ریاست کا خواہ کوئی نظریہ بھی زیر بحث ہو، اس میں اوّلین سوال یہ ہوتا ہے کہ وہ نظریہ حاکمیت کس کے لیے ثابت کرتا ہے۔ اس حاکمیت کے باب میں امام ابوحنیفہؒکا نظریہ وہی تھا جو اسلام کا مسلّم بنیادی نظریہ ہے یعنی اصل حاکم خدا ہے، رسول اس کے نمایندے کی حیثیت سے مطاع ہیں اور خدا اور رسول کی شریعت وہ قانونِ برتر ہے جس کے مقابلے میں اطاعت و اتباع کے سوا اور کوئی طرزِ عمل اختیار نہیں کیا جا سکتا۔ چونکہ امام اصلاً ایک قانونی آدمی تھے اس لیے انھوں نے اس مضمون کو علم سیاست کے بجائے قانون کی زبان میں بیان کیا ہے۔
مجھے جب کوئی حکم خدا کی کتاب میں مل جاتا ہے تو میں اسی کوتھام لیتا ہوں اور جب اس میں نہیں ملتا تو رسول اللہ کی سنّت اور آپؐ کے ان صحیح آثار کو لیتا ہوں جو ثقہ لوگوں کے ہاں ثقہ لوگوں کے واسطے سے معروف ہیں۔ پھر جب نہ کتاب اللہ میں حکم ملتا ہے نہ سنّت رسول اللہ میں تو میں اصحابِ رسول کے قول (یعنی ان کے اجماع) کی پیروی کرتا ہوں اور (ان کے اختلاف کی صورت میں) جس صحابی کا قول چاہتا ہوں قبول کرتا ہوں اور جس کا چاہتا ہوں چھوڑ دیتا ہوں مگر ان سب کے اقوال سے باہر جا کر کسی کا قول نہیں لیتا …… رہے دوسرے لوگ تو جس طرح اجتہاد کا انھیں حق ہے مجھے بھی حق ہے۔ ۱؎
ابن حزم کا بیان ہے:
تمام اصحابِ ابوحنیفہؒاس پر متفق ہیں کہ ابوحنیفہؒکا مذہب یہ تھا کہ ضعیف حدیث بھی اگر مل جائے تو اس کے مقابلے میں قیاس اور رائے کو چھوڑ دیا جائے۔ ۲؎
اس سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ وہ قرآن اور سنّت کو آخری سند (Final Authority) قرار دیتے تھے۔ ان کا عقیدہ یہ تھا کہ قانونی حاکمیت (Legal Sovereignty) خدا اور اس کے رسول کی ہے اور ان کے نزدیک قیاس و رائے سے قانون سازی کا دائرہ صرف ان حدود تک محدود تھا جن میں خدا اور رسول کا کوئی حکم موجود نہ ہو۔ صحابہ رسول کے انفرادی اقوال کو دوسروں کے اقوال پر جو ترجیح وہ دیتے تھے اس کی وجہ بھی دراصل یہ تھی کہ صحابی کے معاملے میں یہ امکان موجود ہے کہ اس کے علم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی حکم ہو اور وہی اس کے قول کا ماخذ ہو۔ اسی لیے امام ابوحنیفہؒ اس بات کا التزام کرتے تھے کہ جن مسائل میں صحابہ کے درمیان اختلاف ہوا ہے ان میں کسی صحابی کے قول ہی کو اختیار کریں اور اپنی رائے سے کوئی ایسا فیصلہ نہ کریں جو تمام صحابیوں کے اقوال سے مختلف ہو کیونکہ اس میں نادانستہ سنّت کی خلاف ورزی ہو جانے کا اندیشہ تھا۔ البتہ وہ قیاس سے یہ رائے قائم کرنے کی کوشش کرتے تھے کہ ان میں سے کس کا قول سنّت سے قریب تر ہو سکتا ہے۔ اگرچہ امام پر ان کے زمانۂ حیات ہی میں یہ الزام لگایا گیا تھا کہ وہ قیاس کو نصّ پر ترجیح دیتے ہیں مگر انھوں نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا-
بخدا اس شخص نے جھوٹ کہا اور ہم پر افترا کیا جس نے کہا کہ ہم قیاس کو نصّ پر مقدّم رکھتے ہیں۔ بھلا نصّ کے بعد بھی قیاس کی کوئی حاجت رہتی ہے؟ ۱؎
خلیفہ المنصور نے ایک مرتبہ ان کو لکھا کہ میں نے سنا ہے آپ قیاس کو حدیث پر مقدم رکھتے ہیں۔ انھوں نے جواب میں لکھا۔
امیر المومنین جو بات آپ کو پہنچی ہے وہ صحیح نہیں ہے۔ میں سب سے پہلے کتاب اللہ پر عمل کرتا ہوں، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت پر، پھر ابوبکر و عمر اور عثمان و علی رضی اللہ عنہم کے فیصلوں پر، پھر باقی صحابہ کے فیصلوں پر، البتہ جب ان میں اختلاف ہو تو قیاس کرتا ہوں۔ ۲؎
خلافت کے انعقاد کا صحیح طریقہ
خلافت کے متعلق امام ابوحنیفہؒکی رائے یہ تھی کہ پہلے بزور اقتدار پر قبضہ کرنا اور بعد میں دبائو کے تحت بیعت لینا اس کے انعقاد کی کوئی جائز صورت نہیں ہے۔ صحیح خلافت وہ ہے جو اہل الرائے لوگوں کے اجتماع اور مشورے سے قائم ہو۔ اس رائے کو انھوں نے ایک ایسے نازک موقع پر بیان کیا جب کہ اسے زبان پر لانے والے کا سر اس کی گردن پر باقی رہنے کا احتمال نہ تھا۔ المنصور کے حاجب ربیع بن یونس کا بیان ہے کہ منصور نے امام مالک، ابن ابی ذِئب اور امام ابوحنیفہؒکو بلایا اور ان سے کہا: یہ حکومت جو اللہ تعالیٰ نے اس امت میں مجھے عطا کی ہے، اس کے متعلق آپ لوگوں کا کیا خیال ہے؟ کیا میں اس کا اہل ہوں؟ امام مالک نے کہا:اگر آپ اس کے اہل نہ ہوتے تو اللہ تعالیٰ اسے آپ کے سپرد نہ کرتا۔ ابن ابی ذئب نے کہا:دنیا کی بادشاہی اللہ جس کو چاہتا ہے عطا کرتا ہے، مگر آخرت کی بادشاہی اسی کو دیتا ہے جو اس کا طالب ہو اور جسے اللہ اس کی توفیق دے۔ اللہ کی توفیق آپ سے قریب ہو گی اگر آپ اس کی اطاعت کریں۔ ورنہ اس کی نافرمانی کی صورت میں وہ آپ سے دور رہے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ خلافت اہلِ تقویٰ کے اجتماع سے قائم ہوتی ہے اور جو شخص خود اس پر قبضہ کر لے اس کے لیے کوئی تقویٰ نہیں ہے۔ آپ اور آپ کے مددگار توفیق سے خارج اور حق سے منحرف ہیں۔ اب اگر آپ اللہ سے سلامتی مانگیں اور پاکیزہ اعمال سے اس کا تقرّب حاصل کریں تو یہ چیز آپ کو نصیب ہو گی ورنہ آپ خود ہی اپنے مطلوب ہیں۔ امام ابوحنیفہؒکہتے ہیں کہ جس وقت ابن ابی ذئب یہ باتیں کہہ رہے تھے، میں نے اور مالک نے اپنے کپڑے سمیٹ لیے کہ شاید ابھی ان کی گردن اڑا دی جائے گی اور ان کا خون ہمارے کپڑوں پر پڑے گا۔ اس کے بعد منصور امام ابوحنیفہؒکی طرف متوجہ ہوا اور بولا آپ کیا کہتے ہیں۔ انھوں نے جواب دیا:اپنے دین کی خاطر راہ راست تلاش کرنے والا غصّے سے دور رہتا ہے۔ اگر آپ اپنے ضمیر کو ٹٹولیں تو آپ کو خود معلوم ہو جائے گا کہ آپ نے ہم لوگوں کو اللہ کی خاطر نہیں بلایا ہے بلکہ آپ چاہتے ہیں کہ ہم آپ کے ڈر سے آپ کے منشا کے مطابق بات کہیں اور وہ عوام کے علم میں آ جائے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ آپ اس طر ح خلیفہ بنے ہیں کہ آپ کی خلافت پر اہلِ فتویٰ لوگوں میں سے دو آدمیوں کا اجتماع بھی نہیں ہوا، حالانکہ خلافت مسلمانوں کے اجتماع اور مشورے سے ہوتی ہے۔ دیکھیے، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ چھ مہینے تک فیصلے کرنے سے رکے رہے جب تک کہ اہلِ یمن کی بیعت نہ آ گئی۔ یہ باتیں کرکے تینوں صاحب اٹھ گئے۔ پیچھے منصور نے ربیع کو تین توڑے درہموں کے دے کر ان تینوں اصحاب کے پاس بھیجا اور اس کو ہدایت کی کہ اگر مالک لے لیں تو ان کو دے دینا، لیکن اگر ابوحنیفہؒاور ابن ابی ذئب انھیں قبول کر لیں تو ان کا سراتار لانا۔ امام مالک نے یہ عطیہ لے لیا۔ ابن ابی ذئب کے پاس جب ربیع پہنچا تو انھوں نے کہا میں اس مال کو خود منصور کے لیے بھی حلال نہیں سمجھتا، اپنے لیے کیسے حلال سمجھوں۔ ابوحنیفہؒنے کہا خواہ میری گردن ہی کیوں نہ مار دی جائے میں اس مال کو ہاتھ نہ لگائوں گا۔ منصور نے یہ روداد سن کر کہا:اس بے نیازی نے ان دونوں کا خون بچا دیا۔ ۱؎
اہلیت خلافت کی شرائط
امام ابوحنیفہؒکے زمانے تک اہلیت خلافت کی شرطیں اس تفصیلی طریقے سے بیان نہیں کی جاتی تھیں جس طرح بعد کے محققین، مَاوَرْدِیْ اور ابن خَلْدون وغیرہ نے انھیں بیان کیا ہے۔ کیونکہ ان میں سے اکثر اس وقت گویا بلا بحث مسلم تھیں۔ مثلاً آدمی کا مسلمان ہونا، مرد ہونا، آزاد ہونا، ذی علم ہونا، سلیم الحواس اور سلیم الاعضا ہونا۔ البتہ دو چیزیں ایسی تھیں جو اس زمانے میں زیر بحث آ چکی تھیں اور جن کے متعلق صراحت مطلوب تھی۔ ایک یہ کہ ظالم و فاسق جائز خلیفہ ہو سکتا ہے یا نہیں دوسرے یہ کہ خلافت کے لیے قرشی ہونا ضروری ہے یا نہیں۔
فاسق و ظالم کی امامت
پہلی چیز کے متعلق امام کی رائے کے دو پہلو ہیں جن کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔ جس زمانے میں انھوں نے اس مسئلے پر اظہارِ خیال فرمایا ہے، وہ عراق میں خصوصاً، اور دنیائے اسلام میں عموماً، دو انتہا پسندانہ نظریات کی سخت کشمکش کا زمانہ تھا۔ ایک طرف نہایت زوروشور سے کہا جا رہا تھا کہ ظالم و فاسق کی امامت قطعی ناجائز ہے اور اس کے ماتحت مسلمانوں کا کوئی اجتماعی کام بھی صحیح نہیں ہو سکتا۔ دوسری طرف کہا جا رہا تھا کہ ظالم و فاسق خواہ کسی طرح بھی ملک پر قابض ہو جائے، اس کا تسلّط قائم ہو جانے کے بعد اس کی امامت و خلافت بالکل جائز ہو جاتی ہے۔ ان دونوں کے درمیان امام اعظم نے ایک نہایت متوازن نظریہ پیش کیا جس کی تفصیل یہ ہے۔
الفقہ الاکبر میں وہ فرماتے ہیں۔
مومنوں میں سے ہر نیک و بد کے پیچھے نماز جائز ہے۔ ۱؎
اور عقیدۂ طحاویہ میں امام طحاوی اس حنفی مسلک کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
اور حج و جہاد مسلمانوں کے اولی الامر کے ماتحت قیامت تک جاری رہیں گے ، خواہ وہ نیک ہوں یا بد۔ ان کاموں کو کوئی چیز باطل نہیں کرتی اور نہ ان کا سلسلہ منقطع کر سکتی ہے۔۲؎
یہ اس مسئلے کا ایک پہلو ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ امام کے نزدیک خلافت کے لیے عدالت شرط لازم ہے۔ کوئی ظالم و فاسق آدمی جائز خلیفہ یا قاضی یا حاکم یا مفتی نہیں ہو سکتا۔ اگر وہ بن بیٹھا ہو تو اس کی امامت باطل ہے اور لوگوں پر اس کی اطاعت لازم نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کے عملاً قابض و متصرف ہو جانے کے بعد مسلمان اس کے تحت اپنی اجتماعی زندگی کے جو کام صحیح شرعی طریقے سے انجام دیں گے وہ جائز ہوں گے۔ اور اس کے مقرر کیے ہوئے قاضی عدل کے ساتھ جو فیصلے کریں گے وہ نافذ ہو جائیں گے۔ اس مسئلے کو مذہب حنفی کے مشہور امام ابوبکر الجصّاص نے احکام القرآن میں بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔
پس جائز نہیں کہ کوئی ظالم نبی ہو یا نبی کا خلیفہ، یا قاضی، یا کوئی ایسا منصب دار جس کی بنا پر امور دین میں اس کی بات قبول کرنا لوگوں پر لازم آتا ہو مثلاً مفتی یا شاہد یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث روایت کرنے والا۔ آیت (لَا يَنَالُ عَہْدِي الظّٰلِــمِيْنَ البقرہ 124:2) ( میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچتا ) اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ دین کے معاملات میں جن لوگوں کو بھی پیشوائی کا مقام حاصل ہو ان کا عادل اور صالح ہونا شرط ہے …… اس آیت سے یہ ثابت ہے کہ فاسق کی امامت باطل ہے، وہ خلیفہ نہیں ہو سکتا اور اگر کوئی شخص اپنے آپ کو خود اس منصب پر قائم کر لے، درآنحالیکہ وہ فاسق ہو تو لوگوں پر اس کا اتباع اور اس کی اطاعت لازم نہیں۔ یہی بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہے کہ خالق کی معصیت میں کسی مخلوق کی اطاعت نہیں ہے، اور یہ آیت اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ فاسق حاکم (جج اور مجسٹریٹ) نہیں ہو سکتا، اور اگر وہ حاکم ہو جائے تو اس کے احکام نافذ نہیں ہو سکتے۔ اسی طرح اس کی نہ شہادت مقبول ہے، نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی روایت قبول کی جا سکتی ہے، اور نہ اس کا فتویٰ مانا جا سکتا ہے اگر وہ مفتی ہو۔ ۱؎
