فہرست موضوعات

دیباچۂ طبع اوّل
دیباچۂ طبع ششم
عقل کا فیصلہ
کوتہ نظری
ہدایت و ضلالت کا راز
اسلام ایک علمی و عقلی مذہب
اسلام میں عبادت کا تصور
جہاد فی سبیل اللہ
آزادی کا اسلامی تصوُّر
رواداری
اسلامی قومیت کا حقیقی مفہوم
استدراک
امربالمعروف و نہی عن المنکر
نُزولِ عذاب الٰہی کا قانون
ایک مسیحی بزرگ کے چند اعتراضات
کیا نجات کے لیے صرف کلمۂ توحید کافی ہے؟
کیا رسالت پر ایمان لانا ضروری ہے؟
ایمان بالرّسالت
قرآن پر سب سے بڈا بہتان
نبوت محمدی کا عقلی ثبوت
اتباع اور اطاعت رسول
رسول کی حیثیت شخصی وحیثیت نبوی
رسالت اور اس کے احکام
حدیث اور قرآن
مسلکِ اعتدال
استدراک
حدیث کے متعلق چند سوالات
قرآن اور سنت رسولؐ
ایک حدیث پر اعتراض اور اس کا جواب

تفہیمات (حصہ اول)

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

کیا نجات کے لیے صرف کلمۂ توحید کافی ہے؟

’’مَنْ قَالَ لَااِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ دَخَلَ الْجَنَّۃَ‘‘ اس حدیث میں اوّل تو ایمان بِالرُّسُل کے بغیر جنت کی بشارت دی گئی ہے، حالانکہ قرآن میں ایمان بالرسل پر جس شدت سے تاکید ہے ظاہر ہے، حتیٰ کہ کوئی ایمان بالرسل کے بغیر نہ راہِ ہدایت پاسکتاہے نہ فوز و فلاح، نہ آخرت کی زندگی میں اس کے لیے کوئی حصہ ہے۔ نیز اس حدیث میں عمل صالح کی بھی کوئی شرط نہیں ہے۔ اگرچہ اعمال صالحہ جزو ایمان نہیں ہیں مگر قرآن کریم میں تو آخرت کی کامیابی و کامرانی، انعام و اکرام اور جنت کی بشارت اپنے صاحب ایمان اور صالح بندوں ہی کو دی گئی ہے۔
جیسا کہ آیات ذیل سے واضح ہوتا ہے:
اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ۝۰ۙ …… جَزَاۗؤُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ جَنّٰتُ عَدْنٍ الایہ……… بینہ 7-8:98 وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَـنُدْخِلُھُمْ جَنّٰتٍ النساء57:4
مَنْ يُّؤْمِنْۢ بِاللہِ وَيَعْمَلْ صَالِحًا يُّكَفِّرْ عَنْہُ سَـيِّاٰتِہٖ وَيُدْخِلْہُ جَنّٰتٍ …..الایہ
التغابن 9:64
ہماری سطح بیں نظروں میں یہ حدیث قرآن کے خلاف واقع ہو رہی ہے۔ براہ کرم اپنے شغف علمی اور محققانہ نظر سے مستفید فرما کر مطمئن فرما دیں تو موجب صد ممنونیت۔‘‘ (ایک طالب حق از نظام آباد)
سب سے پہلے یہ غلط فہمی دُور ہو جانی چاہیے کہ یہ حدیث قرآن کے خلاف ہے۔ قرآن مجید میں بھی ایک جگہ فرمایا گیا ہے:
اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللہُ ثُمَّ اسْـتَقَامُوْا تَـتَنَزَّلُ عَلَيْہِمُ الْمَلٰۗىِٕكَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِيْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَo حم السجدہ:30:41
بیشک جن لوگوں نے کہا کہ خدا ہی ہمارا رب ہے پھر اس قول پر جم گئے ان پر ملائکہ اترتے ہیں (اور کہتے ہیں کہ) نہ خوف کھائو اور نہ رنج کرو اور اس جنت کی خوشخبری سے شاد کام ہو جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔
دیکھیے یہاں بھی وہی بات دوسرے لفظوں میں کہی گئی ہے جو آپ کی نقل کردہ حدیث میں پائی جاتی ہے۔ جس طرح اس آیت سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جاسکتا کہ نجات اور بخشش اور دخول جنت کے لیے توحید کا اعتقاد کافی ہے، اور ایمان بالرسل اور عمل صالح کی ضرورت نہیں، اسی طرح مذکورۂ بالاحدیث سے بھی ایسا نتیجہ نکالنا درست نہیں۔ علیٰ ہذا القیاس جس طرح قرآن مجید کی یہ آیت ان آیات سے معارض نہیں ہے جو آپ نے پیش فرمائی ہیں، اسی طرح یہ حدیث بھی ان آیات سے معارض نہیں۔
