فہرست موضوعات

دیباچۂ طبع اوّل
دیباچۂ طبع ششم
عقل کا فیصلہ
کوتہ نظری
ہدایت و ضلالت کا راز
اسلام ایک علمی و عقلی مذہب
اسلام میں عبادت کا تصور
جہاد فی سبیل اللہ
آزادی کا اسلامی تصوُّر
رواداری
اسلامی قومیت کا حقیقی مفہوم
استدراک
امربالمعروف و نہی عن المنکر
نُزولِ عذاب الٰہی کا قانون
ایک مسیحی بزرگ کے چند اعتراضات
کیا نجات کے لیے صرف کلمۂ توحید کافی ہے؟
کیا رسالت پر ایمان لانا ضروری ہے؟
ایمان بالرّسالت
قرآن پر سب سے بڈا بہتان
نبوت محمدی کا عقلی ثبوت
اتباع اور اطاعت رسول
رسول کی حیثیت شخصی وحیثیت نبوی
رسالت اور اس کے احکام
حدیث اور قرآن
مسلکِ اعتدال
استدراک
حدیث کے متعلق چند سوالات
قرآن اور سنت رسولؐ
ایک حدیث پر اعتراض اور اس کا جواب

تفہیمات (حصہ اول)

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

استدراک

اس مضمون کی اشاعت کے بعد متعدد اصحاب نے اس شبہے کا اظہار کیا کہ ’’اسلامی جماعت‘‘ کو ’’قوم‘‘ کے بجائے ’’پارٹی‘‘ کہنے میں اس امر کی گنجائش نکلتی ہے کہ وہ کسی وطنی قومیت کی جز بن کر رہے۔ جس طرح ایک قوم میں مختلف سیاسی پارٹیاں ہوتی ہیں اور اپنا الگ مسلک رکھنے کے باوجود سب کی سب اس بڑے مجموعہ میں شامل رہتی ہیں جس کو ’’قوم‘‘ کہا جاتا ہے، اسی طرح اگر مسلمان ایک پارٹی ہیں تو وہ بھی اپنے وطن کی قوم کا جز بن کر رہ سکتے ہیں۔
چونکہ جماعت یا پارٹی کے لفظ کو عام طور پر لوگ سیاسی جماعت یا پولیٹیکل پارٹی کے معنی میں لیتے ہیں اس وجہ سے وہ غلط فہمی پیدا ہوئی جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ لیکن یہ لفظ کا اصلی مفہوم نہیں ہے بلکہ ایک خاص معنی میں بکثرت مستعمل ہونے سے پیدا ہوگیا ہے۔ اصلی مفہوم اس لفظ کا یہ ہے کہ جو لوگ ایک مخصوص عقیدے، نظریے، مسلک اور مقصد پر مجتمع ہوں وہ ایک جماعت ہیں۔ اسی معنی میں قرآن نے ’’حزب‘‘ اور ’’امت‘‘ کے الفاظ استعمال کیے ہیں، اور اسی معنی میں ’’جماعت‘‘ کا لفظ احادیث اور آثار میں مستعمل ہوا ہے اور یہی مفہوم ’’پارٹی‘‘ کا بھی ہے۔
اب ایک جماعت تو وہ ہوتی ہے جس کے پیش نظر ایک قوم یا ملک کے مخصوص حالات کے لحاظ سے سیاسی تدبیر کا ایک خاص نظریہ اور پروگرام ہوتا ہے۔ اس قسم کی جماعت محض ایک سیاسی جماعت ہوتی ہے اس لیے وہ اس قوم کا جز بن کر کام کرسکتی ہے اور کرتی ہے جس میں وہ پیدا ہو۔
دوسری جماعت وہ ہوتی ہے جو ایک کلی نظریہ اور جہانی تصور (world Idea)لے کر اٹھتی ہے، جس کے سامنے تمام نوع انسانی کے لیے (بلالحاظ قوم و وطن) ایک عالمگیر مسلک ہوتا ہے، جو پوری زندگی کی تشکیل و تعمیر ایک نئے ڈھنگ پر کرنا چاہتی ہے‘ جس کا نظریہ و مسلک عقائد و افکار اور اصول و اخلاق سے لے کر انفرادی برتائو اور اجتماعی نظام کی تفصیلات تک ہر چیز کو اپنے سانچے میں ڈھالنا چاہتا ہے، جو ایک مستقل تہذیب اور ایک مخصوص تمدن (civilization)کو وجود میں لانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ یہ جماعت بھی اگرچہ حقیقت میں ایک جماعت ہی ہوتی ہے، لیکن یہ اس قسم کی جماعت نہیں ہوتی جو کسی قوم کاجز بن کر کام کرسکتی ہو۔ یہ محدود قومیتوں سے بالاتر ہوتی ہے۔ اس کا تو مشن ہی یہ ہوتا ہے کہ ان نسلی و روایتی تعصبات کو توڑ دے جن پر دنیا میں مختلف قومیتیں بنی ہیں، پھر یہ خود اپنے آپ کو کس طرح ان قومیتوں کے ساتھ وابستہ کرسکتی ہے؟ یہ نسلی و تاریخی قومیتوں کی بجائے ایک عقلی قومیت (rational Nationality) بناتی ہے۔ جامد قومیتوں کی جگہ ایک نامی قومیت (expanding nationality) بناتی ہے، یہ خودایک ایسی قومیت بنتی ہے جو عقلی و تہذیبی اور اصول وحدت کی بنیاد پر روئے زمین کی پوری آبادی کو اپنے دائرے میں لینے کے لیے تیار ہوتی ہے۔ لیکن ایک قومیت بننے کے باوجود حقیقت میں یہ ایک جماعت ہی رہتی ہے، کیونکہ اس میں شامل ہونے کا مدار پیدائش پر نہیں ہوتا بلکہ اس نظریہ و مسلک کی پیروی پر ہوتا ہے جس کی بنیاد پر یہ جماعت بنی ہے۔
مسلمان دراصل اسی دوسری قسم کی جماعت کا نام ہے۔ یہ اس قسم کی پارٹی نہیں ہے جیسی پارٹیاں ایک قوم میں بنا کرتی ہیں بلکہ اس قسم کی پارٹی ہے جو ایک مستقل نظام تہذیب و تمدن (civilization)بنانے کے لیے اٹھتی ہے اور چھوٹی چھوٹی قومیتوں کی سرحدوں کو توڑ کر عقلی بنیادوں پر ایک بڑی جہانی قومیت (world nationality)بنانا چاہتی ہے۔ اس کو ’’قوم‘‘ کہنا اس لحاظ سے یقیناً درست ہوگا کہ یہ اپنے آپ کو دنیا کی نسلی یا تاریخی قومیتوں میں سے کسی قومیت کے ساتھ بھی باعتبار تمدن یا باعتبار جذبات وابستہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتی بلکہ اپنے نظریۂ حیات اور فلسفۂ اجتماعی (Social philosophy) کے مطابق خود اپنی تہذیب و مدنیت کی عمارت بناتی ہے۔ لیکن اس معنی کے لحاظ سے ’’قوم‘‘ ہونے کے باوجود یہ حقیقت میں ’’جماعت‘‘ ہی رہتی ہے کیونکہ محض اتفاقی پیدائش (mere accident of birth)کسی شخص کو اس قوم کا ممبر نہیں بنا سکتی جب تک کہ وہ اس کے مسلک کا معتقد اور پیرو نہ ہو۔ اور اسی طرح کسی شخص کا کسی دوسری قوم میں پیدا ہونا اس کے لیے اس امر میں مانع نہیں ہوسکتا کہ وہ اپنی قوم سے نکل کر اس قومیت میں داخل ہو جائے جب کہ وہ اس کے مسلک پر ایمان لانے کے لیے تیار ہو۔ پس جو کچھ میں نے کہا ہے اس کا مطلب دراصل یہ ہے کہ مسلم قوم کی قومیت اس کے ایک جماعت یا پارٹی ہونے ہی کی بنا پر قائم ہے۔ اس کی قومی حیثیت اس کی جماعتی حیثیت کی فرع ہے۔ اگر جماعتی حیثیت کو اس سے الگ کرلیا جائے۔ اور یہ مجرد ایک قوم بن کر رہ جائے تو یہ اس کا تنزل (degeneration)ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ انسانی اجتماعات کی تاریخ میں اسلامی جماعت کی حیثیت بالکل نرالی اور انوکھی واقع ہوئی ہے۔ بودھ مت اور مسیحیت نے قومیتوں کے حدود توڑ کر تمام عالم انسانی کو خطاب تو کیا تھا اور ایک نظریہ و مسلک کی بنیاد پر عالمگیر برادری بنانے کی کوشش بھی کی تھی مگر ان دونوں مسلکوں کے پاس چند اخلاقی اصولوں کے سوا کوئی ایسا اجتماعی فلسفہ نہ تھا جس کی بنیاد پر یہ تہذیب و تمدُّن کا کوئی کلی نظام بناسکتے۔ اس لیے یہ دونوں مسلک کوئی عالمگیر قومیت نہ بنا سکے بلکہ ایک طرح کی برادری (brother-hood)بنا کر رہ گئے۔ بعد میں مغرب کی سائنٹیفک تہذیب اٹھی جس نے اپنے خطاب کو بین الاقوامی بنانا چاہا، مگر اوّل یوم پیدائش سے اس پر نیشنلزم کا بھوت سوار ہوگیا لہٰذا یہ بھی عالمگیر قومیت بنانے میں ناکام ہوئی۔ اب مارکسی اشتراکیت آگے بڑھی ہے اور قومیتوں کی حدود کو توڑ کر جہانی تصور کی بنیاد پر ایک ایسی تہذیب وجود میں لانا چاہتی ہے جو عالمگیر ہو۔ لیکن چونکہ ابھی تک وہ نئی تہذیب پوری طرح وجود میں نہیں آئی ہے جو اس کے پیش نظر ہے، اس لیے ابھی تک مارکسیت بھی ایک عالمگیر قومیت میں تبدیل نہیں ہوسکی ہے۔۱؎ اس وقت تک میدان میں تنہا اسلام ہی ایک ایسا نظریہ و مسلک ہے جو نسلی اور تاریخی قومیتوں کو توڑ کر تہذیبی بنیادوں پر ایک عالمگیر قومیت بناتا ہے۔ لہٰذا جو لوگ اسلام کی اسپرٹ سے اچھی طرح واقف نہیں ہیں ان کے لیے یہ سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے کہ ایک ہی اجتماعی ہیئت کس طرح بیک وقت قوم بھی اور پارٹی بھی ہوسکتی ہے۔ وہ دنیا کی جتنی قوموں کو جانتے ہیں ان میں سے کوئی بھی ایسی نہیں ہے جس کے ارکان پیدا نہ ہوتے ہوں بلکہ بنتے ہوں۔ وہ دیکھتے ہیں کہ جو شخص اٹالین پیدا ہوا ہے وہ اٹالین قوم کا رُکن ہے اور جو اٹالین پیدا نہیں ہوا وہ کسی طرح اٹالین نہیں بن سکتا۔ ایسی قومیت سے وہ واقف نہیں ہیں جس کے اندر آدمی اعتقاد اور مسلک کی بنا پر داخل ہوتا ہو اور اعتقاد و مسلک کے بدل جانے پر اس سے خارج ہو جاتا ہو۔ ان کے نزدیک یہ صفت ایک قوم کی نہیں بلکہ ایک پارٹی کی ہی ہوسکتی ہے۔ مگر جب وہ دیکھتے ہیں کہ یہ نرالی پارٹی اپنی الگ تہذیب بناتی ہے، اپنی مستقل قومیت کا اِدّعا کرتی ہے اور کسی جگہ بھی مقامی قومیت کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ کرنے پر راضی نہیں ہوتی تو ان کے لیے یہ معاملہ ایک چیستاں بن کر رہ جاتا ہے۔
یہی نافہمی غیر مسلموں کی طرح مسلمانوں کو بھی پیش آرہی ہے۔ مدتوں سے غیر اسلامی تعلیم و تربیت پاتے رہنے اور غیر اسلامی ماحول میں زندگی گزارنے کی وجہ سے ان کے اندر ’’تاریخی قومیت‘‘ کا جاہلی تصور پیدا ہوگیا ہے۔ یہ اس بات کو بھول گئے ہیں کہ ہماری اصل حیثیت ایک ایسی جماعت کی تھی جو دنیا میں عالمگیر انقلاب برپا کرنے کے لیے جود میں آتی تھی، جس کی زندگی کا مقصد اپنے نظریے کو دنیا میں پھیلانا تھا، جس کاکام دنیا کے غلط اجتماعی نظامات کو توڑ پھوڑ کر اپنے فلسفۂ اجتماعی کی بنیاد پر ایک عالمگیر اجتماعی نظام مرتب کرنا تھا۔ یہ سب کچھ بھول بھال کر انھوں نے اپنے آپ کو بس اسی قسم کی ایک قوم سمجھ لیا ہے جیسی اور بہت سی قومیں موجود ہیں۔ اب ان کی مجلسوں اور انجمنوں میں، ان کی کانفرنسوں اور جمعیتوں میں، ان کے اخباروں اور رسالوں میں، کہیں بھی ان کی اجتماعی زندگی کے اس مشن کا ذکر نہیں آتا جس کے لیے ان کو دنیا بھر کی قوموں میں سے نکال کر ایک امت بنایا گیا تھا۔ اس مشن کے بجائے اب جو چیز ان کی تمام توجہات کا مرکز بنی ہوئی ہے وہ ’’مسلمانوں کا مفاد‘‘ ہے____مسلمانوں سے مراد وہ سب لوگ ہیں جو مسلمان ماں باپ کی نسل سے پیدا ہوئے ہوں، اور مفاد سے مراد ان نسلی مسلمانوں کا مادی و سیاسی مفاد ہے یا بدرجۂ آخر اس کلچر کا تحفظ ہے جو ان کو آبائی ورثے میں ملی ہے … اس مفاد کی حفاظت اور ترقی کے لیے جو تدبیر بھی کارگر ہو اس کی طرف یہ دوڑ جاتے ہیں، بالکل اسی طرح جس طرح مسولینی ہر اس طریقے کو اختیار کرنے کے لیے تیار ہو جاتا تھا جو اطالویوں کے مفاد کے لیے مناسب ہو۔ کسی اصول اور نظریے کا وہ پابند نہ تھا نہ یہ ہیں۔ وہ کہتا تھا کہ جو کچھ اطالویوں کے لیے مفید ہو وہ حق ہے، یہ کہتے ہیں کہ جو کچھ ’’مسلمانوں‘‘ کے لیے مفید ہو وہ حق ہے۔ یہی چیز ہے جس کو میں مسلمانوں کا تنزل کہتا ہوں۔ اور اسی تنزل کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے مجھے یہ یاد دلانے کی ضرورت پیش آئی ہے کہ تم نسلی اور تاریخی قوموں کی طرح ایک قوم نہیں ہو بلکہ حقیقت میں ایک جماعت ہو، اور تمھاری نجات صرف اس چیز میں ہے کہ اپنے اندر جماعتی احساس (Party sense)پیدا کرو۔
اس جماعتی احساس کے فقدان یا خود فراموشی کے برے نتائج اتنے زیادہ ہیں کہ اس کا شمار کرنا مشکل ہے۔ یہ اسی بے حسی و خود فراموشی کا نتیجہ ہے کہ مسلمان ہر رہرو کے پیچھے چلنے اور ہر نظریے اور مسلک کی پیروی کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے، خواہ وہ اسلام کے نظریے اور اس کے مقاصد اور اس کے اصولوں سے کتنا ہی ہٹا ہوا ہو۔ وہ نیشنلسٹ بھی بنتا ہے، کمیونسٹ بھی بنتا ہے۔ فاشستی اصول تسلیم کرنے میں بھی اسے کوئی تامل نہیں ہوتا۔ مغرب کے مختلف اجتماعی اور مابعد الطبیعی افکار اور علمی نظریات میں سے قریب قریب ہر ایک کے پیرو آپ کو مسلمانوں میں مل جائیں گے۔ دنیا کی کوئی سیاسی، اجتماعی یا تمدنی تحریک ایسی نہیں جس کے ساتھ کچھ نہ کچھ مسلمان شریک نہ ہوں۔ اور لطف یہ ہے کہ یہ سب اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں، سمجھتے ہیں اور سمجھے جاتے ہیں۔ ان مختلف راہوں پر بھٹکنے اور دوڑنے والوں میں سے کسی ایک کو بھی یہ یاد نہیں آتا کہ ’’مسلمان‘‘ کوئی پیدائشی لقب نہیں ہے بلکہ اسلام کی راہ پر چلنے والے کا اسم صفت ہے۔ جو شخص اسلام کی راہ سے ہٹ کر کسی دوسری راہ پر چلے اس کو ’’مسلمان‘‘ کہنا اس لفظ کا بالکل غلط استعمال ہے۔ مسلم نیشنلسٹ اور مسلم کمیونسٹ اور اسی قسم کی دوسری اصطلاحیں بالکل اسی طرح کی متناقض اصطلاحیں ہیں جس طرح ’’کمیونسٹ مہاجن‘‘ اور ’’جینی قصائی‘‘ کی اصطلاحیں متناقض ہیں۔

شیئر کریں