اس تصویر کے بالکل برعکس قرآن ہمارے سامنے صورتِ حال کا ایک دوسرا نقشہ پیش کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ خدا محض پیدا ہی کر دینے والا نہیں ہے بلکہ راہ نمائی کرنے والا بھی ہے۔ اس نے موجوداتِ عالم میں سے ہر چیز کو وہ ہدایت بخشی ہے جو اس کی فطرت کے لحاظ سے اس کے لیے ضروری ہے: الَّذِيْٓ اَعْطٰي كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَہٗ ثُمَّ ہَدٰىo طٰہٰ 50:20 اگر اس کا ثبوت چاہو تو جس چیونٹی، جس مکھی، جس مکڑی کو چاہو پکڑ کر دیکھ لو۔ جو خدا ان مخلوقات کی راہ نمائی کر رہا ہے وہی خدا انسان کی بھی راہ نمائی کرنے والا ہے۔ لہٰذا انسان کے لیے صحیح طریقِ کار یہ ہے کہ خود سَری چھوڑ کر اُس کے آگے سرِ تسلیم خم کر دے اور جس جامع اورمکمل نظامِ زندگی یا ’’الدّین‘‘ کی ہدایت اس نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے سے بھیجی ہے، اس کی پیروی اختیار کر لے۔
دیکھیے! ایک طرف تو وہ نتیجہ ہے جو انسان کی قوتوں اور اس کے ذرائع کا بے لاگ جائزہ لینے سے ہم کو حاصل ہوتا ہے، اور دوسری طرف قرآن کا یہ دعوٰی ہے۔ ہمارے لیے اس کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں کہ یا تو اس دعوے کو قبول کریں، یا پھر اپنے آپ کو مایوسی اور اُس مایوسی کے حوالے کر دیں جس کے اندھیرے میں کہیں برائے نام بھی امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی۔ دراصل صورتِ حال یہ ہے ہی نہیں کہ ’’الدین‘‘ حاصل ہونے کے دو وسیلے موجود ہوں، اور سوال یہ ہو کہ ہم ان میں سے کس وسیلے سے مدد لیں۔ اصلی صورتِ حال یہ ہے کہ ’’الدین‘‘ جس وسیلے سے ہمیں مل سکتا ہے وہ صرف ایک ہے اور انتخاب کا سوال صرف اس امر میں ہے کہ آیا ہم اس تنہا وسیلے سے مدد لیں یا اس کی دست گیری کا فائدہ اٹھانے کے بجائے تاریکی میں بھٹکتے پھرنے کو ترجیح دیں۔