حدیث اور قرآن دونوں کو سمجھنے میں ایک غلطی عام طور پر پیش آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ قرآن اور کتب حدیث دونوں کو لوگ عام تصنیفات کی طرح دیکھنا چاہتے ہیں، اور یہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح دوسری کتابوں میں ایک ایک مضمون ایک ایک جگہ بتمام و کمال بیان کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، اسی طرح قرآن و حدیث میں بھی کی گئی ہوگی۔ لیکن دراصل معاملہ یہ نہیں ہے۔ قرآن ۲۳ سال کی مدت میں مختلف مواقع پر مختلف حالات اور ضروریات کے مطابق تھوڑا تھوڑا کرکے نازل ہوا ہے۔ اسی طرح احادیث میں حضورؐ کے وہ اقوال جمع کیے گئے ہیں جو ۲۳ سال کے طویل زمانے میں آپؐ نے مختلف مواقع پر مختلف حالات میں حسب ضرورت ارشاد فرمائے ہیں۔ ان دونوں میں ایک چیز تو اسلام کی مرکزی تعلیم ہے جسے بار بار مختلف طریقوں سے دہرایا گیا ہے۔ اور دوسری چیز اسلامی ہدایت کی تفصیلات ہیں جن کو کہیں یکجا اور کہیں جدا جدا مختلف حالتوں اور مختلف ضرورتوں کے لحاظ سے بیان کیا گیا ہے۔ صحیح نتیجہ اخذ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ان سب پر بحیثیت مجموعی نگاہ ڈالی جائے۔ ورنہ اگر کسی ٹکڑے کو کہیں سے لے لیا گیا اور دوسرے متعلق اجزا سے صرف نظر کرکے اسی کو ایک مستقل چیز سمجھ لیا گیا تو یقیناً غلط فہمی پیدا ہوگی۔
مثال کے طور پر قرآن میں کہیں تو صرف ایمان باللہ پر زور دیا گیا ہے جیسا کہ اوپر منقول ہوا۔ کہیں صرف یوم آخر کے اقرار کی تاکید ہے (الانعام:۴) کہیں خدا کے ساتھ یوم آخر کا ذکر ہے (سورۂ بقرہ:۸) کہیں خدا کے ساتھ رسولوں پر ایمان لانے کا حکم ہے (آل عمران:۱۸) کہیں خدا کے ساتھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی تعلیم ہے (النور:۹) کہیں یوم آخر اور کتب الٰہی پر اعتقادرکھنے کی شدید تاکید ہے (النساء:۱) کہیں خدا اور انبیاء اور ملائکہ کے انکار کو کفر و فسق قرار دیا گیا ہے (بقرہ: ۱۲) کہیں ایمان کے پانچ اجزا بیان کیے گئے ہیں، یعنی ایمان باللہ، ایمان بالرسل، ایمان بالکتب، ایمان بالملائکہ اور ایمان بالیوم الآخر (بقرہ:۲۲) ان مختلف مقامات میں درحقیقت کوئی اختلاف نہیں ہے۔ بلکہ ایک مقام پر ایمانیات کو یک جا بیان کرکے دوسرے مقامات پر ان میں سے ایک ایک دو دو کو حسب موقع و ضرورت زیادہ زور دے کر پیش کیا گیا ہے۔ اب اگر کوئی شخص اس اصل سے قطع نظر کرکے اور کسی ایک آیت کو لے کر یہ دعویٰ کر دے کہ مومن ہونے کے لیے صرف خدا کی توحید پر، یا محض خدا اور یوم آخر پر، یا فقط خدا اور رسولوں پر ایمان لانا کافی ہے، اور یہ گمان کرلے کہ اجزائے ایمانی میں سے بعض کا انکار کرکے بھی بعض کا اقرار انسان کے لیے ناقع ہوسکتا ہے، تو دراصل یہ قرآن کی زبان اور اس کے انداز بیان سے قطعی ناواقفیت کا نتیجہ ہوگا۔
