اخلاقی تنزل کی یہ وبا، جب افراد کی ایک بہت بڑی اکثریت کو، اپنی لپیٹ میں لے چکی، تو قدرتی بات تھی کہ وسیع پیمانے پر، اجتماعی شکل میں اس کا ظہور شروع ہو جائے۔ اس آنے والے طوفان کی پہلی علامت، ہمیں اس وقت نظر آئی جب جنگ کی وجہ سے ریلوں میں، مسافروں کا ہجوم ہونے لگا۔ وہاں ایک قوم اور ایک ہی ملک کے لوگوں نے، ایک دوسرے کے ساتھ جس خودغرضی، بے دردی اور سنگ دلی کا سلوک کیا، وہ پتا دے رہا تھا کہ ہمارے عام اخلاق کس تیز رفتاری کے ساتھ گر رہے ہیں۔ پھر اشیا کی کم یابی و گرانی کے ساتھ، ذخیرہ اندوزی اور چوربازاری بڑے وسیع پیمانے پر شروع ہوئی۔ پھر بنگال کا وہ ہول ناک مصنوعی قحط رُونما ہوا، جس میں ہمارے ایک طبقے نے، اپنے ہی ملک کے لاکھوں انسانوں کو، اپنے نفعے کی خاطر بُھوک سے تڑپا تڑپا کر مار دیا۔
یہ سب ابتدائی علامات تھیں۔ اس کے بعد خباثت، کمینہ پن، درندگی اور وحشت کا وہ لاوا، یکایک پھوٹ پڑا، جو ہمارے اندر مدتوں سے پک رہا ہے اور اب وہ فرقہ وارانہ فساد کی شکل میں، ہندستان کو ایک کونے سے لے کر، دُوسرے کونے تک بھسم کررہا ہے۔ کلکتہ کے فساد کے بعد سے ہندوئوں، مسلمانوں اور سکھوں کی قومی کش مکش کا جو نیا باب شروع ہوا ہے، اس میں یہ تینوں قومیں، اپنی ذلیل ترین صفات کا مظاہرہ کررہی ہیں۔ جن افعال کا تصوّر تک نہیں کیا جا سکتا تھا کہ کوئی انسان اُن کا مرتکب ہو سکتا ہے، آج ہماری بستیوں کے رہنے والے، علانیہ اُن کا ارتکاب کررہے ہیں۔ بڑے بڑے علاقوں کی پوری پوری آبادیاں غنڈا بن گئی ہیں اور وہ کام کر رہی ہیں جو کسی غنڈے کے خواب و خیال میں بھی کبھی نہ آئے تھے۔ شیر خوار بچوں کو مائوں کے سینوں پر رکھ کر ذبح کیا گیا ہے۔ زندہ انسانوں کو آگ میں بھونا گیا ہے۔ شریف عورتوں کو برسرِعام ننگا کیا گیا ہے اور ہزاروں کے مجمعے میں ان کے ساتھ بدکاری کی گئی ہے۔ باپوں، شوہروں اور بھائیوں کے سامنے، ان کی بیٹیوں، بیویوں اور بہنوں کو بے عزت کیا گیا ہے۔ عبادت گاہوں اور مذہبی کتابوں پر غصہ نکالنے کی ناپاک ترین شکلیں اختیار کی گئی ہیں۔ بیماروں، زخمیوں اور بوڑھوں کو انتہائی بے رحمی کے ساتھ مارا گیا ہے۔ مسافروں کو چلتی ریل پر سے پھینکا گیا ہے۔ زندہ انسانوں کے اعضا کاٹے گئے ہیں۔ نہتے اور بے بس انسانوں کا جانوروں کی طرح شکار کیا گیا ہے۔ ہم سایوں نے ہم سایوں کو لُوٹا ہے۔ دوستوں نے دوستوں سے دغا کی ہے۔ پناہ دینے والوں نے خود اپنی ہی دی ہوئی پناہ کو توڑا ہے۔ امن و امان کے محافظوں (پولیس ، فوج اور مجسٹریٹوں) نے علانیہ فساد میں حصہ لیا ہے، بلکہ خود فساد کیا ہے، اپنی حمایت و نگرانی میں فساد کرایا ہے۔غرض! ظلم و ستم و سنگ دلی وبے رحمی و کمینگی اور بدمعاشی کی کوئی قسم ایسی نہیں رہ گئی ہے جس کا اِرتکاب ان چند مہینوں میں، ہمارے ملک کے رہنے والوں نے اجتماعی طور پر نہ کیا ہو، اور ابھی دلوں کا غبار پوری طرح نکلا نہیں ہے۔ آثار بتارہے ہیں کہ یہ سب کچھ اس سے بہت زیادہ بڑے پیمانے پر اور بدرجہا تر صورت میں ابھی ہونے والا ہے۔