آگے چل کر الجصّاص اس امر کی تصریح کرتے ہیں کہ یہی امام ابوحنیفہؒکا مذہب ہے اور پھر تفصیل کے ساتھ بتاتے ہیں کہ ابوحنیفہؒپر یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ انھیں فاسق کی امامت جائز قرار دینے کا الزام دیا جاتا ہے:
بعض لوگوں نے یہ گمان کیا ہے کہ ابوحنیفہؒکے نزدیک فاسق کی امامت و خلافت جائز ہے … یہ بات اگر قصداً جھوٹ نہیں کہی گئی ہے تو ایک غلط فہمی ہے ، اور اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ابوحنیفہؒکہتے ہیں اور صرف ابوحنیفہؒہی نہیں، فقہائے عراق میں سے جن جن لوگوں کے اقوال معروف ہیں وہ سب یہی کہتے ہیں کہ قاضی اگر خود عادل ہو تو خواہ وہ کسی ظالم امام ہی کا مقرر کیا ہوا ہو۔ اس کے فیصلے صحیح طور پر نافذ ہو جائیں گے۔ اور نماز ان فاسق اماموں کے پیچھے بھی، ان کے فسق کے باوجود جائز ہو گی۔ یہ مسلک اپنی جگہ بالکل صحیح ہے مگر اس سے یہ استدلال نہیں کیا جا سکتا کہ ابوحنیفہؒفاسق کی امامت کو جائز ٹھہراتے ہیں۔ ۲؎
امام ذہبی اور الموفق المکّی، دونوں امام ابوحنیفہؒکا یہ قول نقل کرتے ہیں۔
جو امام فَے (یعنی پبلک کے خزانے) کا ناجائز استعمال کرے، یا حکم میں ظلم سے کام لے اس کی امامت باطل ہے اور اس کا حکم جائز نہیں ہے۔ ۳؎
ان بیانات پر غور کرنے سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ امام ابوحنیفہؒخوارج اور معتزلہ کے برعکس‘ بالحق (dejure) اور بالفعل (defacto) میں فرق کرتے ہیں۔ خوارج و معتزلہ کے مسلک سے لازم آتا تھا کہ اگر امام عادل و صالح، یعنی امام بالحق موجود نہ ہو تو مسلم معاشرے اور ریاست کا پورا نظام معطل ہو جائے۔ نہ حج ہو سکے، نہ جمعہ و جماعت ہو، نہ عدالتیں قائم ہوں، نہ مسلمانوں کا کوئی مذہبی کام، یا سیاسی و معاشرتی کام جائز طور پر انجام پائے۔ امام ابوحنیفہؒاس غلطی کی اصلاح یوں کرتے ہیں کہ بالحق امام اگر میسر نہ ہو تو بالفعل جو بھی مسلمانوں کا امام ہو اس کے ماتحت مسلمانوں کی پوری اجتماعی زندگی کا نظام جائز طور پر چلتا رہے گا، خواہ بجائے خود اس امام کی امامت جائز نہ ہو۔
معتزلہ و خوارج کی اس انتہا پسندی کے مقابلے میں جو دوسری انتہا مُرحبۂ ‘اور خود اہلِ سنّت کے بعض ائمہ نے اختیار کی تھی، امام ابوحنیفہؒنے مسلمانوں کو اس سے اور اس کے نتائج سے بھی بچایا ہے۔ وہ لوگ بھی بالفعل اور بالحق کے درمیان خلط ملط کر گئے تھے اور انھوں نے فاسق کی بالفعل امامت کو اس انداز سے جائز ٹھہرایا تھا کہ گویا وہی بالحق بھی ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہونا تھا کہ مسلمان ظالم و جابر اور بدکردار فرمانروائوں کی حکومت پر مطمئن ہو کر بیٹھ جائیں، اور اسے بدلنے کی کوشش تو درکنار، اس کی فکر تک چھوڑ دیں۔ امام ابوحنیفہؒنے اس غلط خیال کی اصلاح کے لیے پورے زور سے اس حقیقت کا اعلان و اظہار کیا کہ ایسے لوگوں کی امامت قطعاً باطل ہے۔
خلافت کے لیے قرشیت کی شرط
دوسرے مسئلے کے بارے میں امام ابوحنیفہؒکی رائے یہ تھی کہ خلیفہ قریش ہی میں سے ہونا چاہیے۱؎ اور یہ صرف انھی کی نہیں، تمام اہلِ سنّت کی متفق علیہ رائے تھی۔۲؎ اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ اسلامی خلافت ازروئے شریعت صرف ایک قبیلے کا دستوری حق تھی، بلکہ اس کی اصل وجہ اس وقت کے حالات تھے جن میں مسلمانوں کو مجتمع رکھنے کے لیے خلیفہ کا قرشی ہونا ضروری تھا۔ ابنِ خلدون نے یہ بات بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کی ہے کہ اس وقت اسلامی ریاست کی اصل پشت پناہ عرب تھے اور عربوں کا زیادہ سے زیادہ اتفاق اگر ممکن تھا تو قریش ہی کی خلافت پر۔ دوسرے کسی گروہ کا آدمی لینے کی صورت میں تنازع اور افتراق کے امکانات اتنے زیادہ تھے کہ خلافت کے نظام کو اس خطرے میں ڈالنا مناسب نہ تھا۔۱؎ اسی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت کی تھی کہ امام قریش میں سے ہوں۔ ۲؎ ورنہ اگر یہ منصب غیر قریشی کے لیے شرعاً ممنوع ہوتا تو حضرت عمرؓ اپنی وفات کے وقت یہ نہ کہتے کہ اگر حذیفہؓ کے آزاد کردہ غلام سالمؓ زندہ ہوتے تو میں ان کو اپنا جانشین تجویز کرتا۔۳؎ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی قریش میں خلافت رکھنے کی ہدایت دیتے ہوئے یہ بات واضح کر دی تھی کہ یہ منصب ان کے اندر اس وقت تک رہے گا جب تک ان میں مخصوص صفات باقی رہیں گی۔۴؎ اس سے خودبخود یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ان صفات کے فقدان کی صورت میں خلافت غیر قریش کے لیے بھی ہو سکتی ہے۔ یہی اصل فرق ہے امام ابوحنیفہؒاور جمیع اہل السنت کے مسلک اور ان خوارج و معتزلہ کے مسلک میں جو مطلقاً غیر قریشی کے لیے خلافت کا جواز ثابت کرتے تھے بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر غیر قریشی کو خلافت کا زیادہ حق دار قرار دیتے تھے۔ ان کی نگاہ میں اصل اہمیّت جمہوریت کی تھی خواہ اس کا نتیجہ انتشار ہی کیوں نہ ہو۔ مگر اہل السنت و الجماعت کو جمہوریت کے ساتھ ریاست کے استحکام کی بھی فکر تھی۔
بیت المال
اپنے وقت کے خلفا کی جن باتوں پر امام سب سے زیادہ معترض تھے ان میں سے ایک سرکاری خزانے پر ان کے بے جا تصرفات اور لوگوں کی املاک پر ان کی دست درازیاں تھیں۔ ان کے نزدیک حکم میں جَور اور بیت المال میں غلُول (خیانت) ایک امام کی امامت کو باطل کر دینے والے افعال تھے جیسا کہ ہم اوپر الذہبی کے حوالے سے نقل کر چکے ہیں۔ وہ اس کو بھی جائز نہ رکھتے تھے کہ بیرونی ممالک سے جو ہدیے اور تحفے خلیفہ کے پاس آئیں ان کو وہ اپنی ذاتی مِلک بنا لے۔ ان کے نزدیک یہ چیزیں پبلک کے خزانے کا حق تھیں نہ کہ خلیفہ اور اس کے خاندان کا، کیونکہ وہ اگر مسلمانوں کا خلیفہ نہ ہوتا اور بین الاقوامی دنیا میں ان کی اجتماعی قوت و سعی کی بدولت اس کی دھاک قائم نہ ہوئی ہوتی تو کوئی اس شخص کو گھر بیٹھے ہدیے نہ بھیجتا۔ ۱؎ وہ بیت المال سے خلیفہ کے بے جا مصارف اور عطیات پر بھی معترض تھے اور یہ ان وجوہ میں سے ایک بڑی وجہ تھی جن کی بنا پر وہ خود خلفا کے عطیے قبول نہ کرتے تھے۔ جس زمانے میں ان کے اور خلیفہ منصور کے درمیان سخت کشمکش چل رہی تھی۔ منصور نے ان سے کہا تم میرے ہدیے کیوں نہیں قبول کرتے؟ انھوں نے جواب دیا: امیر المومنین نے اپنے مال میں سے مجھے کب دیا تھا کہ میں نے اسے ردّکیا ہو۔ اگر آپ اس میں سے دیتے تو میں ضرور قبول کر لیتا۔ آپ نے تو مسلمانوں کے بیت المال سے مجھے دیا حالانکہ ان کے مال میں میرا کوئی حق نہیں ہے۔ میں نہ ان کے دفاع کے لیے لڑنے والا ہوں کہ ایک سپاہی کا حصّہ پائوں نہ ان کے بچوں میں سے ہوں کہ بچوں کا حصّہ مجھے ملے اور نہ فقرا میں سے ہوں کہ جو کچھ فقیر کو ملنا چاہیے وہ مجھے ملے۔ ۲؎ پھر جب المنصور نے عہدہ قضا قبول نہ کرنے پر انھیں ۳۰ کوڑے مارے اور ان کا سارا بدن لہولہان ہو گیا تو خلیفہ کے چچا عبدالصمد بن علی نے اس کو سخت ملامت کی کہ یہ تم نے کیا کیا، اپنے اوپر ایک لاکھ تلواریں کھچوا لیں، یہ عراق کا فقیہ ہے، بلکہ یہ تمام اہلِ مشرق کا فقیہ ہے۔ منصور نے اس پر نادم ہو کر فی تازیانہ ایک ہزار درہم کے حساب سے ۳۰ ہزار درہم امام کو بھجوائے لیکن انھوں نے لینے سے انکار کر دیا۔ کہا گیا کہ لے کر خیرات کر دیجیے۔ جواب میں فرمایا: کیا ان کے پاس کوئی مال حلال بھی ہے؟ ۳؎ اسی کے قریب زمانے میں جب پے در پے تکلیفیں سہتے سہتے ان کا آخر وقت آ گیا تو انھوں نے وصیت کی کہ بغداد کے اس حصّے میں انھیں دفن نہ کیا جائے جسے شہر بسانے کے لیے منصور نے لوگوں کی املاک میں سے غصب کر لیا تھا۔ منصور نے اس وصیت کا حال سنا تو چیخ اٹھا کہ ابو حنیفہ، زندگی اور موت میں تیری پکڑ سے کون مجھے بچائے۔ ۴؎
عدلیہ کی انتظامیہ سے آزادی
عدلیہ کے متعلق ان کی قطعی رائے یہ تھی کہ اسے انصاف کرنے کے لیے انتظامیہ کے دبائو اور مداخلت سے نہ صرف آزاد ہونا چاہیے بلکہ قاضی کو اس قابل ہونا چاہیے کہ خود خلیفہ بھی اگر لوگوں کے حقوق پر دست درازی کرے تو وہ اس پر اپنا حکم نافذ کر سکے۔ چنانچہ اپنی زندگی کے آخری زمانے میں جب کہ امام کو یقین ہو گیا تھا کہ حکومت ان کو زندہ نہ رہنے دے گی۔ انھوں نے اپنے شاگردوں کو جمع کرکے ایک تقریر کی اور اس میں منجملہ دوسری اہم باتوں کے ایک بات یہ بھی فرمائی کہ:۔
اگر خلیفہ کوئی ایسا جرم کرے جو انسانی حقوق سے متعلق ہو تو مرتّبے میں اس سے قریب ترین قاضی (یعنی قاضی القضاۃ) کو اس پر حکم نافذ کرنا چاہیے۔۱؎
بنی امیہ اور بنی عباس کے زمانے میں حکومت کے مناصب اور خصوصاً قضا کا عہدہ قبول کرنے سے ان کے انکار کی سب سے بڑی وجہ یہی تھی کہ وہ ان دونوں حکومتوں میں قضا کی یہ حیثیت نہ پاتے تھے۔ صرف یہی نہیں کہ خلیفہ پر قانون کا حکم نافذ کرنے کی وہاں کوئی گنجائش نہ تھی بلکہ انھیں اندیشہ تھا کہ انھیں آلۂ ظلم بنایا جائے گا، ان سے غلط فیصلے کرائے جائیں گے اور ان کے فیصلوں میں نہ صرف خلیفہ بلکہ اس کے قصر سے تعلق رکھنے والے دوسرے لوگ بھی مداخلت کریں گے۔
سب سے پہلے بنی امیہ کے عہد میں عراق کے گورنر یزید بن عمر بن ہُبَیْرَہ نے ان کو منصب قبول کرنے پر مجبور کیا۔ ۱۳۰ھ کا زمانہ تھا جب کہ عراق میں اُموی سلطنت کے خلاف فتنوں کے وہ طوفان اٹھ رہے تھے جنھوں نے دو سال کے اندر اُمویوں کا تختہ الٹ دیا۔ اس موقع پر ابن ہُبَیْرَہ چاہتا تھا کہ بڑے بڑے فقہا کو ساتھ ملا کر ان کے اثر سے فائدہ اٹھائے چنانچہ اس نے ابن ابی لیلیٰ، دائود بن ابی الہند‘ ابنِ شُبر مہ وغیرہ کو بلا کر اہم مناصب دیئے۔ پھر ابوحنیفہؒکو بلا کر کہا کہ میں آپ کے ہاتھ میں اپنی مہر دیتا ہوں، کوئی حکم نافذ نہ ہو گا جب تک کہ آپ اس پر مہر نہ لگائیں اور کوئی مال خزانے سے نہ نکلے گا جب تک آپ اس کی توثیق نہ کریں۔ امام نے یہ ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کیا تو اس نے انھیں قید کر دیا اور کوڑے لگوانے کی دھمکی دی۔ دوسرے فقہا نے امام کو سمجھایا کہ اپنے اوپر رحم کرو، ہم سب اس خدمت سے ناخوش ہیں مگر مجبوراً اسے قبول کیا ہے، تم بھی مان لو۔ امام نے جواب دیا: اگر وہ مجھ سے چاہے کہ اس کے لیے واسط کی مسجد کے دروازے گنوں تب بھی میں قبول نہ کروں گا، کجا کہ وہ چاہتا ہے کہ وہ کسی آدمی کے قتل کا حکم لکھے اور میں اس فرمان پر مہر لگائوں۔ اﷲ کی قسم، میں اس ذمہ داری میں شریک نہ ہوں گا۔ اس سلسلے میں ابن ہُبَیْرَہ نے ان کے سامنے اور خدمات پیش کیں اور وہ انکار کرتے رہے۔ پھر اس نے ان کو قاضی کوفہ بنانے کا فیصلہ کیا اور اس پر قسم کھا لی کہ ابوحنیفہؒانکار کریں گے تو میں انھیں کوڑے لگوائوں گا۔ ابوحنیفہؒنے بھی جواب میں قسم کھائی اور کہا:دنیا میں اس کے کوڑے کھا لینا میرے لیے آخرت کی سزا بھگتنے سے زیادہ سہل ہے، اﷲ کی قسم میں ہرگز قبول نہ کروں گا، خواہ وہ مجھے قتل ہی کر دے۔ آخرکار اس نے ان کے سر پر ۲۰ یا ۳۰ کوڑے لگوائے۔ بعض روایات یہ ہیں کہ دس گیارہ روز تک وہ روزانہ دس کوڑے لگواتا رہا۔ مگر ابوحنیفہؒاپنے انکار پر قائم رہے۔ آخرکار اسے اطلاع دی گئی کہ یہ شخص مر جائے گا۔ اس نے کہا کیا کوئی ناصح نہیں ہے جو اس شخص کو سمجھائے کہ مجھ سے مہلت ہی مانگ لے۔ امام ابوحنیفہؒکو ابن ہُبَیْرَہ کی یہ بات پہنچائی گئی تو انھوں نے کہا مجھے چھوڑ دو کہ میں اپنے دوستوں سے اس معاملے میں مشورہ کر لوں۔ ابن ہُبَیْرَہ نے یہ پیغام ملتے ہی انھیں چھوڑ دیا اور وہ کوفہ چھوڑ کر مکہ چلے گئے جہاں سے بنی امیہ کی سلطنت ختم ہونے تک وہ پھر نہ پلٹے۔ ۱؎
