انسانی زندگی میں بگاڑ، جن چیزوں سے پیدا ہوتا ہے، اُنھیں ہم چار بڑے بڑے عنوانات کے تحت جمع کر سکتے ہیں:
۱۔ خدا سے بے خوفی، جو دُنیا میں بے انصافی، بے رحمی، خیانت اور ساری اخلاقی بُرائیوں کی جڑ ہے۔
۲۔ خدا کی ہدایت سے بے نیازی‘ جس نے انسان کے لیے کسی معاملے میں بھی، ایسے مستقل اخلاقی اصول باقی نہیں رہنے دیے ہیں جن کی پابندی کی جائے۔ اسی چیز کی بدولت اشخاص اور گروہوں اور قوموں کا سارا طرزِعمل مفاد پرستی اور خواہشات کی غلامی پر قائم ہو گیا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ وہ نہ اپنے مقاصد میں جائز و ناجائز کی تمیز کرتے ہیں اور نہ ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے، کسی قسم کے بُرے سے بُرے ذرائع اختیار کرنے میں انھیں ذرا سا تامّل ہوتا ہے۔
۳۔ خود غرضی، جو صرف افراد ہی کو ایک دُوسرے کی حق تلفی پر آمادہ نہیں کرتی، بلکہ بڑے پیمانے پر نسل پرستی، قوم پرستی اور طبقاتی امتیازات کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور اس سے فساد کی بے شمار صورتیں پیدا ہوتی ہیں۔
۴۔ جمود، یا بے راہ روی، جس کی وجہ سے انسان یا تو خدا کی دی ہوئی قوتوں کو استعمال ہی نہیں کرتا، یا غلط استعمال کرتا ہے، یا تو خدا کے بخشے ہوئے ذرائع سے کام نہیں لیتا، یا غلط کام لیتا ہے۔ پہلی صورت میں اللّٰہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ وہ کاہل اور نکمے لوگوں کو زیادہ دیر تک، اپنی زمین پر قابض نہیں رہنے دیتا، بلکہ ان کی جگہ ایسے لوگوں کو لے آتا ہے جو کچھ نہ کچھ بنانے والے ہوں۔ دُوسری صورت میں جب غلط کار قوموں کی تخریب، اُن کی تعمیر سے بڑھ جاتی ہے تو وہ ہٹا کر پھینک دی جاتی ہیں اور بسااوقات خود اپنی ہی تخریبی کاروائیوں کا لقمہ بنا دی جاتی ہیں۔