مسئلہ اجتہاد کے بارے میں ملک میں جو بحثیں چل رہی ہیں اسی سلسلے میں ایک صاحب دریافت کرتے ہیں۔
’’کیا ’اجتہاد‘ کے اس دروازے کو جسے صدیوں پیشتر بند کر دیا گیا تھا، آج کھولنے کی شدید ضرورت نہیں ہے؟ اور وہ اجتہادی اصول جو آج سے ہزار سال قبل بنائے گئے تھے کیا ان کو بڑی سختی سے آج بیسویں صدی کے مسائل پر بھی نافذ کیا جائے گا؟ حکومت اس صورتِ حال سے کس طرح نپٹے گی جب کہ ہر طبقہ ٔ فکر یعنی (Sub-sects) کے پیرو اپنے ائمہ کے اجتہادی احکام کو بدلنے کے خلاف ہیں اور نہایت شد و مد سے آج کے مسائل کے لیے بھی انھی کی تصریح و توضیح کرکے فیصلے کرنے کے حق میں ہیں؟ اگر ہر مکتب فکر کے علما کو اکثریت آراء سے اجتماعی طور پر ’’اجماع‘‘ کے لیے مامور کیا جائے تو کیا جو ’’اجتہاد‘‘ اس طرح کیا گیا ہو وہ تمام مسلمانوں کے لیے قابلِ قبول ہو گا؟ کیا حکومت کو اس پر سختی سے عمل پیرا ہونے پر مجبور کیا جا سکے گا؟ خلاف ورزی اور مخالفت و نکتہ چینی کہاں تک برداشت ہو سکتی ہے؟ کیا حضرت علیؓ و جعفر صادقؒ و شیعہ ائمہ کا اجتہاد اور قوانین جو نہایت مناسب ہیں، تمام مسلمانوں کے لیے اسلامی حکومت نافذ کر سکتی ہے؟‘‘
یہ سوال بہت سے اصولی سوالات پر مشتمل ہے۔ میں اس کے ایک ایک جزو کا جواب نمبروار دوں گا۔
۱- اجتہاد کا دروازہ کن لوگوں کے لیے کھلا ہے؟
اجتہاد کا دروازہ کھولنے سے کسی ایسے شخص کو انکار نہیں ہو سکتا جو زمانے کے بدلتے ہوئے حالات میں ایک اسلامی نظام کو چلانے کے لیے اجتہاد کی اہمیّت و ضرورت اچھی طرح سمجھتا ہو۔ لیکن اجتہاد کا دروازہ کھولنا جتنا ضروری ہے اتنا ہی احتیاط کا متقاضی بھی ہے۔ اجتہاد کرنا ان لوگوں کا کام نہیں ہے جو ترجموں کی مدد سے قرآن پڑھتے ہوں۔ حدیث کے پورے ذخیرے سے نہ صرف یہ کہ ناواقف ہوں بلکہ اس کو دفتر بے معنی سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہوں۔ پچھلی تیرہ صدیوں میں فقہائے اسلام نے اسلامی قانون پر جتنا کام کیا ہے اس سے سرسری واقفیت بھی نہ رکھتے ہوں اور اس کو بھی فضول سمجھ کر پھینک دیں، پھر اس پر مزید یہ کہ مغربی نظریات و اقدار کو لے کر ان کی روشنی میں قرآن کی تاویلیں کرنا شروع کر دیں۔ اس طرح کے لوگ اگر اجتہاد کریں گے تو اسلام کو مسخ کرکے رکھ دیں گے اور مسلمان‘ جب تک اسلامی شعور کی رمق بھی ان کے اندر موجود ہے، ایسے لوگوں کے اجتہاد کو ہرگز ضمیر کے اطمینان کے ساتھ قبول نہ کریں گے۔ اس طرح کے اجتہاد سے جو قانون بھی بنایا جائے گا وہ صرف ڈنڈے کے زور سے ہی قوم پر مسلّط کیا جا سکے گا اور ڈنڈے کے ساتھ ہی وہ رخصت ہو جائے گا۔ قوم کا ضمیر اس کو اس طرح اگل کر پھینک دے گا جس طرح انسان کا معدہ نگلی ہوئی مکھی کو اُگل کر پھینک دیتا ہے۔ مسلمان اگر اطمینان کے ساتھ کسی اجتہاد کو قبول کر سکتے ہیں تو وہ صرف ایسے لوگوں کا اجتہاد ہے جن کے علم دین اور خدا ترسی اور احتیاط پر ان کو اطمینان اور بھروسہ ہو اور جن کے متعلق وہ یہ جانتے ہوں کہ یہ لوگ غیر اسلامی نظریات و تصوّرات کو اسلام میں نہیں ٹھونسیں گے۔
۲- اصول اجتہاد اور ان کی اہمیّت
جو اجتہادی اصول آج سے ہزار سال پہلے بنائے گئے تھے وہ صرف اس لیے رد کر دینے کے قابل نہیں ہیں کہ وہ ہزار سال پرانے ہیں۔ معقولیت کے ساتھ جائزہ لے کر دیکھیے کہ وہ اصول تھے کیا اور اس بیسویں صدی میں ان کے سوا اور کچھ اصول ہو بھی سکتے ہیں یا نہیں؟ ان میں سے پہلا اصول یہ تھا کہ آدمی اس زبان کو اور اس کے قواعد اور محاوروں اور ادبی نزاکتوں کو اچھی طرح سمجھتا ہو جس میں قرآن نازل ہوا ہے۔ بتایئے کیا یہ اصول غلط ہے؟ انگریزی زبان میں قانون کی جو کتابیں لکھی گئی ہیں کیا ان کی تعبیر کا حق کسی ایسے شخص کو دیا جا سکتا ہے جو انگریزی زبان کی ایسی ہی واقفیت نہ رکھتا ہو؟ وہاں تو ایک کاما (comma) کے ادھر سے اُدھر ہو جانے سے معنی میں عظیم فرق پیدا ہو جاتا ہے، حتیٰ کہ بسا اوقات ایک کاما(Comma)کی تبدیلی کے لیے پارلیمنٹ کو ایک قانون (act) پاس کرنا پڑتا ہے، مگر یہاں یہ مطالبہ ہے کہ قرآن کی وہ لوگ تعبیر کریں گے جو ترجموں کی مدد سے قرآن سمجھتے ہوں اور ترجمے بھی وہ جو انگریزی زبان میں ہیں۔ دوسرا اصول یہ ہے کہ آدمی نے قرآن مجید کا اور ان حالات کا جن میں قرآن مجید نازل ہوا ہے گہرا اور وسیع مطالعہ کیا ہو۔ کیا اس اصول میں کوئی غلطی ہے؟ کیا موجودہ قوانین کی تعبیر کا حق کسی ایسے شخص کو دیا جا سکتا ہے جس نے قانون کی کسی کتاب کا محض سرسری مطالعہ کر لیا ہو یا اس کا محض ترجمہ پڑھ لیا ہو؟ تیسرا اصول یہ ہے کہ آدمی اس عمل درآمد سے اچھی طرح واقف ہو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے دور میں اسلامی قوانین پر ہوا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ قرآن خلا میں سفر کرتا ہوا براہِ راست ہمارے پاس نہیں پہنچ گیا ہے۔ اس کو خدا کی طرف سے ایک نبی لایا تھا۔ اس نبی نے اس کی بنیاد پر افراد تیار کیے تھے، معاشرہ بنایا تھا، ایک ریاست قائم کی تھی، ہزار ہا آدمیوں کو اس کی تعلیم دی تھی اور اس کے مطابق کام کرنے کی تربیت دی تھی۔ ان ساری چیزوں کو آخر کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ ان کا جو ریکارڈ موجود ہے۔ اس کی طرف سے آنکھیں بند کرکے صرف قرآن سے احکام کے الفاظ نکال لینا کس طرح صحیح ہو سکتا ہے۔ چوتھا اصول یہ ہے کہ آدمی اسلامی قانون کی پچھلی تاریخ سے واقف ہو۔ وہ یہ جانے کہ قانون کس طرح ارتقا کرتا ہوا آج ہم تک پہنچا ہے۔ پچھلی تیرہ صدیوں میں صدی بہ صدی اس پر کیا کام ہوا ہے اور مختلف زمانوں میں وقت کے حالات پر قرآن اور سنّت کے احکام کو منطبق کرنے کے لیے کیا کیا طریقے اختیار کیے گئے ہیں اور تفصیلاً کیا احکام مرتّب کیے جاتے رہے ہیں۔ اس تاریخ اور اس کام سے واقف ہوئے بغیر اجتہاد کرکے ہم اسلامی قانون کے ارتقا کا تسلسل (continuity) آخر کس طرح برقرار رکھ سکتے ہیں۔ ایک نسل اگر یہ طے کر لے کہ پچھلی نسلوں کے کیے ہوئے سارے کاموں کو چھوڑ دے گی اور نئے سرے سے اپنی عمارت بنائے گی تو ایسا ہی احمقانہ فیصلہ ہمارے بعد آنے والی نسلیں بھی کر سکتی ہیں۔ ایک دانش مند قوم اپنے اسلاف کے کیے ہوئے کام کو برباد نہیں کرتی بلکہ جو کچھ انھوں نے کیا ہے اس کو لے کر آگے وہ کام کرتی ہے جو انھوں نے نہیں کیا۔ اور اس طرح مسلسل ترقی جاری رہتی ہے۔ پانچواں اصول یہ ہے کہ آدمی ایمانداری کے ساتھ اسلامی اقدار اور طرزِ فکر اور خدا اور رسول کے احکام کی صحت کا معتقد ہو اور رہنمائی کے لیے اسلام سے باہر نہ دیکھے بلکہ اسلام کے اندر ہی رہنمائی حاصل کرے۔ یہ شرط ایسی ہے جو دنیا کا ہر قانون اپنے اندر اجتہاد کرنے کے لیے لازمی طور پر لگائے گا۔ درحقیقت اجتہاد کے یہی پانچ اصول ہیں۔ اگر کوئی صاحب معقول دلیل سے اس بیسویں صدی کے لیے کچھ اور اصول تجویز کر سکیں تو ہم ان کے ممنونِ احسان ہوں گے۔
۳- اسلامی حکومت میں فقہی اختلافات کے حل کا طریقہ
مسلمانوں میں فرقوں کے جتنے اختلافات ہیں ان کے بارے میں پہلے ہی پاکستان کے علما اس بات پر اتفاق کر چکے ہیں کہ جہاں تک پرسنل لا کا تعلق ہے ہر فرقے پر وہی احکام نافذ ہوں گے جو اس فرقے کے نزدیک مسلم ہیں اور جہاں تک ملکی قوانین کا تعلق ہے وہ اکثریت کے مسلک کے مطابق ہوں گے۔ کیا اس کے بعد وہ مشکلات باقی رہتی ہیں جن کا حوالہ دیا جاتا ہے؟ اگر مجلس قانون ساز میں ہمارے نمایندے احتیاط کے ساتھ اس اصول پر عمل کریں تو فرقہ وارانہ اختلافات آہستہ آہستہ کم ہوتے چلے جائیں گے اور ہمارے قوانین کا ارتقا بڑی اچھی طرح ہو سکے گا۔
۴- شیعی فقہ پاکستان میں ملکی قانون نہیں ہو سکتی
فقہ جعفری اور شیعہ علما کا اجتہاد اسی ملک میں نافذ کیا جا سکتا ہے جہاں شیعہ فرقے کی اکثریت ہو، چنانچہ ایران میں وہ نافذ ہے۔ لیکن پاکستان میں وہ شیعوں کے پرسنل لا کی حیثیت سے ہی رہ سکتا ہے، سنی اکثریت پر اس کو نافذ کرنے کی کیسے کوشش کی جا سکتی ہے؟
(ترجمان القرآن۔ دسمبر ۱۹۶۱ء)
٭…٭…٭…٭…٭