اس کے بعد عباسی عہد میں المنصور نے ان پر عہدۂ قضا کے لیے اصرار شروع کیا۔ جیسا کہ آگے چل کر ہم بتائیں گے، منصور کے خلاف نفس ذکیہ اور ان کے بھائی ابراہیم کے خروج میں امام نے کھلّم کھلا ان کا ساتھ دیا تھا جس کی وجہ سے منصور کے دل میں ان کے خلاف گرہ بیٹھی ہوئی تھی۔ الذہبی کے الفاظ میں وہ ان کے خلاف غصّے میں آگ کے بغیر جلا جا رہا تھا۔ ۲؎ مگر ان جیسے بااثر آدمی پر ہاتھ ڈالنا اس کے لیے آسان نہ تھا۔ اسے معلوم تھا کہ ایک امام حسینؓ کے قتل نے بنی امیہ کے خلاف مسلمانوں میں کتنی نفرت پیدا کر دی تھی اور اس کی بدولت ان کا اقتدار کس آسانی سے اکھاڑ پھینکا گیا۔ اس لیے وہ انھیں مارنے کے بجائے سونے کی زنجیروں سے باندھ کر اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا زیادہ بہتر سمجھتا تھا۔ اس نے ان کے سامنے بار بار قضا کا منصب اسی نیت سے پیش کیا، یہاں تک کہ انھیں تمام سلطنت عباسیہ کا قاضی القضاۃ مقرر کرنے کی پیشکش کی۔ مگر وہ ایک مدت تک طرح طرح کے حیلوں سے اس کو ٹالتے رہے۔۱؎ آخر کار جب وہ بہت ہی زیادہ مصر ہوا تو امام نے اس کو صاف صاف اپنے انکار کے وجوہ بتائے۔ ایک مرتبہ کی گفتگو میں انھوں نے بڑے نرم انداز میں معذرت کرتے ہوئے کہا قضا کے لیے نہیں موزوں ہو سکتا مگر وہ شخص جو اتنی جان رکھتا ہو کہ آپ پر اور آپ کے شاہزادوں اور سپہ سالاروں پر قانون نافذ کر سکے۔ مجھ میں یہ جان نہیں ہے۔ مجھے تو جب آپؐ بلاتے ہیں تو واپس نکل کر ہی میری جان میں جان آتی ہے۔ ۲؎ ایک اور موقع پر زیادہ سخت گفتگو ہوئی جس میں انھوں نے خلیفہ کو مخاطب کرکے کہا:خدا کی قسم میں تو اگر رضامندی سے بھی یہ عہدہ قبول کروں تو آپ کے بھروسے کے لائق نہیں ہوں، کجا کہ ناراضی کے ساتھ مجبوراً قبول کروں۔ اگر کسی معاملے میں میرا فیصلہ آپ کے خلاف ہوا اور پھر آپ نے مجھے دھمکی دی کہ یا تو میں تجھے فرات میں غرق کر دوں گا۔ ورنہ اپنا فیصلہ بدل دے، تو میں غرق ہونا قبول کر لوں گا مگر فیصلہ نہ بدلوں گا۔ پھر آپ کے بہت سے اہلِ دربار بھی ہیں …… کوئی ایسا قاضی چاہیے جو آپ کی خاطر ان کا بھی لحاظ کرے۔ ۳؎ ان باتوں سے جب منصور کو یقین ہو گیاکہ یہ شخص اس سنہری پنجرے میں بند ہونے کے لیے تیار نہیں ہے تو وہ عریاں انتقام پر اتر آیا۔ انھیں کوڑوں سے پٹوایا، جیل میں ڈال کر کھانے پینے کی سخت تکلیفیں دیں، پھر ایک مکان میں نظربند کر دیا جہاں بقول بعض طبعی موت سے اور بقول بعض زہر سے ان کی زندگی کا خاتمہ ہو گیا۔۴؎
آزادیٔ اظہار رائے کا حق
امام کے نزدیک مسلم معاشرے اور اسلامی ریاست میں قضا کی آزادی کے ساتھ آزادی اظہار رائے کی بھی بہت بڑی اہمیّت تھی جس کے لیے قرآن و سنّت میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔ محض ’’اظہار رائے‘‘ تو نہایت ناروا بھی ہو سکتا ہے، فتنہ انگیز بھی ہو سکتا ہے، اخلاق اور دیانت اور انسانیت کے خلاف بھی ہو سکتا ہے، جسے کوئی قانون برداشت نہیں کر سکتا۔ لیکن برائیوں سے روکنا اور بھلائی کے لیے کہنا ایک صحیح اظہار رائے ہے اور اسلام یہ اصطلاح اختیار کرکے اظہارِ رائے کی تمام صورتوں میں سے اسی کو مخصوص طور پر عوام کا نہ صرف حق قرار دیتا ہے بلکہ اسے ان کا فرض بھی ٹھہراتا ہے۔ امام ابوحنیفہؒ کو اس حق اور اس فرض کی اہمیّت کا سخت احساس تھا کیونکہ ان کے زمانے کے سیاسی نظام میں مسلمانوں کا یہ حق سلب کر لیا گیا تھا اور اس کی فرضیت کے معاملے میں بھی لوگ مذبذب ہو گئے تھے۔ اس زمانے میں ایک طرف مرحبۂ اپنے عقائد کی تبلیغ سے لوگوں کو گناہ پر جرأت دلا رہے تھے، دوسری طرف حَشْویہ اس بات کے قائل تھے کہ حکومت کے مقابلے میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر ایک فتنہ ہے، اور تیسری طرف بنی امیہ و بنی عباس کی حکومتیں طاقت سے مسلمانوں کی اس روح کو کچل رہی تھیں کہ وہ امرا کے فسق و فجور اور ظلم وجور کے خلاف آواز اٹھائیں۔ اس لیے امام ابوحنیفہؒ نے اپنے قول اور عمل دونوں سے اس روح کو زندہ کرنے کی اور اس کے حدود واضح کرنے کی کوشش کی۔ الجصّاص کا بیان ہے کہ ابراہیم الصائغ (خراسان کے ایک مشہور و بااثر فقیہ) کے سوال پر امام نے فرمایا کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر فرض ہے اور ان کو عکرمہ عن ابن عباس کی سند سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد سنایا کہ افضل الشہداء ایک تو حمزہ بن عبدالمطلب ہیں، دوسرے وہ شخص جو ظالم امام کے سامنے اٹھ کر اسے نیک بات کہے اور بدی سے روکے اور اس قصور میں مارا جائے۔ ابراہیم پر امام کی اس تلقین کا اتنا زبردست اثر پڑا کہ وہ جب خراسان واپس گئے تو انھوں نے عباسی سلطنت کے بانی ابومسلم خراسانی (م ۱۳۶ھ، ۷۵۴ئ) کو اس کے ظلم و ستم اور ناحق کی خون ریزی پر برملا ٹوکا اور بار بار ٹوکا، یہاں تک کہ آخرکار اس نے انھیں قتل کر دیا۔ ۱؎
ابراہیم بن عبداللہ، نفس ذکیہ کے بھائی کے خروج (۱۴۵ھ ___ ۷۶۳ئ) کے زمانے میں امام ابوحنیفہؒکا اپنا طرزِ عمل یہ تھا کہ وہ علانیہ ان کی حمایت اور المنصور کی مخالفت کرتے تھے حالانکہ المنصور اس وقت کوفہ ہی میں موجود تھا، ابراہیم کی فوج بصرے سے کوفے کی طرف بڑھ رہی تھی اور شہر میں رات بھر کرفیو رہتا تھا۔ ان کے مشہور شاگرد زُفر بن الہذیل کی روایت ہے کہ اس نازک زمانے میں ابوحنیفہؒبڑے زوروشور سے کھلّم کھلا اپنے خیالات کا اظہار کرتے تھے یہاں تک کہ ایک روز میں نے ان سے کہا آپ باز نہ آئیں گے جب تک ہم سب کی گردنوں میں رسی نہ بندھ جائے۔ ۱؎
۱۴۸ھ (۷۶۵ء) میں اہلِ موصل نے بغاوت کی۔ منصور اس سے پہلے ایک بغاوت کے بعد ان سے یہ عہد لے چکا تھا کہ آیندہ اگر وہ بغاوت کریں گے تو ان کے خون اور مال اس پر حلال ہوں گے۔ اب جو انھوں نے خروج کیا تو منصور نے بڑے بڑے فقہا کو جن میں ابوحنیفہؒبھی تھے، بلا کر پوچھا کہ معاہدے کی رو سے ان کے خون اور مال مجھ پر حلال ہو گئے ہیں یا نہیں؟ دوسرے فقہا نے معاہدے کا سہارا لیا اور کہا کہ آپ انھیں معاف کر دیں تو یہ آپ کی شان کے مطابق ہے ورنہ جو سزا بھی آپ انھیں دینا چاہیں دے سکتے ہیں۔ ابوحنیفہؒخاموش تھے۔ منصور نے کہا یا شیخ، آپ کیا کہتے ہیں۔ انھوں نے جواب دیا: اہلِ موصل نے آپ کے لیے وہ چیز مباح کی جو ان کی اپنی نہ تھی (یعنی ان کے خون) اور آپ نے ان سے وہ شرط منوائی جسے آپ منوانے کا حق نہ رکھتے تھے۔ بتایئے، اگر کوئی عورت اپنے آپ کو نکاح کے بغیر کسی کے لیے حلال کر دے تو کیا وہ حلال ہو جائے گی؟ اگر کوئی شخص کسی سے کہے کہ مجھے قتل کر دے تو کیا اس کا قتل اس شخص کے لیے مباح ہو گا؟ منصور نے کہا: نہیں۔ امام نے کہا :تو آپ اہلِ موصل سے ہاتھ روک لیجیے۔ ان کا خون بہانا آپ کے لیے حلال نہیں ہے۔ یہ بات سن کر منصور نے ناراضی کے ساتھ فقہا کی مجلس برخاست کر دی۔ پھر ابوحنیفہؒکو الگ بلا کر کہا: بات تو وہی صحیح ہے جو تم نے کہی، مگر تم ایسے فتوے نہ دیا کرو جن سے تمھارے امام پر حرف آئے اور باغیوں کی ہمت افزائی ہو۔۲؎
اسی آزادیٔ اظہار رائے کا استعمال وہ عدالتوں کے مقابلے میں بھی کرتے تھے۔ کسی عدالت سے اگر کوئی غلط فیصلہ ہوتا تو قانون یا ضابطے کی جو غلطی بھی اس میں ہوتی، امام ابوحنیفہؒاس کا صاف صاف اظہار کر دیتے تھے۔ ان کے نزدیک احترامِ عدالت کے معنی یہ نہ تھے کہ عدالتوں کو غلط فیصلے کرنے دیئے جائیں۔ اس قصور میں ایک دفعہ مدت تک انھیں فتویٰ دینے سے بھی روک دیا گیا تھا۔ ۱؎
آزادیٔ رائے کے معاملے میں وہ اس حد تک جاتے ہیں کہ جائز امامت اور اس کی عادل حکومت کے خلاف بھی اگر کوئی شخص زبان کھولے اور امام وقت کو گالیاں دے یا اسے قتل تک کرنے کا خیال ظاہر کرے تو اس کو قید کرنا اور سزا دینا ان کے نزدیک جائز نہیں تاوقتیکہ وہ مسلح بغاوت یا بدامنی برپا کرنے کا عزم نہ کرے۔ اس کے لیے وہ حضرت علیؓ کے اس واقعہ سے استدلال کرتے ہیں کہ ان کے زمانۂ خلافت میں پانچ آدمی اس الزام میں گرفتار کرکے لائے گئے کہ وہ امیر المومنین کو کوفہ میں علانیہ گالیاں دے رہے تھے اور ان میں سے ایک شخص کہہ رہا تھا کہ میں انھیں قتل کر دوں گا۔ حضرت علیؓ نے انھیں رہا کر دینے کا حکم دیا۔ کہا گیا کہ یہ تو آپ کو قتل کرنے کا ارادہ ظاہر کر رہا تھا۔ حضرت علیؓ نے فرمایا: تو کیا بس یہ ارادہ ظاہر کرنے پر میں اسے قتل کر دوں؟ کہا گیا اور یہ لوگ آپ کو گالیاں دے رہے تھے۔ فرمایا:تم چاہو تو تم بھی انھیں گالیاں دے سکتے ہو۔ اسی طرح وہ مخالفینِ حکومت کے معاملے میں حضرت علیؓ کے اس اعلان سے بھی استدلال کرتے ہیں جو انھوں نے خوارج کے بارے میں کیا تھا کہ ہم تم کو مسجدوں میں آنے سے نہیں روکیں گے۔ ہم تمھیں مفتوحہ اموال کے حصّے سے محروم نہ کریں گے جب تک تم ہمارے خلاف کوئی مسلح کارروائی نہ کرو۔ ۲؎
ظالم حکومت کے خلاف خروج کا مسئلہ
اس زمانے میں ایک اہم مسئلہ یہ تھا کہ اگر مسلمانوں کا امام ظالم و فاسق ہو تو آیا اُس کے خلاف خروج (Revolt) کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔ اس مسئلے میں خود اہل السنت کے درمیان اختلاف ہے۔ اہل الحدیث کا بڑا گروہ اس بات کا قائل رہا ہے کہ صرف زبان سے اس کے ظلم کے خلاف آواز اٹھائی جائے اور اس کے سامنے کلمہ حق کہا جائے لیکن خروج نہ کیا جائے اگرچہ وہ ناحق خوں ریزی کرے، لوگوں کے حقوق پر بے جا دست درازیاں کرے اور کھلّم کھلا فسق کا مرتکب ہو۔۱؎ لیکن امام ابوحنیفہؒکا مسلک یہ تھا کہ ظالم کی امامت نہ صرف یہ کہ باطل ہے، بلکہ اس کے خلاف خروج بھی کیا جا سکتا ہے اور کیا جانا چاہیے۔ بشرطیکہ ایک کامیاب اور مفید انقلاب ممکن ہو، ظالم و فاسق کی جگہ عادل و صالح کو لایا جا سکتا ہو اور خروج کا نتیجہ محض جانوں اور قوتوں کا ضیاع نہ ہو۔ ابوبکر الجصّاص ان کے اس مسلک کی تشریح اس طرح کرتے ہیں۔
