اب قرارداد کے اس حصے کی طرف آئیے جس میں کہا گیا ہے کہ اس لائحۂ عمل کا چوتھا جز (نظامِ حکومت کی اصلاح) بھی کوئی نئی چیز نہیں ہے بلکہ ابتدا ہی سے یہ جماعت کا بنیادی مقصد اور اس کے نصب العین کا لازمی تقاضا تھا مگر اس کے لیے جماعت نے تقسیم ہند سے پہلے عملاً کوئی اقدام… اس نوعیت کا اقدام جیسا کہ تقسیم کے بعد کیا گیا… اس لیے نہیں کیا کہ اس وقت مواقع اور ذرائع کا فقدان تھا اور بعض شرعی موانع بھی ہمارے راستے میں حائل تھے۔
قیامِ پاکستان سے پہلے جماعت کے سیاسی کام کی تفصیل
یہ ایک اہم نکتہ ہے جسے جماعتِ اِسلامی کے تمام کارکنوں اور اس تحریک سے وابستگی رکھنے والوں کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے، کیوں کہ اسے سمجھے بغیر ان کے لیے جماعت کی روح اور اس کی حقیقت اور اس کی تاریخ کو سمجھنا مشکل ہو گا اور ممکن ہے کہ اس کے باعث آیندہ اپنے مقصود کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے قدم قدم پر انھیں ذہنی الجھنوں سے سابقہ پیش آئے۔ یہ اندیشہ اب خصوصیت کے ساتھ اس وجہ سے اور بھی زیادہ محسوس ہوتا ہے کہ جو لوگ اس تحریک کے درمیانی مراحل میں آئے ہیں، یا آیندہ آئیں گے وہ اسے صرف اس کے لٹریچر سے سمجھنے کی کوشش کریں گے اوران کے سامنے وہ حالات نہ ہوں گے جن میں مختلف ادوار سے گزرتے ہوئے یہ لٹریچر پیدا ہوتا رہا ہے۔ بہت ممکن ہے کہ کسی خاص دور کی لکھی ہوئی کسی عبارت سے کوئی شخص الٹے معنی برآمد کر بیٹھے اور الجھنوں میں مبتلا ہو جائے۔ حالانکہ ایک تحریک کے لٹریچر کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہر دور میں جو کچھ لکھا گیا اس کو پڑھتے ہوئے وہ حالات بھی آدمی کی نگاہ میں ہوں جن میں وہ لکھا گیا تھا۔ اس لیے میں طولِ کلام کی پرواکئے بغیر آپ کے سامنے پوری وضاحت کے ساتھ یہ بیان کروں گا کہ تقسیمِ ہند سے پہلے ہماری تحریک کو کن حالات سے سابقہ تھا۔ ان میں مواقع اور ذرائع کی کیا کمی تھی، ان میں کس نوعیت کے شرعی موانع ہمارے راستے میں حائل تھے اور ان حالات میں ہم تحریک کے آغاز سے اگست ۱۹۴۷ء تک کس تدریج کے ساتھ کس راستے سے اپنے نصب العین کی طرف بڑھ رہے تھے۔ پھر آگے چل کر قرارداد کے چھٹے نکتے کی توضیح کرتے ہوئے میں یہ بھی بتائوں گا کہ اگست ۴۷ء میں فی الواقع حالات کے اندر کس نوعیت کا تغیر رونما ہوا اور اس تغیر کے ساتھ کیا نئے موانع سامنے آئے، کیا نئے ذرائع بہم پہنچے، کیا امکانات شرعی مواقع کو دور کرنے کے لیے پیدا ہو گئے اور اس صورت حال کا بروقت بالکل صحیح اندازہ کرکے ہم نے کیا راہ عمل اپنے لیے تجویز کی۔
جماعتِ اِسلامی کی تحریک کا اصل ہدف کیا تھا؟
اس سلسلے میں آگے بڑھنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ ہم میں سے ہر شخص کا ذہن اپنے اصل نصب العین کے معاملے میں اچھی طرح صاف ہو جائے۔ کسی شخص کو اس غلط فہمی میں نہ رہنا چاہیے کہ نظامِ حکومت کی اصلاح اور انقلاب قیادت کی جدوجہد، یعنی ’’سیاست‘‘ کوئی عارضہ تھا جو جماعتِ اِسلامی کو قیامِ پاکستان کے بعد کسی وقت یکایک لاحق ہو گیا۔ میں اپنی تقریر کی ابتدا میں اتنی تفصیل کے ساتھ جماعت کے نصب العین کی جو تشریح کر چکا ہوں اس سے یہ بات کسی اشتباہ کی گنجائش کے بغیر پوری طرح واضح ہو گئی ہے کہ زمامِ کار کی تبدیلی کو ہمارے نظامِ فکروعمل میں آغاز تحریک ہی سے بنیادی اور مرکزی اہمیت حاصل رہی ہے۔ بلکہ اس سے آگے بڑھ کر میں بلا خوف تردید یہ بات کَہ سکتا ہوں کہ دراصل یہی وہ امتیازی وصف ہے جو زمانہِ قریب کی تاریخ میں، کم از کم برعظیم ہند کی حد تک، جماعتِ اِسلامی کی تحریک کو دوسری تحریکوں سے ممیّز کرتا ہے۔ اس جماعت نے محض اصلاحِ عقائد واَخلاق، محض اصلاحِ رسوم وعقائد، محض احیائے علومِ دین اور اسی طرح کے دوسرے اصلاحی وتعمیری کاموں پر اپنی فکر وعمل کو محدود ومرکوز نہیں کیا بلکہ ان سب کاموں کو ایک بڑے اور اصلی مقصد کا ذریعہ قرار دیا۔ اور وہ مقصد یہ تھا کہ فاسد نظامِ زندگی کو اقتدار کے مقام سے ہٹا کر اس کی جگہ دین حق کو ایک نظامِ زندگی کی حیثیت سے غالب وفرمانروا بنایا جائے۔ یہ جماعت وجود ہی میں اس طرح آئی تھی کہ پوری بصیرت اور واضح دلائل وشواہد کے ساتھ یہ بات بالکل دو اور دوچار کی طرح ایک ناقابلِ انکار حقیقت کے طور پر سامنے لا کر رکھ دی گئی تھی کہ:
اِسلام محض ایک مذہب نہیں ہے جو دوسرے مذاہب کی طرح ہر نظامِ زندگی کے اندر رہ سکتا ہو بلکہ وہ ایک پورانظامِ زندگی ہے جو تمام شعبہ ہائے حیات پر اپنا تسلّط چاہتا ہے۔
کسی غیر اِسلامی نظام کے غلبہ وتسلط میں اِسلام کے پنپنے کا کوئی امکان نہیں ہے، بلکہ جو کچھ بچا بچایا اِسلام موجود ہو، وہ بھی زیادہ دیر تک بچا نہیں رہ سکتا، خواہ اسے محفوظ رکھنے کے لیے وعظ وتبلیغ اور درس وتدریس اور تصنیف وتالیف کے ذرائع سے کتنا ہی زور مار لیا جائے۔
اصل خرابی کی جڑ کفر وفسق کی امامت وراہ نُمائی اور قیادت وفرمانروائی ہے جس کی بدولت ایک خدا فراموش نظامِ زندگی قائم اور ہر شعبہ حیات پر حاوی ہوتا ہے، اس لیے جو لوگ بھی درحقیقت اِسلامی نظامِ زندگی کے معتقد اور عملاً اس کے رواج کے طالب ہوں ان کی تمام کوششوں کا ہدف یہ ہونا چاہیے کہ کفر وفسق کو امامت کے مقام سے ہٹا کر ایمان وعمل صالح کو اس مقام پر لایا جائے اور اس کے لیے انھیں وہ تمام جائز ومعقول تدابیر استعمال کرنی چاہییں جن سے یہ اصلاحی انقلاب ممکن ہو۔ اس تخیل کو جن لوگوں نے قبول کیا تھا انھیں سے جماعتِ اِسلامی بنی تھی۔
اب اس سے زیادہ عجیب بات کوئی نہ ہو گی کہ انھیں لوگوں کے لیے اپنی تحریک کی اصل بنیاد مشتبہ ہو جائے اور وہ اسے بعد کے کسی دور کا عارضۂ لاحقہ سمجھ بیٹھیں جسے لاحق رکھنے کا مسئلہ آج ان کے لیے بحث طلب ہو۔ اس کا بحث طلب ہو جانا تو یہ معنی رکھتا ہے کہ ہمارے لیے جماعتِ اِسلامی کو جماعتِ اِسلامی رکھنا ہی بحث طلب ہو جائے، کیوں کہ اس مقصود کے بغیر تبلیغ واصلاح اور علمی تحقیقات کرنے والی جماعت، جماعتِ اِسلامی تو بہرحال نہیں ہو سکتی۔
تحریک کے تدریجی مراحل
اس ضروری تنبیہہ وتوضیح کے بعد میں آپ کے سامنے تاریخی ترتیب کے ساتھ یہ بیان کروں گا کہ آغاز تحریک سے تقسیم ملک تک مختلف ادوار میں اس مقصد کو سامنے رکھ کر کیا کام، کس تدریج کے ساتھ کیا گیا اور ہر دور کے کام کا واقعاتی پس منظر کیا تھا۔