اسی طرح قرآن میں کہیں صرف ایمان پر زور دیا گیا ہے جیسا کہ اِنَّ الَّذِیْنَ قَاُلْوا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَا مُوْا میں ہے، اور کہیں ایمان کے ساتھ عمل صالح اور تقویٰ کو نجات کے لیے شرط ٹھیرایا گیا ہے، مثلاً وَاِنْ تُؤْمِنُوْا وَتَتَّقُوْا فَلَكُمْ اَجْرٌ عَظِيْمٌo آل عمران179:3 اور وَالْعَصْرِo اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِيْ خُسْرٍo اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ۝۰ۥۙ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِo العصر 1-3:103 پھر اعمال صالحہ میں سے بھی کسی جگہ ایک کی تاکید ہے اورکسی جگہ دوسرے کی۔ کہیں نماز اور زکوٰۃ پر زور دیا جارہا ہے، کہیں راستبازی اور حسن معاملہ پر، کہیں عفت و عصمت پر، کہیں صلہ رحمی اور قرابت داروں کے حقوق پر، کہیں اکل حلال اور ترک حرام پر۔ ان میں سے ہر ایک کو اپنی اپنی جگہ اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ گویا فلاح و نجات کا مدارا سی پر ہے۔ اگر کوئی شخص ان احکام اور ہدایات کے پورے مجموعہ سے قطع نظر کرکے محض کسی ایک آیت کو لے اور اس سے یہ نتیجہ نکالے کہ قرآن مجید محض ایمان پر نجات کی بشارت دیتا ہے بغیر اس کے کہ اس کے ساتھ عمل صالح ہو، یا اعمال صالحہ میں سے صرف نماز یا زکوٰۃ یا عفت یا صلہ رحمی یا کسی اور چیز کو کافی سمجھتا ہے بغیر اس کے کہ اس کے ساتھ دوسرے حسنات بھی ہوں، تو یہ اس کی قلت تدبر کا نتیجہ ہوگا۔ قرآن تو اپنی مجموعی تعلیم میں فکری و عملی زندگی کے لیے ایک مکمل اسکیم پیش کرتا ہے جس میں ایمانیات، اخلاقیات اور عملی قوانین سب اپنی اپنی مناسب جگہ پر ہیں۔ مگر اس نے ان چیزوں کو ذہن نشین کرنے کے لیے ایک خاص حکیمانہ طریقہ اختیار کیا ہے، اور وہ یہ ہے کہ ایک ایک ہدایت کو وہ الگ الگ مناسب مواقع پر دلوں میں اتارتا جاتا ہے۔ کبھی کوئی خاص واقعہ پیش آگیا، دیکھا کہ ذہن اس وقت ایک خاص ہدایت قبول کرنے کے لیے تیار ہے، فوراً وہ ہدایت نازل کر دی گئی اور اس قوت کے ساتھ نازل کی گئی کہ قلب و روح میں پیوست ہوگئی۔ کبھی کسی خاص گروہ کی تعلیم پر حضورؐ کو مامور کیا گیا اور اس گروہ کے خاص حالات کو پیش نظر رکھ کر اسی قسم کی ہدایات دی گئیں جو اس کی اصلاح کے لیے ضروری تھیں۔ کبھی کوئی خاص تعلیم دینے کی ضرورت پیش آئی تو پہلے تمثیلوں سے، اقوام گذشتہ کی نظیروں سے، انبیائے کرام کے حالات سے، آفاق و انفس کے شواہد سے دلوں کو اس کی قبولیت کے لیے تیار کیا گیا پھر وہ تعلیم دی گئی تاکہ اس کا اثر ہو اور وہ روح میں جذب ہو جائے۔ یہ انتہا درجے کا حکیمانہ طریق تعلیم و تربیت اس لیے اختیار کیا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کا مقصد محض ایک اسکیم اور ایک ہدایت نامہ مرتب کر دینا نہیں تھا، بلکہ درحقیقت اپنی اسکیم کو نافذ کرنا اور ایک جماعت کی زندگی میں انقلاب پیدا کرنا تھا جس کے لیے تدریج اور ترتیب اور مواقع و محل کی مناسبت اور نفسیات انسانی کی رعایت ناگزیر تھی۔
ٹھیک ٹھیک اسی حکیمانہ طریقے کی پیروی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمائی ہے۔ ۲۳ سال کی پیغمبرانہ زندگی میں آپ ہر وقت تبلیغ و تعلیم اور اصلاح و ہدایت میں مشغول رہتے تھے۔ ہر قسم کے لوگ آپ کے پاس آتے تھے۔ ہر ایک کی ذہنیت، ہر ایک کی استعداد، ہر ایک کی اخلاقی، اعتقادی اور عملی حالت جداگانہ تھی۔ اگر آپ ہر وقت ہر شخص سے ایک ہی لگی بندھی بات کہتے اور ایک ہی قسم کی ہدایات دے کر رخصت کر دیا کرتے تو آپ کو وہ کامیابی نصیب نہ ہوتی جس نے تاریخ میں انقلاب پیدا کر دیا۔ آپؐ حکیم مطلق کے شاگرد تھے اور اس حکیم نے جو طریق ہدایت اپنی کتاب میں اختیار کیا تھا اسی کی پیروی آپ بھی کرتے تھے۔ آپ کی تعلیم موقع و محل کی رعایت کے ساتھ ہوتی تھی۔ جس وقت جس بات کا موقع ہوتا تھا اس وقت وہی بات آپ کی زبان سے نکلتی تھی، اور سیدھی دلوں میں اتر جاتی تھی۔ یہ چیزیں جو منتشر طور پر حدیثوں میں پھیلی ہوئی ہیں ان سب کو مجموعی حیثیت سے دیکھیے تب آپ کو معلوم ہوگا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری تعلیم کیا تھی اور آپ کس طرح اس کو ذہن نشین کراتے تھے۔ اگر آپ ان اکائیوں کو جوڑ کر ایک منظم عدد نہ بنائیں گے اور ایک ایک فرد کو الگ الگ لے کر اس سے جداگانہ نتائج اخذ کرنے لگیں گے تو ویسی ہی غلطی پیش آئے گی جیسی آیات قرآنی کو متفرق طور پر دیکھنے سے پیش آسکتی ہے۔
