قرآن سے زمین پر شخصی ملکیت کا حق ثابت نہیں۔ اس پر آپ کو اعتراض ہے تو کوئی آیت ثبوت میں نقل کرتے۔ کسی عہد کی تاریخ سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ کیوں کہ تاریخ ایک خاص ماحول رکھتی ہے۔ ممکن ہے کہ وہ ماحول اب نہ ہو۔ دراصل قرآنِ کریم کے متعلق ہمارے اور آپ کے زاویۂ نگاہ میں فرق ہے۔ ہم قرآن کو ایک مکمل کتاب سمجھتے ہیں جس میں انسان کے جملہ دینی اور دُنیاوی مسائل کا حل ہے۔ جس طرح یہ عالمِ فطرت انسانی معیشت کے لیے ہرطرح مکمل ہے۔ اسی طرح یہ کلامِ فطرت، یعنی قرآن بھی جملہ عقد ہائے معاشرت کو کھول سکتا ہے۔ آج انسانی قومیں انسانی معاشرت کے مسئلہ کو حل کرنے کے لیے بے قرار ہیں اور ان میں قبضۂ زمین کے مسئلہ کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ کیوں کہ اس کی بدولت انسانی برادری میں نہایت غیرمساویانہ دولت کی تقسیم ہوئی ہے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ قرآن میں اس کا حل نہیں ہے ؟ آپ کا خیال ہے کہ قرآن نے وَالْاَرْضَ وَضَعَھَا لِلْاَنَامِ کہہ کر صرف قدرتِ الٰہی کا اظہار کیا ہے۔ مگر ہمارے نزدیک اس قدرتِ الٰہی کا شکر یہ ہے کہ ہم اس کے مطابق عمل کریں۔
اسی سورہ میں ہے: وَلَہُ الْجَوَارِ الْمُنْشَئٰتُ فِی الْبَحْرِ کَالْاَعْلَامِ (الرحمٰن ۵۵: ۲۴) یعنی اُسی کے ہیں جہاز اُونچے کھڑے ہوئے سمندر میں۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ انگریزی اور جاپانی جہازوں کو سمندر میں دیکھ کر آپ قدرتِ حق پر اس کی حمدوثنا کریں یا خود بڑے بڑے جنگی جہاز تعمیر کر کے سمندر میں ڈالیں؟ بہرصورت کلامِ الٰہی ایک فطری شے ہے جس کے منافع محدود اور متعین نہیں ہوتے۔ اس لیے کسی آیت کے متعلق آپ کا یہ کہنا کہ یہ صرف فلاں غرض کے لیے ہے صحیح نہیں ہوسکتا۔ اگر اس سے دوسرے فائدے حاصل کیے جاسکتے ہیں تو ضرور حاصل کیے جائیں گے۔ یہی حال فطری اشیا کا ہے۔ باوا آدم پانی کے متعلق یہ تو ضرور جانتے تھے کہ نہانے اور پینے کی چیز ہے۔ مگر فرزندانِ آدم ؑ نے اسی پانی سے بڑی بڑی مشیںیں، ریلیں اور جہاز چلانا شروع کیے۔ اور ابھی تک اس کا فائدہ محدود نہیں ہے۔ اسی سے ’’ماءِ ثقیل‘‘ نکالا جاچکا ہے جو دنیا کا سب سے قیمتی زہر ہے اور اسی سے پٹرولیم بنانے کا نسخہ بھی تیار ہوچکا ہے۔ بعینہٖ یہی حال آیاتِ قرآنی کا ہے کہ ان کی فہم کو کسی ایک عہد کے ساتھ مخصوص کر دینا روا نہیں ہے۔ وہ ہرعہد میں ایک نیا عالم پیدا کرسکتی ہیں۔