پہلا دور
۱۹۲۸ء سے ۱۹۳۷ء تک کا زمانہ وہ تھا جس میں ایک شخص کے محدود ذاتی ذرائع کے سوا کوئی ذریعہ کام کے لیے موجود نہ تھا اور مواقع بھی اس سے زیادہ کچھ نہ تھے کہ سخت پراگندہ خیالی کے ماحول میں ایک نہایت قلیل تعداد ایسے لوگوں کی فراہم ہو سکتی تھی جو اِسلام کے متعلق وہ باتیں پڑھنے اور سننے کے لیے تیار ہوں جو وہ شخص پیش کرنا چاہتا تھا۔ اس حالت میں کرنے کا کام یہی تھا اور اس کے سوا کچھ کیا بھی نہیں جا سکتا تھا کہ حکمت کے ساتھ مسلسل تبلیغ سے کچھ لوگوں کو اس تخیل کا اس حد تک معتقد بنا دیا جائے کہ وہ سنجیدگی کے ساتھ اس کے لیے عملاً کچھ کرنے پر آمادہ ہو جائیں۔ اس دور کے کام کو اگر آپ سمجھنا چاہیں تو خصوصیت کے ساتھ الجہاد فی الاِسلام کا تیسرا باب (مصلحانہ جنگ) اِسلامی تہذیب اور اس کے اصول ومبادی اور تنقیحات کو بغور پڑھیں۔
ان میں سے پہلی کتاب میں وضاحت کے ساتھ یہ حقیقت سمجھائی گئی ہے کہ مسلمان دراصل نام ہی اس بین الاقوامی گروہ کا ہے جسے دنیا میں امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینے کے لیے وجود میں لایا گیا ہے اور یہ فریضہ حکومت باطل کو مٹا کر اس کی جگہ حکومت الٰہیہ قائم کیے بغیر ادا نہیں ہو سکتا۔
دوسری کتاب میں اِسلامی نظام زندگی کا جامع تصوّر، اس کی فکری بنیادوں اور منطقی تقاضوں کے ساتھ پیش کرکے یہ بتایا گیا ہے کہ یہ ایک ہمہ گیر تہذیب ہے جو حیات دنیا کے تمام گوشوں کو اپنی لپیٹ میں لیتی اور تمام دنیا پر چھا جانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
تیسری کتاب میں اوّل سے آخر تک جو بات ذہن نشین کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ کسی کافرانہ وفاسقانہ نظام زندگی کے ہمہ گیر فکری اور عملی تسلّط کے تحت محض عقائد اور عبادات کے بَل پر اِسلامی نظامِ زندگی پنپ نہیں سکتا، بلکہ خود عقائد اور عبادات کا بھی اپنی جگہ قائم رہ جانا ممکن نہیں ہے۔ اس ہمہ گیر تسلّط کو مٹا کر جب تک اِسلام کا ہمہ گیر تسلّط قائم کرنے کے لیے کام نہ کیا جائے گا، کسی مذہبی حرکت وعمل سے کوئی نتیجہ برآمد نہ ہو سکے گا۔
یہ وہ بنیادی کام تھا جس سے بگاڑ کے اصل اسباب مشخص ہو کر نگاہوں کے سامنے آئے اور ذہنوں میں ایک ایسی تحریک کے لیے آمادگی پیدا ہوئی جس کا مقصد نظامِ زندگی میں اساسی تغیر پیدا کرنا ہو۔
دوسرا دور
۱۹۳۷ء اور ۱۹۳۸ء کے درمیانی زمانے میں ہندوستانی وطن پرستی کی تحریک کو وہ فیصلہ کن فتح حاصل ہوئی جس سے یہ بات قریب قریب یقینی نظر آنے لگی کہ یہ تحریک بالآخر پورے ملک پر مسلّط ہو جائے گی۔ اس دور میں سب سے بڑا خطرہ جو سامنے آیا ہے وہ یہ تھا کہ یہ سیلاب کہیں ہندوستان کے مسلمانوں کو بہا نہ لے جائے اور اس رہے سہے سرمائے کو بھی ختم نہ کر دے جو یہاں اِسلامی نظام زندگی کے احیا کے لیے کام آ سکتا تھا۔ یہ دور جن لوگوں نے پورے شعور کے ساتھ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے انھیں یاد ہو گا کہ اس وقت غیر منظم مسلمان کس بری طرح انڈین نیشنل کانگریس کی کام یابی سے مرعوب اور ہراساں ہو گئے تھے اور ان کے منتشر اجزا کو اپنے اندر جذب کر لینے کے لیے ہندی وطن پرستی کی تحریک نے بظاہر ’’ربطِ عوام‘‘ (Mass Contact) اور بباطن ’’شدھی‘‘ کی جو تحریک اٹھائی تھی وہ اس برعظیم میں اِسلام کے مستقبل کے لیے کیسے سخت خطرات کی حامل تھی۔ ہماری تحریک کے نقطہِ نظر سے اس وقت سب سے مقدم کام یہ تھا کہ اس سرزمین میں جو قوم اِسلام سے اعتقادی، جذباتی اور تاریخی وابستگی رکھتی ہے۔ جسے اِسلامی تہذیب کے احیا واعلا کے لیے استعمال کرنا تمام دوسرے عناصر کی بہ نسبت سب سے زیادہ ممکن اور متوقع ہے اور جس میں سے اس تحریک کے لیے کارکن اور مددگار حاصل ہونے کی سب سے پہلے اور سب سے زیادہ امید کی جا سکتی ہے، اسے وطنی قومیت میں گم ہونے سے روکا جائے اور اِسلامی تہذیب کی حفاظت کا جذبہ اس کے اندر ابھار دیا جائے۔ ’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش‘‘ کے پہلے دونوں حصے اور ’’مسئلہ قومیت‘‘ اسی دور کی پیداوار ہیں۔
ان میں سے پہلی کتاب میں ہندوستان کے مسلمانوں کو متنبہ کیا گیا تھا کہ ۱۸۵۷ء کے انقلاب سے بدرجہا زیادہ شدید انقلاب طوفان کی سی تیزی کے ساتھ تمھارے سروں پر آ رہا ہے اور اب تمھارے لیے زیادہ سے زیادہ دس پندرہ سال کی مہلت ہے۔ پھر اس آنے والے انقلاب کی خصوصیات اور مسلمانوں کی کم زوریوں کا تجزیہ کرکے صاف صاف بتایا گیا تھا کہ ان کم زوریوں کی موجودگی میں اس نوعیت کے انقلاب کی آمد اس سرزمین میں اِسلام کے مستقبل پر کیا اثرات ڈال سکتی ہے۔ اس کے بعد یہ اصولی حقیقتیں ان کے ذہن نشین کی گئی تھیں۔
٭ باطل کی جگہ باطل قائم کرنا مسلمان کا کام نہیں ہے، اس لیے انگریزی قوم کا کافرانہ حکومت کو ہٹا کر’’ہندوستانی قوم‘‘ کی کافرانہ حکومت لے آنا کوئی ایسا پاکیزہ مقصد نہیں ہو سکتا جس کے لیے لڑنا مسلمان کو زیب دیتا ہو۔
٭ ایک کافرانہ نظام کے اندر محض وہ آئینی تحفظات، جن کا سبز باغ سیاسی لوگ تمہیں دکھاتے ہیں، اس سرزمین میں اِسلامی تہذیب کی بقا کے لیے کچھ بھی کام نہیں آ سکتے۔
٭ ہندی قوم پرستی کے سیلاب سے بچنے کے لیے انگریز کی گود میں پناہ لینا اور یہ چاہنا کہ اس سے تمہیں بچانے کے لیے انگریز کا اقتدار یہاں موجود رہے، غلط بھی ہے اور تمھارے لیے شرمناک بھی۔
٭ تمھارے لیے کوئی راستہ ا س کے سوا نہیں ہے کہ خود اپنے اندر زندگی کی طاقت پیدا کرو اور اس طاقت کو صحیح منزلِ مقصود کی طرف بڑھنے کے لیے استعمال کرو۔
٭ مسلمان ہونے کی حیثیت سے جو چیز کم از کم تمھاری مقصود بن سکتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ ملک اگر کلیۃً نہیں تو بڑی حد تک دارالاِسلام بن جائے۔
