لیکن اس بحث میں قدریت کی بہ نسبت جبریت کا پلڑا جھک جانے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ فلسفے نے اس گتھی کو سلجھا لیا اور مسئلہ جبر کے حق میں طے ہو گیا بلکہ اس سے صرف یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انسان جب زیادہ گہری نگاہ سے ملکوت ارض و سمٰوٰت کو دیکھتا ہے اور اس مطالعے کی مدد سے اس زبردست نظام کے چلانے والے کی صفات کا تصور کرتا ہے تو اکثر و بیشتر اس کے دل و دماغ پر ایسی دہشت طاری ہو جاتی ہے کہ اس کی نگاہ میں خود اپنی ہستی کی کوئی منزلت باقی نہیں رہتی، اور اس کی مدہوش عقل اس سے کہتی ہے کہ جس کی قدرت اس لامحدود کائنات کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہے، جس کا ارادہ اتنی عظیم الشان سلطنت پر فرماں روائی کر رہا ہے، جس کا علم اس نظام وجود کے چھوٹے اور بڑے سب کل پرزوں اور ان کی حرکات و سکنات پر ازل سے لے کر ابد تک حاوی ہے، اس کے سامنے تو بالکل عاجز ہے، بے بس ہے، درماندہ ہے، تیری قدرت، تیرا علم، تیرا ارادہ کوئی چیز نہیں۔
اس سے بڑھ کر اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ فلسفے نے قضا و قدر کے مسئلے کو سمجھ لیا ہے تو وہ سخت غلط فہمی میں مبتلا ہے۔ قضا و قدر کا سوال حقیقت میں یہ سوال ہے کہ خداوند عالم کی سلطنت کا دستورِ اساسی کیا ہے؟ خدا کے علم اور اس کی معلومات، خدا کی قدرت اور اس کے مقدورات، خدا کے ارادے اور اس کے مرادات کے درمیان کس قسم کا علاقہ ہے؟ خدا کا حکم کیا معنی رکھتا ہے؟ کس طرح وہ اس کی مخلوقات میں نافذ ہوتا ہے؟ مخلوقات کے مختلف مراتب میں اس کے احکام کی تنفیذ کن ضوابط کے تحت ہوتی ہے؟ اور موجودات عالم کی بے شمار انواع میں سے ہر نوع کس حیثیت سے اس کی تابع فرمان ہے؟ اب اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے ان سوالات کو حل کر لیا ہے تو دوسرے الفاظ میں اس کا دعویٰ یہ ہے کہ اس نے خدا اور اس کی پوری خدائی کو ناپ ڈالا ہے۔ یہ ان تمام باتوں سے زیادہ شنیع بات ہے جن کا الزام قدریہ اور جبریہ ایک دوسرے پر عائد کرتے ہیں اور اگر ان کا دعویٰ یہ نہیں ہے تو محض قیاس و استدلال کے بل بوتے پر وہ علم و یقین کے ایسے مرتبے تک کیوں کر پہنچ سکتے ہیں، جہاں قطعیت کے ساتھ جبر یا قدر کا حکم لگانا اُن کے لیے ممکن ہو؟
٭…٭…٭…٭…٭