سوال: دونوں درود شریف جو ہم نماز میں پڑھتے ہیں،ظاہر ہے کہ حضور ﷺ اس طرح نہیں پڑھتے ہوں گے۔ کیوں کہ ہم توپڑھتے ہیں: اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی الِ مُحَمَّدٍ (اے اﷲ! رحمت فرما محمدؐ پر اور محمدؐ کی آل پر) یہ دونوں درود شریف درحقیقت دُعائیں ہیں اور اسی طرح تشہد اور دعا رَبِّ اجْعَلْنِیْ بھی۔عبادت نام دعائوں کا نہیں بلکہ اس خالق ارض وسماکی حمد وثنا بیان کرنے کا نام ہے، تو کیا یہ زیادہ مناسب نہیں کہ عبادت کے اختتام پر دعائیں مانگی جائیں، بہ نسبت اس کے کہ عین عبادت میں دعائیں مانگنی شروع کردی جائیں؟میرا خیال ہے کہ حضورﷺ خود تشہد اور درود شریف وغیر ہ نہیں پڑھتے ہوں گے، کیوں کہ آپ ؐ سے یہ بعید ہے کہ عین نماز میں آپؐ اپنے لیے دعا ئیں مانگنے لگتے۔پھر ذرا تشہد پر غور فرمایے۔ظاہر ہے کہ درود کی طرح اگر حضورﷺ تشہد بھی پڑھتے تھے تو وہ بھی الگ ہوگا۔ کیوں کہ ’’اے نبی! تم پر سلام اور خدا کی رحمت اور اس کی برکتیں نازل ہوں‘‘ کی جگہ آپؐ پڑھتے ہوں گے: ’’مجھ پر سلام اور خداکی رحمت اور اس کی برکتیں نازل ہوں۔‘‘
جواب: یہ غلط فہمی آپ کو کہاں سے ہوگئی کہ عبادت صرف اﷲ کی حمد وثنا کرنے کا نام ہے اور اﷲ سے دُعا کرنا عبادت نہیں ہے۔دُعا تو رُوح عبادت ہے۔قرآن میں جگہ جگہ ان مشرکین کو جو غیر اﷲ سے دعائیں مانگتے ہیں،غیر اﷲ کی عبادت کرنے والا قرار دیا گیا ہے، حتیٰ کہ اکثر مقامات پر﴿ یَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ ﴾کہنے کے بجائے ﴿یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہ﴾ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں اور حکم دیا گیا ہے کہ اﷲ ہی سے دعا مانگو۔
یہ تشہد جو ہم پڑھتے ہیں ،یہ حضورﷺ نے صحابہ کو سکھایا تھا اور انھیں ہدایت فرمائی تھی کہ تم یہ پڑھا کرو،اس لیے ہم کو نماز میں یہی پڑھنا چاہیے۔رہا حضور ﷺ کا اپنا تشہد، تو اس کے متعلق احادیث میں کوئی صراحت نہیں ہے کہ حضور ﷺ خود کیا پڑھتے تھے۔ ہو سکتا ہے کہ آپؐ کے تشہد میں الفاظ کچھ مختلف ہوتے ہوں، اور یہ بھی بعید از قیاس نہیں کہ حضورﷺ خود بھی یہی تشہد پڑھتے ہوں۔ اگر ہم نماز میں اپنے لیے دعا کرتے ہیں تو آخر آپ کو اس پر کیا اعتراض ہے کہ حضورﷺ بھی نماز میں اپنے لیے دعا فرماتے ہوں؟ اسی طرح اگر ہم حضورﷺ کے نبی ہونے کی شہادت نماز میں دیتے ہیں تو اس میں آخر کیا خرابی ہے کہ نبیؐ بھی اپنی نبوت کی شہادت دیتے ہوں؟
(ترجمان القرآن ،فروری 1961ء)