دوسری کتاب میں اس لادینی جمہوری، قومی ریاست (Secular Democtatic National State) کا جسے انڈین نیشنل کانگریس ہندوستان میں قائم کرنا چاہتی تھی اور جسے مسلمانوں کے بہت سے نادان رہنما آزادی وطن کا نام دے کر مسلمانوں کے لیے بھی آزادی کی تحریک سمجھ رہے تھے، پورا تجزیہ کرکے یہ بتایا گیا تھا کہ اس کا ہر جز بجائے خود کیا معنی رکھتا ہے۔ خاص طور پر برعظیم ہند کے حالات میں ان اصولوں کا انطباق کیا اثرات پید کرسکتا ہے اور عملاً کانگریس کی تحریک جو طریقے اختیار کر رہی ہے انھیں اگر چل جانے دیا جائے تو وہ کس طرح بالآخر اس سرزمین سے اِسلام کے بچے کھچے آثار بھی مٹا کر چھوڑیں گے۔ اس ساری بحث کے بعد مسلمانوں کے سامنے پھر ایک نصب العین رکھا گیا جو پہلی کتاب کی بہ نسبت زیادہ واضح تھا مگر اس کتاب کے مقدمے ہی میں یہ اشارہ کر دیا گیا تھا کہ یہ بھی آخری مقصود نہیں بلکہ اصل مقصود کی طرف صرف ’’’ایک اور قدم‘‘ ہے۔
تیسری کتاب میں قومیّت کے تصوّر سے بحث کی گئی تھی جس نے اس دور میں خصوصیّت کے ساتھ بڑی اہمیت اختیار کر لی تھی۔ انڈین نیشنل کانگریس کی پوری تحریک جس مقصد کے لیے کام کر رہی تھی وہ یہ تھا کہ ہندوستان کے تمام باشندوں کو ایک قوم قرار دے کر لادینی اور جمہوریت کے اصولوں پر اس کی ایک قومی ریاست بنائی جائے۔ بدقسمتی سے مسلمانوں کے بعض بڑے بڑے مذہبی رہنما تک اس کی بنیادی قباحت اور اس کے حقیقی نتائج کو نہیں سمجھ رہے تھے اور مسلمانوں کو اس مقصد کے لیے اس طرح کی قومیت میں جذب ہو جانے کا نہ صرف مشورہ دے رہے تھے، بلکہ یہ بھی ثابت کر رہے تھے کہ اِسلام اس میں مانع نہیں ہے۔ اس کتاب میں ایک طرف ’’قومیت‘‘ کے اس جدید تصور کا اور دوسری طرف ان اصول ومقاصد کا جن پر اِسلام نے امت مسلمہ کی اجتماعیت قائم کی ہے، پورا علمی جائزہ لے کر واضح کیا گیا کہ یہ دونوں چیزیں بالکل ایک دوسرے کی ضد ہیں اور مسلمان کبھی مسلمان رہتے ہوئے نہ مغربی طرز کے نیشلزم کو اختیار کر سکتے ہیں، نہ غیر مسلموں کے ساتھ ایک قومیت بنا کر لادینی جمہوری قومی ریاست بنا سکتے ہیں۔
یہ تینوں کتابیں جماعتِ اِسلامی کی تحریک کے تاریخی ارتقا میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں، کیوں کہ ان کے ذریعہ سے پہلی مرتبہ وقت کے اہم ترین سیاسی واجتماعی مسائل میں براہِ راست دخل دے کر واقعات کی رفتار کو اپنے نصب العین کی طرف موڑنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اگر اس وقت بھی پہلے دور ہی کے طرز پر صرف علمی کام کے ذریعہ سے ذہن بنانے کی کوشش کی جاتی رہتی توشاید آج تک بھی وہ وقت نہ آتا کہ جماعتِ اِسلامی کے نظم میں اس تخیل کے حامیوں کو منسلک کرکے اصل مقصود کی طرف پیش قدمی کرنے کے لیے کوئی منظم تحریک کھڑی ہو سکتی۔ لیکن چوں کہ محدود ذاتی ذرائع ہی سے سہی، وقت کے بھڑکتے ہوئے مسائل میں دخل دیا گیا اور ان میں عوام کو ایک مدلّل اور معقول راہ نُمائی دینے کی کوشش کی گئی، اس لیے اس دعوت کو وسیع پیمانے پر لاکھوں آدمیوں تک پھیلا دینے اور ایک کثیر تعداد کو اس سے متاثر کر دینے کا موقع مل گیا اور اس کا فائدہ صرف یہی نہیں ہوا کہ آیندہ بننے والی جماعتِ اِسلامی کے لیے جو زبردست تحریک اس زمانے میں اٹھی وہ ان کتابوں سے مدد لینے پر مجبور ہو گئی اور اس کی رگ وپے میں وہ خیالات ابتدا ہی میں سرایت کر گئے جن کی وجہ سے آخر کار قیام پاکستان کے بعد مسلم لیگ کی قیادت کے لیے اس نئی ریاست کو لادینی جمہوری ریاست کے راستے پر ڈالنا مشکل ہو گیا۔
اس دور کے کام کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان تین کتابوں کے ساتھ خطبات کا بھی مطالعہ کیا جائے جو اسی دور کی چیز ہے۔ اس کو اور خصوصیت کے ساتھ اس کے آخری دونوں خطبوں کو، جو جہاد کے موضوع پر ہیں، اگر آپ غور سے پڑھیں گے تو آپ کے سامنے یہ بات کھل کر آ جائے گی کہ اس وقت اگرچہ مسلمانوں کی قوتِ ہضم کو ملحوظ رکھتے ہوئے شبہ دارالاسلام اور ریاست اندر ریاست اور تہذیبی خود اختیاری وغیرہ کے ناموں سے کچھ درمیانی نصب العین ایک ہلکی خوراک کے طور پر انھیں دئیے گئے تھے، لیکن اصل مقصود کی طرف انھیں بتدریج دھکیلنے کی کوشش میں اس وقت بھی کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی گئی تھی۔ ’’جہاد‘‘ کے ان دونوں خطبوں میں یہ بات وضاحت کے ساتھ ان کے سامنے رکھ دی گئی تھی کہ
٭ نظامِ حکومت کی اصلاح کے بغیر نہ منکر کو مٹایا جا سکتا ہے نہ اصلاح خلق کی کوئی اسکیم چل
سکتی ہے۔
٭ دین حقیقت میں اپنا غلبہ چاہتا ہے اور عملاً غالب نظامِ زندگی ہی کا نام ’’دین‘‘ ہے۔
٭ غالب نظام جو بھی ہو اس کے تحت مغلوب نظام نہیں چل سکتا۔
٭ اِسلام کا اصل تقاضا یہ ہے کہ وہی پورے نظامِ زندگی پر غالب ہو۔
٭ اور ایمان کی صداقت کا معیار یہ ہے کہ آدمی اس مقصد کے لیے اپنی جان لڑا دے۔
تیسرا دور
اس کے بعد منزل مقصود کی طرف پیش قدمی کا وہ دور شروع ہوا جو ۱۹۳۹ء سے تشکیلِ جماعت (اگست ۴۱ء) تک رہا ہے۔ یہ جماعتِ اِسلامی کی تاریخ کا نہایت اَہم دَور، اس کا دور تاسیس ہے جس میں پوری طرح کھول کر وہ راستہ لوگوں کے سامنے پیش کر دیا گیا جو اصل اِسلامی نصب العین کی طرف جاتا ہے اور تمام دوسرے راستوں سے جن پر لوگ اس وقت دوڑ رہے تھے، اس کا فرق نمایاں کرکے رکھ دیا گیا۔ یہی چیز بالاخر اس کی موجب ہوئی کہ اس سخت ہنگامے کے دور میں ایک گروہ اس راستے پر چلنے کے لیے تیار ہو گیا اور اس امر کے امکانات پیدا ہو گئے کہ نظام زندگی میں اساسی تغیر کے لیے عملاً ایک منظم تحریک شروع ہو جائے۔
اس دَور کے کام کو سمجھنے کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ وہ حالات آپ کی نگاہ میں ہوںجن میں یہ کام کیا گیا تھا۔ ۱۹۲۲ء کے بعد ہندوستان میں ایک ایسا دور شروع ہوا تھا جس میں ایک طرف اس برعظیم کے مسلمان سخت انتشار، پراگندہ خیالی اور زیاں کاری میں مبتلا ہوتے چلے گئے اور دوسری طرف گاندھی جی کی قیادت میں ہندو قوم پرستی روز بروز ایک زبردست طاقت بن کر اس قابل ہوتی چلی گئی کہ انگریزی اقتدار کی جانشین بن سکے۔ دونوں طاقتوں کا یہ فرق یوماً فیوماً بڑھتا چلا جا رہا تھا، یہاں تک کہ پندرہ برس بعد ۱۹۳۷ء میں اس کا یہ نتیجہ ایک بم کی طرح پھٹ کر ظاہر ہوا کہ ہندوستان کے ایک بہت بڑے حصے پر کانگریس کی حکومت قائم ہو گئی۔ اس وقت یہ بات علانیہ نظر آنے لگی کہ انگریزی اقتدار اس کے مقابلے میں زیادہ دیر تک نہیں ٹھیر سکے گا۔ یہ صورت حال دیکھ کر مسلمان سوتے سوتے یکایک ہڑبڑا کر اٹھے اور ان میں ایک نئی قومی تحریک پیدا ہوئی جس نے دو تین سال کے اندر ان کے بہت بڑے حصے کو اپنے دائرے میں سمیٹ لیا۔ یہ تحریک گھبراہٹ میں شروع ہوئی تھی۔ فوری ہیجان کا نتیجہ تھی۔ کسی منظم فکر، کسی واضح مقصد، کسی سوچے سمجھے نقشے کی رہین منت نہ تھی۔ طرح طرح کے متضاد عناصر، متضاد رجحانات اور مقاصد کے ساتھ ساتھ اس میں شامل ہو گئے تھے اور ہوتے چلے جا رہے تھے۔ عام لوگوں کو جو چیز اس کی طرف کھینچ کر لا رہی تھی وہ اِسلام سے ان کی محبت تھی جس کی بنا پر وہ اِسلامی تہذیب کا احیا اور اِسلامی حکومت کا قیام چاہتے تھے۔ لیکن دوسری طرف اس تحریک کی قیادت جس طرز پر کی جا رہی تھی وہ خالص قوم پرستانہ تھا جس میں مشکل ہی سے دینی رجحان کا کوئی شائبہ پایا جاتا تھا ۔ایسی تحریک کے نتیجے میں اس سے زیادہ کچھ ممکن نہ تھا کہ اگر ملک تقسیم ہو (جس کا پرزور مطالبہ ۱۹۳۹ء میں شروع ہو چکا تھا) تو ایک ایسی لادینی جمہوری قومی ریاست قائم ہو جائے جس میں مسلمان عنصر غالب ہوں۔ یعنی وہی ہندوستان کا سا کافرانہ نظام، صرف اس فرق کے ساتھ کہ ایک جگہ کوئی رام پرشاد اس کو چلائے تو دوسری جگہ کوئی عبداللّٰہ اس کا منتظم ہو۔ ان دو رجحانات کے درمیان بہت سے جدید تعلیم یافتہ اور بہت سے دین دار لوگوں کا ایک گروہ ایسا تھا جو یہ استدلال کر رہا تھا کہ اِسلامی حکومت کے قیام کا راستہ یہی ہے کہ پہلے اس قوم پرستانہ تحریک کے ذریعہ سے مسلمانوں کی ایک قومی ریاست چاہے وہ لادینی ہی کیوں نہ ہو، بن جائے، پھر اسے اِسلامی ریاست میں تبدیل کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس دلیل سے عام طور پر لوگ اطمینان کے ساتھ یہ سمجھ رہے تھے کہ واقعی اِسلامی نصب العین کی طرف یہی راستہ جاتا ہے۔
اس کے ساتھ اس زمانے میں مسلمانوں کے اندر ایک اچھا خاصا طاقتور عنصر ان لوگوں کا بھی موجود تھا جو کہتے تھے کہ ہم بھی اِسلامی حکومت ہی کا قیام چاہتے ہیں، مگر اس کا راستہ یہ ہے کہ پہلے ہندوستانی قوم پرستی کی تحریک میں شامل ہو کر انگریزی اقتدار سے آزادی حاصل کرو، پھر آزاد ہندوستان میں اس مقصد کے لیے جدوجہد شروع کرو۔ اس گروہ میں ملک کے نامور اور مقتدر علما کی موجودگی لوگوں کے لیے سخت فریب کا ذریعہ بنی ہوئی تھی۔
ایک اور تحریک بھی اس دور میں بڑے زور شور کے ساتھ چل رہی تھی جو اِسلامی حکومت ہی کو مقصود قرار دیتی تھی، مگر اس تک پہنچنے کے لیے صرف فوجی تنظیم کو کافی سمجھتی تھی۔ مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد اس کی بھی گرویدہ بنی ہوئی تھی۔
ان حالات میں جو کام کیا گیا (اور یاد رکھئے کہ یہ کام بھی صرف ایک شخص کے ذاتی ذرائع کے ساتھ ہو رہا تھا۔ اور مواقع کا حال یہ تھا کہ وقت کی تمام تحریکوں سے اختلاف کرنے کے باعث یہ زمانہ اس کام کے لیے انتہائی ناسازگار تھا) اسے ہم تین بڑے بڑے عنوانات پر تقسیم کر سکتے ہیں:
ایک کام یہ تھا کہ اِسلامی حکومت کے بنیادی نظریّے اور اس کے نمایاں خدوخال کو لوگوں کے سامنے کھول کر رکھا گیا تاکہ وہ اس چیز کی نوعیت اچھی طرح سمجھ لیں جس کی صرف طلب ان کے اندر پیدا ہوئی تھی۔ یہ کام اس زمانے کے متعدد مقالات اور تقریروں میں کیا گیا تھا، جن میں سے ’’جہاد فی سبیل اللّٰہ‘‘ (مئی ۱۹۳۹ء) ’’اِسلام کا نظریہ سیاسی‘‘ (دسمبر ۱۹۳۹ء) اور ’’سلامتی کا راستہ‘‘ (اپریل ۱۹۴۰ء) خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اس سے مقصود یہ تھا کہ اوّل تو لوگ اپنی مطلوب شے کی صحیح نوعیت سمجھ کر اسے حاصل کرنے کے لیے وہ طریقہ اختیار کریں جو فی الواقع اس کے حصول کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ لیکن اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو عام طور پر لوگوں میں اس کی واقفیت اس حد تک پیدا کر دی جائے کہ کوئی قیادت کل کسی وقت کوئی مذہبی کھلونا دے کر انھیں اس دھوکے میں نہ ڈال دے کہ جو کچھ وہ چاہتے تھے وہ انھیں حاصل ہو گیا ہے۔
دوسرا کام یہ تھا کہ تہذیبِ اِسلامی کے احیا کی جو مبہم سی خواہش لوگوں میں اس وقت ابھر آئی تھی، اس کے متعلق انھیں وضاحت کے ساتھ یہ بتایا گیا کہ یہ تہذیب دراصل ہے کیا چیز، اس میں اور دوسری تہذیبوں میں اصولی فرق کیا ہے اور اس کا احیا کس وسعت کے ساتھ، زندگی کے کن گوشوں میں، کس کس نوعیت کی مساعی چاہتا ہے۔ نیز یہ کہ ایک حقیقی اِسلامی نظامِ حکومت کا قیام اس تہذیب کے احیا اور بقا کے لیے کیا اہمیت رکھتا ہے۔ اور اس کے برعکس مسلمانوں کی جاہلی حکومت اس میں کتنی بڑی رکاوٹ ثابت ہوتی ہے۔ اس کام کے نشانات بھی اس دور کے متعدد مضامین اور تقریروں میں آپ کو ملیں گے۔ مگر خاص طور پر ’’تجدید واحیائے دین‘‘ (فروری ۱۹۴۰ء) اور ’’اِسلام اور جاہلیت‘‘ (فروری ۱۹۴۱ء) کا موضوع یہی تھا۔ اور اس سے مقصود یہ تھا کہ سنجیدہ اورمعاملہ فہم لوگ، جو خواہشات سے آگے بڑھ کر عملاً بھی کچھ کرنا چاہتے ہوں، یہ جان لیں کہ اگر واقعی یہی شے انھیں مطلوب ہے تو انھیں اس کے لیے کیا کرنا چاہیے۔
تیسرا کام یہ تھا کہ مسلم قوم پرستی اور اِسلام کا مخلوطہ، جس کی بے شمار صورتوں نے اس وقت ذہنوں میں سخت گھپلا ڈال رکھا تھا، اس کا پورا تجزیہ کرکے یہ حقیقت لوگوں کے سامنے بے نقاب کر دی گئی کہ اِسلامی نظامِ زندگی کا احیا اور قیام فی الواقع کس نوعیت کی تحریک چاہتا ہے اور جو تحریکیں مسلمانوں میں چل رہی ہیں وہ کیوں اس نصب العین تک پہنچنے کا ذریعہ نہیں بن سکتیں۔ یہ کام اس سلسلہ مضامین کے ذریعہ سے کیا گیا جو جولائی ۳۹ء سے ۴۱ء کے آغاز تک مسلسل لکھے گئے تھے اور فروری ۴۱ء میں ’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش‘‘ حصہ سوم کے نام سے شائع ہوئے اور یہی کام اس تقریر میں بھی کیا گیا جو ستمبر ۴۰ء میں ’’اِسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے‘‘ کے عنوان پر علی گڑھ یونی ورسٹی میں کی گئی تھی۔ اس کام کا سب سے زیادہ نمایاں پہلو یہ تھا کہ اس میں ان دو بڑی غلط فہمیوں کو رفع کرنے کی کوشش کی گئی تھی جس میں مسلمان اس وقت شدت کے ساتھ مبتلا تھے۔ کانگریسی وطن پرستی سے بغاوت کرکے وہ ایک نئی جدوجہد کا آغاز کر رہے تھے جس کا مقصد کم از کم عام مسلمانوں کے نزدیک اِسلامی حکومت کا قیام تھا۔ مگر پہلی غلط فہمی جس میں وہ پڑ گئے تھے وہ یہ تھی کہ کیاایک خالص قوم پرستانہ تحریک‘ جو مسلم قومیت سے تعلق رکھنے والے تمام لوگوں کو لے کر اٹھے اور دینی رجحانات ومحرکات کے بغیر محض نیشنلزم کے اصولوں پر چلے، وہ اِسلامی حکومت کے قیام کا ذریعہ بن سکتی ہے؟ اور دوسری غلط فہمی انھیں یہ لاحق تھی کہ پہلے مسلمانوں کی ایک لادینی جمہوری قومی ریاست بن جائے، پھر اسے اِسلامی حکومت کے قیام کا ذریعہ بنا لیا جائیگا۔ اس کے جواب میں انھیں یہ بتایا گیا کہ اگر فی الواقع آپ کا مقصد ایک حقیقی اِسلامی ریاست کا قیام ہے تو اس تک پہنچنے کا راستہ وہ نہیں ہے جو آپ اختیار کر رہے ہیں، بلکہ اس کے لیے ایک دوسری نوعیت کی تحریک درکار ہے جس کی یہ اور یہ خصوصیات ہوں۔ اور یہ کہ مسلمانوں کی ایک بے دین قومی حکومت اگرچہ وہ جمہوری ہی کیوں نہ ہو، اس مقصد کی راہ میں مدد گار ہونے کے بجائے الٹی مزاحم بن جاتی ہے، اس لیے آپ اس مقصد تک پہنچنے کے لیے یہ پھیر کا راستہ اختیار نہ کریں، بلکہ اس راہ سے اس کی طرف بڑھیں جو سیدھی اسی مقصود کی طرف جاتی ہے۔ ’’مسلمان اورموجودہ سیاسی کش مکش‘‘ حصہ سوم کا مضمون ’’اِسلام کی راہِ راست اور اس سے انحراف کی راہیں‘‘ اور ’’اِسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے‘‘ ان دونوں مقالات کا موضوع دراصل یہی تھا اور ان سے مقصود یہ تھا کہ آغاز ہی میں مسلمان جدوجہد کا صحیح رخ اختیار کریں۔
چوتھا دَور
لیکن جیسا کہ آپ سب کو معلوم ہے، وہ تحریک جو اس وقت قوم پرستی کے راستے پر چل پڑی تھی، اسی راستے پر بڑھتی چلی گئی یہاں تک کہ مسلمانوں کا سوادِ اعظم اس میں جذب ہو گیا اور اگست ۱۹۴۱ء میں جب اِسلامی تحریک کے نقشے پر منظم جدوجہد کرنے کے لیے دعوتِ عام دی گئی تو ۳۵ کروڑ انسانوں کی آبادی میں سے صرف ۷۵ آدمی اس کے لیے جمع ہوئے۔
یہاں سے ہماری تحریک کا چوتھا دور شروع ہوتا ہے، جب کہ وہ انفرادی سعی کے مراحل سے گزر کر اجتماعی سعی کے مرحلے میں داخل ہوئی۔ اس وقت سے ۱۹۴۷ء کے انقلاب تک ہم جن حالات میں اپنے نصب العین کے لیے کام کرتے رہے وہ مختصراً یہ تھے۔
ذرائع کے لحاظ سے دیکھیے تو ہماری قوت ۷۵، افراد سے شروع ہوئی اور ۶ سال میں ۶۲۵ افراد تک پہنچی۔ اس کے ساتھ اگر عملی ہم دردوں کو بھی شامل کر لیا جائے تو وہ ڈیڑھ دو ہزار سے زیادہ نہ تھے۔ اور یہ تمام تر غریب یا نیم خوشحال متوسط طبقے کے لوگ تھے۔
مواقع کے لحاظ سے دیکھیے تو اس وقت ملک پر انگریزی حکومت قائم تھی جس کے ہٹنے کے آثار ۱۹۴۶ء تک دور دور بھی کہیں نہ پائے جاتے تھے۔ ملک میں دو زبردست تحریکیں انگریزی اقتدار کی جانشینی کے لیے کش مکش کر رہی تھیں جنھوں نے پوری آبادی کی توجہ کو جذب کر لیا تھا۔ ملک کی تین چوتھائی آبادی اِسلام کی نہ صرف منکر بلکہ اس کے خلاف سخت تعصب میں مبتلا تھی جس میں مسلمانوں سے قومی لڑائی کے باعث روز بروز اضافہ ہو رہا تھا اور اس پر مزید یہ کہ وہ اس وقت قوم پرستی کے نشے میں چور ہو رہی تھی۔ اس لیے یہ ماحول اس کے سامنے اِسلام کو ایک آئیڈیالوجی کی حیثیت سے پیش کرنے کے لیے انتہائی ناسازگار تھا۔ رہا ملک کی آبادی کا بقیہ ۴؍۱ جو اِسلام کا اقرار کرنے والا تھا، تو اس وقت اس پر مسلم قوم پرستی کی تحریک کا پورا غلبہ تھا اور وہ اپنی ساری پونجی ایک قومی ریاست کے قیام کی کوشش میں اس اعتماد پر لگا چکا تھا کہ اسے اِسلامی ریاست میں تبدیل کرنے کا کام بعد میں شروع کیا جائے گا۔
اس کے ساتھ شرعی موانع بھی ہمارے راستے میں حائل تھے، کیوں کہ نظام حکومت خالص لادینی جمہوریت کے اصولوں پر قائم تھا جس میں انقلاب قیادت بواسطہ انتخاب کا دروازہ ہمارے لیے بند تھا۔ اور کسی مسلح انقلاب یا خفیہ تحریک کا راستہ بھی ہم نہ اختیار کر سکتے تھے، کیوں کہ ایک جمہوری وآئینی نظام کی موجودگی میں، جبکہ کھلے بندوں تبلیغ واشاعت کے ذریعہ سے رائے عام کو ہموار کرکے تبدیلی لائی جا سکتی ہو، ان طریقوں کے لیے کوئی شرعی جواز موجود نہ تھا۔
ان حالات میں جس نقشے پر ہم کام کر رہے تھے وہ یہ تھا کہ توسیع دعوت کے جتنے وسائل بھی بہم پہنچیں انھیں استعمال کرکے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ہم خیال بنایا جائے، پھر ان میں سے جو لوگ بھی عملاً اس مقصد کے لیے کام کرنے پر آمادہ ہوں انھیں جمع کرکے اور تربیت دے کر ایک ایسا صالح گروہ منظم کر لیا جائے جو ایک متبادل قیادت کا بار اٹھانے کے لائق ہو سکے۔ اور آگے اس امر کا انتظار کیا جائے کہ اللّٰہ تعالیٰ منزلِ مقصود کی طرف پیش قدمی کے لیے مزید مواقع بہم پہنچائے۔
اس دَور میں سب سے زیادہ جو سوال سوچنے سمجھنے والے طبقے کو پریشان کرتا تھا وہ یہ تھا کہ آخر ایک ایسے ملک میں جہاں ایک منظم غیر اِسلامی ریاست… اور وہ بھی زمانہ ِجدید کی ریاست جس سے بڑھ کر زندگی کے تمام پہلوئوں پر حاوی اور مسلّط ہونے والی ریاستیں کسی سابق دور میں نہ پائی جاتی تھیں… موجود ہے اور غالب آبادی غیر مسلم ہے، وہ انقلاب عملاً کیسے رونما ہو گا جو ہم برپا کرنا چاہتے ہیں؟ فرض کیجئے کہ ہم غالب حصہ آبادی کے خیالات، ذہنیتیں، اَخلاقی معیارات، سب کچھ بدل دینے میں کام یاب ہو جائیں، تب بھی کفر کا اقتدار آپ سے آپ تو ختم نہیں ہو جائے گا۔ اسے بدلنے کے لیے بہرحال کوئی عملی صورت ہی اختیار کرنی ہو گی۔ اب اگر ہم انتخابات کے ذریعہ سے انقلاب قیادت کا راستہ اختیار نہیں کر سکتے، کیوں کہ لادینی ریاست کے اندر انتخابات میں حصہ لینا ہمارے عقیدے کے خلاف ہے، تو کیا ہم مسلح انقلاب برپا کریں گے؟ یا کہیں ہجرت کرکے مدینہ طیبہ کے طرز کی کوئی ریاست قائم کریں گے اور پھر جہاد کرکے اس ملک کو دارالاِسلام بنائیں گے؟ یا پھر کیا پیروانِ مسیح کی طرح ہم دو تین سو برس تک اس انتظار میں تبلیغ واشاعت اور تحمل مصائب وشدائد کا طویل دور گزاریں گے کہ کوئی قسطنطین مسلمان ہو کر خود ہی یہاں اِسلامی حکمت قائم کر دے؟
یہ سوالات اس زمانے میں میرے سامنے بار بار پیش کیے جاتے تھے۔ اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں میں نے ترجمان القرآن میں ایک دفعہ لکھا تھا۔
