پس اگر اسلام ایک ’’مذہب‘‘ اور مسلمان ایک ’’قوم‘‘ ہے تو جہاد کی ساری معنویت‘ جس کی بنا پر اسلام میں اسے افضل العبادات کہا گیا ہے‘ سرے سے ختم ہوجاتی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسلام کسی ’’مذہب‘‘ کا اور ’’مسلمان‘‘ کسی ’’قوم‘‘ کا نام نہیں ہے۔ بلکہ اسلام ایک انقلابی نظریہ و مسلک ہے‘ جو تمام دنیا کے اجتماعی نظم (Social Order) کو بدل کر اپنے نظریہ و مسلک کے مطابق اسے تعمیر کرنا چاہتا ہے۔۔۔ اور مسلمان اس بین الاقوامی انقلابی جماعت (International Revolutionary Party) کا نام ہے جسے اسلام اپنے مطلوبہ انقلابی پروگرام کو عمل میں لانے کے لیے منظم کرتا ہے۔۔۔ اور جہاد اس انقلابی جدوجہد (Revolutionary Struggle) کا اور اس انتہائی صرفِ طاقت کا نام ہے جو اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اسلامی جماعت عمل میں لاتی ہے۔
تمام انقلابی مسلکوں کی طرح اسلام بھی عام مروج الفاظ کو چھوڑ کر اپنی ایک خاص اصطلاحی زبان (Terminology) اختیار کرتا ہے‘ تاکہ اس کے انقلابی تصورات عام تصورات سے ممتاز ہو سکیں۔ لفظ ’’جہاد‘‘ بھی اسی مخصوص اصطلاحی زبان سے تعلق رکھتا ہے۔ اسلام نے حرب اور اسی نوعیت کے دوسرے عربی الفاظ جو جنگ (War) کے مفہوم کوادا کرتے ہیں قصداً ترک کر دیے اور ان کی جگہ ’’جہاد‘‘ کا لفظ استعمال کیا جو (Struggle) کا ہم معنی ہے‘ بلکہ اس سے زیادہ مبالغہ رکھتا ہے۔ انگریزی میں اس کا صحیح مفہوم یوں ادا کیا جاسکتا ہے۔
[english]To Exert One`s Utmost Endeavour in Furthering a Cause.[/english]
یعنی ’’اپنی تمام طاقتیں کسی مقصد کی تحصیل میں صرف کردینا‘‘۔
سوال یہ ہے کہ پرانے الفاظ کو چھوڑ کر یہ نیا لفظ کیوں اختیار کیا گیا؟ اس کا جواب بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ ’’جنگ‘‘ کا لفظ قوموں اور سلطنتوں کی ان لڑائیوں کے لیے استعمال ہوتا تھا اور آج تک ہورہا ہے جو اشخاص یا جماعتوں کی نفسانی اغراض کے لیے لڑی جاتی ہیں۔ ان لڑائیوں کے محرک محض ایسے شخصی یااجتماعی مقاصد ہوتے ہیںجن کے اندر کسی نظریے اور کسی اصول کی حمایت کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ اسلام کی لڑائی چونکہ اس نوعیت کی نہیں ہے‘ اس لیے وہ سرے سے اس لفظ ہی کو ترک کردیتا ہے۔ اس کے پیشِ نظر ایک قوم کا مفاد یا دوسری قوم کا نقصان نہیں ہے۔ وہ اس سے کوئی دلچسپی نہیںرکھتاکہ زمین پر ایک سلطنت کا قبضہ رہے یا دوسری سلطنت کا۔ اس کی دلچسپی جس سے ہے‘ وہ انسانیت کی فلاح ہے۔ اس فلاح کے لیے وہ اپنا ایک خاص نظریہ اور ایک عملی مسلک رکھتا ہے۔ اس نظریے اور مسلک کے خلاف جہاں جس کی حکومت بھی ہے‘ اسلام اسے مٹانا چاہتا ہے‘ قطع نظر اس سے کہ وہ کوئی قوم ہو یا کوئی ملک ہو۔ اس کا مدعا اور مقصود اپنے نظریے اور مسلک کی حکومت قائم کرنا ہے‘ بلالحاظ اس کے کہ کون اس کا جھنڈا لے کر اٹھتا ہے اور کس کی حکمرانی پر اس کی ضرب پڑتی ہے۔ وہ زمین مانگتا ہے۔۔۔ زمین کا ایک حصہ نہیں بلکہ پورا کرۂ زمین۔۔۔ اس لیے نہیں کہ ایک قوم یا بہت سی قوموں کے ہاتھ سے نکل کر زمین کی حکومت کسی خاص قوم کے ہاتھ میں آجائے۔ بلکہ صرف اس لیے کہ انسانیت کی فلاح کا جو نظریہ اور پروگرام اسلام کے پاس ہے۔۔۔ یا بالفاظِ صحیح تر یوں کہئے کہ فلاحِ انسانیت کے جس پروگرام کا نام ’’اسلام‘‘ ہے۔۔۔ اس سے تمام نوعِ انسانی متمتع ہو۔ اس غرض کے لیے وہ تمام ان طاقتوں سے کام لینا چاہتا ہے‘ جو انقلاب برپا کرنے کے لیے کارگر ہوسکتی ہیں۔۔۔ اور ان سب طاقتوں کے استعمال کا ایک جامع نام ’’جہاد‘‘ رکھتا ہے۔ زبان و قلم کے زور سے لوگوں کے نقطۂ نظر کو بدلنا اور ان کے اندر ذہنی انقلاب پیدا کرنا بھی جہاد ہے۔ تلوار کے زور سے پرانے ظالمانہ نظامِ زندگی کو بدل دینا اور نیا عادلانہ نظام مرتب کرنا بھی جہاد ہے اور اس راہ میں مال صرف کرنا اور جسم سے دوڑ دھوپ کرنا بھی جہاد ہے۔