Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دیباچہ
مقدمہ طبع اوّل
تعارف مقصد
تحریک اِسلامی کا تنزل
ضمیمہ
نسلی مسلمانوں کے لیے دوراہیں عمل‘ خواہ انفرادی ہویااجتماعی‘ بہرحال اس کی صحت کے لیے دو چیزیں شرط لازم ہیں:
اقلیت واکثریت
شکایات ناظرین’’ترجمان القرآن‘‘میں سے ایک صاحب لکھتے ہیں:
راہ رَوپِشت بمنزل
اسلام کی دعوت اور مسلمان کا نصب العین
اصلی مسلمانوں کے لیے ایک ہی راہِ عمل
اسلام کی راہِ راست اور اس سے انحراف کی راہیں
۱۔اسلامی نصب العین
۲- اس نصب العین تک پہنچنے کا سیدھا راستہ
۳-مشکلات
۴-انحراف کی راہیں
۵- منحرف راستوں کی غلطی
پاکستانی خیال کے لوگ
۶-مشکلات کا جائزہ
اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے؟
استدراک
ایک صالح جماعت کی ضرورت
مطالبۂ پاکستان کو یہود کے مطالبہ ’’قومی وطن‘‘ سے تشبیہ دینا غلط ہے
مسلم لیگ سے اختلاف کی نوعیت
وقت کے سیاسی مسائل میں جماعت ِاسلامی کا مسلک
نظام کفر کی قانون ساز مجلس میں مسلمانوں کی شرکت کا مسئلہ
مجالس قانون ساز کی رکنیت شرعی نقطۂ نظر سے
پُر امن اِنقلاب کا راستہ
۱۹۴۶ء کے انتخابات اور جماعت ِاسلامی
جواب
تقسیم سے قبل ہندستان کے مسلمانوں کو آخری مشورہ (یہ وہ تقریر ہے‘ جو ۲۶اپریل ۱۹۴۷ء کو جماعت ِاسلامی کے اجلاس منعقدہ مدراس میں کی گئی تھی)
صوبہ سرحد کے ریفرنڈم میں جماعت ِاسلامی کا مسلک
تقسیم ہند‘ حالات پر تبصرہ
تقسیم کے وقت مسلمانوں کی حالت کا جائزہ
تقسیم کے بعد سامنے آنے والے مسائل
کیا پاکستان کو ایک مذہبی ریاست ہونا چاہئے؟
پاکستان میں اسلامی قانون کیوں نہیں نافذ ہوسکتا؟
اسلامی نظامِ زندگی کا مآخذ
پاکستان میں اسلامی قانون کس طرح نافذ ہوسکتا ہے؟
مطالبہ نظام اسلامی

تحریک آزادی ہند اور مسلمان (حصہ دوم)

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

استدراک

اوپر کے مضمون میں اسلامی انقلاب کے طریق کار کی جو توضیح کی گئی ہے‘ اگر چہ وہ بجائے خود کافی ہے‘ لیکن مناسب معلوم ہوتا ہے‘ کہ یہاں مسیح علیہ السّلام کے چند اقوال ایک خاص ترتیب کے ساتھ نقل کر دئیے جائیں جن سے اس تحریک کے ابتدائی مرحلہ پر اچھی روشنی پڑتی ہے۔ چونکہ ہمارے موجودہ زمانے کے حالات ان حالات سے بہت ملتے جلتے ہیں‘ جن میں سیدنا مسیح علیہ السّلام نے اہلِ فلسطین کو حکومتِ الٰہیہ کی دعوت دی تھی‘ اس لیے ان کے طریق عمل میں ہم کو مفید ہدایات مل سکتی ہیں:۔