ظالموں اور ائمّہ جَور کے خلاف قتال کے معاملے میں ان کا مذہب مشہور ہے۔ اسی بنا پر اَوزاعی نے کہا تھا کہ ہم نے ابوحنیفہؒکی ہر بات برداشت کی یہاں تک کہ وہ تلوار کے ساتھ آ گئے (یعنی ظالموں کے خلاف قتال کے قائل ہو گئے) اور یہ ہمارے لیے ناقابلِ برداشت تھا۔ ابوحنیفہؒ کہتے تھے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ابتداً زبان سے فرض ہے لیکن اگر سیدھی راہ اختیار نہ کی جائے تو پھر تلوار سے واجب ہے۔ ۲؎
دوسری جگہ وہ عبداللہ بن المبارک کے حوالے سے خود امام ابوحنیفہؒکا ایک بیان نقل کرتے ہیں۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب پہلے عباسی خلیفہ کے زمانے میں ابومسلم خراسانی نے ظلم و ستم کی حد کر رکھی تھی۔ اس زمانے میں خراسان کے فقیہ ابراہیم الصائغ امام کے پاس آئے اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے مسئلے پر ان سے گفتگو کی۔ اس گفتگو کا ذکر بعد میں خود امام نے عبداللہ بن المبارک سے اس طرح کیا۔
ہمارے درمیان جب اس امر پر اتفاق ہو گیا کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر فرض ہے تو ابراہیم نے یکایک کہا ہاتھ بڑھایئے تاکہ میں آپ سے بیعت کروں۔ یہ سن کر دنیا میری نگاہوں میں تاریک ہو گئی۔ (ابن مبارک کہتے ہیں میں نے عرض کیا یہ کیوں؟ بولے) اس نے مجھے اللہ کے ایک حق کی طرف دعوت دی اور میں نے اس کو قبول کرنے سے انکار کیا۔ آخر میں نے اس سے کہا اگر ایک اکیلا آدمی اس کے لیے اٹھ کھڑا ہو تو مارا جائے گا اور لوگوں کا کوئی کام بھی نہ بنے گا۔ البتہ اگر اسے صالح مددگار مل جائیں اور ایک آدمی سرداری کے لیے ایسا بہم پہنچ جائے جو اللہ کے دین کے معاملے میں بھروسے کے لائق ہو تو پھر کوئی چیز مانع نہیں ہے۔ اس کے بعد ابراہیم جب بھی میرے پاس آتے مجھ پر اس کام کے لیے ایسا تقاضا کرتے جیسے کوئی سخت قرض خواہ کرتا ہے۔ میں ان سے کہتا کہ یہ کام ایک آدمی کے بنانے سے نہیں بن سکتا۔ انبیا بھی اس کی طاقت نہ رکھتے تھے جب تک کہ آسمان سے اس کے لیے مامور نہ کیے گئے۔ یہ فریضہ عام فرائض کی طرح نہیں ہے۔ عام فرائض کو ایک آدمی تنہا بھی انجام دے سکتا ہے مگر یہ ایسا کام ہے کہ اکیلا آدمی اس کے لیے کھڑا ہو جائے تو اپنی جان دے دے گا اور مجھے اندیشہ ہے کہ وہ اپنے قتل میں اعانت کا قصور وار ہو گا۔ پھر جب وہ مارا جائے گا تو دوسروں کی ہمتیں بھی اس خطرے کو انگیز کرنے میں پست ہو جائیں گی۔ ۱؎
خروج کے معاملے میں امام کا اپنا طرزِ عمل
اس سے امام کی اصولی رائے تو اس مسئلے میں صاف معلوم ہو جاتی ہے لیکن ان کا پورا نقطۂ نظر اس وقت تک سمجھ میں نہیں آ سکتا جب تک ہم یہ نہ دیکھیں کہ ان کے زمانے میں خروج کے جو اہم واقعات پیش آئے ان میں کیا طرزِ عمل انھوں نے اختیار کیا۔
زید بن علی کا خروج
پہلا واقعہ زید بن علی کا ہے جن کی طرف شیعوں کا فرقہ زیدیہ اپنے آپ کو منسوب کرتا ہے۔ یہ امام حسینؓ کے پوتے اور امام محمد الباقر کے بھائی تھے۔ اپنے وقت کے بڑے جلیل القدر عالم، فقیہ اور متقی و صالح بزرگ تھے۔ اور خود امام ابوحنیفہؒنے بھی ان سے علمی استفادہ کیا تھا۔ ۱۲۰ھ (۷۳۸ء) میں جب ہشام بن عبدالملک نے خالد بن عبداللہ القسری کو عراق کی گورنری سے معزول کرکے اس کے خلاف تحقیقات کرائی تو اس کے سلسلے میں گواہی کے لیے حضرت زید کو بھی مدینے سے کوفے بلایا گیا۔ ایک مدت کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ خاندان علی کا ایک ممتاز فرد کوفہ آیا تھا۔ یہ شہر شیعانِ علی کا گڑھ تھا۔ اس لیے ان کے آنے سے یک لخت علوی تحریک میں جان پڑ گئی اور لوگ کثرت سے ان کے گرد جمع ہونے لگے۔
ویسے بھی عراق کے باشندے سالہا سال سے بنی امیہ کے ظلم و ستم سہتے سہتے تنگ آ چکے تھے اور اٹھنے کے لیے سہارا چاہتے تھے۔ علوی خاندان کی ایک صالح، عالم، فقیہ شخصیت کا میسر آ جانا انھیں غنیمت محسوس ہوا۔ ان لوگوں نے زید کو یقین دلایا کہ کوفہ میں ایک لاکھ آدمی آپ کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہیں اور پندرہ ہزار آدمیوں نے بیعت کرکے باقاعدہ اپنے نام بھی ان کے رجسٹر میں درج کرا دیئے۔ اس اثناء میں خروج کی یہ تیاریاں اندر ہی اندر ہو رہی تھیں، اموی گورنر کو ان کی اطلاع پہنچ گئی۔ زید نے یہ دیکھ کر کہ حکومت خبردار ہو گئی ہے، صفر ۱۲۲ ھ (۷۴۰ء) میں قبل از وقت خروج کر دیا۔ جب تصادم کا موقع آیا تو کوفہ کے شیعانِ علی ان کا ساتھ چھوڑ گئے۔ جنگ کے وقت صرف ۲۱۸ آدمی ان کے ساتھ تھے۔ دورانِ جنگ میں اچانک ایک تیر ان کے آ کر لگا اور ان کی زندگی کا خاتمہ ہو گیا۔۱؎
اس خروج میں امام ابوحنیفہؒکی پوری ہمدردی ان کے ساتھ تھی۔ انھوں نے زید کو مالی مدد بھی دی اور لوگوں کو ان کا ساتھ دینے کی تلقین بھی کی۔ ۲؎ انھوں نے ان کے خروج کو جنگ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خروج سے تشبیہ دی۔ ۳؎ جس کے معنی یہ ہیں کہ ان کے نزدیک جس طرح اس وقت آنحضرتؐ کا حق پر ہونا غیر مشتبہ تھا اسی طرح اس خروج میں زید بن علی کا بھی حق پر ہونا غیر مشتبہ تھا لیکن جب زید کا پیغام ان کے نام آیا کہ آپ میرا ساتھ دیں تو انھوں نے قاصد سے کہا کہ اگر میں یہ جانتا کہ لوگ ان کا ساتھ نہ چھوڑیں گے اور سچے دل سے ان کی حمایت میں کھڑے ہوں گے تو میں ضرور ان کے ساتھ ہوتا اور جہاد کرتا کیونکہ وہ امام حق ہیں لیکن مجھے اندیشہ ہے کہ یہ لوگ اسی طرح ان سے بے وفائی کریں گے جس طرح اَن کے دادا (سیدنا حسینؓ) سے کر چکے ہیں۔ البتہ میں روپے سے ان کی مدد ضرور کروں گا۔ ۴؎ یہ بات ٹھیک اس مسلک کے مطابق تھی جو ائمّہ جَور کے خلاف خروج کے معاملے میں امام نے اصولاً بیان کیا تھا۔ وہ کوفہ کے شیعانِ علی کی تاریخ اور ان کے نفسیات سے واقف تھے۔ حضرت علی کے زمانے سے یہ لوگ جس سیرت و کردار کا مسلسل اظہار کرتے رہے تھے اس کی پوری تاریخ سب کے سامنے تھی۔ دائود بن علی (ابن عباس کے پوتے) نے بھی عین وقت پر حضرت زید کو ان کوفیوں کی اسی بے وفائی پر متنبّہ کرکے خروج سے منع کیا تھا۔ ۱؎ امام ابوحنیفہؒکو یہ بھی معلوم تھا کہ یہ تحریک صرف کوفہ میں ہے۔ پوری سلطنت بنی امیہ اس سے خالی ہے۔ کسی دوسری جگہ اس کی کوئی تنظیم نہیں، جہاں سے مدد مل سکے۔ اور خود کوفہ میں بھی چھ مہینے کے اندر یہ کچی پکی کھچڑی تیار ہوئی ہے۔ اس لیے انھیں تمام ظاہری آثار کو دیکھتے ہوئے یہ توقع نہ تھی کہ زید کے خروج سے کوئی کامیاب انقلاب رونما ہو سکے گا۔ علاوہ بریں غالباً امام کے نہ اٹھنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ خود اس وقت تک اتنے بااثر نہ ہوئے تھے کہ ان کی شرکت سے اس تحریک کی کمزوری کا مداوا ہو سکے۔ ۱۲۰ھ تک عراق کے مدرسہ اہل الرّائے کی امامت حماد کو حاصل تھی اور ابوحنیفہؒاس وقت تک محض ان کے ایک شاگرد کی حیثیت رکھتے تھے۔ زید کے خروج کے وقت انھیں اس مدرسے کی امامت کے منصب پر سرفراز ہوئے صرف ڈیڑھ سال یا اس سے کچھ کم و بیش مدت ہوئی تھی۔ ابھی انھیں ’’فقیہ اہلِ شرق‘‘ ہونے کا مرتبہ اور اثرورسوخ حاصل نہ ہوا تھا۔
نفس زکیہ کا خروج
دوسرا خروج محمد بن عبداللہ (نفس زکیہ) اور ان کے بعد ان کے بھائی ابراہیم بن عبداللہ کا تھا جو امام حسن بن علی کی اولاد سے تھے۔ یہ ۱۴۵ھ (۶۳-۷۶۲ء) کا واقعہ ہے جب کہ امام ابوحنیفہؒبھی اپنے پورے اثرورسوخ کو پہنچ چکے تھے۔ ان دونوں بھائیوں کی خفیہ تحریک بنی امیہ کے زمانے سے چل رہی تھی حتیٰ کہ ایک وقت تھا جب خود المنصور نے دوسرے بہت سے لوگوں کے ساتھ جو اموی سلطنت کے خلاف بغاوت کرنا چاہتے تھے، نفس زکیہ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔۲؎ عباسی سلطنت قائم ہو جانے کے بعد یہ لوگ روپوش ہو گئے اور اندر ہی اندر اپنی دعوت پھیلاتے رہے۔ خراسان، الجزیرہ، رئے، طبرستان، یمن اور شمالی افریقہ میں ان کے داعی پھیلے ہوئے تھے۔ نفس زکیہ نے خود اپنا مرکز حجاز میں رکھا تھا۔ ان کے بھائی ابراہیم نے عراق میں بصرے کو اپنا مرکز بنایا تھا۔ کوفہ میں بھی بقول ابن اثیر ایک لاکھ تلواریں ان کی حمایت میں نکلنے کے لیے تیار تھیں۔۱؎ المنصور ان کی خفیہ تحریک سے پہلے ہی واقف تھا اور ان سے نہایت خوف زدہ تھا، کیونکہ ان کی دعوت اسی عباسی دعوت کے متوازی چل رہی تھی جس کے نتیجے میں دولت عباسیہ قائم ہوئی تھی اور اس کی تنظیم عباسی دعوت کی تنظیم سے کم نہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کئی سال سے اس کو توڑنے کے در پے تھا اور اسے کچلنے کے لیے انتہائی سختیاں کر رہا تھا۔ جب رجب ۱۴۵ھ میں نفس زکیہ نے مدینے سے عملاً خروج کیا تو منصور سخت گھبراہٹ کی حالت میں بغداد کی تعمیر چھوڑ کر کوفہ پہنچا اور اس تحریک کے خاتمے تک اسے یقین نہ تھا کہ اس کی سلطنت باقی رہے گی یا نہیں۔ بسا اوقات بدحواس ہو کر کہتا ’’بخدا میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کروں۔‘‘ بصرہ، فارس، اہواز، واسط، مدائن، سواد جگہ جگہ سے سقوط کی خبریں آتی تھیں اور ہر طرف سے اس کو بغاوت پھوٹ پڑنے کا خطرہ تھا۔ دو مہینے تک وہ ایک ہی لباس پہنے رہا، بستر پر نہ سویا، رات رات بھر مصلّے پر گزار دیتا تھا۔۲؎ اس نے کوفہ سے فرار ہونے کے لیے ہر وقت تیز رفتار سواریاں تیار رکھ چھوڑی تھیں۔ اگر خوش قسمتی اس کا ساتھ نہ دیتی تو یہ تحریک اس کا اور خانوادہ عباسی کی سلطنت کا تختہ الٹ دیتی۔۳؎
اس خروج کے موقع پر امام ابوحنیفہؒکا طرزِ عمل پہلے خروج سے بالکل مختلف تھا۔ جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں، انھوں نے اس زمانے میں جب کہ منصور کوفہ ہی میں موجود تھا اور شہر میں ہر رات کرفیو لگا رہتا تھا، بڑے زوروشور سے کھلّم کھلا اس تحریک کی حمایت کی، یہاں تک کہ ان کے شاگردوں کو خطرہ پیدا ہو گیا کہ ہم سب باندھ لیے جائیں گے۔ وہ لوگوں کو ابراہیم کا ساتھ دینے اور ان سے بیعت کرنے کی تلقین کرتے تھے۔۴؎ وہ ان کے ساتھ خروج کو نفلی حج سے ۵۰ یا ۷۰ گنا زیادہ ثواب کا کام قرار دیتے تھے۔۵؎ ایک شخص ابواسحاق الفَزاری سے انھوں نے یہاں تک کہا کہ تیرا بھائی جو ابراہیم کا ساتھ دے رہا ہے، اس کا یہ فعل تیرے اس فعل سے کہ تو کفار کے خلاف جہاد کرتا ہے، زیادہ افضل ہے۔۶؎ امام کے یہ اقوال ابوبکر جصّاص، الموفق المکّی اور ابن البزّاز الکردری صاحب ِفتاویٰ بزازیہ جیسے لوگوں نے نقل کیے ہیں جو خود بڑے درجے کے فقیہ ہیں اور ان اقوال کے صاف معنی یہ ہیں کہ امام کے نزدیک مسلم معاشرے کے اندرونی نظام کو بگڑی ہوئی قیادت کے تسلّط سے نکالنے کی کوشش باہر کے کفار سے لڑنے کی بہ نسبت بدرجہا زیادہ فضیلت رکھتی تھی۔
