Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
قرار داد
ضمیمہ
تقریر
نکتۂ اوّل
نکتۂ دوم
نکتۂ سوم
نکتۂ چہارم
نکتۂ پنجم
نکتۂششم
نکتۂ ہفتم
نکتۂ ہشتم
نکتۂ نہم ودہم

تحریک اسلامی کا آئندہ لائحہ عمل

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

قرار داد

جماعتِ اسلامی پاکستان اس امر پر اللّٰہ تعالیٰ کا شکر بجا لاتی ہے کہ اب سے پندرہ سال قبل جس نصب العین کو سامنے رکھ کر اور جن اصولوں کی پابندی کا عہد کرکے اس نے سفر کا آغاز کیا تھا، آج تک وہ اسی منزلِ مقصود کی طرف انھی اصولوں کی پابندی کرتے ہوئے بڑھتی چلی آ رہی ہے۔ اس طویل اور کٹھن سفر کے دوران میں اگر اس سے اقامتِ دین کے مقصد کی کوئی خدمت بن آئی ہے تو وہ سراسر اللّٰہ کا فضل ہے جس پر وہ اپنے رب کا شکر ادا کرتی ہے اور اگر کچھ کوتاہیاں اور لغزشیں سرزد ہوئی ہیں تو وہ اس کے اپنے ہی قصورکا نتیجہ ہیں جن پر وہ اپنے مالک سے عفو درگزر اورمزید ہدایت وتوفیق کی دعا کرتی ہے۔
جماعتِ اِسلامی اس بات پر مطمئن ہے کہ تحریکِ اِسلامی کا جو لائحہ عمل نومبر ۱۹۵۱ء میں ارکان کے اجتماع عام منعقدہ کراچی میں امیرِ جماعت نے مجلسِ شُورٰی کے مشورے سے پیش کیا تھا اور وہ بالکل صحیح توازن کے ساتھ مقصدِ تحریک کے تمام نظری اور عملی تقاضوں کو پورا کرتا ہے‘ اور وہی آیندہ بھی اس تحریک کا لائحہ عمل رہنا چاہیے۔
اس لائحہ عمل کے پہلے تین اجزا (یعنی تطہیرِ افکار وتعمیرِ افکار، صالح افراد کی تلاش وتنظیم وتربیت اور اجتماعی اصلاح کی سعی) توجماعتِ اِسلامی کی تشکیل کے پہلے ہی دن سے اس کے لائحہ عمل کے اجزائے لازم رہے ہیں، البتہ انھیں عمل میں لانے کی صورتیں حالات وضروریات کے لحاظ سے اور جماعت کے وسائل وذرائع کے مطابق بدلتی رہی ہیں۔ ان کے بارے میں جماعت اب یہ طے کرتی ہے کہ آیندہ کوئی دوسرا جماعتی فیصلہ ہونے تک ان تینوں اجزا کو اس پروگرام کے مطابق عملی جامہ پہنایا جائے، جو اس قرار داد کے ساتھ بطور ضمیمہ شامل کیا جا رہا ہے۔ نیز جماعت کا یہ اجتماع عام مجلس شوریٰ اور تمام حلقوں، اضلاع اور مقامات کی جماعتوں کو ہدایت کرتا ہے کہ وہ اس پروگرام پر اس حد تک زور دیں کہ لائحہِ عمل کے چوتھے جزو کے ساتھ جماعت کے کام کا ٹھیک توازن قائم ہو جائے اور قائم رہے۔
اس لائحہِ عمل کا چوتھا جز، جو نظام حکومت کی اصلاح سے متعلق ہے، دَرحقیقت وہ بھی ابتدا ہی سے جماعتِ اِسلامی کے بنیادی مقاصد میں شامل تھا۔ جماعت نے ہمیشہ اس سوال کو زندگی کے عملی مسائل میں سب سے اہم اور فیصلہ کن سوال سمجھا ہے کہ معاملاتِ زندگی کی زمامِ کار صالحین کے ہاتھ میں ہے یا فاسقین کے ہاتھ میں اور حیات دنیا میں امامت وراہ نُمائی کا مقام خدا کے مطیع فرمان بندوں کو حاصل ہے یا اس کی اطاعت سے آزاد رہنے والوں کو۔ جماعت کا نقطہ نظر ابتدا سے یہ ہے کہ اقامتِ دین کا مقصد اس وقت تک پورا نہیں ہو سکتا جب تک اقتدار کی کنجیوں پر دین کا تسلّط قائم نہ ہو جائے۔ اور جماعت ابتدا ہی سے یہ حقیقت بھی پیشِ نظر رکھتی ہے کہ دین کا یہ تسلّط یک لخت کبھی قائم نہیں ہو سکتا۔ بلکہ یہ ایک تدریجی عمل ہے جو غیر دینی نظام کے مقابلے میں دینی نظام چاہنے والوں کی پیہم کش مکش اور درجہ بدرجہ پیش قدمی سے ہی مکمل ہوا کرتا ہے۔ جماعتِ اِسلامی نے اس مقصد کے لیے تقسیمِ ہند سے پہلے اگر عملاً کوئی اقدام نہیں کیا تھا تو اس کی وجہ مواقع کا فقدان اور ذرائع کی کمی بھی تھی اور یہ وجہ بھی تھی کہ اس وقت کے نظام میں اس مقصد کے لیے کام کرنے میں بعض شرعی موانع تھے۔ قیام پاکستان کے بعد جب اللہ تعالیٰ نے مواقع اور ذرائع دونوں فراہم کر دیے اور شرعی موانع کو دور کرنے کے امکانات بھی پیدا کر دئیے توجماعت نے اپنے لائحہ عمل میں اس چوتھے جز کو بھی، جو اس کے نصب العین کا ایک لازمی تقاضا تھا، شامل کر لیا۔ اس میدان میں دس سال کی جدوجہد کے بعد اب غیر دینی نظام کی حامی طاقتوں کے مقابلے میں دینی نظام کے حامیوں کی پیش قدمی ایک اہم مرحلے تک پہنچ چکی ہے۔ ملک کے دستور میں دینی نظام کے بنیادی اصول منوائے جا چکے ہیں۔ اور ان منوائے ہوئے اصولوں کو ملک کے نظام میں عملاً نافذ کرانے کا انحصار اب قیادت کی تبدیلی پر ہے۔ اس موقع پر ایک صالح قیادت بروئے کار لانے کے لیے صحیح طریق کار یہ ہے کہ اس لائحہ عمل کے چاروں اجزا پر توازن کے ساتھ اس طرح کام کرتے ہوئے آگے بڑھا جائے کہ ہر جز کا کام دوسرے جز کے لیے موجبِ تقویت ہو اور جتنا کام پہلے تین اجزا میں ہوتا جائے، اسی نسبت سے ملک کے سیاسی نظام میں دینی نظام کے حامیوں کا نفوذ واثر عملاً بڑھتا چلا جائے۔ مگر یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ توازن قائم نہ رہنے کو کسی وقت بھی اس لائحہ عمل کے کسی جز کو ساقط یا معطل یا موخر کر دینے کے لیے دلیل نہ بنایا جا سکے گا۔
علاوہ بریں چوں کہ جماعتِ اِسلامی اپنے دستور کی رو سے اپنے پیشِ نظر اصلاح وانقلاب کے لیے جمہوری وآئینی طریقوں پر کام کرنے کی پابند ہے اور پاکستان میں اس اصلاح وانقلاب کے عملاً رونما ہونے کا ایک ہی آئینی راستہ ہے اور وہ ہے انتخابات کا راستہ، اس لیے جماعتِ اِسلامی ملک کے انتخابات سے بے تعلق تو بہرحال نہیں رہ سکتی۔ خواہ وہ ان میں بلاواسطہ حصہ لے یا بالواسطہ یا دونوں طرح۔ رہا یہ امر کہ انتخابات میں کس وقت ان تینوں طریقوں میں سے کس طریقے سے حصہ لیا جائے، اس کو جماعت اپنی مجلسِ شُورٰی پر چھوڑتی ہے تاکہ وہ ہر انتخاب کے موقع پر حالات کا جائزہ لے کر اس کا فیصلہ کرے۔

شیئر کریں