Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
مقدمہ
مسئلہ جبر و قدر کی حقیقت
اختیار و اضطرار کا ابتدائی اثر
مسئلہ جبر و قدر کا نقطۂ آغاز
مابعد الطبیعی نقطۂ نظر
فلسفے کی ناکامی
طبیعی نقطۂ نظر
سائنس کی ناکامی
اخلاقی نقطۂ نظر
اخلاقیات کی ناکامی
دینیاتی نقطۂ نظر
صحیح اسلامی مسلک
متکلمین اسلام کے مذاہب
مذہب قدر
قرآن مجید سے قدریہ کا استدلال
مذہب جبر
قرآنِ مجید سے جبریہ کا استدلال
متکلمین کی ناکامی
تحقیق مسئلہ
امور ماورائے طبیعت کے بیان سے قرآن کا اصل مقصد
مسئلہ قضا و قدر کے بیان کا منشا
عقیدۂ تقدیر کا فائدہ عملی زندگی میں!
تناقض کی تحقیق
حقیقت کی پردہ کشائی
مخلوقات میں انسان کی امتیازی حیثیت
ہدایت و ضلالت
عدل اور جزا و سزا
جبرو قدر

مسئلہ جبرو قدر

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

مقدمہ

اس مختصر رسالے کی تقریب یہ ہے کہ ۱۳۵۲ھ (۱۹۳۳ء) میںجب میں نے ترجمانُ القرآن نیا نیا جاری کیا تھا، ایک صاحب نے مجھے ایک طویل خط لکھا جس میں اس پیچیدگی کو حل کرنے کی درخواست کی گئی تھی، جو قرآن کا مطالعہ کرنے والے کو جبر و قدر کے مسئلے میں پیش آتی ہے،( تاریخی دلچسپی کی خاطر یہ بات ظاہر کرنے میں مضائضہ نہیں کہ یہ صاحب چودھری غلام احمد پرویز تھے۔
) کیونکہ بعض آیات اس کے سامنے ایسی آئی ہیں۔ جن سے جبریت کا مفہوم نکلتا ہے اور دوسری آیات صریح طور پر قدریت کی تائید کرتی ہیں اور بظاہر ان دونوں قسم کی آیتوں میں ایسا تناقض محسوس ہوتا ہے جسے آسانی کے ساتھ رفع نہیں کیا جا سکتا۔ میں نے اس خط کو بجنسہٖ رسالے میں شائع کر دیا اور اس کے جواب میں ایک مفصل مضمون لکھا، یہی سوال اور اس کا جواب اس وقت کتابی شکل میں پیش کیا جا رہا ہے۔
وہ خط یہ تھا:
’’انسان کا مکلف بہ جزا و سزا ہونا ہی اس بات کا مقتضی ہے کہ اعمال وافعال اس کے ارادے و نیت کے تابع ہوں اور اس ارادے و نیت پر کسی اور طاقت کا تصرف نہ ہو۔ قرآنِ حکیم کی ساری تعلیم کا لب لباب یہی ہے کہ انسان کو اس کے اعمال کا ذمہ دار قرار دے کر باز پرس کا مستوجب ٹھہرایا جائے۔ ضلالت و ہدایت عذاب و ثواب، نکبت و ثروت، مصیبت و راحت، غرضیکہ دنیا و آخرت کی میزان کے دونوں پلڑے قدرتی نتائج ہوں، اس کے اپنے اعمال کے، اور یہ نتائج مرتب ہوں کسی خاص قاعدے کلیے کے ماتحت لیکن قرآنِ مجید کی بعض آیات سے ایسا بھی پایا جاتا ہے کہ انسانی ارادہ خود مشیت ایزدی کا تابع ہے۔
مثلاً ضلالت و ہدایت کے متعلق ایک طرف تو ایسی کھلی اور واضح آیات موجود ہیں جن سے نور و ظلمت، ایمان و کفر، ہدایت و ضلالت کی راہوں کا اختیار کرنا انسان کے اپنے ارادوں اور مساعی کے ماتحت قرار دیا گیا ہے۔
اِنَّا ہَدَيْنٰہُ السَّبِيْلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّاِمَّا كَفُوْرًاo الدھر76:3
ہم نے اس کو راستہ دکھا دیا ہے، چاہے تو شکرگزار رہے اور چاہے تو ناشکر گزار بن کر رہے۔