سب سے زیادہ اہم اور خطرناک اقدام ان کا یہ تھا کہ انھوں نے المنصور کے نہایت معتمد جنرل اور اس کے سپہ سالار اعظم حسن بن قَحْطُبَہ کو نفس زکیہ اور ابراہیم کے خلاف جنگ پر جانے سے روک دیا۔ اس کا باپ قحطبہ وہ شخص تھا جس کی تلوار نے ابومسلم کی تدبیر و سیاست کے ساتھ مل کر سلطنت عباسیہ کی بنا رکھی تھی۔ اس کے مرنے کے بعد یہ اس کی جگہ سپہ سالار اعظم بنایا گیا اور منصور کو اپنے جنرلوں میں سب سے زیادہ اسی پر اعتماد تھا۔ لیکن وہ کوفے میں رہ کر امام ابوحنیفہؒکا گرویدہ ہو چکا تھا۔ اس نے ایک مرتبہ امام سے کہا کہ میں آج تک جتنے گناہ کر چکا ہوں (یعنی منصور کی نوکری میں جیسے کچھ ظلم و ستم میرے ہاتھوں ہوئے ہیں) وہ آپ کے علم میں ہیں۔ اب کیا میرے لیے ان گناہوں کی معافی کی بھی کوئی صورت ہے؟ امام نے کہا: اگر اللہ کو معلوم ہو کہ تم اپنے افعال پر نادم ہو اور اگر آیندہ کسی مسلمان کے بے گناہ قتل کے لیے تم سے کہا جائے اور تم اسے قتل کرنے کے بجائے خود قتل ہو جانا گوارا کر لو، اور اگر تم اﷲ سے عہد کرو کہ آیندہ اپنے پچھلے افعال کا اعادہ نہ کرو گے تو یہ تمھارے لیے توبہ ہو گی۔ حسن نے امام کی یہ بات سن کر ان کے سامنے عہد کر لیا۔ اس پر کچھ مدت ہی گزری تھی کہ نفس زکیہ اور ابراہیم کے خروج کا معاملہ پیش آ گیا۔ منصور نے حسن کو ان کے خلاف جنگ پر جانے کا حکم دیا۔ اس نے آ کر امام سے اس کا ذکر کیا۔ امام نے فرمایا اب تمھاری توبہ کے امتحان کا وقت آ گیا ہے۔ اپنے عہد پر قائم رہو گے تو تمھاری توبہ بھی رہے گی۔ ورنہ پہلے جو کچھ کر چکے ہو اس پر بھی اﷲ کے ہاں پکڑے جائو گے اور اب جو کچھ کرو گے اس کی سزا بھی پائو گے۔ حسن نے دوبارہ اپنی توبہ کی تجدید کی اور امام سے کہا اگر مجھے مار بھی ڈالا جائے تو میں اس جنگ پر نہ جائوں گا۔ چنانچہ اس نے منصور کے پاس جا کر صاف کہہ دیا کہ امیر المومنین، میں اس مہم پر نہ جائوں گا۔ آج تک جو کچھ میں نے آپ کی اطاعت میں کیا ہے اگر یہ اللہ کی اطاعت میں تھا تو میرے لیے بس اتنا ہی کافی ہے۔ اور اگر وہ اللہ کی معصیت میں تھا تو اس سے آگے اب میں مزید گناہ نہیں کرنا چاہتا۔ منصور نے اس پر سخت ناراض ہو کر حسن کی گرفتاری کا حکم دے دیا۔ حسن کے بھائی حمید نے آگے بڑھ کر کہا: سال بھر سے اس کا رنگ بدلا ہوا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کا دماغ خراب ہو گیا ہے، میں اس مہم پر جائوں گا۔ بعد میں منصور نے اپنے معتمد لوگوں کو بلا کر پوچھا کہ حسن ان فقہا میں سے کس کے پاس جاتا آتا ہے۔ بتایا گیا کہ ابوحنیفہؒکے پاس اکثر اس کا جانا آنا رہتا ہے۔ ۱؎
یہ طرز عمل بھی ٹھیک ٹھیک امام کے اس نظریئے کے مطابق تھا کہ ایک کامیاب اور صالح انقلاب کے امکانات ہوں تو ظالم حکومت کے خلاف خروج جائز ہی نہیں واجب ہے۔ اس معاملے میں امام مالک کا طرز عمل بھی امام ابوحنیفہؒسے کچھ مختلف نہ تھا۔ نفس زکیہ کے خروج کے موقع پر جب ان سے پوچھا گیا کہ ہماری گردنوں میں تو خلیفہ منصور کی بیعت ہے، اب ہم دوسرے مدعی خلافت کا ساتھ کیسے دے سکتے ہیں، تو انھوں نے فتویٰ دیا کہ عباسیوں کی بیعت جبری تھی اور جبری بیعت، قسم یا طلاق جو بھی ہو، وہ باطل ہے۔۲؎ اسی فتوے کی وجہ سے بکثرت لوگ نفس زکیہ کے ساتھ ہو گئے اور بعد میں اس کا خمیازہ امام مالک کو یہ بھگتنا پڑا کہ مدینے کے عباسی گورنر جعفر بن سلیمان نے انھیں کوڑے لگوائے اور ان کا ہاتھ شانے سے اکھڑ گیا۔۳؎
امام ابوحنیفہؒمنفرد نہیں ہیں
یہ خیال کرنا صحیح نہ ہو گا کہ خروج کے مسئلے میں اہل السنت کے درمیان امام ابوحنیفہؒاپنی رائے میں منفرد ہیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ پہلی صدی ہجری میں اکابر اہلِ دین کی رائے وہی تھی جو امام اعظم نے اپنے قول اور عمل سے ظاہر فرمائی ہے۔ بیعت ِخلافت کے بعد حضرت ابوبکر نے سب سے پہلا خطبہ جو دیا اس میں وہ فرماتے ہیں:
اطیعونی ما اطعت اللّٰہ ورسولہ، فاذا عصیت اللّٰہ ورسولہ فلا طاعۃ لی علیکم۔۱؎
میری اطاعت کرو جب تک میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کروں۔ لیکن اگر میں اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کروں تو میری کوئی اطاعت تم پر نہیں ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
من بایع رجلاً من غیر مشورۃٍ من المسلمین فلابیایع ہوولا الذی بایعد تغرَّۃً ان یُقتلًا ۲؎
جس نے مسلمانوں کے مشورے کے بغیر کسی شخص کی بیعت کی وہ بیعت کرنے والا اور جس سے اس نے بیعت کی، اپنے آپ کو بھی اور اس کو بھی دھوکا دیتا ہے اور اپنے آپ کو قتل کے لیے پیش کرتا ہے۔
یزید کی قائم شدہ امارت کے مقابلے میں جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ اٹھے تو بکثرت صحابہ زندہ تھے، اور فقہائے تابعین کا تو قریب قریب سارا گروہ ہی موجود تھا۔ مگر ہماری نگاہ سے کسی صحابی یا تابعی کا یہ قول نہیں گزرا کہ حضرت حسین ایک فعلِ حرام کا ارتکاب کرنے جا رہے ہیں۔ جن جن لوگوں نے بھی حضرت ممدوح کو روکا تھا یہ کہہ کر روکا تھا کہ اہلِ عراق قابلِ اعتماد نہیں ہیں، آپ کامیاب نہ ہو سکیں گے۔ اور اس اقدام سے اپنے آپ کو خطرے میں ڈال دیں گے۔ بالفاظِ دیگر ان سب کی رائے اس مسئلے میں وہی تھی جو بعد میں امام ابوحنیفہؒنے ظاہر فرمائی کہ فاسد امارت کے خلاف خروج بجائے خود ناجائز نہیں ہے، مگر اس اقدام سے پہلے یہ دیکھ لینا ضروری ہے کہ آیا بگڑے ہوئے نظام کو بدل کر صالح نظام قائم ہو جانے کا امکان ہے یا نہیں۔
اسی طرح جب حجاج بن یوسف کے ظالمانہ دورِ ولایت میں عبدالرحمان بن اشعث نے بنی امیہ کے خلاف خروج کیا تو اس وقت کے بڑے بڑے فقہا، سعید بن جُبَیر، الشُّعبی، ابن ابی لیلیٰ اور ابوالبَخْترِی اس کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ اور باقی جو کھڑے نہ ہوئے ان میں سے بھی کسی نے نہ کہا کہ یہ خروج ناجائز ہے۔ اس موقع پر ابن اشعث کی فوج کے سامنے ان فقہا نے جو تقریریں کی تھیں وہ ان کے نظریے کی پوری ترجمانی کرتی ہیں۔ ابن ابی لیلیٰ نے کہا۔
اے اہلِ ایمان، جو شخص دیکھے کہ ظلم و ستم ہو رہا ہے اور برائیوں کی طرف دعوت دی جا رہی ہے، وہ اگر دل سے اس کو برا سمجھے تو بری ہوا اور بچ نکلا، اور اگر زبان سے اس پر اظہار ناپسندی کرے تو اس نے اجر پایا اور پہلے شخص سے افضل رہا، مگر ٹھیک ٹھیک راہِ حق پانے والا اور یقین کے نور سے دل کو روشن کر لینے والا وہی ہے جو اللہ کا بول بالا اور ظالموں کا بول نیچا کرنے کی خاطر ایسے لوگوں کی مخالفت تلوار سے کرے۔ پس جنگ کرو ان لوگوں کے خلاف جنھوں نے حرام کو حلال کر دیا ہے اور امت میں برے راستے نکالے ہیں، جو حق سے بیگانہ ہیں اور اسے نہیں پہچانتے جو ظلم پر عمل کرتے ہیں اور اسے برا نہیں جانتے۔
الشعبی نے کہا:
ان سے لڑو اور یہ خیال نہ کرو کہ ان کے خلاف جنگ کرنا کوئی برا فعل ہے۔ خدا کی قسم، آج روئے زمین پر میرے علم میں ان سے بڑھ کر ظلم کرنے والا اور اپنے فیصلوں میں ناانصافی کرنے والا کوئی گروہ نہیں ہے۔ پس ان کے خلاف لڑنے میں ہرگز سستی نہ ہونے پائے۔
سعید بن جُبَیر نے کہا۔
ان سے لڑو، اس بنا پر کہ وہ حکومت میں ظالم ہیں دین میں سرکش ہیں،کمزوروں کو ذلیل کرتے ہیں، اور نمازوں کو ضائع کرتے ہیں۔ ۱؎
یہ تھی پہلی صدی ہجری کے اہلِ دین کی عام رائے۔ امام ابوحنیفہؒنے اسی دور میں آنکھیں کھولی تھیں، اس لیے ان کی رائے بھی وہی تھی جو ان لوگوں کی تھی۔ اس کے بعد دوسری صدی کے آخری دور میں وہ دوسری رائے ظاہر ہونی شروع ہوئی جو اب جمہور اہلِ سنّت کی رائے کہی جاتی ہے۔ اس رائے کے ظہور کی وجہ یہ نہ تھی کہ کچھ نصوصِ قطعیّہ اس کے حق میں مل گئی تھیں جو پہلی صدی کے اکابر سے پوشیدہ تھیں، یا معاذ اللہ، پہلی صدی والوں نے نصوص کے خلاف مسلک اختیار کر رکھا تھا۔ بلکہ دراصل اس کے دو وجوہ تھے۔ ایک یہ کہ جبّاروں نے پرامن جمہوری طریقوں سے تبدیلی کا کوئی راستہ کھلا نہ چھوڑا تھا۔ دوسرے یہ کہ تلوار کے ذریعے سے تبدیلی کی جو کوششیں ہوئی تھیں ان کے ایسے نتائج پے در پے ظاہر ہوتے چلے گئے جن کو دیکھ کر اس راستے سے بھی خیر کی توقع باقی نہ رہی۔ (ترجمان القرآن۔ اگست و ستمبر ۱۹۶۳ء)
خروج کے بارے میں امام ابوحنیفہؒ کا مسلک
سوال: ’’مسئلہ خلافت میں امام ابوحنیفہؒ کے مسلک‘‘ کی جو کچھ تشریح آپ نے ترجمان القرآن میں پیش کی ہے اس کے ضمن میں بعض واقعات جو بعض کتابوں کے حوالے سے نقل کیے گئے ہیں افسوس ہے کہ ان کے ساتھ اتفاق کرنا مشکل ہے۔ بعض واقعات جس انداز سے پیش کیے گئے ہیں اس سے تو امام ابوحنیفہؒکے مسلک کے بارے میں قارئین ترجمان القرآن بہت بڑی غلط فہمی میں پڑ سکتے ہیں۔ بلکہ امام کے مسلک میں انھیں کھلا ہوا تضاد معلوم ہو سکتا ہے اگر انھوں نے مسلک امام کے متعلق کچھ فقہی معلومات حاصل کیے ہوں۔ سردست میں ایک واقعہ کی نشاندہی کرنا چاہتا ہوں جو متعلقہ مسئلے کی قسط دوم میں بیان کیا گیا ہے اور جس کا حوالہ ابن الاثیر اور کردری کے علاوہ المبسوط ج ۱۰، ص ۱۲۹ پر دیا گیا ہے۔
یہ واقعہ اہلِ موصل کی بغاوت سے متعلق ہے۔ اس کو آپ نے ایسے انداز سے پیش کیا ہے جس سے ایک قاری بجز اس کے کہ اس کو مسلمان رعایا کی بغاوت سے متعلق سمجھے‘ دوسرا کوئی مطلب نہیں لے سکتا حالانکہ یہ واقعہ مبسوط کی تصریح کے مطابق مشرکین کی بغاوت سے متعلق ہے جو موصل کے رہنے والے تھے اور جن کے ساتھ ’’دو انیقی‘‘ ۱؎ نے صلح کی تھی۔ اس واقعہ میں آپ نے یہ بھی تصریح کی ہے کہ منصور نے اہلِ موصل سے حالیہ بغاوت کرنے سے پہلے جو عہد لیا تھا وہ ان کے خون اور مال سے متعلق تھا کہ آیندہ اگر وہ بغاوت کریں گے تو ان کے خون اور مال اس پر حلال ہوں گے۔ اور اسی معاملے کے متعلق منصور نے فقہا کی ایک جماعت سے جس میں امام ابوحنیفہؒ بھی موجود تھے یہ پوچھا کہ معاہدے کی رو سے ان کے خون اور مال مجھ پر حلال ہو گئے ہیں یا نہیں؟ اور اسی کے متعلق امام نے کہا تھا کہ اہلِ موصل سے ہاتھ روک لیجیے۔ ان کا خون بہانا آپ کے لیے حلال نہیں ہے۔ حالانکہ مبسوط کی عبارات سے صاف طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ معاہدہ باغیوں کے خون اور مال کی حلّت و حرمت سے متعلق نہیں تھا بلکہ ان قیدیوں کے قتل سے متعلق تھا جو مشرک تھے اور باغیوں نے انھیں بطورِ ’’رہن‘‘ مسلمانوں کے ہاتھوں میں دے دیا تھا ۱؎ اور وہ مسلمانوں کے ہاتھوں میں قیدیوں کی حیثیت سے تھے اور چونکہ معاہدے میں جانبین نے یہ شرط مقرر کر رکھی تھی کہ اگر ایک فریق نے دوسرے فریق کے قیدیوں کو قتل کر دیا تو دوسرا فریق بھی اس کے قیدیوں کو قتل کر سکے گا اور اہلِ موصل نے ان مسلمان قیدیوں کو پہلے قتل کر ڈالا تھا جو ان کے ہاتھوں میں قیدیوں کی حیثیت سے تھے، اس لیے علما سے یہ پوچھنے کی ضرورت پیش آئی کہ ہم ان مشرک قیدیوں کے ساتھ کیا معاملہ کریں جو باغیوں کی طرف سے ہمارے ہاتھوں میں ہیں۔ تو ان قیدیوں کے قتل کے متعلق امام اعظم نے یہ فتویٰ دیا تھا کہ یہ آپ کے لیے حلال نہیں ہے۔ نہ کہ امام اعظم نے مسلمان رعایا کی بغاوت کے متعلق خود باغیوں کے بارے میں یہ فرمایا تھا کہ ان کا قاتل جائز نہیں ہے۔
