اس کے مقابلے میں وہ چیزیں بھی، جن کی بدولت انسانی زندگی بنتی اور سنورتی ہے، چار ہی عنوانات کے تحت تقسیم ہوتی ہے:
۱۔ خدا کا خوف، جو آدمی کو بُرائیوں سے روکنے اور سیدھا چلانے کے لیے ایک ہی قابلِ اعتماد ضمانت ہے۔ راست بازی، انصاف، امانت، حق شناسی، ضبطِ نفس اور وہ تمام دُوسری خوبیاں جن پر ایک پُر امن اور ترقی پذیر تمدن و تہذیب کی پیدائش کا انحصار ہے، اسی ایک تخم سے پیدا ہوتی ہیں۔ اگرچہ بعض دوسرے عقیدوں کے ذریعے سے بھی، کسی نہ کسی حد تک انھیں پیدا کیا جا سکتا ہے، جس طرح مغربی قوموں نے، کچھ نہ کچھ اپنے اندر پیدا کیا ہے۔ لیکن ان ذرائع سے پیدا کی ہوئی خوبیوں کا نشوونما، بس ایک حد پر جا کر رُک جاتا ہے اور اس حد میں بھی ان کی بنیاد متزلزل رہتی ہے۔ صرف خدا ترسی ہی وہ پائدار بنیاد ہے جس پر انسان کے اندر، بُرائی سے رُکنے اور بھلائی پر چلنے کی صفت مضبوطی کے ساتھ قائم ہوتی ہے اور محدود پیمانے پر نہیں، بلکہ نہایت وسیع پیمانے پر، تمام انسانی معاملات میں اپنا اثر دکھاتی ہے۔
۲۔ خدائی ہدایت کی پیروی، جو انسان کے شخصی، اجتماعی، قومی اور بین الاقوامی رویے کو اخلاق کے مستقل اُصولوں کا پابند کرنے کی ایک ہی صورت ہے۔ جب تک انسان اپنے اخلاقی اصولوں کا خود واضع اور منصف رہتا ہے، اس کے پاس باتیں بنانے کے لیے کچھ اور اُصول ہوتے ہیں اور عمل میں لانے کے لیے کچھ اور۔ کتابوں میں آبِ زر سے وہ ایک قسم کے اصول لکھتا ہے اور معاملات میں اپنے مطلب کے مطابق، بالکل دوسری ہی قسم کے اصول برتتا ہے۔ دوسروں سے مطالبہ کرتے وقت کچھ موقع اور مصلحت اور خواہش اور ضرورت کے دبائو سے، اُس کے اصول ہر آن بدلتے ہیں۔ وہ اخلاق کا اصل محور ’’حق‘‘ کو نہیں بلکہ ’’اپنے مفاد‘‘ کو بناتا ہے۔ وہ اس بات کو مانتا ہی نہیں کہ اس کے عمل کو حق کے مطابق ڈھلنا چاہیے۔ اس کے بجائے وہ چاہتا ہے کہ حق اس کے مفاد کے مطابق ڈھلے۔ یہی وہ چیز ہے جس کی بدولت افراد سے لے کر قوموں تک سب کا رویہ غلط ہو جاتا ہے اور اسی سے دُنیا میں فساد پھیلتا ہے۔
اس کے برعکس جو چیز انسان کو امن، خوش حالی اور فلاح و سعادت بخش سکتی ہے، وہ یہ ہے کہ اخلاق کے کچھ ایسے اصول ہوں جو کسی کے مفاد کے لحاظ سے نہیں، بلکہ حق کے لحاظ سے بنے ہوئے ہوں اور انھیں اٹل مان کر، تمام معاملات میں ان کی پابندی کی جائے، خواہ وہ معاملات شخصی ہوں، یا قومی، خواہ وہ تجارت سے تعلق رکھتے ہوں، یا سیاست اور صلح و جنگ سے۔ ظاہر ہے کہ ایسے اصول صرف خدائی ہدایت ہی میں ہمیں مل سکتے ہیں، اور ان پر عمل درآمد کی صرف یہی ایک صورت ہے کہ انسان، ان کے اندر ردّ و بدل کے اختیار سے دست بردار ہو کر، انھیں واجب الاتباع تسلیم کر لے۔
۳۔ نظامِ انسانیت، جو شخصی، قومی، نسلی اور طبقاتی خودغرضیوں کے بجائے، تمام انسانوں کے مساوی مرتبے اور مساوی حقوق پر مبنی ہو، جس میں بے جا امتیازات نہ ہوں جس میں اُونچ نیچ، چُھوت چھات اور مصنوعی تعصبات نہ ہوں، جس میں بعض کے لیے مخصوص حقوق اور بعض کے لیے بناوٹی پابندیاں اور رکاوٹیں نہ ہوں، جس میں سب کو یکساں پھولنے پھلنے کا موقع ملے، جس میں اتنی وسعت ہو کہ رُوئے زمین کے سارے انسان، اس میں برابری کے ساتھ شریک ہو سکتے ہوں۔
۴۔ عملِ صالح، یعنی خدا کی دی ہوئی قوتوں اور اس کے بخشے ہوئے ذرائع کو پوری طرح استعمال کرنا اور صحیح استعمال کرنا۔
حضرات! یہ چار چیزیں ہیں جن کے مجموعے کا نام ’’بنائو‘‘ اور ’’اصلاح‘‘ ہے۔ ہم سب کی بہتری اس میں ہے کہ ہمارے اندر، نیک انسانوں کی ایک ایسی تنظیم موجود ہو جو بگاڑ کے اسباب کو روکنے اور بنائو کی ان صورتوں کو عمل میں لانے کے لیے، پیہم جدوجہد کرے۔ یہ جدوجہد اس ملک کے باشندوں کو راہِ راست پر لانے میں کام یاب ہو گئی تو خدا ایسا بے انصاف نہیں ہے کہ وہ خواہ مخواہ اپنی زمین کا انتظام، اس کے اصلی باشندوں سے چھین کر کسی اور کو دے دے۔ لیکن اگر خدانخواستہ یہ ناکام ہوئی تو ہم نہیں کہہ سکتے کہ ہمارا، آپ کا اور اس سر زمین کے رہنے والوں کا کیا انجام ہو گا!
٭…٭…٭…٭…٭