وَہَدَيْنٰہُ النَّجْدَيْنِo البلد90:10
ہم نے اس کو دونوں راستے دکھا دیے ہیں۔
وَالَّذِيْنَ جَاہَدُوْا فِيْنَا لَـنَہْدِيَنَّہُمْ سُـبُلَنَا۝۰ۭ العنکبوت29:69
جو لوگ ہمارے معاملے میں جدوجہد اور کوشش سے کام لیتے ہیں۔ ہم ان کو اپنے راستے دکھاتے ہیں۔
فَمَنْ شَاۗءَ فَلْيُؤْمِنْ وَّمَنْ شَاۗءَ فَلْيَكْفُرْ۝۰ۙ الکہف18:29
جو کوئی چاہے ایمان لے آئے اور جو کوئی چاہے ایمان نہ لائے۔
دوسری طرف ایسی آیات بھی ہیں جن میں ان چیزوں کو مشیت ایزدی کے تابع بتایا گیا ہے مثلاً:
لَہُمْ۝۰ۭ فَيُضِلُّ اللہُ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَہْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ۝۰ۭ ابراہیم14:4
پس اللہ جس کو چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ہدایت دے دیتا ہے۔
مَّا كَانُوْا لِيُؤْمِنُوْٓا اِلَّآ اَنْ يَّشَاۗءَ اللہُ الانعام6:111
وہ ہرگز ایمان لانے والے نہ تھے اِلَّا یہ کہ اللہ چاہتا۔
سورۂ مدثر میں جہاں :
فَمَنْ شَاۗءَ ذَكَرَہٗo المدثر74:55
جو کوئی چاہے اس سے نصیحت حاصل کرے۔
اور سورۂ تکویر میں :
اِنْ ہُوَاِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعٰلَمِيْنَo لِمَنْ شَاۗءَ مِنْكُمْ اَنْ يَّسْتَــقِيْمَo التکویر81:27-28
یہ ایک نصیحت ہے تمام دنیا والوں کے لیے تم میں سے ہر ایک شخص کے لیے جو سیدھا چلنا چاہے۔
کہہ کر قرآنِ کریم سے ہدایت حاصل کرنے کے لیے انسانی ارادے کو اختیار دیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی آیات
وَمَا یَذَکُرُوْنَ اِلَّا اَنْ یَّشَآئَ اللّٰہُ
نصیحت حاصل کر ہی نہیں سکتے اگر اللہ نہ چاہے۔
وَمَا تَشَآئُ وْنَ اِلَّآ اَنْ یَّشَآئَ اللّٰہ۔
تم کیا چاہتے ہو، اگر اللہ نہ چاہے۔
کہہ کر اس ارادے کو مشیت باری تعالیٰ کے ماتحت قرار دیا اور سلب کر دیا گیا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ اکثر جگہ گمراہی کے لیے اصول قائم کر دیا گیا ہے کہ:
وَمَا يُضِلُّ بِہٖٓ اِلَّا الْفٰسِقِيْنَo البقرہ2:26
وہ اس قرآن کے ذریعے سے صرف بدکاروں کو گمراہ کرتا ہے۔
وَيُضِلُّ اللہُ الظّٰلِــمِيْنَ ابراہیم14:27
اور اللہ حد سے گزرنے والوں کو گمراہ کر دیتا ہے۔
بَلْ طَبَعَ اللہُ عَلَيْہَا بِكُفْرِہِمْ النساء4:55
بلکہ اللہ نے ان پر ان کے انکار کی وجہ سے مہریں لگا دیں۔
صَرَفَ اللہُ قُلُوْبَھُمْ بِاَنَّھُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَہُوْنَo التوبہ9:127
اللہ نے ان کے دلوں کو پلٹ دیا کیونکہ وہ ایسے لوگ تھے جو نہ سمجھتے تھے۔
وَمَا كَانَ اللہُ لِيُضِلَّ قَوْمًۢا بَعْدَ اِذْ ہَدٰىھُمْ حَتّٰي يُبَيِّنَ لَھُمْ مَّا يَتَّقُوْنَ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌo التوبہ9:115
اور اللہ کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ کسی قوم کو ہدایت دینے کے لیے اسے گمراہ کرے، جب تک کہ اس کو یہ نہ بتا دے کہ انھیں کس بات سے بچنا چاہیے۔