’’اصولی طریق کار یہی ہے کہ پہلے ہم اپنی دعوت پیش کریں گے۔ پھر ان لوگوں کو جو ہماری دعوت قبول کریں، منظم کرتے جائیں گے۔ پھر اگر رائے عام کی موافقت سے، یا حالات کی تبدیلی سے کسی مرحلے پر ایسے آثار پیدا ہو جائیں کہ موجود الوقت دستوری طریقوں ہی سے نظام حکومت کا ہمارے ہاتھوں میں آ جانا ممکن ہو اور ہمیں توقع ہو کہ ہم سوسائٹی کے اَخلاقی، تمدنی اور سیاسی ومعاشی نظام کو اپنے اصول پر ڈھال سکیں گے تو ہمیں اس موقع سے فائدہ اٹھانے میں کوئی تامل نہ ہو گا۔ اس لیے کہ ہمیں جو کچھ بھی واسطہ ہے اپنے مقصد سے ہے نہ کہ کسی خاص طریقے (Method) سے۔ لیکن اگر پرامن ذرائع سے جو ہر اقتدار (Substance of Power) ملنے کی توقع نہ ہو تو پھر ہم عام دعوت جاری رکھیں گے اور تمام جائز شرعی ذرائع سے انقلاب برپا کرنے کی کوشش کریں گے۔ ‘‘{ FR 7700 }
اس سلسلے میں ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے اسی زمانے میں لکھا گیا تھا ’’الیکشن لڑنا اور اسمبلی میں جانا اگر اس غرض کے لیے ہو کہ ایک غیر اِسلامی دستور کے تحت ایک لادینی (Secular) جمہوری (Democratic) ریاست کے نظام کو چلایا جائے تو یہ ہمارے عقیدہِ توحید اور ہمارے دین کے خلاف ہے۔ لیکن اگر کسی وقت ہم ملک کی رائے عام کو اس حد تک اپنے عقیدہ ومسلک سے متفق پائیں کہ ہمیں یہ توقع ہو کہ عظیم اکثریت کی تائید سے ہم ملک کا دستورِ حکومت تبدیل کر سکیں گے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اس طریقے سے کام نہ لیں۔ جو چیز لڑے بھڑے بغیر سیدھے طریقے سے حاصل ہو سکتی ہو اس کو خواہ مخواہ ٹیڑھی انگلیوں ہی سے نکالنے کا ہم کو شریعت نے حکم نہیں دیا ہے۔ مگر خوب سمجھ لیجیے کہ یہ طریقِ کار ہم صرف اس صورت میں اختیار کریں گے جب کہ
اولاً ملک میں ایسے حالات پیدا ہو چکے ہوں کہ محض رائے عام کا کسی نظام کے لیے ہموار ہو جانا ہی عملاً اس نظام کے قائم ہونے کے لیے کافی ہو سکتا ہو۔
ثانیاً ، ہم اپنی دعوت وتبلیغ سے باشندگانِ ملک کی بہت بڑی اکثریت کو اپنا ہم خیال بنا چکے ہوں اور اِسلامی نظام قائم کرنے کے لیے ملک میں عام تقاضا پیدا ہو چکا ہو۔
ثالثاً، انتخابات غیر اِسلامی دستور کے تحت نہ ہو بلکہ بِنائے انتخاب ہی یہ مسئلہ ہو کہ ملک کا آیندہ نظام کس دستور پر قائم کیا جائے۔‘‘{ FR 7701 }
اس کے ساتھ ایک اور ضروری اقتباس جو ہماری اس دور کی پالیسی کو سمجھنے میں مددگار ہو سکتا ہے۔ ۱۹۴۳ء کی اس تقریر میں ملاحظہ فرمائیے جو اجتماع دربھنگہ میں کی گئی تھی۔ اس میں عرض کیا گیا تھا۔
’’ہمیں عوام میں ایک عمومی تحریک (Mass Movement) چلانے سے پہلے ایسے آدمیوں کو تیار کرنے کی فکر کرنی ہے جو بہترین اِسلامی سیرت کے حامل ہوں اور ایسی اعلیٰ درجے کی دماغی صلاحیتیں بھی رکھتے ہوں کہ تعمیرِ افکار کے ساتھ اجتماعی قیادت کے دہرے فرائض کو سنبھال سکیں، یہی وجہ ہے کہ میں عوام میں تحریک کو پھیلا دینے کے لیے جلدی نہیں کر رہا ہوں بلکہ میری تمام تر کوشش اس وقت یہ ہے کہ ملک کے اہلِ دماغ طبقوں کو متاثر کیا جائے اور انھیں کھنگال کر صالح ترین افراد کو چھانٹ لیا جائے جو آگے چل کر عوام کے لیڈر بھی بن سکیں اور تہذیبی وتمدنی معمار بھی۔ یہ کام چوں کہ ٹھنڈے دل سے کرنے کا ہے اور ایک عمومی تحریک کی طرح فوری ہلچل اس میں نظر نہیں آ سکتی ہے ، اس وجہ سے نہ صرف ہمارے ہم درد وہم خیال لوگ، بلکہ خود ہمارے ارکان تک بددل ہونے لگتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ ارکان جماعت کام کے اس نقشے کو اچھی طرح سمجھ لیں اور اپنی قوتیں بدولی کی نذر کرنے کے بجائے کسی مفید کام میں استعمال کریں۔ یہ اعتراض بجا ہے کہ کثیر تعداد عوام کو اس نقشے کے مطابق بلند سیرت بنانے کے لیے مدت مدید درکار ہے، مگر ہم اپنے انقلابی پروگرام کو عوام کی اصلاح ہو چکنے کے انتظار میں ملتوی کرنا نہیں چاہتے ہمارے پیشِ نظر صرف یہ نقشہ ہے کہ عوام کی سربراہ کاری کے لیے ایک ایسی مختصر جماعت فراہم کر لی جائے جس کا ایک ایک فرد اپنے بلند کریکٹر کی جاذبیت سے ایک ایک علاقے کے عوام کو سنبھال سکے۔ اس کی ذات عوام کا مرجع بن جائے اور بالکل فطری طریقے سے عوام کی لیڈر شپ کا منصب اسے حاصل ہو جائے۔ مگر صرف مرجعیت سے بھی کام نہیں چلتا۔ اس سے کام لینے کے لیے دماغی صلاحیتیں بھی ہونی چاہییں تاکہ ان مرکزی شخصیتوں کے ذریعے سے عوام کی قوتیں مجتمع اور منظم ہو کر اِسلامی انقلاب کی راہ میں صرف ہوں۔ ایک ٹھوس، پائدار اور ہمہ گیر انقلاب کا لازمی ابتدائی مرحلہ یہی ہے۔ اس مرحلے کو صبر سے طے کرنا ہی پڑے گا۔ ورنہ تحریک کی تباہی ناگزیر ہے۔ اگر موجودہ حالات میں عوام کو اکسا دیا جائے جب کہ انھیں سنبھال کر لے چلنے والے مقامی رہنما (Local Leaders) نہیں ہیں، تو عوام بالکل بے راہ روی پر اتر آئیں گے اور اپنے آپ کو نااہل لوگوں کے حوالے کر دیں۔‘‘
اس ساری بحث سے آپ یہ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ اقامت دین کے نصب العین کے ساتھ زمامِ کار کی تبدیلی اور انقلابِ امامت وقیادت توبالکل لازم وملزوم کی طرح آغاز ہی سے اس تحریک کے بنیادی تخیل میں شامل تھی اور اس کے لیے ہر زمانے میں ذرائع اور مواقع اور حالات کے لحاظ سے مسلسل جدوجہد بھی کی جاتی رہی۔ البتہ اس نوعیت کا اقدام، جیسا کہ تقسیم کے بعد پاکستان میں شروع کیا گیا، اس وقت عملاً ممکن نہ تھا، کیوں کہ اس کے لیے نہ ہمارے پاس ذرائع تھے، نہ وقت کے حالات میں اس کا کوئی موقع مل رہا تھا اور نہ شرعی موانع کے باعث ہم ایسا کر ہی سکتے تھے۔
ایک غلط فہمی کی اصلاح
آج بعض لوگ حالات کے سیاق وسباق کو نظر انداز کرکے ’’سیاسی کش مکش‘‘ حصہ سوم اور ’’اِسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے‘‘ کے بعض اقتباسات پیش کرکے ان سے چند بالکل غلط نتائج نکال رہے ہیں، اس لیے میں چاہتا ہوں کہ قبل تقسیم کے حالات کی بحث کے سلسلے ہی میں اس اصل غلط فہمی کو، جس میں وہ مبتلا ہیں، صاف کردوں تاکہ آگے کی بحثوں میں یہ ذہنی الجھن بار بار تنگ نہ کرے۔ یہ دونوں مضامین جن کا وہ حوالہ دیتے ہیں، ۱۹۴۰ء کے لکھے ہوئے ہیں۔ اس وقت بحث یہ نہیں تھی کہ مسلمانوں کی لادینی قومی جمہوری ریاست تو وجود میں آ گئی ہے، اب اسے اِسلامی ریاست وحکومت میں تبدیل کیسے کیا جائے۔ بلکہ یہ بحث تھی کہ ہم داراالکفر میں رہتے ہوئے ایک اِسلامی نظام حکومت قائم کرنے کی جدوجہد کا آغاز کس طرح کریں۔ اس کے لیے ایک گروہ یہ راستہ تجویز کر رہا تھا کہ پہلے ایک قوم پرستانہ تحریک کے ذریعہ سے قوم پرستی ہی کے معروف اور چلتے ہوئے طریقوں پرکام کرکے مسلمانوں کی ایک لادینی ہی سہی، قومی وجمہوری ریاست قائم کر دینی چاہیے، پھر اسے ہم اِسلامی نظامِ حکومت کے قیام کا ذریعہ بنائیں گے اور جمہوری انتخابات کے واسطے سے اس کو اِسلامی ریاست و حکومت میں تبدیل کر لیں گے۔ میرا استدلال اس کے جواب میں یہ تھا کہ:
۱۔ یہ پھیر کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے آپ آغاز ہی میں براہ راست اِسلامی حکومت قائم کرنے کا وہ راستہ کیوں نہ اختیار کریں جو اس مقصد تک پہنچنے کا فطری راستہ ہے۔
۲۔ یہ خیال کرنا صحیح نہیں ہے کہ مسلمانوں کی قومی حکومت کا قیام اِسلامی نظامِ حکومت کے قیام میں مددگار ہو سکتا ہے، یا اس کا مفید ذریعہ بن سکتا ہے۔ بلکہ اس کے برعکس یہ چیز الٹی مانع ومزاحم ہوتی ہے اور بسا اوقات کافروں کی حکومت سے زیادہ کام یاب مزاحمت کرتی ہے۔
۳۔ یہ خیال کرنا بھی صحیح نہیں ہے کہ اس وقت انتخابات کے ذریعہ سے نظامِ حکومت کو تبدیل کرنا نسبتاً کوئی آسان کام ہو گا۔ دراصل اس وقت بھی اصلاح کے لیے وہی سارے پاپڑ بیلنے پڑیں گے جو آج یعنی ۴۰ء میں براہِ راست اِسلامی نظامِ حکومت کے قیام کی کوشش میں بیلنے ہوں گے اور اس وقت بھی اس راہ میں ویسی ہی مزاحمتیں ایک بگڑا ہوا مسلمان برسراقتدار طبقہ کرے گا جیسی آج کفار کر رہے ہیں۔ اس لیے اگر یہ سب کچھ اس وقت بھی پیش آنا ہے تو ہم آج ہی سے وہ اصل کام کیوں نہ شروع کر دیں جس سے دراصل اِسلامی حکومت قائم ہوا کرتی ہے اور اس درمیانی چیز کے قیام میں اپنی قوتیں کیوں صرف کریں جب کہ اسے مددگار نہیں بلکہ مزاحم ہی بننا ہے۔
ان تینوں نکات کو نگاہ میں رکھ کر آپ ’’اِسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے‘‘ اور ’’اِسلام کی راہِ راست اور اس سے انحرا ف کی راہیں‘‘ کا اور بغورمطالعہ کریں تو آپ کے سامنے وہ اصل مسئلہ واضح ہو جائے گا جو اس وقت زیر بحث تھا اور یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ اس وقت میرا موقف کیا تھا۔
خصوصیّت کے ساتھ مقدم الذکر مضمون کی یہ عبارت قابلِ توجہ ہے:
’’حکومت کا نظام اجتماعی زندگی میں بڑی گہری جڑیں رکھتا ہے۔ جب تک اجتماعی زندگی میں تغیر واقع نہ ہو کسی مصنوعی تدبیر سے نظامِ حکومت میں کوئی مستقل تغیر پیدا نہیں کیا جا سکتا… میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ جو قومی اسٹیٹ جمہوری طرز پر تعمیر ہو گا وہ اس بنیادی اصلاح میں آخر کس طرح مددگار ہو سکتا ہے۔ جمہوری حکومت میں اقتدار ان لوگوں کے ہاتھ میں آتا ہے جن کو ووٹروں کی پسندیدگی حاصل ہو۔ ووٹروں میں اگر اِسلامی ذہنیت اور اِسلامی فکر نہیں ہے، اگر وہ صحیح اِسلامی کیریکٹر کے عاشق نہیں ہیں اور اگر وہ اس بے لاگ عدل اور بے لچک اصولوں کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں جن پر اِسلامی حکومت چلائی جاتی ہے، تو ان کے ووٹوں سے کبھی ’’مسلمان‘‘ قسم کے آدمی منتخب ہو کر پارلیمنٹ یا اسمبلی میں نہیں آ سکتے۔ اس ذریعہ سے تو اقتدار انھی لوگوں کو ملے گا جو مردم شماری کے رجسٹر میں چاہے مسلمان ہوں، مگر اپنے نظریات اور طریقِ کار کے اعتبار سے جن کو اِسلام کی ہوا بھی نہ لگی ہو۔ اس قسم کے لوگوں کے ہاتھوں میں اقتدار کے آنے کے معنی یہ ہیں کہ ہم اسی مقام پر کھڑے ہیں جس مقام پر غیر مسلم حکومت میں تھے، بلکہ اس سے بھی بدتر مقام پر، کیوں کہ یہ قومی حکومت، جس پراِسلام کا نمائشی لیبل لگا ہو گا، اِسلامی انقلاب کا راستہ روکنے میں اس سے بھی زیادہ جری اور بے باک ہو گی جتنی غیر مسلم حکومت ہوتی ہے۔ غیر مسلم حکومت جن کاموں پر قید کی سزا دیتی ہے، وہ ’’مسلم قومی حکومت‘‘ ان کی سزا پھانسی اور جلاوطنی کی صورت میں دے گی اور پھر بھی اس حکومت کے لیڈر جیتے جی غازی اور مرنے پر رحمۃ اللّٰہ علیہ ہی رہیں گے۔ پس یہ سمجھنا غلطی ہے کہ اس قسم کی قومی حکومت کسی معنی میں بھی اِسلامی انقلاب لانے میں مددگار ہو سکتی ہے۔ اگر ہم کو اس حکومت میں بھی اجتماعی زندگی کی بنیادیں بدلنے ہی کی کوشش کرنی پڑے گی اور اگر یہ کام حکومت کی مدد کے بغیر بلکہ اس کی مزاحمت کے باوجود اپنی قربانیوں ہی سے کرنا ہو گا، تو ہم آج ہی سے یہ راہِ عمل کیوں نہ اختیار کریں؟‘‘
اسی بات کو موخر الذکر مضمون میں یوں بیان کیا گیا تھا:
’’اس میں شک نہیں کہ عوام کی اَخلاقی وذہنی تربیت کرکے، ان کے نقطہِ نظر کو تبدیل کرکے اور ان کے نفسیات میں انقلاب برپا کرکے ایک جمہوری نظام کو الٰہی حکومت میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس اَخلاقی ونفسیاتی انقلاب کے برپا کرنے میں کیا مسلمانوں کی کافرانہ حکومت کچھ بھی مددگار ہو گی؟ کیا وہ لوگ جو موجودہ بگڑی ہوئی سوسائٹی کے مادی مفاد سے اپیل کرکے اقتدار حاصل کرنے میں کام یاب ہوں گے ان سے آپ یہ امید کر سکتے ہیں کہ وہ حکومت کا روپیہ، اس کے وسائل اور اس کے اختیارات کسی ایسی تحریک کی اعانت میں صرف کریں گے جس کا مقصد عوام کی ذہنیت تبدیل کرنا اور انھیں حکومت الٰہیہ کے لیے تیار کرنا ہو؟ اس کا جواب عقل اور تجربے کی روشنی میں نفی کے سوا کچھ نہیں دیا جا سکتا۔ بلکہ سچ یہ ہے کہ یہ لوگ اس انقلاب میں مدد دینے کے بجائے الٹی اس کی مزاحمت کریں گے۔ کیوں کہ وہ خوب جانتے ہیں کہ اگر عوام کے نفسیات میں تغیر واقع ہو گیا تو اس بدلی ہوئی سوسائٹی میں ان کا چراغ نہ جل سکے گا۔ یہی نہیں بلکہ اس سے زیادہ خوفناک حقیقت یہ ہے کہ نام کے مسلمان ہونے کی وجہ سے یہ لوگ کفار کی بہ نسبت زیادہ جسارت وبے باکی کے ساتھ ایسی ہر کوشش کو کچلیں گے اور ان کے نام ان کے ظلم کی پردہ پوشی کے لیے کافی ہوں گے۔ جب صورت معاملہ یہ ہے تو کیا وہ شخص نادان نہیں ہے جو اِسلامی انقلاب کا نصب العین سامنے رکھ کر ایسی جمہوری حکومت کے قیام کی کوشش کرے جو ہر کافرانہ حکومت سے بڑھ کر اس کے مقصد کی راہ میں حائل ہو گی؟‘‘
