مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ
حمد وثنا کے بعد
محترم رفقا…!
جماعتِ اِسلامی کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ ہم ایک قرار داد کی صورت میں ان خطوط کی وضاحت کر رہے ہیں جن پر ہمیں اپنی تحریک کو آگے چلانا ہے۔ اس سے پہلے پندرہ سال تک معمول یہ رہا ہے کہ اجتماعات کے موقع پر اس تحریک کے مقصد، لائحہِ عمل اور طریقِ کار کی وضاحت امیرِ جماعت اپنی تقریروں میں کرتا تھا اور وہی تقریریں جماعت کے لٹریچر میں شامل ہو کر تحریک کے لیے راہ نُمائی کا کام کرتی تھیں۔ اب اس پرانے معمول سے ہٹ کر ایک قرار داد کی صورت میں یہ چیز پیش کرنے اور متبادل تجویزوں اور ترمیموں کا موقع دینے کی ضرورت اس لیے محسوس کی گئی ہے کہ جماعت پوری بصیرت کے ساتھ اپنی پالیسی اور آیندہ طریقِ کار کا فیصلہ کرے اور جتنے ممکن راستے اس کے سامنے رکھے جائیں، انھیں اچھی طرح جانچنے اور پرکھنے کے بعد پورے اطمینان کے ساتھ ایک راستہ اختیار کرے۔
اسی ضرورت کی بنا پر میں اس قرار داد کی توضیح وتشریح میں غیر معمولی طور پر ایک مفصّل تقریر کر رہا ہوں۔ یہ تفصیل نہ صرف اس لیے ضروری ہے کہ ارکانِ جماعت قرار داد کے ہر پہلو کو خوب سمجھ کر علیٰ وجہ البصیرت اس کے بارے میں فیصلہ کر سکیں، بلکہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس وقت ارکان میں تین چوتھائی سے زیادہ تعداد ایسے رفقا کی ہے جو بیچ کے مراحل میں ہمارے ہم سفر ہوئے ہیں اور اس تحریک کا تدریجی ارتقا پوری طرح ان کے سامنے نہیں ہے۔ انھیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ اب تک ہم کن مراحل سے گزرتے ہوئے آ رہے ہیں، ہر مرحلے میں کن حالات سے دوچار ہوتے رہے ہیں‘ ان حالات میں ہم نے کیا قدم اٹھائے ہیں اور کیوں اٹھائے ہیں اور اب ہم جس مقام پر کھڑے ہیں یہاں سے آگے بڑھنے کے لیے ہم کو کس طرح اپنا راستہ نکالنا ہے اور کن امور کوملحوظ رکھ کر کام کرنا ہے۔
قرارداد کے دس بنیادی نکات
اس غرض کے لیے زیر بحث قرار داد کا مدعا واضح کرنے کی خاطر یہ مناسب ہو گا کہ پہلے میں اس کا تجزیہ کرکے بتا دوں کہ یہ کن نکات پر مشتمل ہے، پھر ہر نکتے کی تشریح کرتے ہوئے اس کی صحت بھی ثابت کروں اور یہ بھی دکھائوں کہ دوسرے نکات کے ساتھ اس کا ربط کیا ہے۔
یہ قرارداد دراصل دس نکات پر مشتمل ہے:
اوّل یہ کہ جس نصب العین کے لیے یہ جماعت قائم ہوئی تھی اور جن اصولوں کی پابندی کا اس نے عہد کیا تھا، آج تک وہ اسی نصب العین کی طرف، انھی اصولوں کی پابندی میں بڑھتی چلی آ رہی ہے۔
دوم یہ کہ نومبر ۱۹۵۱ء میں اجتماعِ کراچی کے موقع پر اس تحریک کا جو لائحہِ عمل پیش کیا گیا تھا وہ بالکل صحیح توازن کے ساتھ، مقصد ِتحریک کے تمام نظری اور عملی تقاضوں کو پورا کرتا ہے اور وہی آیندہ بھی اس کا لائحہ عمل رہنا چاہیے۔
سوم یہ کہ اس لائحہِ عمل کے پہلے تین اجزا کوئی نئی چیز نہیں ہیں بلکہ اس تحریک کے یومِ آغاز ہی سے وہ اس کے لائحہِ عمل کے اجزائِ لازم رہے ہیں۔
چہارم یہ کہ ان تینوں اجزا کے لیے اس وقت وہ پروگرام موزوں اور کافی ہے جو اس قرارداد کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے۔
پنجم یہ کہ اس لائحہ عمل کا چوتھا جز بھی ابتدا ہی سے جماعتِ اِسلامی کے بنیادی مقاصد میں شامل تھا، اس کے نصب العین کا لازمی تقاضا تھا اور اس کے لیے تقسیم ہند سے پہلے کوئی عملی اقدام نہ کرنا محض مواقع اور ذرائع کے فقدان اور شرعی موانع کے سبب سے تھا۔
ششم یہ کہ قیامِ پاکستان کے بعد مواقع اور ذرائع بھی بہم پہنچ گئے اور شرعی موانع کو دور کرنے کے امکانات بھی پیدا ہو گئے ہیں، اس لیے جماعت نے بالکل صحیح وقت پر اپنے عملی پروگرام میں اس جز کو شامل کر لیا۔
ہفتم یہ کہ دس سال کی جدوجہد سے جو نتائج حاصل ہوئے ہیں وہ اس لائحہ عمل میں کسی ردّوبدل کے متقاضی نہیں ہیں بلکہ صرف یہ تقاضا کرتے ہیں کہ اس کے چاروں اجزا پر صحیح توازن کے ساتھ یکساں کام کیا جائے۔
ہشتم یہ کہ اس لائحہ عمل پر کام کرنے میں توازن تو یقیناً مطلوب ہے مگر عدم توازن کو کسی وقت بھی اس کے کسی جز کے ساقط یا معطل یا مؤخر کرنے کے لیے دلیل نہیں بنایا جا سکتا۔
نہم یہ کہ ہم انتخابات سے بے تعلق بہرحال نہیں رہ سکتے، خواہ ان میں بالواسطہ حصہ لیں یا بلاواسطہ، یا دونوں طرح۔
دہم یہ کہ اس معاملے کو مجلسِ شُورٰی پر چھوڑ دینا چاہیے کہ وہ ہر انتخاب کے موقع پر یہ فیصلہ کرے کہ ہم ان تینوں طریقوں میں سے کس طریقے پر انتخابات میں حصہ لیں۔
اب میں سلسلہ وار ان نکات میں سے ایک ایک پر کلام کروں گا۔