اور ہدایت کے لیے بھی ایسی شرائط بیان فرما دی ہیں:
يَہْدِيْٓ اِلَيْہِ مَنْ اَنَابَo الرعد13:27
جو کوئی اُس کی طرف رجوع کرتا ہے وہ اس کو اپنی طرف ہدایت دیتا ہے۔
وَالَّذِيْنَ جَاہَدُوْا فِيْنَا لَـنَہْدِيَنَّہُمْ سُـبُلَنَا۝۰ۭ العنکبوت29:69
جو لوگ ہماری راہ میں جدوجہد اور کوشش سے کام لیتے ہیں، ہم ان کو اپنے راستے دکھاتے ہیں۔
وَالَّذِيْنَ اہْتَدَوْا زَادَہُمْ ہُدًى محمد47:17
جو لوگ ہدایت قبول کرتے ہیں اللہ ان کو اور زیادہ ہدایت دیتا ہے۔
اور اسی قبیل سے اور متعدد آیاتِ قرآنی ہیں، لیکن ان کے ساتھ ہی ایسی آیات بھی ہیں جن میں کسی شرط اور قید کے ضلالت و گمراہی کو مشیت باری تعالیٰ یا فضل ایزدی کے تابع رکھا گیا ہے۔ مثلاً آیت محولہ صدر
فَیُضِلُّ اللّٰہُ مَنْ یَّشَآئُ وَ یَـھْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ
جس کو اللہ چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے
اور
وَمَا تَشَآئُ وْنَ اِلَّآ اَنْ یَّشَآئَ اللّٰہ
تم کیا چاہتے ہو اگر اللہ نہ چاہے۔
اسی طرح عذاب و مغفرت کے بارے میں جہاں ایک طرف صاف و بیّن اصول مقرر فرمایا ہے کہ:
فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَيْرًا يَّرَہٗo الزلزال99:7
جو کوئی ذرہ بھر نیکی کرے گا وہ اس کا نیک اجر دیکھ لے گا۔
لَہَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْہَا مَااكْتَسَبَتْ۝۰ۭ البقرہ2:286
جو کچھ نیکی اس نے کمائی اس کا فائدہ اس کے لیے ہے اور جو بدی اس نے سمیٹی اس کا وبال اس پر ہے۔
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِہٖ۝۰ۚ وَمَنْ اَسَاۗءَ فَعَلَيْہَا۝۰ۡ الجاثیہ45:15
جو کوئی نیک عمل کرے گا اس کا وہی فائدہ اٹھائے گا اور جو کوئی برا کام کرے گا اس کی سزا وہی بھگتے گا۔
يَغْفِرُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَّشَاۗءُ۝۰ۭ آل عمران3:129
جس کو چاہے بخش دے اور جس کو چاہے سزا دے۔
یعنی عذاب و مغفرب بھی مشیت ایزدی کے تابع ہیں۔ مغفرت میں تو خیر کہا جا سکتا ہے کہ وہ الرحم الرحمین، غافر الذنب اپنی شانِ کریمی سے گناہ گار کو بخش دے گا، لیکن یُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآئُ کی یہ تاویل مشکل ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ معنی لیے جا سکتے ہیں کہ گناہگاروں میں سے یَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآئُ وَ یُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآئُ لیکن پوری آیت کا قرینہ اس کی طرف قوی دلالت نہیں کرتا۔
نکبت و ثروت کے لیے بھی قرآنِ کریم میں اقوامِ گزشتہ کی تاریخی شہادتوں سے اصول کی تائید کی گئی ہے کہ جاہ و اقبال دراصل ایمان و تقویٰ، پاکباز زندگی، اعمال صالح اور قانونِ فطرت کی پابندی کے ساتھ لازم و ملزم ہے اور اس کے خلاف چلنے سے ذلت و مسکنت، غضب الٰہی کی شکل میں طاری ہو جاتی ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے کہ:
وَلَوْ اَنَّہُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰىۃَ وَالْاِنْجِيْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْہِمْ مِّنْ رَّبِّہِمْ لَاَكَلُوْا مِنْ فَوْقِہِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِہِمْ۝۰ۭ المائدہ5:66
اور اگر وہ تورات اور انجیل پر اور ان تعلیمات پر قائم رہتے جو ان کی طرف ان کے رب کی جانب سے نازل کی گئی تھیں تو وہ اوپرسے اور اپنے پائوں کے نیچے سے کھانے کا سامان پاتے۔
یا اور متعدد آیات لیکن دوسری طرف یہ آیات بھی قرآنِ شریف میں ہیں۔
وَاللہُ يَرْزُقُ مَنْ يَّشَاۗءُ بِغَيْرِ حِسَابٍo البقرہ2:216
اللہ جس کسی کو چاہتا ہے بے حساب دے دیتا ہے۔
اَللہُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ۰ۭ الرعد13:26
اللہ جس کسی کے لیے چاہتا ہے روزی فراخ کر دیتا ہے اور جس کسی کے لیے چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے۔
تُعِزُّ مَنْ تَشَاۗءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاۗءُ۝۰ۭ آل عمران3:26
جس کسی کو تو چاہتا ہے غالب کر دیتا ہے اور جس کسی کو چاہتا ہے ذلیل کر دیتا ہے۔
مصیبت اور راحت کے باب میں بھی کھلا کھلا فیصلہ ہے کہ:
وَمَآ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِيْبَۃٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَيْدِيْكُمْ الشوریٰ42:30
تمھیں جو کچھ بھی مصیبت پہنچتی ہے اپنے ہی ہاتھ سے پہنچتی ہے۔
لیکن دوسری طرف یہ آیت بھی ہمارے سامنے ہے کہ:
اَيْنَ مَا تَكُوْنُوْا يُدْرِكْكُّمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنْتُمْ فِيْ بُرُوْجٍ مُّشَـيَّدَۃٍ۝۰ۭ وَاِنْ تُصِبْھُمْ حَسَـنَۃٌ يَّقُوْلُوْا ہٰذِہٖ مِنْ عِنْدِ اللہِ۝۰ۚ وَاِنْ تُصِبْھُمْ سَيِّئَۃٌ يَّقُوْلُوْا ہٰذِہٖ مِنْ عِنْدِكَ۝۰ۭ قُلْ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ اللہِ۝۰ۭ النساء4:78
اور اگر ان کو کوئی فائدہ پہنچے تو کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی جانب سے ہے اور اگر کوئی نقصان ہو جائے تو کہتے ہیں کہ یہ تیری طرف سے ہے۔ ان کو بتا دے کہ نفع و نقصان جو کچھ ہوتا ہے اللہ کی طرف سے ہوتا ہے۔
لیکن کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ اللہِ کے ساتھ ہی دوسری آیت میں ہے کہ:
مَآ اَصَابَكَ مِنْ حَسَـنَۃٍ فَمِنَ اللہِ۝۰ۡوَمَآ اَصَابَكَ مِنْ سَيِّئَۃٍ فَمِنْ نَّفْسِكَ۝۰ۭ النساء4:79
ہر بھلائی جو تمھیں حاصل ہوتی ہے اللہ کی جانب سے ہوتی ہے اور ہر برائی جو تمھیں پیش آتی ہے وہ تمھاری اپنی وجہ سے ہوتی ہے۔
قرآنِ کریم کے بعد اگر ہم احادیث کی طرف آئیں تو بہت سی احادیث انسان کے مجبور و مقہور ہونے پر دلالت کرتی ہیں: مثلاً