اب یہ بات آخر آپ میں سے کسی سے چھپی ہوئی ہے کہ ۴۰ء سے ۴۷ء تک پہنچتے پہنچتے واقعات کی دنیا کسی قدر بدل گئی؟ ۴۰ء میں جو راستہ اِسلامی حکومت قائم کرنے کے لیے میں نے پیش کیا تھا، مسلمانوں نے بحیثیت مجموعی اس کو اختیار نہ کیا۔ وہ اسی ’’درمیانی چیز‘‘ کے لیے کوشاں رہے جسے میں نے پھیر کا راستہ کہا تھا۔ حتی کہ بالآخر وہ لادینی جمہوری قومی ریاست پاکستان قائم ہو گئی جس کے متعلق میں نے یہ کہا تھا کہ وہ اِسلامی نظام حکومت کے قیام میں مددگار ہونے کے بجائے سخت مزاحم ہو گی اور اسے جمہوری طریقوں سے اِسلامی ریاست میں تبدیل کرنا کوئی آسان کام نہ ہو گا۔ یہ سب کچھ پیش آ جانے کے بعد اگر کوئی شخص مجھ سے یہ کہے کہ اس کے پیش آنے سے پہلے جن خطرات کا میں نے ذکر کیا تھا، اب مجھے انھیں دفع کرنے کے بجائے انھیں سچ کر دکھانے کی کوشش کرنی چاہیے تھی تو میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں اس کی معاملہ فہمی کی داد دوں یا سخن فہمی کی۔ بے شک میں نے کہا تھا کہ جاہلیت کے اصول پر مسلمانوں کی قومی ریاست بن جانا اِسلامی حکومت کے قیام کا ذریعہ نہیں ہے اس لیے اس درمیانی چیز کے لیے کوشش کرنے کے بجائے اصل مقصد کے لیے براہ راست کوشش کرو۔ مگر کیا اس کا یہ مطلب تھا، یا اب لینا درست ہے، کہ وہ درمیانی چیز جب قائم ہو جائے تو ہمیں اس کو اِسلام کی راہ میں اتنا ہی اور ویسا ہی سخت مزاحم بن جانے دینا چاہیے جس کا خدشہ ہم نے ظاہر کیا تھا اور اسے اِسلامی نظام کے قیام کا ذریعہ بنانے کی کوشش نہ کرنی چاہیے؟ بے شک میں نے یہ بھی کہا تھا کہ مسلمانوں کی قومی جمہوری ریاست کو اِسلامی ریاست میں بدلنا سخت مشکل کام ہو گا، کیوں کہ عام رائے دہندوں کو گمراہ کرکے نہایت بدکردار لوگ برسر اقتدار آ جائیں گے اور وہ کفار سے بھی زیادہ جسارت کے ساتھ اِسلام کی راہ روکنے کی کوشش کریں گے۔ مگر کیا اس سے یہ استدلال کرنا درست ہے کہ جب اس طرح کی ریاست وجود میں آ جائے تو ہمیں بدکرداروں ہی کے ہاتھ میں اسے چھوڑ دینا چاہیے اور جمہوری طریقوں سے اس کی قیادت تبدیل کرنے کی کوشش کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے؟ بے شک میں نے ۱۹۴۰ء میں اِسلامی حکومت قائم کرنے کے لیے ایک طریق کار پیش کیا تھا، مگر کیا یہ کوئی عقلمندی ہوتی کہ ۴۷ء تک پہنچتے پہنچتے حالات میں جو عظیم تغیر رونما ہو گیا تھا اس کا ہم کوئی نوٹس نہ لیتے اوربدلے ہوئے حالات کوسمجھ کر اپنے ابتدائی طریق کار میں کوئی ردّوبدل نہ کرتے؟ بے شک میں نے اس طریقِ کار کو انبیا کا طریقہ کہا تھا اور آج بھی کہتا ہوں، مگر کسی صاحب ِعقل آدمی سے میں یہ توقع نہیں رکھتا کہ وہ ایک طریقِ کار کے بنیادی اصولوں اور حالات پر ان کے عملی انطباق کی مختلف اشکال کے درمیان فرق نہ کرے گا۔ اس طریقِ کار کے بنیادی اصول ہم نے کبھی نہ بدلے، نہ انھیں بدلنے کے ہم قائل ہیں۔ لیکن جو شخص حالات اور مواقع اور ذرائع کی تبدیلی کے ساتھ ان اصولوں پر عملدرآمد کی شکلیں نہ بدل سکے اس کی مثال میرے نزدیک اس عطائی طبیب کی سی ہے جو کسی حکیم کی بیاض کا ایک نسخہ لے کر بیٹھ جائے اور آنکھیں بند کرکے تمام مریضوں پر اسے جوں کا توں استعمال کرتا چلا جائے۔
۱۹۴۷ء کے انقلاب کا دَور
درحقیقت میں تو اسے اللّٰہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل سمجھتا ہوں کہ جونہی ۴۷ء میں یکایک ہم ایک نئی صورت حال سے دوچار ہوئے، اس نے عین وقت پر ہماری راہ نُمائی فرمائی اور ہمیں اس قابل کر دیا کہ حالات کا صحیح اندازہ کرکے‘ اور جس رخ پر وہ جا رہے تھے انھیں ٹھیک سمجھ کر اپنی تحریک کے لیے ایک نئی پالیسی بنا سکیں۔ تقسیمِ ملک کی اسکیم سامنے آتے ہی اس کے نتائج بالکل اس طرح ہمارے سامنے آ گئے جیسے ریاضی کے کسی سوال کا جواب ہوتا ہے۔ ہم نے فورًا یہ سمجھ لیا کہ اب ہندوستان اور پاکستان میں ایک طریق کار کسی طرح نہیں چل سکتا۔ ہمیں یہ سمجھنے میں بھی ایک لمحہ کی دیر نہ لگی کہ ہندوستان میں اِسلام اور مسلمانوں کو اس سے بھی بدرجہا زیادہ سخت حالات سے سابقہ پیش آنے والا ہے جن کا اندیشہ ۳۷ء اور ۳۸ء میں ’’سیاسی کش مکش‘‘ حصہ اوّل ودوم میں ظاہر کیا گیا تھا اور پاکستان میں وہ صورت حال پوری شدت کے ساتھ سامنے آنے والی ہے جس کی طرف ۳۹ء اور ۴۰ء میں ’’سیاسی کش مکش‘‘ حصہ سوم میں کھلے کھلے اشارات کیے جا چکے تھے۔ ہم کو خدا کے فضل سے یہ رائے قائم کرنے میں بھی کوئی مشکل پیش نہ آئی کہ ان دونوں ملکوں میں اس تحریک کے طریقِ کار کو کس طرح نئے حالات کے مطابق ڈھالا جائے۔
اس چیز کو سمجھنے کے لیے آپ ایک طرف روداد جماعت حصہ پنجم میں امیرِ جماعت کی وہ تقریر بغور پڑھیں جو اپریل ۱۹۴۷ء کے اجتماع مدرا س میں کی گئی تھی اور دوسری طرف مئی ۱۹۴۷ء کے اجتماع دارالاسلام کی وہ تقریر ملاحظہ فرمائیں جو ’’جماعتِ اِسلامی کی دعوت‘‘ کے نام سے شائع ہوئی ہے۔ پہلی تقریر میں پوری وضاحت کے ساتھ بتایا گیا ہے کہ ہندوستان میں مسلم اقلیت کا مستقبل کیا ہے{ FR 7702 } اور ان کے مقابلے میں ہندو اکثریت کس مستقبل سے دوچار ہونے والی ہے{ FR 7703 }۔ ان حالات میں اِسلام کے لیے کام کرنے کی راہ کیسے کھلے گی{ FR 7704 }۔ دوسری تقریر اس کے برعکس بالکل ہی ایک دوسرے انداز کی ہے جس کے موضوع اورمضمون کو پہلی تقریر سے بجز مقصد کی یگانگت کے اور کوئی مناسبت نہیں ہے اس میں وضاحت کے ساتھ یہ بتایا گیا ہے کہ ہندوستان کے جس حصے میں مسلم اکثریت حکمراں ہونے والی ہے اس میں ہم کن اصولوں پر ایک نیا نظام قائم کرنے کی کوشش کریں گے۔
دونوں تقریروں کا متقابل مطالعہ آپ پر یہ بات اچھی طرح واضح کر دے گا کہ ایک تحریک جو برسوں تک ایک مقصد کے لیے ایک طریقِ کار پر چلتی رہی تھی، اس کے لیے دو نئے ملک بنتے ہی آیندہ پیش آنے والے حالات کا بروقت اندازہ کرکے کس طرح دونوں ملکوں میں کام کے دو مختلف پروگرام تجویز کیے گئے، حالانکہ مقصد وہی ایک رہا، یعنی نظامِ جاہلیت کو ہٹا کر اِسلامی نظامِ زندگی کو غالب کرنا اور طریقِ کار کے بنیادی اصول بھی جوں کے توں رہے، یعنی دعوت، تنظیم اور توسیع نفوذ کے ذریعہ سے جاہلی قیادت کے مقابلے میں ایک اِسلامی قیادت کو ابھارنا اور پھر جو ذرائع ومواقع بھی بہم پہنچیں انھیں استعمال کرکے حصولِ مقصد کی جدوجہد کرنا۔
……٭٭٭…