رہے تیسری قسم کے لوگ، تو ان سے پردے کی نوعیت مذکورہ بالا دونوں حدوں کے درمیان رہے گی۔یعنی نہ تو ان سے بالکل اجنبیوں کا سا پردہ ہوگا اور نہ ان کے سامنے زینت کا اظہار ہی کیا جائے گا۔
(ترجمان القرآن، اگست 1946ء)