اس کے علاوہ خود باغیوں کے بارے میں امام اعظمؒ یہ فتویٰ دے کیسے سکتے تھے کہ ان کا قتل جائز نہیں ہے۔ جبکہ امام سَرخِسی نے اسی باب کی ابتدا میں باغیوں کے بارے میں امام اعظمؒ کا مذہب یہ نقل کیا ہے کہ باغی لوگ جب ایسے امام سے بغاوت کریں جس کی وجہ سے ملک میں امن و امان قائم ہو گیا ہو (خواہ وہ ظالم ہی کیوں نہ ہو) تو ان کا قتل واجب ہے۔
فان کان المسلمون مجتمعین علی واحد و کانوا آمنین بہ والسبیل آمنۃ فخرج علیہ طائفۃ من المسلمین فحینئذٍ یجب علی من یقوی علی القتال ان یقاتل مع المسلمین الخارجین (اھ ج ۱۰، ص ۱۲۴)
اگر مسلمان ایک حاکم پر مجتمع ہوں، امن و امان میں ہوں اور راستہ محفوظ ہو، پھر اس حاکم پر مسلمانوں کا ایک گروہ خروج کرے تو جو شخص لڑ سکتا ہو اس پر واجب ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ ہو کر خروج کرنے والوں سے لڑے۔
امام سَرخِسیؒ نے اس حکم کے لیے جو دلائل پیش کیے ہیں ان میں ایک یہ آیت کریمہ بھی ہے۔
فَاِنْ م بَغَتْ اِحْدٰھُمَا عَلَی الْاُخْرٰی فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتّٰی تَفِیْٓئَ اِلٰٓی اَمْرِ اللّٰہِج
پس اگر ان دونوں (گروہوں) میں سے ایک دوسرے پر زیادتی کرے تو لڑو اس سے جو زیادتی کرتا ہے حتیٰ کہ وہ لوٹ آئے اللہ کے حکم کی جانب۔
قرآن کے اس صریح حکم کے مقابلے میں امام اعظمؒ آخر کیسے یہ کہنے کی جرأت کر سکتے تھے کہ باغیوں کا قتل جائز نہیں ہے۔ اس بارے میں امام سَرخِسیؒ نے مبسوط میں جو تفصیل پیش کی ہے میں اسے یہاں نقل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا ہوں۔ امید ہے کہ آپ خود اس مقام پر دوبارہ نظر ڈال کر ترجمان القرآن کے ذریعے اس خط کے جواب میں اپنے مضمون کی اصلاح فرمائیں گے اور خط بھی فائدہ عام کے لیے شائع کریں گے۔‘‘
جواب:۔ غالباً آپ نے سرسری طور پر میرے مضمون میں اس مقام کو دیکھا اور جلدی میں اظہارِ رائے فرما دیا جس جگہ یہ بحث آئی ہے وہاں زیر بحث مسئلہ یہ نہ تھا کہ اہلِ موصل کے معاملے کی فقہی نوعیت کیا تھی، بلکہ یہ تھا کہ امام ابوحنیفہؒرحمہ اللہ اظہار رائے کے معاملے میں کس قدر جری اور بے لاگ تھے۔ اسی بنا پر میں نے اس جگہ یہ بحث نہیں کی کہ اہلِ موصل کا اصل معاملہ کیا تھا۔ آپ صفحہ ۲۸۴ سے ۲۸۷ تک کا پورا مضمون دیکھیں تو آپ پر واضح ہو جائے گا کہ وہاں یہ گفتگو بالکل غیر متعلق تھی۔
اب آپ نے اس مسئلے کو چھیڑا ہے تو اس کے متعلق مختصراً عرض کیے دیتا ہوں: اہلِ موصل کے معاملے میں ابن الاثیر اور الکردری کا بیان شمس الائمہ سَرخِسی کے بیان سے مختلف ہے۔ شمس الائمہ کہتے ہیں کہ اہلِ موصل جنھوں نے بغاوت کی تھی کفّار تھے اور منصور سے ان کا معاملہ یہ پیش آیا تھا کہ انھوں نے منصور کے یرغمالوں کو قتل کر دیا تھا اور ان سے شرط یہ ہوئی تھی کہ اگر وہ ایسا کریں تو منصور کو بھی ان کے یرغمال قتل کر دینے کا حق ہو گا۔ شمس الائمہ کے بیان کی رو سے منصور نے یہی مسئلہ فقہا کے سامنے پیش کیا تھا کہ میں اہلِ موصل کی اس شرط کے مطابق ان کے یرغمالوں کو قتل کرنے کا مجاز ہوں یا نہیں۔ دوسری طرف ابن الاثیر کا بیان ہے کہ موصل میں حسان بن مجالد نے خروج کیا تھا، اور منصور نے فقہا کے سامنے جو مسئلہ پیش کیا تھا وہ یہ نہ تھا کہ میں ان باغیوں کے خلاف قتال کر سکتا ہوں یا نہیں بلکہ یہ تھا کہ : اَنَّ اہلَ موصل شرطوا الٰی انّہم لا یخرجون علیَّ فان فعلوا حلَّت د ماؤہم واموالہم۔ یعنی اہلِ موصل مجھ سے یہ شرط کر چکے ہیں کہ اگر آیندہ کبھی وہ میرے خلاف خروج کریں تو ان کے خون اور ان کے مال میرے لیے حلال ہوں گے۔ خون اور مال کے حلال ہونے کا مطلب آپ خود جانتے ہیں کہ کسی کے خلاف محض قتال کا جائز ہونا نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ اگر ہم لڑ کر اس گروہ پر غالب آ جائیں تو ہمارے لیے پھر اس کے تمام بالغ مردوں کو قتل کر دینا اور اس کے اموال لوٹ لینا حلال ہو۔ یہی سوال دراصل منصور نے فقہا کے سامنے پیش کیا تھا۔ اس کا جواب بعض دوسرے فقہا نے یہ دیا کہ وہ لوگ خود ازروئے معاہدہ اپنے خون اور مال آپ کے لیے حلال کر چکے ہیں۔ اس لیے آپ ایسا کرنا چاہیں تو اس کے مجاز ہیں۔ امام ابوحنیفہؒ نے اس کو ناجائز قرار دیا۔ قریب قریب یہی بات الکردری نے بھی لکھی ہے۔ اب آپ فرمائیں کہ آپ کو اس پر کیا اعتراض ہے۔ کیا امام ابوحنیفہؒ کا مسلک یہی ہے کہ مسلمان باغیوں پر اگر حکومت غالب آ جائے تو وہ ان کے تمام بالغ مردوں کا قتل عام کرکے ان کے اموال لوٹ لینے کی مجاز ہے، قطع نظر اس سے کہ ان مسلمان باغیوں نے پہلے خود یہ شرط قبول کی ہو یا نہ کی ہو؟
میرے نزدیک اس معاملے میں ابن الاثیر اور الکردری کا بیان ہی درست ہے اور شمس الائمہ کا بیان تاریخی طور پر درست نہیں ہے، کیونکہ منصور کے زمانے میں نہ تو موصل میں کوئی کافر حکومت تھی اور نہ کفار اہل ذمہ کا وہاں اتنا زور تھا کہ وہ عباسی خلافت کے مقابلے میں بغاوت کر سکتے۔ لیکن چونکہ میں نے اس سارے معاملے کو ایک دوسرے ہی پہلو سے لیا ہے، اس لیے امام کی جرأت حق گوئی کی مثال کے طور پر میں نے تینوں مصنّفین کا حوالہ دے دیا ہے کیونکہ اس پہلو میں ان کے درمیان اتفاق ہے۔
سوال- ترجمان القرآ ن نومبر ۱۹۶۳ئ کے پرچے میں مسئلہ خروج کے متعلق میرا سابق خط اور اس کا جو جواب شائع فرمایا گیا ہے اس کے لیے میں آپ کا ممنون ہوں۔ مگر افسوس ہے کہ اس جواب سے میرا وہ خلجان دور نہ ہوا۔ جو مسئلہ خلافت کے مطالعے سے امام ابوحنیفہؒ کے مسلک کے متعلق میرے دل میں پیدا ہوا تھا۔ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ اپنی گزارشات کو ذرا تفصیل سے آپ کے سامنے پیش کروں۔ امید ہے کہ ان کا جواب بھی آپ ترجمان القرآن میں شائع فرمائیں گے تاکہ قارئین ترجمان کے معلومات میں اضافے کا موجب بنے۔
’’مسئلہ خلافت‘‘ میں آپ نے امام ابوحنیفہؒ کا جو مسلک بیان فرمایا ہے اس میں آپ نے ’’ظالم فاسق‘‘ کی امامت کے متعلق مسلک امام ابوحنیفہؒ کے تین بڑے بڑے نکات پیش کیے ہیں۔ ایک یہ کہ امام اعظم رحمہ اللہ نہ تو خوارج و معتزلہ کی طرح اس کی امامت کو اس معنی میں باطل قرار دیتے ہیں کہ اس کے تحت کوئی بھی اجتماعی کام جائز طور پر انجام نہ پا سکے اور مسلم معاشرہ اور ریاست کا پورا نظام معطل ہو کے رہ جائے، اور نہ وہ مرحبۂ کی طرح اس کو ایسا جائز اور بالحق تسلیم کرتے ہیں کہ مسلمان اس پر مطمئن ہو کر بیٹھ جائیں اور اسے بدلنے کی کوششیں نہ کریں۔ بلکہ امام موصوف ان دونوں انتہا پسندانہ نظریات کے درمیان ایسی امامت کے بارے میں ایک معتدل اور متوازن نظریہ پیش کرتے ہیں وہ یہ کہ اس کے تحت اجتماعی کام سب کے سب جائز ہوں گے لیکن یہ امامت بجائے خود ناجائز اور باطل ہو گی۔ دوسرا نکتہ یہ کہ ظالم حکومت کے خلاف ہر مسلمان کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا حق حاصل ہے، بلکہ یہ حق ادا کرنا سب مسلمانوں پر فرض ہے۔ تیسرا نکتہ یہ ہے کہ امام اعظمؒ کے نزدیک ایسی ظالم حکومت کے خلاف خروج بھی جائز ہے بشرطیکہ یہ خروج فساد و بدنظمی پر منتج نہ ہو بلکہ فاسق امامت کی جگہ صالح امامت کا قائم ہو جانا متوقع ہو۔ اس صورت میں خروج نہ صرف جائز بلکہ واجب ہے۔
اس سلسلے میں میری گزارشات یہ ہیں کہ یہ کہنا کہ ’’امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک ’’ظالم فاسق‘‘ کی امامت باطل ہے۔‘‘ اور ’’امام اعظمؒ کے نزدیک ’’ظالم فاسق‘‘ کی حکومت کے خلاف خروج جائز ہے۔‘‘ امام ابوحنیفہؒکے مذہب کی صحیح ترجمانی نہیں ہے۔ میرے نزدیک اس بارے میں امام ابوحنیفہؒ کا مذہب یہ ہے کہ ظالم فاسق اگر قوم پر اپنی قوت اور طاقت کے غلبے سے بھی مسلّط ہو جائے جس کو فقہاؒ کی اصطلاح میں ’’متغلّب‘‘ کہا جاتا ہے اور اپنے احکام کو طاقت کے ذریعے نافذ کرنے کی قدرت رکھتا ہو، تو گو وہ ظالم و فاسق بھی ہو اور اس کے ساتھ متعارف طریقوں سے بیعت بھی نہ ہوئی ہو، مگر امام ابوحنیفہؒ اس کی امامت کو اس معنیٰ کرکے معتبر قرار دیتے ہیں کہ اس کے خلاف خروج و بغاوت کو ناجائز سمجھتے ہیں۔ اور جس طرح کہ اس کی امامت کے تحت دوسرے اجتماعی کاموں کو جائز اور معتبر قرار دیتے ہیں اسی طرح خروج اور بغاوت کو بھی ایسی حکومت کے بالمقابل حرام اور ناجائز قرار دیتے ہیں۔ میری اس رائے کی تائید فقہا مذہب حنفی کے درجِ ذیل اقوال سے ہو سکتی ہے:
والامام یصیر اماما بالمبایعۃ من الاشراف والاعیان۔ وکذا باستخلاف امام قبلہ و کذا بالتغلب و القہر کما فی شرح المقاصد۔ قال فی المسائرۃ و یثبت عقد الامامۃ اما باستخلاف الخلیفۃ ایاہ و اما ببیعۃ جماعۃ من العلماء اومن اہل الرایٔ و التدبیر … ولو تعذر وجود العلم والعدالۃ فیمن تصدی للامامتہٖ و کان فی صرفہ عنہا اثارۃ فتنۃ لاتطاق حکمنا بانعقاد امامۃ کیلانکون کمن یبنی قصراً ویہدم مصرا …… و تجب طاعۃ الامام عادلا کان او جائرا اذا لم یُخالف الشرع فقد علم ان الامام یصیرا ماما بثلاثۃ امور لکن الثالث فی الامام المتغلب۔ و ان لم تکن فیہ شروط الامامۃ۔ ۱ھ (رد المختار‘ج ۳ ‘ص ۴۲۸)
(امام معزز اور سر بر آوردہ لوگوں کی بیعت سے امام بن جاتا ہے۔ اسی طرح اپنے پیش رَو امام کے جانشین بنا دینے سے بھی اور غلبہ و قہر سے امامت پر قابض ہونے سے بھی امام بن جاتا ہے جیسا کہ شرح مقاصد میں آیا ہے۔ مسایرہ میں کہا گیا ہے کہ خلیفہ اگر کسی کو اپنا جانشین نام زد کر دے یا علما اور اہل الرائے یا صاحب ِتدبیر حضرات کی ایک جماعت اگر بیعت کر دے تو امامت کا انعقاد ثابت ہو جاتا ہے اور امامت سنبھالنے والے میں اگر علم و عدالت کا وجود محال ہو لیکن اسے امامت سے ہٹانے میں فتنہ رونما ہو جو ناقابلِ فرو ہو تو ہم ایسے شخص کی امامت کے منعقد ہونے کا حکم دیتے ہیں تاکہ ہم اس انسان کی طرح نہ ہوں جو ایک عمارت بناتا ہے لیکن پورے شہر کو گراتا ہے۔ امام خواہ عادل ہو یا ظالم، اس کی اطاعت واجب ہے جب تک کہ وہ شرع کی مخالفت نہ کرے۔ معلوم ہے کہ امام تین باتوں سے امام بنتا ہے جن میں سے تیسری متغلّب امام سے متعلق ہے۔ خواہ اس میں امامت کی شرطیں موجود نہ ہوں۔)
بہرحال امام میں عدالت شرط ہے مگر صحت ِامامت کے لیے نہیں بلکہ اُولویت کے لیے شرط ہے۔ اس بنا پر فاسق کی امامت کو مکروہ کہا گیا ہے نہ کہ غیر صحیح۔
و عند الحنفیۃ لیست العدالۃ شرطًا للصحۃ فیصح تقلید الفاسق الامامۃ مع الکراہۃ۔ ۱ھ (شامی‘ ج ۱‘ ص ۵۱۲)
(حنفیوں کے نزدیک عادل ہونا شرط صحت نہیں ہے۔ پس فاسق امام کی تقلید کراہت کے ساتھ درست ہے)
اسی قانون کے تحت حنفیہ نے متغلّب کی امامت کو صحیح کہا ہے۔
و تصح سلطنۃ متغلّب للضرورۃ ۔ ۱ھ
(زبردستی امام بن جانے والے کی حکومت بربِنائے ضرورت صحیح ہے) ایسے فاسق کے متعلق امام ابوحنیفہؒ کا مسلک یہ بیان کیا گیا ہے:
و یجب ان یدعی لہ ولا یجب الخروج علیہ کذا عن ابی حنفیۃ۔ ۱ھ
(اس کے لیے دعا واجب ہے اور اس کے خلاف خروج واجب نہیں۔ ابوحنیفہؒسے اسی طرح مروی ہے)