فقیہوںمیں سے ایک نے …اُس سے پوچھا کہ سب حکموں میں اوّل کونسا ہے۔ یسوع نے جواب دیا کہ اوّل یہ ہے اے اسرائیل سن‘ خداوند ہمارا خدا ایک ہی خداوند ہے{ FR 2535 } اور تو خدا وند اپنے خدا سے اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور ساری عقل اور اپنی ساری طاقت سے محبت رکھ …فقیہہ نے اس سے کہا اسے استاد‘ کیا خوب ! تو نے سچ کہا کہ وہ ایک ہی ہے‘ اور اس کے سوا اور کوئی نہیں۔ (مرقس۔۱۲:۲۸-۳۲)
تو خدا وند اپنے خدا کو سجدہ کر اور صرف اسی کی عبادت کر۔ (لوقا۔ ۴:۸)
پس تم اِس طرح دُعا مانگا کرو کہ اے ہمارے باپ!{ FR 2536 } تو جو آسمان پر ہے‘ تیرا نام پاک مانا جائے‘ تیری بادشاہت آئے‘ تیری مرضی جیسی آسمان پر پوری ہوتی ہے زمین پر بھی ہو۔
(متی ۶:۹۔۱۰)
آخری آیت میں حضرت مسیح علیہ السّلام نے اپنے نصب العین کو واضح کر دیا ہے۔ یہ عام غلط فہمی پھیلی ہوئی ہے‘ کہ خدا کی بادشاہت سے ان کی مراد محض روحانی بادشاہت تھی‘ یہ آیت اس کی تردید کرتی ہے۔ ان کا صاف مقصد یہ تھا‘ کہ زمین پر خدا کا قانون اور اس کا حکم شرعی اسی طرح جاری ہو‘ جس طرح تمام کائنات میں اس کا قانون طبیعی نافذ ہے۔ اسی انقلاب کے لیے وہ لوگوں کو تیار کر رہے تھے۔
یہ نہ سمجھو کہ میں زمین پر صلح کرانے آیا ہوں۔ صلح کرانے نہیں‘ بلکہ تلوار چلوانے آیا ہوں۔ میں اس لیے آیا ہوں کہ آدمی کو اس کے باپ سے اور بیٹی کو اس کی ماں سے اور بہو کو اس کی ساس سے جدا کر دوں۔ اور آدمی کے دشمن اس کے گھر ہی کے لوگ ہوں گے۔ جو کوئی باپ ماں کو مجھ سے زیادہ عزیز رکھتا ہے وہ میرے لائق نہیں۔ اور جو کوئی اپنی صلیب{ FR 2537 } نہ اُٹھائے اور میرے پیچھے نہ چلے وہ میرے لائق نہیں۔ جو کوئی اپنی جان بچاتا ہے اسے کھوئے گا ‘اور جو کوئی میرے سبب اپنی جان کھوتا ہے اسے بچائے گا۔
(متی ۱۰:۳۴-۳۹)
جو کوئی میرے پیچھے آنا چاہے‘ وہ اپنی خود ی{ FR 2538 } سے انکار کرے‘ اور اپنی صلیب اُٹھائے اور میرے پیچھے ہولے۔ (متی:۱۶-۲۴)
بھائی کو بھائی قتل کے لیے حوالے کرے گا‘ اور بیٹے کو باپ۔ اور بیٹے اپنے ماں باپ کے خلاف کھڑے ہوکر انہیں مروا ڈالیں گے۔ اور میرے نام کے باعث سب لوگ تم سے عداوت کریں گے۔ مگر جو آخر تک برداشت کرے گا وہی نجات پائے گا۔
(متی۱۰:۲۱-۲۲)
دیکھو میں تمہیں بھیجتا ہوں گویا بھیڑیوں کے بیچ میں …… آدمیوں سے خبر دار ہو۔ کیونکہ وہ تمہیں عدالتوں کے حوالے کر دیں گے‘ اور اپنے عبادت خانوں میں تمہارے کوڑے ماریں گے‘ اور تم میرے سبب حاکموں اور بادشاہوں کے سامنے حاضر کیے جائو گے۔ (۱۰:۱۶-۱۸)