اِذَا سَمِعْتُمْ بِجَبَلٍ زَالَ عَنْ مَکَانِہٖ فَصَدِّقُوْا بِہٖ وَ اِذَا سَمِعْتُمْ بِرَجُلٍ تَغَیَّرَ عَنْ خُلُقِہٖ فَلا تُصَدِّقُوْا بِہٖ فَاِنَّہٗ یَصِیْرُ عَلٰی مَا جُبِلَ عَلَیْہِ
جب تم سنو کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل گیا تو اس کی تصدیق کر سکتے ہو، لیکن اگر سنو کہ ایک شخص اپنی طینت سے ہٹ گیا تو اس کی ہرگز تصدیق نہ کرنا، کیونکہ آدمی ایسا ہی ہو کر رہتا ہے جیسا اس کا خمیر ہے۔
اِنَّ الْقُلُوْبَ بَیْنَ اِصبَعَیْنِ مِنْ اَصَابِعِ اللہِ یُقَلِّبُھَا کَیْفَ یَشَآءُ۔
دل اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں جس طرح چاہتا ہے انھیں پھیر دیتا ہے۔
یا ایک حدیث شریف میں ہے کہ:
لوگ … میں پیدا کیے گئے ہیں ان میں سے بعض مسلمان پیدا کیے گئے ہیں۔…الخ
میں نے اعتراضات مختصراً لیکن من و عن پیش کر دیے ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ تقدیر کا مسئلہ بھی اتنا ہی پرانا ہے جتنا دنیا میں مذہب کا وجود۔ اور ہے بھی کچھ لاینحل ساہی۔ ہر ایک مذہب نے اس کے متعلق کچھ نہ کچھ کہا ہے، لیکن افراط و تفریط کر کے، ہندوستان و یونان میں اگر تناسخ کے چکر اور جنم لیکھا سے انسال کو کلیتاً مجبور محض بنا دیا گیا ہے تو ایران کے آتش کدوں میں خدا کو بھی معطل محض بنا دیا گیا ہے۔ حکمائے فرنگ کے ایک فرقے نے اگر خدائے خالق کو ایک گھڑی ساز کی طرح سمجھا کہ جو ایک دفعہ گھڑی بنا دینے کے بعد اسے اصول اور قاعدے کے تحت چھوڑ کر خود عضو معطل ہو جاتا ہے تو ہمارے ہاں کے جبریہ و قدریہ کی بحثیں بھی کم متشدد نہیں ہیں۔ یہ درست ہے کہ فطری لحاظ سے اس باب میں ایمان و عقل کے دونوں پلڑوں میں توازن مشکل ہو جاتا ہے لیکن اسے کَمَا ھُوَ چھوڑا بھی نہیں جا سکتا۔ ہر چند میرے نزدیک مسئلہ قضا و قدر جزوِ ایمان نہیں ہے اور اس کی حیثیت ایک مسئلے کی ہے، لیکن چونکہ قرآنی آیات میں بقول معترضین بظاہر تضاد نظر آتا ہے اس لیے اس مسئلے پر غور کرنا ضروری ہے۔
مسئلہ ہر چند بہت پرانا ہے اور اس پر مخالف و موافق بہت کچھ لکھا ہوا ہمارے پاس موجود ہے لیکن چونکہ ع
اس دور میں مے اور ہے جام اور ہے جم اور
اس لیے دورِ حاضر کے طرزِ استدلال و استنباط نتائج کے مطابق اس کے متعلق بھی گفتگو کی جانی ضروری ہے۔
اگرچہ یہ رسالہ ابتداً اسی خط کے جواب میں لکھا گیا تھا اور اس کے لکھنے کا اصل مقصد اس تعارض کو رفع کرنا تھا جو قرآنِ مجید کی بعض آیات کے درمیان بظاہر نظر آتا ہے، لیکن اس کے ضمن میں جو مسائل زیر بحث آ گئے ہیں وہ مسئلہ جبر و قدر کی اس گتھی کو سلجھانے میں ان تمام لوگوں کو مدد دے سکتے ہیں جو فلسفہ، اخلاقیات، عمرانیات اور دوسرے شعبہ ہائے علم میں اس گتھی سے دوچار ہوتے ہیں۔ اسی فائدے کو ملحوظ رکھ کر اس رسالے کو اب کتابی شکل میں شائع کیا جا رہا ہے۔ آخر میں اپنے ایک مضمون کو بھی میں نے اس کے ساتھ ضمیمہ کے طور پر لگا دیا ہے جس سے اسی مسئلے کی مزید توضیح ہوتی ہے۔

ابوالاعلیٰ
٭…٭…٭…٭…٭

شیئر کریں