یہ تمام عبارتیں ابن ہمام نے مسایرہ میں ذکر کی ہیں جن سے صاف طور پر یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک جس طرح ایک فاسق ظالم کی حکومت کے تحت دین کے دوسرے اجتماعی کام جائز طریقے سے انجام دیئے جا سکتے ہیں اسی طرح اس حکومت کے خلاف امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک عزل اور خروج دونوں جائز ہیں۔ مگر اس میں شرط یہ ہے کہ عزل اور خروج موجب ِفتنہ نہ ہوں۔ اور چونکہ فی زمانہ ہر خروج اپنے ساتھ بہت سے فتنے لے کر نمودار ہو جاتا ہے۔ اس لیے بعض احنافؒ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ
اما الخروج علی الامراء فمحرم باجماع المسلمین و ان کانوا فسقۃ ظالمین۔ ۱ھ (مرقات)
(امرا کے خلاف خروج اجتماعِ مسلمین کے مطابق حرام ہے، خواہ وہ ظالم و فاسق ہی کیوں نہ ہوں۔)
اس لیے ایسی حکومتوں میں محض زبانی طور پر فریضہ تبلیغ ادا کرنا کافی ہو گا۔
مسلمان باغیوں کے بارے میں جہاں تک میں نے امام اعظمؒ کا مسلک سمجھا ہے وہ یہ ہے کہ جن صورتوں میں بغاوت ناجائز ہو اور امام سے کوئی بغاوت کی جائے تو امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک جو لوگ بغاوت کے مرتکب ہو چکے ہوں ان کا قتل جائز ہے۔ البتہ جو افراد بغاوت میں باغیوں کے ساتھ شریک نہ ہوئے ہوں ان کو قتل کرنا جائز نہیں۔ خواہ وہ چھوٹے بچے اور عورتیں ہوں یا بوڑھے اور اندھے ہوں۔ یا دوسرے بالغ مرد ہوں جو بغاوت میں باغیوں کے ساتھ شریک نہ ہوں۔ اس کے ثبوت کے لیے بطور حوالہ فقہائے ؒ حنفیہ کی درج ذیل عبارات ملاحظہ فرمائی جائیں، امام سَرخِسیؒ مبسوط ج ۱۰‘ ص ۱۲۴ میں لکھتے ہیں
فان کان المسلمون مجتمعین علی واحد و کانوا امنین بہ والسبیل اٰمنۃ فخرج علیہ طائفۃ من المسلمین فحینئذٍ یحجب علی من یقوی علی القتال ان یقاتل مع امام المسلمین الخارجین۔ ۱ھ
(اگر مسلمان ایک حاکم پر مجتمع ہوں، امن و امان میں ہوں اور راستہ محفوظ ہو پھر اس حاکم پر مسلمانوں کا ایک گروہ خروج کرے، تو جو شخص لڑ سکتا ہو اس پر واجب ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ ہو کر خروج کرنے والوں سے لڑے۔)
وجوبِ قتال کے لیے امام سَرخِسیؒ نے تین دلائل بیان کیے ہیں جن میں سے ایک دلیل یہ آیت کریمہ ہے۔
فَاِنْم بَغَتْ اِحْدٰھُمَا عَلَی الْاُخْرٰی فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتّٰی تَفِیْٓئَ اِلٰٓی اَمْرِ اللّٰہِج
(پس اگر ان دونوں (گروہوں) میں سے ایک دوسرے پر زیادتی کرے تو لڑو اس سے جو زیادتی کرتا ہے حتیٰ کہ وہ لوٹ آئے اللہ کے حکم کی جانب)
دوسری دلیل امام موصوف نے وجوبِ قتال کے لیے یہ بیان کی ہے۔
ولان الخار جبین قصدوا اذی المسلمین و اماطۃ الاذی من ابواب الدّین۔ وخروجہم معصیۃ ففی القیام بقتالہم نہی عن المنکر وہو فرض۔
(یہ اس لیے کہ خروج کرنے والوں نے ایذائے مسلمین کا ارادہ کیا ہے اور ایذا کو مٹانا ابواب دین میں سے ہے اور ان کا خروج معصیت ہے پس ان سے لڑنا نہی عن المنکر ہے اور وہ فرض ہے)
اور تیسری دلیل یہ بیان فرمائی ہے
وَلِاَنَّہُمْ یَہِیْجُوْنَ الْفِتْنَۃَ قَالَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَلْفِتْنَۃُ نَائِمَۃٌ لَعَنَ اللّٰہُ مَنْ اَیْقَظَہَا۔ فَمَنْ کَانَ مَلْعُوْنًا عَلٰی لِسَانِ صَاحِبِ الشَّرْعِ یُقَاتَلُ مَعَہٗ ۱ھ
(اور اس لیے کہ وہ فتنہ پیدا کرتے ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ فتنہ خوابیدہ ہے جو اسے جگائے اس پر اللہ کی لعنت ہے۔ پس جو شارع کے ارشاد کے مطابق ملعون ہے، اس کے خلاف لڑا جائے)
ان تمام عبارات سے یہ تو واضح ہو گیا کہ باغیوں کے ساتھ قتال واجب ہے۔ اور قتال شرعی نقطہ نگاہ سے ان لوگوں کے ساتھ جائز ہو سکتا ہے جو معصوم الدم نہ ہوں۔ اس کی طرف حضورؐ کے درج ذیل ارشاد میں اشارہ کیا گیا ہے۔
اُمِرْتُ اَنْ اُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی یَقُوْلُوْا لَا ٓاِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ فَاِذَا فَعَلُوْا ذٰلِکَ عَصَمُوْا ِمنِّیْ دِمَائَہُمْ وَاَمْوَالَہُمْ (الحدیث) (مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے لڑوں یہاں تک کہ وہ لا الہ الا اللّٰہ اور محمد رسول اللّٰہ کہ دیں جب وہ ایسا کر دیں تو انھوں نے مجھ سے اپنی جانیں اور مال بچا لیے)
پس جب باغیوں کے ساتھ قتال واجب ہو گیا تو معلوم ہوا کہ ان کو جان کی پوری عصمت حاصل نہیں ہے تو قتل بھی جائز ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ فقہائے مذہب حنفی صریح طور پر اپنی کتابوں میں لکھتے ہیں کہ باغیوں کا قتل جائز ہے۔ صاحب بدائع الصنائع باغیوں کے قتل کے متعلق لکھتے ہیں-
واما بیان من یجوزقتلہ منہم و من لایجوز فکل من لایجوز قتلہ من اہل الحرب من الصبیان والنسوان والاشیاخ والعمیان لا یجوز قتلہ من اہل البغی۔ لان قتلہم لدفع شرقتالہم فخیتص باھل القتال وہٰؤلآء لیسوا من اھل القتال فلا یقتلون الا اذا قاتلوا فیباح قتلہم فی حال القتال و بعد الفراغ من القتال ۱ھ‘
( ج ۷‘ ص ۱۴۱)
(جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ان میں سے کس کا قتل جائز ہے اور کس کا نہیں تو وہ تمام اہلِ حرب جن کا قتل جائز نہیں، مثلاً بچے، عورتیں، بوڑھے، اندھے، با غیوں میں سے بھی ان اصناف کا قتل جائز نہیں کیونکہ ان کا قتل محض شرِقتال کو روکنے کے لیے ہے‘ اس لیے وہ قابلِ جنگ افراد کے ساتھ مخصوص ہے اور یہ اقسام جنگ کرنے کے قابل نہیں پس انھیں قتل نہیں کیا جائے گا، سوائے اس کے کہ وہ جنگ کریں، تب ان کا قتل حالت ِجنگ یا اس کے بعد جائز ہو گا)
فقہا کی ان تصریحات کے پیش نظر باغیوں کے متعلق امام ابوحنیفہؒ کا مذہب صاف طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان باغیوں پر اگر اسلامی حکومت غالب آ جائے تو وہ تمام ان بالغ مردوں کو قتل کرکے ان کے مال لوٹ لینے کی مجاز ہے جو بغاوت کے مرتکب ہو چکے ہوں۔ قطع نظر اس سے کہ ان مسلمان باغیوں نے پہلے خود یہ شرط قبول کی ہو یا نہ کی ہو۔ مگر یہ قتال اور قتل اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ باغی لوگ ہتھیار نہ ڈالیں۔ اور جب وہ ہتھیار ڈالیں گے تو قتل و قتال بھی بند کر دیا جائے گا۔
البتہ ان کا مال بطور غنیمت تقسیم نہیں کیا جائے گا بلکہ جنگ ختم ہونے یا ہتھیار ڈالنے کے بعد انھیں واپس کیا جائے گا۔
وکذالک ما اصیب من اموالہم یرد الیہم لانہ لم یتملک ذالک المال علیہم لبقاء العصمۃ بالدارو الاحراز فیہ ۱ ھ (مبسوط ج ۱۰- ص ۱۲۶)
(اسی طرح جو کچھ ان کے اموال میں سے لیا جائے گا، انھیں لوٹا دیا جائے گا۔ کیونکہ یہ مال دارالاسلام میں ہونے کی بنا پر محفوظ ہے اور یہ فاتح کی مِلک نہیں ہو سکتا)
فقہا کی یہ تصریحات اگر امام ابوحنیفہؒ کے مذہب کی صحیح ترجمانی پر مشتمل ہوں، جیسا کہ ہمارا یقین ہے تو ان کے ہوتے ہوئے عقل کیسے یہ باور کر سکتی ہے کہ موصل میں بغاوت مسلمانوں نے کی تھی اور منصور کے ساتھ چونکہ وہ یہ شرط کر چکے تھے کہ اگر ہم نے آیندہ کبھی آپ کے خلاف خروج کر دیا تو ہمارے خون اور مال آپ کے لیے حلال ہوں گے۔ اس لیے فقہا کے سامنے یہ سوال پیش کیا گیا کہ قتال کے بعد ان باغیوں کی جان اور مال پر ہاتھ ڈالنا جائز ہو گا یا نہیں اور اسی کے متعلق منصور کے استفسار پر امام ابوحنیفہؒ نے یہ فتویٰ دیا تھا کہ ان کے خون اور مال آپ کے لیے حلال نہیں ہیں؟
پھر یہ بات بھی کچھ عجیب سی معلوم ہوتی ہے کہ آپ شمس الائمہ سَرخِسی کے بیان کو صرف اس بنا پر قابلِ اعتماد نہیں سمجھتے ہیں کہ ان کا بیان اہلِ تاریخ سے مختلف ہے حالانکہ بغاوت جیسے اہم معاملے میں فقہا کی جماعت میں سے ایک بڑے فقیہ اور امام اعظمؒ جیسے امام فقہ کا مذہب معلوم کرنے میں ان فقہا کے قول پر زیادہ اعتماد کرنا چاہیے جو اس امام کے مذہب سے وابستہ رہے ہوں۔ تاریخ کے واقعات مرتّب کرنے میں غلطیاں زیادہ سرزد ہو سکتی ہیں بہ نسبت اس کے کہ ایک امام مذہب کی فقہی مرویات مرتّب کرنے میں غلطیاں واقع ہوں۔ پھر یہ واقعہ جس طرح کہ مبسوط میں امام سَرخِسیؒ نے نقل کیا ہے بعینہٖ اسی طرح شیخ ابنِ ہمامؒ نے فتح القدیر ج ۵‘ ص ۳۴۱‘ میں بھی نقل کیا ہے۔ ان دونوں اماموں کے مقابلے میں ابن اثیریا الکردری کے قول کو ترجیح دینا یقیناً ہمارے فہم سے بالاتر ہے۔‘‘
جواب:امام ابوحنیفہؒ کے مسلک دربابِ خروج کے بارے میں آپ نے جو کچھ لکھا ہے اس کے متعلق مزید کچھ عرض کرنے سے پہلے میں چاہتا ہوں کہ آپ دو تین باتوں پر بھی کچھ روشنی ڈال دیں۔
اوّل یہ کہ ابوبکر جصّاص، الموفق المکّی اور ابن البزّاز الکردری کا شمار بھی فقہائے حنفیہ میں ہوتا ہے یا نہیں ؟ آپ سے یہ مخفی نہیں ہو سکتا کہ ابوبکر جصّاص متقدمین حنفیہ میں سے ہیں، ابوسہل الزجاج اور ابوالحسن الکرخی کے شاگرد ہیں اور اپنے زمانے (۳۰۵-۳۷۰ھ) میں امامِ اصحابِ ابی حنفیہ تسلیم کیے جاتے تھے۔ ان کی کتاب احکام القرآن کا شمار حنفیہ ہی کی فقہی کتابوں میں ہوتا ہے۔ الموفق المکّی (۴۸۴-۵۶۸ھ) بھی فقہائے حنفیہ میں سے تھے اور القِفْطی کے قول کے مطابق کانت لہ معرفۃ تامۃ فی الفقہ والادب۔
(انھیں فقہ و ادب میں پوری معرفت حاصل تھی)
الکردری کا شمار بھی فقہائے حنفیہ میں ہوتا ہے اور ان کی فتاوی بزّازیہ، آداب الفقہاء اور مختصر فی بیان تعریفات الاحکام، معروف کتابیں ہیں۔ میں نے جو مواد ان تین حضرات کی کتابوں سے بحوالہ نقل کیا ہے، میں چاہتا ہوں کہ اس کی حیثیت پر بھی آپ کچھ روشنی ڈالیں۔
دوم یہ کہ حضرت زید بن علی بن حسین اور نفس زکیہ کے خروج کے واقعات میں امام اعظم رحمہ اللہ کا جو طرزِ عمل مذکورہ بالا تینوں مصنّفین اور بہت سے دوسرے مؤرخین نے بیان کیا ہے اس کو آپ صحیح اور معتبر تاریخی واقعات میں شمار کرتے ہیں یا نہیں اگر یہ واقعات غلط ہیں تو آپ ان کی تردید کسی مستند ذریعے سے فرمائیں اور اگر یہ صحیح ہیں تو امام اعظم کا مسلک سمجھنے میں ان سے مدد لی جا سکتی ہے یا نہیں؟ یہ بات تو بہرحال امام ابوحنیفہ جیسی عظیم شخصیت کے متعلق باور نہیں کی جا سکتی کہ ان کا فقہی مسلک کچھ ہو اور عمل کچھ۔ لہٰذا دو باتوں میں سے ایک بات ماننی ہی پڑے گی۔ یا تو یہ واقعات غلط ہیں یا پھر امام کے مسلک کی صحیح ترجمانی وہی ہو سکتی ہے جو ان کے عمل سے مطابقت رکھتی ہو۔
اہلِ موصل کے بارے میں شمس الائمہ سَرخِسی نے جو کچھ لکھا ہے، اس کے متعلق میں اتنا ہی کہوں گا کہ دوسرا بیان الکردری کا ہے، اور وہ بھی نرے مؤرخ نہیں بلکہ فقیہ بھی ہیں۔ الکردری لکھتے ہیں کہ منصور نے فقہاء کے سامنے یہ سوال پیش کیا تھا۔
’’الیس صح اَنَّہٗ عَلَیْہِ السَّلاَمُ قَالَ الْمُؤْمِنُوْنَ عِنْدِ شُرُوْطِہِمْ؟ وَاَہْل موصل شرطوا علّی ان لا یخرجوا علّی وقد خرجوا علی عاملی و قد حل لی دماء ہم۔‘‘