اگر کوئی میرے پاس آئے اور اپنے باپ اور ماں اور بیوی اور بچوں اور بہنوں بلکہ اپنی جان سے بھی دشمنی نہ کرے{ FR 2539 } تو میرا شاگرد نہیں ہوسکتا۔ جو کوئی اپنی صلیب نہ اُٹھائے اور میرے پیچھے نہ آئے‘ وہ میرا شاگرد نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ تم میں ایسا کون ہے‘ کہ جب وہ ایک برج بنانا چاہے تو پہلے بیٹھ کر لاگت کا حساب نہ کرلے کہ آیا میرے پاس اس کے تیار کرنے کا سامان ہے‘ یا نہیں۔ ایسا نہ ہوکہ جب نیو ڈال کر تیار نہ کر سکے‘ تو سب دیکھنے والے یہ کہہ کر اس پر ہنسنا شروع کردیں کہ اس شخص نے عمارت شروع تو کی مگر تیار نہ کر سکا……تم میں سے جو کوئی اپنا سب کچھ ترک نہ کر دے وہ میرا شاگرد نہیں ہوسکتا۔
(لوقا ۱۴:۲۶-۳۳)
یہ تمام آیات صاف دلالت کرتی ہیں‘ کہ مسیح علیہ السّلام محض ایک دھرم کا پرچار کرنے نہیں اُٹھے تھے‘ بلکہ پورے نظامِ تمدّن وسیاست کو بدل دینا ان کے پیشِ نظر تھا‘ جس میں رومی سلطنت‘ یہودی ریاست‘ فقیہوں ‘اور فریسیوں کے اقتدار اور فی الجملہ تمام بندگا نِ نفس وہوائے نفس سے جنگ کا خطرہ تھا۔ اسی لیے وہ لوگوں کو کھلے الفاظ میں بتا دیتے تھے‘ کہ جو کام میں کرنے جا رہا ہوں وہ نہایت خطر ناک ہے‘ اور میرے ساتھ اسی کو آنا چاہئے‘ جو ان تمام خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہو۔
شریر کا مقابلہ نہ کرنا بلکہ جو کوئی تیرے داہنے گال پر طمانچہ مارے دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دے۔ اور اگر کوئی تجھ پر نالش کر کے تیرا کرتا لینا چاہے تو چوغہ بھی اسے لے لینے دے اور جو کوئی تجھ کو ایک کوس بیگار میں لے جائے اس کے ساتھ دو کوس چلا جا۔
(متی ۱۵:۳۹-۴۱)
جو بدن کو قتل کرتے ہیں اورروح کو قتل نہیں کر سکتے ان سے نہ ڈرو بلکہ اس سے ڈرو جو روح اور بدن دونوں کو جہنم میں ہلاک کر سکتا ہے۔ (متی۱۰:۲۸)
اپنے واسطے زمین پر مال جمع نہ کرو جہاں کیڑا اور زنگ خراب کرتا ہے‘ اور جہاں چور نقب لگاتے اور چراتے ہیں‘ بلکہ اپنے لیے آسمان پر مال جمع کرو۔ (متی ۶:۱۹-۲۰)
کوئی آدمی دو مالکوں کی خدمت نہیں کر سکتا… تم خدا اور دولت دونوں کی خدمت نہیں کر سکتے۔ اپنی جان کی فکر نہ کرو کہ ہم کیا کھائیں گے۔ یا کیا پئیں گے‘ اور نہ بدن کی کہ کیا پہنیں گے۔ ہوا کے پرندوں کو دیکھو کہ نہ بوتے ہیں نہ کاٹتے ہیں نہ کوٹھیوں میں جمع کرتے ہیں‘ پھر بھی تمہارا آسمانی باپ ان کو کھلاتا ہے۔کیا تم ان سے زیادہ قدر نہیں رکھتے؟تم میں ایسا کون ہے‘ جو فکر کر کے اپنی عمر میں ایک گھڑی بھی بڑھا سکے؟اور پوشاک کے لیے کیوں فکر کرتے ہو؟جنگلی سوسن کے درختوں کو دیکھو کہ وہ کس طرح بڑھتے ہیں۔ وہ نہ محنت کرتے ہیں نہ کاتتے ہیں۔ پھر بھی میں تم سے کہتا ہوں کہ سلیمان علیہ السلام بھی باوجود اپنی شان وشوکت کے ان میں سے کسی کے مانند پوشاک پہنے ہوئے نہ تھا۔ پس جب خدا میدان کی گھاس کو‘ جو آج ہے‘ اور کل تنور میں جھونکی جائے گی‘ ایسی پوشاک پہناتا ہے‘ تو اے کم اعتقادو! تم کو کیوں نہ پہنائے گا؟ …تم پہلے اس کی بادشاہت اور اس کی راستبازی کی تلاش کرو تو یہ سب چیزیں بھی تمہیں مل جائیں گی۔
(متی ۶:۲۴-۳۳)
مانگو تو تمہیں دیا جائے گا۔ ڈھونڈو تو تم پائو گے۔ دروازہ کھٹکھٹائو تو تمہارے واسطے کھولا جائے گا۔ (متی ۷:۷)
عام غلط فہمی ہے‘ کہ سیدنا مسیح علیہ السلام نے رہبانیت اور ترک وتجرید کی تعلیم دی تھی حالانکہ اس انقلابی تحریک کے آغاز میں لوگوں کو صبر‘ تحمّلِ شد ائد اور توکل علی اﷲ کی تعلیم وتربیت دئیے بغیر کوئی چارہ ہی نہیں۔ جہاں ایک نظامِ تمدّن سیاست پوری طاقت کے ساتھ زمین پر چھایا ہوا ہو‘ اور تمام وسائل وذرائع زندگی اس کے قبضہ واختیار میں ہوں‘ ایسی جگہ کوئی جماعت انقلاب کے لیے اُٹھ نہیں سکتی‘ جب تک وہ جان ومال کی محبت دل سے نکال نہ دے‘ سختیاں اُٹھانے کو تیار نہ ہوجائے‘ اپنے بہت سے فوائد کو قربان کرنے اور بہت سے نقصانات گوارا کرنے کے لیے آمادہ نہ ہو۔ حاضر الوقت نظام سے لڑنا دراصل تمام آفات ومصائب کو اپنے اوپر دعوت دینا ہے۔ یہ کام جنہیں کرنا ہوا نہیں ایک تھپڑ کھا کر دوسرے تھپڑ کے لیے تیار رہنا چاہئے۔ کُرتا ہاتھ سے جاتا ہو‘ تو چوغہ بھی چھوڑنے کے لیے آمادہ ہونا چاہئے‘ اور روٹی کپڑے کی فکر سے آزاد ہوجانا چاہئے۔ خزائن رزق فی الوقت جن کے ہاتھ میں ہیں۔ ظاہر ہے‘ کہ ان سے لڑکر رزق پانے کی اُمید نہیں کی جا سکتی۔ لہٰذا جو اسباب سے قطع نظر کر کے صرف خدا کے بھروسہ پر اس راہ میں چھلانگ لگا سکتا ہووہی ان سے لڑ سکتا ہے۔
اے محنت اُٹھانے والو!بوجھ سے دبے ہوئے لوگو! سب میرے پاس آئو‘ میں تمہیں آرام دوں گا۔ کیونکہ میرا جُو املائم ہے‘ اور میرا بوجھ ہلکا۔ (متی ۱۱:۲۸-۳۰)
شاید حکومت ِ الٰہیہ کا مینی فسٹو اس سے زیادہ مختصر اور پر اثر الفاظ میں مرتّب نہیں کیا جا سکتا۔ انسان پر انسانی حکومت کا جوا بڑا ہی سخت اور بڑا ہی بوجھل ہے۔ اس بوجھ تلے دبے ہوئے لوگوں کو الٰہی حکومت کا نقیب جو پیغام دے سکتا ہے وہ یہی ہے‘ کہ جس حکومت کا جوا میں تمہارے اوپر رکھنا چاہتا ہوں وہ نرم بھی ہے‘ اور خفیف بھی۔
غیر قوموں کے بادشاہ ان پر حکومت چلاتے ہیں۔ اور جو ان پر اختیار رکھتے ہیں وہ خدا وند ِنعمت کہلاتے ہیں۔ مگر تم ایسے نہ ہونا بلکہ جو تم میں بڑا ہے وہ چھوٹے کے مانند اور جو سردار ہے وہ خدمت کرنے والے کے مانند ہے۔ (لوقا ۲۲:۲۵-۲۶)
