یہ لوگ سیکڑوں برس تک یہاں کے انتظام پر سرفراز رہے، اور ان کے ساتھ خود اس ملک کے بھی بہت سے لوگ، اسلام قبول کر کے شامل ہو گئے۔ اس میں شک نہیں کہ ان لوگوں نے بہت کچھ بگاڑا بھی، مگر جتنا بگاڑا، اس سے زیادہ بنایا۔ کئی سو برس تک ہندستان میں بنائو کا جو کام بھی ہوا، انھی کے ہاتھوں ہوا، یا پھر ان کے اثر سے ہوا۔ انھوں نے علم کی روشنی پھیلائی، خیالات کی اصلاح کی، تمدن و معاشرت کو بہت کچھ درست کیا، ملک کے ذرائع و وسائل کو اپنے عہد کے معیار کے لحاظ سے، بہتری میں استعمال کیا اور امن و انصاف کا وہ عمدہ نظام قائم کیا جو اگرچہ اسلام کے اصلی معیار سے بہت کم تھا، مگر پہلے کی حالت اور گردوپیش کے دوسرے ملکوں کی حالت سے، مقابلہ کرتے ہوئے کافی بلند تھا۔
اس کے بعد وہ بھی اپنے پیش روئوں کی طرح بگڑنے لگے۔ ان کے اندر بھی بنائو کی صلاحیتیں گھٹنا شروع ہوئیں اور بگاڑ کے میلانات بڑھتے چلے گئے۔ انھوں نے بھی اُونچ نیچ اور نسلی امتیازات اور طبقاتی تفریقیں کر کے، خود اپنی سوسائٹی کو پھاڑ لیا، جس کے بے شمار اخلاقی، سیاسی اور تمدنی نقصانات ہوئے۔انھوں نے بھی انصاف کم اور ظلم زیادہ کرنا شروع کر دیا۔ وہ بھی حکومت کی ذمہ داریوں کو بھول کر، صرف اس کے فائدوں اور زیادہ تر نا جائز فائدوں پر نظر رکھنے لگے۔ انھوں نے بھی ترقی اور اصلاح کے کام چھوڑ کر، خدا کی دی ہوئی قوتوں اور ذرائع کو ضائع کرنا شروع کیا، اور اگر استعمال کیا بھی تو زیادہ تر زندگی کو بگاڑنے والے کاموں میں کیا۔ تن آسانی و عیش پرستی میں وہ اتنے کھوئے گئے کہ جب آخری شکست کھا کر، اُن کے فرماں روائوں کو دلی کے لال قلعے سے نکلنا پڑا تو ان کے شاہ زادے ____ وہی جو کل تک حکومت کے امیدوار تھے____ جان بچانے کے لیے بھاگ بھی نہ سکتے تھے، کیوں کہ زمین پر چلنا انھوں نے چھوڑ رکھا تھا۔
مسلمانوں کی عام اخلاقی پستی اس حد کو پہنچ گئی کہ ان کے عوام سے لے کر، بڑے بڑے ذمہ دار لوگوں تک، کسی میں بھی اپنی ذات کے سوا دُوسری کسی چیز کی وفاداری باقی نہ رہی، جو انھیں دین فروشی، قوم فروشی اور ملک فروشی سے روکتی۔ ان میں ہزاروں لاکھوں پیشہ ور سپاہی پیدا ہونے لگے جن کی اخلاقی حالت، پالتو کتوں کی سی تھی کہ جو چاہے روٹی دے کر، انھیں پال لے اور پھر جس کا دل چاہے اُن سے شکار کرالے۔ان میں یہ احساس بھی باقی نہ رہا کہ یہ ذلیل ترین پیشہ جس کی بدولت، اُن کے دشمن، خود ان ہی کے ہاتھوں، اُن کا ملک فتح کر رہے تھے، اپنے اندر کوئی ذلت کا پہلو بھی رکھتا ہے۔ غالبؔ جیسا شخص فخریہ کہتا ہے کہ:
سو پشت سے ہے پیشۂ آبا ، سپہ گری
یہ بات کہتے ہوئے، اتنے بڑے شاعر کو ذرا خیال تک نہ گزرا کہ پیشہ ورانہ سپہ گری کوئی فخر کی بات نہیں، ڈوب مرنے کی بات ہے۔