(کیا یہ بات صحیح نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مومنوں کے ساتھ طے کردہ شرائط پر معاملہ ہو گا اور اہلِ موصل نے یہ شرط مانی تھی کہ وہ مجھ پر خروج نہیں کریں گے اور انھوں نے میرے عامل پر خروج کیا ہے اور میرے لیے ان کا خون حلال ہے)
امام ابوحنیفہؒ نے جواب میں فرمایا
’’انہم شرطوالک ما لا یملکونہ یعنی دمائہم، فانہ قد تقرران النفس لا یجری فیہا البذل والاباحۃ علی ان الرجل اذا قال لآخر اقتلنی فقتلہ تجب الدیۃ، وشرطت علیہم ما لیس لک لان دم المسلم لا یحل الا باحدی معان ثلاث فان اخذتہم اخذت بِما لا یحل، و شرط اللّٰہ احق ان توفی بہٖ۔‘‘
(مناقب الامام الاعظمؒ، ج ۲، صفحہ ۱۶- ۱۷)
(انھوں نے آپ کے ساتھ ایسی شے کی شرط مانی ہے جس کے وہ مالک نہیں، یعنی ان کی جانیں۔ یہ طے شدہ ہے کہ جان کسی کو بخشی نہیں جا سکتی۔ حتیٰ کہ ایک شخص اگر دوسرے سے کہے کہ مجھے قتل کر دے اور وہ قتل کر دے تو قاتل پر دیت واجب ہے۔ آپ نے ان سے ایسی شرط کی جس کا آپ کو اختیار نہیں کیونکہ مسلمان کا خون تین باتوں میں سے ایک کے سوا حلال نہیں۔ اگر آپ نے ان کی جان لی تو یہ حلال نہ ہو۔ اللہ کی شرط اس کی زیادہ مستحق ہے کہ آپ اسے پورا کریں۔)
اس عبارت میں سائل اور مفتی دونوں نے تصریح کی ہے کہ معاملہ مسلمانوں سے متعلق تھا۔
سوال نمبر۲: ’’گرامی نامہ ملا۔ آپ نے جن باتوں کی طرف توجہ دلائی ہے ان کے متعلق مختصراً عرض ہے کہ ابوبکر جصّاص، الموفق المکّی اور ابن البزّاز الکردری کا شمار یقیناً فقہا میں ہوتا ہے۔ اسی طرح احکام القرآن اور دوسری وہ کتابیں جن کا آپ نے ذکر فرمایا ہے بھی معروف کتابیں ہیں۔ لیکن بایں ہمہ رتبہ اور درجہ کے لحاظ سے ان حضرات کا مقام امام سَرخِسیؒ کے مقام سے بہت فروتر ہے۔ اسی طرح امام سَرخِسیؒ کی کتاب المبسوط کا درجہ اور مرتبہ احکام القرآن وغیرہ کتب مذکور سے محققین احنافؒ کے نزدیک بہت بلند اور مقام بہت اونچا ہے۔ اس لیے فقہیات میں امام اعظمؒ کے مسلک کو متعیّن کرنے میں مبسوط سَرخِسیؒ ہی کا فیصلہ معتبر اور قابلِ اعتماد ہو گا نہ کہ احکام القرآن وغیرہ کتب کا۔ علاّمہ ابنِ عابدین شامیؒ نے محقق ابنِ کمال سے طبقات الفقہاء کی تفصیل نقل کرتے ہوئے امام سَرخِسی کو تیسرے طبقے میں شمار کیا ہے جو مجتہدین فی المسائل کا طبقہ ہے اور ابوبکرؒ جصّاص رازی کو چوتھے طبقے میں شمار کیا ہے جو محض مقلّدین کا طبقہ ہے۔
ان تصریحات کے پیش نظر خروج کے مسئلے میں امام اعظمؒ کا مذہب وہ قرار دیا جائے گا جو مبسوط میں ذکر کیا گیا ہے، نہ کہ وہ جو احکام القرآن یا دوسری تاریخوں میں بیان کیا گیا ہے۔
رہا حضرت زید بن علی بن الحسین اور نفس زکیہ کے خروج کے واقعات میں امام ابوحنیفہؒ کا طرز عمل تو اس کے متعلق عرض یہ ہے کہ تاریخی لحاظ سے میں اس کو سو فیصد صحیح اور درست سمجھتا ہوں۔ تمام مؤرخین اس بات پر متفق ہیں کہ امام ابوحنیفہؒ نے ان دونوں کے خروج میں ان کی حمایت کی تھی، لیکن مشکل یہ ہے کہ اس مسئلے کی فقہی نوعیت تاریخی نوعیت سے بالکل مختلف ہے۔ فقہ حنفی کی تمام معتبر کتابوں میں حتیٰ کہ کتب ظاہر الروایۃ میں خروج کے متعلق امام ابوحنیفہؒ کا مذہب یہ بیان کیا گیا ہے کہ امام عادل تو درکنار ظالم اور متغلب سے بھی خروج ناجائز اور بغاوت حرام ہے۔ لہٰذا ہمیں ان دو متضاد بیانات کے مابین یا تطبیق سے کام لینا پڑے گا یا ترجیح سے‘ جہاں تک ترجیح کا تعلق ہے، ہم فقہا کے مسلمہ اصول کے پیش نظر فقہائے مذہب حنفی کے بیان کو مؤرخین کے بیان پر اس لیے ترجیح دیں گے کہ مذہب کی تعیین میں ناقلینِ مذہب کا قول زیادہ قابلِ اعتماد ہے۔ اور مؤرخین میں سے جو فقہا ہیں، جیسے ابوبکر رازی، الموفق المکّی اور ابن البزّاز، تو یہ چونکہ رتبے اور درجے کے اعتبار سے اصل ناقلین مذہب کے ہمسر نہیں ہیں اس لیے ان کا نقل بھی دوسروں کے مقابلے میں قابلِ اعتبار نہیں سمجھا جائے گا گو تاریخی نقل اور روایت اصولِ روایت کے لحاظ سے قوی کیوں نہ ہو۔
اور اگر ہم تطبیق کا طریقہ اختیار کریں گے تو میرے ذہن میں تطبیق کے لیے بہتر طریقہ یہ ہے کہ چونکہ زید بن علی کے خروج کا واقعہ بقول آپ کے صفر ۱۲۲ھ میں پیش آیا تھا اور نفس زکیہ کے خروج کا واقعہ جیسا کہ آپ نے لکھا ہے ۱۴۵ھ میں ظاہر ہوا تھا اور امام ابوحنیفہؒرحمتہ اللہ علیہ بقول ابن کثیرؒ (البدایہ ج ۱۰‘ ص ۱۰۷) ۱۵۰ھ میں وفات پا چکے ہیں۔ اس طرح خروج نفس زکیہ کے بعد امام کم سے کم پانچ سال تک زندہ رہ چکے ہیں۔ اس بِنا پر ہو سکتا ہے کہ امام ابوحنیفہؒ نے اپنی آخری عمر میں سابق رائے میں تبدیلی کرکے خروج کے متعلق اپنا جدید مسلک یہ متعیّن کیا ہو کہ ’’خروج اور بغاوت حرام ہے نہ کہ جائز۔‘‘ اور اپنے پہلے مسلک سے امام نے رجوع کیا ہو … اور اس وقت سے امام اعظمؒ بھی دوسرے محدّثین کی طرح اس بات کے قائل رہے ہوں کہ ’’خروج جائز نہیں بلکہ حرام ہے اور اصلاح کے لیے خروج کے بجائے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے ہی کام لیا جائے گا۔‘‘ شاید اسی وجہ سے ملا علیؒ قاری نے فرمایا ہو-
واما الخروج علیہم فمحرم باجماع المسلمین و ان کانوا فسقۃ ظالمین (مرقات)
(جہاں تک ان کے خلاف خروج کا تعلق ہے اس کی حرمت پر مسلمانوں کا اجماع ہے خواہ وہ فاسق و ظالم ہوں)
اوپر کے مباحث سے جب یہ بات واضح ہو گئی کہ خروج کے مسئلے میں امام اعظم کا مذہب عدم جواز ہے اور مسلمان باغیوں کا حکم بتصریح فقہاء ؒ قتل ہے جیسے سابق مکتوب میں فقہا کے حوالے ذکر کیے جا چکے ہیں تو اہلِ موصل کے معاملے میں بھی میرے نزدیک امام سَرخِسیؒ اور شیخ ابن الہمام کا بیان درست ہے کہ یہ واقعہ مشرکین کے یرغمالوں سے متعلق تھا نہ کہ مسلمان باغیوں سے۔ کیونکہ مسلمان باغیوں کے بارے میں امام کا مذہب یہ ہے کہ انھیں قتل کیا جائے گا نہ یہ کہ ان کا قتل جائز نہیں ہے۔ اگرچہ الکردری کے بیان کے مطابق یہ واقعہ مسلمان باغیوں سے متعلق معلوم ہوتا ہے۔
جواب- عنایت نامہ ملا۔ میرا خیال ہے کہ اب میرا نقطۂ نظر اچھی طرح آپ کے سامنے واضح ہو سکے گا۔ براہِ کرم حسب ذیل امور پر غور فرمائیں۔
میرے مقالے کا موضوع ہے اس خاص مسئلے میں امام ابوحنیفہؒ کا مسلک۔ اور آپ استدلال میں پیش فرما رہے ہیں مذہب حنفی کے اقوال۔ آپ جیسے ذی علم اور فقیہ النفس بزرگ سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہو سکتی کہ مسلک ِابی حنیفہؒاور مذہب حنفی ایک چیز نہیں ہیں۔ مسلک ابی حنیفہؒکا اطلاق صرف امام اعظم کے اپنے اقوال و افعال پر ہی ہو سکتا ہے۔ رہا مذہب حنفی تو اس میں امام صاحب کے علاوہ اصحابِ ابی حنیفہؒاور بعد کے مجتہدین فی المذہب بھی شامل ہیں اور بہت سی ایسی چیزیں بھی مذہب حنفی قرار پائی ہیں جو امام اعظم سے ہی نہیں، آپ کے اصحاب سے بھی ثابت نہیں ہیں‘ حتیٰ کہ ایسے مسائل بھی موجود ہیں جن میں مذہب حنفی کا فتویٰ امام اعظم کے قول کے خلاف ہے۔
ابوبکر جصّاص، الموفق المکّی اور ابن البزّاز رحمہم اللہ چاہے درجہ اوّل کے فقیہ نہ ہوں، لیکن اس درجہ فقہ سے نابلد تو نہیں ہو سکتے کہ اپنے مذہب کے سب سے بڑے امام سے وہ اقوال اور افعال بلا تحقیق منسوب کر دیتے جو ان کے تحقیق شدہ مسلک کے خلاف ہوتے۔ خصوصاً جصّاص رحمہ اللہ تو امام اعظم سے بہت قریب زمانے میں گزرے ہیں۔ امام کی وفات اور ان کی پیدائش کے درمیان صرف ۱۵۵ سال کا فاصلہ ہے۔ اور بغداد میں وہ ان اکابر احناف سے وابستہ رہے ہیں جن کے درمیان مدرسہ ابی حنیفہؒکی روایات پوری طرح محفوظ تھیں۔ اگر امام صاحب کی طرف کوئی غلط روایت افواہ کے طور پر منسوب ہوتی تو وہ آخری شخص ہوتے جو اسے حاطب اللیل کی طرح احکام القرآن جیسی اہم فقہی کتاب میں نقل کر بیٹھتے اور اگر امام اعظم کا اس مسلک سے رجوع ثابت ہوتا تب بھی وہ اس سے نہ بے خبر رہتے اور نہ اس کو چھپاتے۔
امام کے رجوع کا گمان اس لیے بھی صحیح نہیں ہے کہ اگر ایسا ہوتا تو منصوران کی جان کے در پے نہ رہتا بلکہ اس کے بعد تو اس کے اور امام کے درمیان صُلح ہو جاتی۔ مزید برآں کسی نے اشارۃً و کنایتہ بھی یہ نقل نہیں کیا ہے کہ امام نے کبھی نفس زکیہ کے خروج میں حصّہ لینے کو غلط تسلیم کیا ہو۔
میرے نزدیک یہ امر تو شبہ سے بالاتر ہے کہ مسئلہ زیر بحث میں امام اعظم کا مسلک وہی تھا جو ان کے نقل شدہ اقوال و افعال سے ثابت ہے۔ البتہ مذہب حنفی بعد میں وہی قرار پایا ہے جو آپ نقل فرما رہے ہیں۔ اور یہ مذہب قرار پانے کی وجہ یہ ہے کہ امام صاحبؒ کے دور میں جو رائے اصحابِ حدیث کے ایک گروہ کی تھی (جسے امام اَوزاعی کے حوالے سے میں نے اپنے مضمون میں نقل بھی کیا ہے) دوسری صدی کے آخر تک پہنچتے پہنچتے وہی رائے اہلِ سنّت و الجماعت کے پورے گروہ میں مقبول ہو گئی اور اسی رائے کو متکلمین میں سے اشاعرہ نے (بمقابلہ معتزلہ) اختیار کیا۔ اس رائے کی مقبولیت درحقیقت نصوصِ قطعیہ پر مبنی نہیں ہے بلکہ ان تجربات کا اس میں بہت بڑا دخل ہے جو خروج کے واقعات کے سلسلے میں مسلسل ہوتے رہے تھے۔ اس بنا پر مصالح شرعیہ کا تقاضا وہی کچھ سمجھا گیا جو فقہائے کرام نے بیان کیا ہے۔ لیکن مجھے اس امر کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ ائمہ جور کے خلاف خروج کے معاملے میں پہلی صدی ہجری کے ائمہ و اکابر کی وہ رائے ہو جو بعد والوں نے قائم کی۔
یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ ۱۹۵۷ءکے اواخر میں جو بین الاقوامی مجلس مذاکرہ لاہور میں ہوئی تھی اس میں انگلستان کی ایک مستشرقہ نے باقاعدہ یہ اعتراض کیا تھا کہ اسلامی نظامِ حکومت اگر ایک دفعہ بگڑ جائے تو پھر اس کی تبدیلی کی کوئی صورت اسلام میں نہیں ہے۔ اس اعتراض کے حق میں اشاعرہ اور فقہائے اہلِ سنّت کے اقوال پیش کرتے ہوئے اس نے کہا تھا کہ بگاڑ رونما ہو جانے کی صورت میں فقہا کی ان تصریحات کے مطابق صرف انفرادی طور پر کلمہ حق تو بلند کیا جا سکتا ہے مگر کوئی اجتماعی سعی نہیں ہو سکتی۔ ہمارے پاس اس کا کوئی جواب مسلک ابی حنیفہؒکو پیش کرنے کے سوا نہ تھا۔ اب اگر یہ بھی غلط ہو تو پھر اس اعتراض کا کوئی جواب ہمیں آپ بتائیں۔
قتال اہل البغی کے معاملے میں یہ امر تو مسلّم ہے کہ اگر وہ مسلح ہو کر مقابلہ کریں تو ان کے لڑنے والوں کو قتل کیا جا سکتا ہے اور ان کے برسر جنگ لوگوں کے مال بھی لُوٹے جا سکتے ہیں۔ لیکن کیا یہ بات بھی صحیح ہے کہ جس علاقے میں انھوں نے بغاوت کی ہو اس علاقے کی ساری آبادی مباح الدم و الاموال ہو جاتی ہے اور ان کا قتل عام کیا جا سکتا ہے؟ اگر حکم فقہی کی تعبیر یہی ہو تو پھر یزید کی فوجوں نے واقعہ حرہ کے موقع پر مدینہ طیبہ کی آبادی کے ساتھ جو کچھ کیا وہ جائز ہونا چاہیے۔ اس پر صحابہ و تابعین اور بعد کے علما و فقہا نے جو شدید اعتراضات کیے ہیں ان کا آخر کیا جواز ہے؟
(ترجمان القرآن۔ نومبر ۱۹۶۳ء جنوری ۱۹۶۴ء)
٭…٭…٭…٭…٭