اس قاعدے کو ملحوظ رکھ کر آپ ان احادیث پر نظر ڈالیے جن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی تعلیمات مختلف طریقوں سے بیان فرمائی ہیں۔
ایک مرتبہ آپ سفر میں تھے۔ ایک اعرابی نے آکر آپ کے اونٹ کی نکیل تھام لی اور عرض کیا یارسول اللہ، مجھے کوئی ایسی چیز بتائیے جو مجھ کو جنت سے قریب اور دوزخ سے دُر کر دے۔ فرمایا تَعْبُدُ اللّٰہَ وَلاَ تُشْرِکُ بِہٖ شَیْئًا وَّ تُقِیْمُ الصَّلوٰۃُ وَتُؤْتیِ الزکّٰوٰۃَ وَتَصِلُ الرَّحِمَ۔اللہ کی بندگی کر اور اس کے ساتھ خداوندی میں کسی کو شریک نہ کر، نماز کا پابند رہ، زکوٰۃ دے اور قرابت داروں کے حقوق ادا کر۔ دیکھیے یہاں ایک ایسا شخص سامنے ہے جو آپ کی رسالت کا قائل ہے، اسلام قبول کر چکا ہے، اس کو تمام ایمانیات اور اخلاقیات کی تفصیل مطلوب نہیں۔ وہ صرف خدا کا قرب حاصل کرنے کے لیے ہدایت مانگ رہا ہے۔ آپ اس کی ضرورت کے مطابق اس کو تعلیم دیتے ہیں کہ جس عقیدے پر اسلام کی بنیاد قائم ہے اس میں مضبوط ہو جا، اور اللہ کے حقوق اور بندوں کے حقوق ادا کیے جا۔
ایک دوسرے موقع پر ایک اعرابی حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا کہ مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جو مجھ کو جنت میں پہنچا دے۔ آپؐ نے فرمایا تَعْبُدُ اللّٰہَ وَلاَ تُشْرِکَ بِہٖ شَیْئاً وَّتُقِیْمُ الصَّلوٰۃَ الْمَکْتُوْبَۃَ وَتُؤْتِی الزَّکوٰۃَ الْمَفْرُوْضَۃَ وَتَصُوْمُ رَمَضَانَ۔ ’’وہ عمل یہ ہے کہ تو صرف اللہ کی بندگی کرے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرائے، جو نماز فرض کی گئی ہے اس کا پابند رہے، جو زکوٰۃ مقرر کر دی گئی ہے وہ ادا کرتا رہے اور رمضان کے روزے رکھے۔‘‘ اس نے کہا بہ خدا میں نہ اس سے زیادہ کچھ کروں گا نہ کم۔ جب وہ چلا گیا تو حضورؐ نے فرمایا: جو شخص اہل جنت میں سے کسی کو دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی کرنا چاہتا ہو وہ اس شخص کو دیکھ لے۔ اب حضورؐ کی تعلیم اور اس شخص کے جواب اور پھر آپ کے آخری ارشاد پر غور کیجیے۔ ایک سچا مسلمان سامنے تھا۔ نبی کی ہر ہدایت کو صدق دل سے قبول کرنے کو تیار تھا۔ اس کو صرف یہ سمجھانے کی ضرورت تھی کہ خدا کی جنت میں داخل ہونے کے لیے بڑی بڑی ریاضتوں اور مجاہدوں کی ضرورت نہیں، چلے کھینچنے اور رات رات بھر وظیفے پڑھنے کی ضرورت نہیں، اسی دنیاداری کی زندگی میں اگر تو اپنے اعتقاد کو شرک سے پاک رکھے اور خدا کے عاید کیے ہوئے فرائض ادا کرتا رہے تو جنت تجھے مل سکتی ہے۔
اس کے بعد ایک دوسری قسم کی حدیث ملاحظہ کیجیے:
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو جب آپؐ نے ایک مشن پر بھیجا تو فرمایا کہ تم اہل کتاب کی ایک قوم میں پہنچو گے۔ سب سے پہلے ان کو اس بات کی دعوت دینا کہ لا الٰہ الا اللہ کی شہادت دیں اور یہ تسلیم کریں کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ جب اس کو مان لیں تو ان سے کہنا کہ اللہ نے تم پر رات دن میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ جب وہ اس کو بھی مان لیں تو ان سے کہنا کہ اللہ نے تم پر زکوٰۃ بھی فرض کی ہے جو تمھارے مالداروں سے لی جائے گی اور تمھارے غریبوں کو دے دی جائے گی۔ جب وہ اس کو بھی مان لیں تو خبردار ان کے مال کو ہاتھ نہ لگانا اور مظلوم کی بددعا سے بچنا کہ اس کے اور خدا کے درمیان کوئی حجاب نہیں۔ اسی نوعیت کی دوسری احادیث میں ہے:
اُمِرْتُ اَنْ اُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی یَشْھَدُوْا اَنْ لاَّ الِٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَلَقِیْمُوا الصَّلوٰۃَ وَیُؤْتُوا الزَّکوٰۃَ فَاِذَا فَعَلُوْہُ عَصَمُوْا مِنِّیْ دِمَا ئَ ھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ وَحِسَابُھُمْ عَلَی اللّٰہِ ۔
مجھے حکم دیا گیا کہ لوگوں سے جنگ کروں یہاں تک کہ وہ گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی خدا نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کا رسول ہے اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں۔ پھر جب انھوں نے ایسا کر دیا تو مجھ سے اپنی جانوں اور مالوں کو بچالیا۔ اس کے بعد ان کا حساب اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
اُمْرِتُ اَنْ اُقَاتِلَ النَّاسَ حَتیّٰ یَشْھَدُوْا اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَیُؤمِنُوْا بِیْ وَبِمَا جِئْتُ بِہٖ فَاِذَا فَعَلُوْا فَالِکَ عَصَمُوْا مِنّیْ دِمَائَ ھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ اِلاَّ بِحَقِھَا وَحِسَابُھُمْ عَلَی اللّٰہِ ۔
مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے جنگ کروں یہاں تک کہ وہ گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی خدا نہیں، اور مجھ پر اور ان سب باتوں پر ایمان لائیں جو میں لایا ہوں۔ پھر جب انھوں نے ایسا کر دیا تو مجھ سے اپنی جانوں اور مالوں کو بچالیا، الایہ کہ ان کے خلاف کوئی حق قائم ہو جائے، اس کے بعد ان کا حساب اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
ان احادیث میں حضورؐ نے اسلام کا دستوری قانون (constitutional law) بیان فرمایا ہے اور وہ یہ ہے کہ جب کوئی شخص خدا کی وحدانیت اور آپ کی رسالت کو ماننے کا اقرار کرے تو وہ دائرۂ اسلام میں آجاتا ہے اور اسلامی اسٹیٹ کا شہری (citizen)بن جاتا ہے۔ یہ بات کہ وہ حقیقی مومن ہے یا نہیں اس کا فیصلہ اللہ کرنے والا ہے۔ ہم اس کا فیصلہ کرنے کے مجاز نہیں کیونکہ لَمْ اُوْمَرْاَنْ اَشُقَّ عَنْ قُلُوْبِ النَّاسِ وَلَا بُطُوْنِھِمْ۔۱؎ جان و مال کی عصمت (security)صرف کلمۂ توحید اور اعتقادِ رسالت کے اقرار سے قائم ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد کسی دست درازی کا حق نہیں رہتا۔ البتہ اگر کوئی شخص خدا کا حق یا بندوں کا حق ادا کرنے سے انکار کرے تو اس کو جرم کے مطابق سزا دی جاسکتی ہے۔
