یہاں تک جو استدلال میں نے کیا ہے وہ تو ہمیں محض اس حد تک پہنچاتا ہے کہ ہماری فلاح کے لیے قرآن کے اس دعوے کو قبول کیے بغیر کوئی چارۂ کار نہیں ہے۔ یعنی بالفاظ دیگر’’کافرنتوانی شُد، ناچار مسلمان شو‘‘ لیکن قرآن اپنے دعوے کی تائید میں جو دلائل پیش کرتا ہے وہ اس سے بہت زیادہ اعلیٰ واشرف ہیں، کیوں کہ وہ ہمیں بادلِ نخواستہ مسلمان ہونے کے بجائے برضا ورغبت مسلمان ہونے پر آمادہ کرتے ہیں۔ اس کی بہت سی دلیلوں میں سے چار سب سے زیادہ پُرزور ہیں اور انھی کو اُس نے بار بار بَہ تکرار پیش کیا ہے۔
(۱) انسان کے لیے اِسلام ہی ایک صحیح طریقِ زندگی ہے اس لیے کہ یہی حقیقت نفس الامری کے مطابق ہے اور اس کے سوا ہر دوسرا رویّہ خلافِ حقیقت ہے:
اَفَغَيْرَ دِيْنِ اللہِ يَبْغُوْنَ وَلَہٗٓ اَسْلَمَ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعًا وَّكَرْھًا وَّاِلَيْہِ يُرْجَعُوْنَo آل عمران 83:3
’’کیا یہ لوگ اللہ کے دین کے سوا کوئی اور دین چاہتے ہیں۔ حالانکہ وہ سب چیزیں جو آسمانوںمیں ہیں اور جو زمین میں ہیں چار وناچار اسی کے آگے سر تسلیم خم کیے ہوئے ہیں اور اُسی کی طرف انھیں پلٹ کر جانا ہے۔‘‘
(۲) انسان کے لیے یہی ایک صحیح طریقِ زندگی ہے، کیوں کہ یہی حق ہے اور ازروئے انصاف اس کے سوا کوئی دوسرا رویّہ صحیح نہیں ہو سکتا۔
اِنَّ رَبَّكُمُ اللہُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِيْ سِـتَّۃِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ۰ۣ يُغْشِي الَّيْلَ النَّہَارَ يَطْلُبُہٗ حَثِيْثًا۰ۙ وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍؚبِاَمْرِہٖ۰ۭ اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ۰ۭ تَبٰرَكَ اللہُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَo الاعراف 54:7
حقیقت میں تمھارا رب (مالک وفرماں روا) تو اللّٰہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں ( یا دَوروں) میں پیدا کیا۔ پھر اپنے تختِ سلطنت پر جلوہ گر ہوا، جو دن کو رات کا لباس اڑھاتا ہے اور پھر رات کے تعاقب میں دن تیزی کے ساتھ دوڑاتا ہے۔ سورج اور چاند تارے سب کے سب جس کے تابع فرمان ہیں۔ سنو! خلق بھی اُسی کی ہے اور امر بھی اُسی کا۔ بڑا برکت والا ہے وہ کائنات کا ربّ۔
(۳) انسان کے لیے یہی رویّہ صحیح ہے، کیوں کہ تمام حقیقتوں کا صحیح علم صرف خدا ہی کو ہے اور بے خطا ہدایت وہی کر سکتا ہے۔
اِنَّ اللہَ لَا يَخْفٰى عَلَيْہِ شَيْءٌ فِي الْاَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاۗءِo آل عمران 5:3
درحقیقت اللّٰہ سے نہ زمین کی کوئی چیز چھپی ہوئی ہے اور نہ آسمان کی۔
يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْہِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ۰ۚ وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِہٖٓ اِلَّا بِمَا شَاۗءَ۰ۚ البقرہ 255:2
جو کچھ لوگوں کے سامنے ہے اُسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ ان سے اوجھل ہے وہ بھی اس کے علم میں ہے، اور لوگ اس کی معلومات میں سے کسی چیز پر حاوی نہیں ہو سکتے، بجز ان چیزوں کے جن کا علم وہ خود اُنھیں دینا چاہے۔
قُلْ اِنَّ ہُدَى اللہِ ہُوَالْہُدٰي۰ۭ الانعام 71:6
اے پیغمبر کہہ دو کہ اصلی ہدایت صرف خدا ہی کی ہدایت ہے۔
(۴) انسان کے لیے یہی ایک راہِ راست ہے، کیوں کہ اُس کے بغیر عدل ممکن نہیں۔ اس کے سوا جس راہ پر بھی انسان چلے گا وہ بالآخر ظلم ہی کی طرف جائے گی۔
وَمَنْ يَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللہِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہٗ۰ۭ الطلاق 1:65
جو اللہ کی مقرر کردہ حدوںسے تجاوز کرے اس نے اپنے اوپر آپ ظلم کیا۔
وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَo المائدہ 45:5
جو اللہ کی نازل کردہ ہدایت کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہی ظالم ہیں۔
یہ دلائل ہیں جن کی بِنا پر معقول انسان کے لیے لازم ہے کہ وہ اللہ کے آگے سرِتسلیم خم کر دے اور ہدایت کے لیے اُسی کی طرف رجوع کرے۔