دیکھیے یہاں کوئی شخص پیش نظر نہیں تھا بلکہ ایک علاقے کے گورنر کو قانونی ہدایات دی جارہی تھیں اس لیے صرف قانون کے حدود بیان کرنے پر اکتفا کی گئی۔ یہ نہیں فرمایا کہ اقرار توحید و رسالت اور ادائے فرائض سے ہر شخص کے لیے جنت واجب ہو جائے گی۔ نیز اس موقع پر آپ نے ہر شخص کو تمام ایمانیات اور عملی قوانین سے آگاہ کرنے کا حکم بھی نہیں دیا، کیونکہ یہاں صرف یہ سمجھانا مقصود تھا کہ اسلام اور غیر اسلام کی سرحد کیا ہے، اور اسلام کی سرحد میں داخل ہوتے ہی انسان کو کیا آئینی حقوق حاصل ہو جاتے ہیں۔ یہ ٹھیک ٹھیک اس آیت کے مطابق ہے جس میں فرمایا گیا ہے فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ فَخَــلُّوْا سَـبِيْلَہُمْ۝۰ۭ التوبہ9:5 اگر وہ کفر و شرک سے توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو انھیں چھوڑ دو) پس کسی شخص کو ان قانونی ہدایات سے یہ نتیجہ نکالنے کا حق نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف توحید و رسالت کے اقرار اور ادائے نماز و زکوٰۃ میں اسلام کو محدود رکھتے تھے اور ان کے سوا کسی اور چیز کی کوئی اہمیت آپ کی نگاہ میں نہ تھی۔
اوپر آپ نے دو قسم کی حدیثیں دیکھیں۔ ایک وہ احادیث جن کے مخاطب خاص لوگ تھے۔ ان میں آنحضرتؐ نے ان لوگوں کے مخصوص حالات کو پیش نظر رکھ کر تعلیم دی ہے۔ دوسری وہ احادیث جن میں مخصوص افراد سے بحث نہ تھی بلکہ دستوری قانون کی رو سے مسلم اور غیر مسلم کا اصولی فرق اور مسلم کے آئینی حقوق بیان کرنا مقصود تھا۔ ان دونوں قسم کی حدیثوں کے انداز بیان میں آپ کو نمایاں فرق نظر آتا ہے۔ ایک جگہ آپؐ عوام کے روحانی رہنما کی حیثیت سے کلام کر رہے ہیں، دوسری جگہ آپؐ کی حیثیت ایک مقنن اور ایک نئے نظام سیاسی کے موسِّس کی ہے۔
اب ان احادیث پر ایک نگاہ ڈالیے جن میں آپ کے مخاطب عرب کے وہ بہترین چیدہ اشخاص تھے جن کو اپنے عہد کی عرب سوسائٹی میں سے چھانٹ کر آپ نے اپنی صحبت میں رکھا تھا اور بطور خاص ان کو تعلیم و تربیت دے رہے تھے تاکہ وہ اسلام کی اسپرٹ کو ٹھیک ٹھیک سمجھ کر آپ کے مشن کی توسیع میں مددگار ہوں۔
ایک مرتبہ حضورؐ سواری پر چلے جارہے تھے اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ آپ کے ردیف تھے۔ آپؐ نے تین مرتبہ ٹھیر ٹھیر کر آواز دی ’’یامعاذ بن جبل‘‘! حضرت معاذؓ نے ہر مرتبہ عرض کیا ’’لبَّیْکَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ وَسَعْدَیْکَ، اس طرح تین مرتبہ پکار کر جب آپؐ نے مخاطب کو اچھی طرح اپنی جانب متوجہ کرلیا اور آپ کو یقین ہوگیا کہ جو بات آپؐ فرمانا چاہتے ہیں سننے والا اس کو خاص اہمیت کے ساتھ سنے گا تب فرمایا: جانتے ہو بندوں پر خدا کا کیا حق ہے؟ انھوں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ فرمایا:اللہ کا حق اس کے بندوں پر یہ ہے کہ صرف اسی کی بندگی کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں۔ تھوڑی دُور آگے چل کر پھر آواز دی: یا معاذ بن جبل! انھوں نے عرض کیا لبیک یارسول اللہ و سعدیک۔ فرمایا:پھر جانتے ہو کہ بندوں کا اللہ پر کیا حق ہے جبکہ وہ ایسا کریں؟ انھوں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ فرمایا: ان کا حق یہ ہے کہ اللہ ان کو عذاب نہ دے۔ حضرت معاذؓ نے یہ سن کر پوچھا: کیا میں لوگوں کو اس کی بشارت دے دوں؟ فرمایا: نہیں ان کو بشارت نہ دو کیونکہ وہ اسی پر بھروسہ کر بیٹھیں گے۔ یعنی عام لوگ اس کی اسپرٹ کو نہ سمجھیں گے اور اس غلط فہمی میں پڑ جائیں گے کہ محض زبانی کلمۂ شہادت پڑھ لینے سے نجات لازم ہو جاتی ہے۔
ایک اور موقع پر حضورؐ اپنے خاص صحابیوں کے درمیان بیٹھے تھے۔ یکایک آپ اٹھے اور تشریف لے گئے۔ جب بہت دیر گزر گئی تو صحابہ کو تشویش ہوئی کہ کہیں کوئی حادثہ پیش نہ آجائے۔ ڈھونڈنے نکلے۔ سب سے پہلے جو صاحب گئے وہ حضرت ابوہریرہؓ تھے۔ یہ سرکار کو تلاش کرتے ہوئے انصار کے ایک باغ پر پہنچے۔ جس کا دروازہ تلاش کے باوجود نہ ملا۔ آخر ایک چھوٹی سی نہر کے رستے سے اندر پہنچے۔ دیکھا کہ حضورؐ تشریف فرما ہیں۔ آپؐ نے پوچھا کہ کیسے آئے؟ انھوں نے ماجرا عرض کیا۔ آپؐ نے اپنی دونوں جوتیاں اٹھا کر انھیں دے دیں اور فرمایا: انھیں لے جائو اور باغ کے پیچھے جو شخص ایسا ملے جو لا الٰہ الا اللہ کی شہادت دیتا ہو اور اس پر دل سے یقین رکھتا ہو اسے جنت کی بشارت دے دو۔ یہ اس حکم کی تعمیل کے لیے روانہ ہوئے۔ راستے میں سب سے پہلے حضرت عمرؓ ملے۔ انھوں نے پوچھا یہ جوتیاں کیسی ہیں؟ انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نعلین ہیں اور آپ نے مجھے ایسا اور ایسا کہنے کا حکم دیا ہے۔ حضرت عمرؓ نے یہ سن کر ان کے ایک زور کا دھپ رسید کیا اور کہا کہ واپس جائو۔ یہ گرتے پڑتے بھاگے اور جاکر حضورؐ سے سارا معاملہ بیان کیا۔ اتنے میں حضرت عمرؓ بھی پہنچ گئے۔ آپ نے پوچھا کہ عمرؓ! کس چیز نے تم کو اس حرکت پر آمادہ کیا؟ انھوں نے عرض کیا: میرے ماں باپ آپ پر قربان، کیا آپ نے ابوہریرہ کو ایسا اور ایسا کہنے کے لیے بھیجا تھا؟ حضورؐ نے فرمایا: ہاں۔ حضرت عمرؓ نے عرض کیا: ایسا نہ کیجیے، مجھے خوف ہے کہ لوگ اسی پر بھروسہ کر بیٹھیںگے، انھیں عمل کے لیے چھوڑ دیجیے۔ آپؐ نے فرمایا: اچھا تو انھیں عمل کے لیے چھوڑ دو۔
ایک مرتبہ حضرت ابوذرغفاری حاضر ہوئے تو دیکھا کہ آپ ایک سفید کپڑا اوڑھے ہوئے لیٹے ہیں۔ یہ واپس ہوگئے۔ دوبارہ حاضر ہوئے تو آپ اٹھ چکے تھے۔ ان کو دیکھ کر فرمایا مَا مِنْ عَبْدٍ قَالَ لَااِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ ثُمَّ مَاتَ عَلٰی ذَالِکَ اِلاَّدَخَلَ الجنۃ۔جس بندے نے کہہ دیا کہ اللہ کے سوا کوئی خدا نہیں اور اسی عقیدے پر جان دی وہ ضرور جنت میں داخل ہوگا۔ انھوں نے پوچھا وَاِنْ زَنٰی وَاِنْ سَرَقَ۔ اگرچہ اس نے زنا کی ہو؟ اگرچہ اس نے چوری کی ہو؟ آپؐ نے فرمایا وَانِ زَنیٰ وَاِنْسَرَقَ۔انھوں نے پھر یہی پوچھا اور آپؐ نے پھر یہی جواب دیا۔ انھوں نے سہ بارہ پوچھا۔ آپؐ نے فرمایا: وَاِنْ زَنیٰ وَاِنْ سَرَقَ عَلیٰ رَغْمَ اَنْفِ اَبِیْ ذَرٍّ۔
ان تینوں حدیثوں پر غور کیجیے۔ مخاطب وہ لوگ ہیں جن کے کامل الاسلام ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ وہ تعلیمات قرآنی اور قوانین اسلامی سے نہ صرف خوب واقف بلکہ ان پر پورے عامل بھی ہیں۔ ان کے سامنے حضورؐ نے جو کچھ فرمایا اس سے یہ اندیشہ کرنے کی گنجائش ہی نہ تھی کہ وہ توحید کے سوا اسلام کے دوسرے اصولی عقاید اور حقوق و فرائض کو غیر ضروری سمجھ لیںگے۔ اس لیے ان کو آپؐ نے یہ حقیقت بتا دی کہ اسلام میں اصل اور بنیادی چیز عقیدۂ توحید ہے۔ انبیاء کی آمد کا اصلی مقصد یہی ہے کہ انسان کو خدا کے سوا ہر ایک کی بندگی سے نکالیں اور صرف خدا کا بندہ بنائیں۔ دنیا اور آخرت میں انسان کی فلاح و کامیابی کا انحصار بھی اسی پر ہے کہ وہ غیر اللہ کی بندگی سے نکلے اور بس ایک خدا کا بندہ بن کر رہے۔ یہ حقیقت جس نے سمجھ لی اور جس کے دل میں یہ بات خوب بیٹھ گئی کہ خدائے واحد کے سوا دنیا کی کسی چیز کو قطعاً کسی قسم کی الوہیت حاصل نہیں ہے۔ اور صرف ایک خدا ہی ہے جس کی اطاعت، فرمانبرداری، غلامی اور بندگی اس کو کرنی ہے، وہ یقیناً اپنی زندگی میں سیدھا راستہ اختیار کرے گا اور ٹیڑھے راستوں سے بچ کر چلے گا۔ اس کے مزاج میں راستی ہوگی۔ صداقت کو قبول کرے گا۔ متقی اور پرہیزگار ہوگا۔ تمام وہ حقوق ادا کرے گا جن کو خدا نے حق ٹھیرایا ہے اور تمام وہ فرائض بجا لائے گا جن کو خدا نے فرض قرار دیا ہے۔ لہٰذا یہی ایک چیز اس کو صحیح الخیال بھی بنائے گی اور طاہر الاخلاق اور صالح الاعمال بھی۔ رہی یہ بات کہ بشری کمزوری کی بنا پر کبھی اس سے گناہ سرزد ہو جائے، تو خدا پر ایمان اسے مجبور کرے گا کہ اس گناہ سے توبہ کرے۔ کیونکہ ایمان کے ساتھ یہ نا ممکن ہے کہ وہ گناہ اور بدکاری پر جما رہے۔
مذکورہ بالااحادیث اور ان کی ہم معنی دوسری احادیث کا یہی مفہوم صحابہ کرام نے سمجھا تھا اور یہی ان کا حقیقی مفہوم تھا۔ ان میں سے کسی نے بھی یہ خیال نہ کیا کہ بس عقیدۂ توحید ہی کافی ہے، اس کے بعد نہ رسالت کو ماننے کی ضرورت ہے، نہ کلام اللہ کو اور نہ پاکیزگیٔ اخلاق مطلوب ہے نہ صلاحیت اعمال۔ ایسا غلط مفہوم وہ کس طرح سمجھ سکتے تھے جبکہ ان کو پوری طرح بتا دیا گیا تھا کہ اسلام کیا ہے اور اس میں کن چیزوں کا اعتقاد، کن عبادات کی پابندی، کن حدود کی حفاظت، کن قوانین کی اطاعت اور کن طریقوں سے اجتناب ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپؐ نے یہ تعلیم صرف کاملین کو دی اور عوام کے سامنے اس کو بیان کرنے سے منع فرما دیا۔ معاذ بن جبل والی حدیث میں آپ نے اس کی وجہ بھی خود ہی بیان فرما دی ہے کہ عام لوگ اس کو سن کر غلط فہمی میں پڑ جائیں گے۔ حضرت ابوہریرہؓ والی حدیث میں ایک شخص کو شبہ ہوسکتا ہے کہ آپ نے شاید عوام تک پہنچانے کی ہدایت فرمائی تھی۔ خود حضرت عمرؓ کو بھی ایسا ہی شبہ ہوا تھا۔ لیکن دراصل حضورؐ کا مقصد کامل الاسلام لوگوں کو بشارت دینا تھا۔ چنانچہ جب حضرت عمرؓ نے اپنا اندیشہ بیان کیا تو آپؐ نے ان کی رائے سے اتفاق فرمایا۔ اسی طرح حضرت ابوذرؓ والی حدیث میں بھی کوئی شخص یہ شبہ نہیں کرسکتا کہ قَالَ لَااِلٰہ اِلاَّ اللّٰہُ سے مراد مجرد زبانی قول ہے۔ اس لیے کہ حضورؐ نے دوسرے مواقع پر تصریح فرمائی ہے کہ دخول جنت کے لیے توحید پر کامل ایمان کی ضرورت ہے۔ کہیں مُسْتَیْقِناً بِھَا قَلْبُہٗ فرمایا کہیں عَبْدٌ غَیْرُشَاکٍّ فرمایا۔ اور کہیں دوسرے الفاظ ارشاد فرمائے، جو اسی معنی پر دلالت کرتے ہیں۔
بہرحال یہ اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ جن احادیث میں توحید کی اہمیت بیان کی گئی ہے ان کاخطاب دراصل ان لوگوں سے ہے جو تمام شرائط کے ساتھ دائرۂ اسلام میں داخل ہو چکے ہیں، نہ کہ ان لوگوں سے جو مسلمان ہی نہ ہوں۔ پھر مسلمانوں کو بھی اعتقاد توحید پر دخول جنت کی بشارت دینے سے یہ مراد نہیں کہ بس خدا کی وحدانیت مان لو، پھر جس قسم کی بدعقیدگی اور فسق و فجور اور بدعت و معصیت میں چاہو مبتلا رہو۔ بلکہ اس کا مقصد یہ بتانا ہے کہ مسلمان کی کامیابی کامدار سب سے بڑھ کر اعتقاد توحید کی صحت اور مضبوطی پر ہے۔ اس میں اگر خرابی آگئی تو پھر کوئی چیز نافع نہیں ہوسکتی۔ اور اگر یہ صحیح و مضبوط ہو تو آخری کامیابی حاصل ہو کر رہے گی۔ اسی جہت سے اس معنی کی احادیث اس آیت قرآنی سے مطابق ہوتی ہیں جس میں فرمایا گیا ہے کہ:
اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللہُ ثُمَّ اسْـتَقَامُوْا تَـتَنَزَّلُ عَلَيْہِمُ الْمَلٰۗىِٕكَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِيْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَo حم سجدہ30:41
(ترجمان القرآن صفر۱۳۵۶ھ۔مئی ۱۹۳۷ء)

شیئر کریں