مسیح علیہ السّلام یہ ہدایت اپنے حواریوں (یعنی صحابیوں) کو فرماتے تھے۔ اس مضمون کے متعدد اقوال انجیلوں میں موجود ہیں۔ان کا مطلب یہ تھا‘ کہ کہیں فرعونوں اور نمرودوں کو ہٹا کر تم خود فرعون ونمرود نہ بن جانا۔
’’فقیہ اور فریسی{ FR 2540 }موسیٰ کی گدّی پر بیٹھے ہیں۔ پس جو کچھ وہ تمہیں بتائیں وہ سب کرو اور مانو لیکن ان کے سے کام نہ کرو۔ کیونکہ وہ کہتے ہیں‘ اور کرتے نہیں۔ وہ ایسے بھاری بوجھ جن کا اُٹھانا مشکل ہے‘ باندھ کر لوگوں کے کندھوں پر رکھتے ہیں‘ مگر آپ انہیں اپنی انگلی سے بھی ہلانا نہیں چاہتے۔ وہ اپنے سب کام لوگوں کے دکھانے کو کرتے ہیں۔
اپنے تعویذ بڑے بناتے اور اپنی پوشاک کے کنارے چوڑے رکھتے اور ضیافتوں میں صدر نشینی اور عبادت خانوں میں اعلیٰ درجہ کی کرسیاں اور بازاروں میں سلام اور آدمیوں سے رَبِّی کہلانا پسند کرتے ہیں۔‘‘
اے ریا کار فقیہو اور فریسیو! تم پر افسوس ہے‘ کہ آسمان کی بادشاہت لوگوں پر بند کرتے ہو‘ نہ آپ داخل ہوتے ہو‘ اور نہ داخل ہونے والوں کو داخل ہونے دیتے ہو۔
اے ریا کار فقیہو اور فریسیو! تم پر افسوس ہے‘ کہ ایک مرید کرنے کے لیے تری اور خشکی کا دورہ کرتے ہو‘ اور جب وہ مرید ہوچکتا ہے‘ تو اسے اپنے سے دو گنا جہنم کا فرزند بنا دیتے۔
اے اندھے راہ بتانے والو! تم مچھر کو تو چھانتے ہو‘ اور اونٹ کو نگل جاتے ہو۔
اے ریا کار فقیہو اور فریسیو! تم پر افسوس ہے تم سفیدی پھری ہوئی قبروں کے مانند ہو‘ جو اوپر سے تو خوبصورت دکھائی دیتی ہیں‘ مگر اندر مُردوں کی ہڈیوں اور ہر طرح کی نجاست سے بھری ہیں۔ اسی طرح تم بھی ظاہر میں تو لوگوں کو راست باز دکھائی دیتے ہو‘ مگر باطن میں ریا کاری اور بے دینی سے بھرے ہوئے ہو۔ (متی ۲۳:۲-۲۸)
یہ اس وقت کے علما اور حاملانِ شریعت کا حال تھا۔ وہ علم رکھنے کے باوجود محض بندگی نفس کی وجہ سے آپ بھی گمراہ تھے‘ اور عام لوگوں کو بھی گمراہ کر رہے تھے‘ اور اس انقلاب کے راستہ میں رومی قیاصرہ سے بڑھ کر وہی حائل تھے۔
اس وقت فریسیوں نے جا کر مشورہ کیا کہ اسے کیونکر باتوں میں پھنسائیں۔ پس انہوں نے اپنے شاگردوں کو ہیروویوں{ FR 2541 } کے ساتھ اس کے پاس بھیجا اور انہوں نے (یعنی شاگردوں نے) کہا کہ اے استاد ہم جانتے ہیں‘ کہ تو سچا ہے‘ اور سچائی سے خدا کی راہ کی تعلیم دیتا ہے‘ اور کسی کی پروا نہیں کرتا… ہمیں بتا تو کیا سمجھتا ہے قیصر کو جزیہ دینا روا ہے‘ یا نہیں؟ یسوع نے ان کی شرارت جان کر کہا: اے ریا کارو! مجھے کیوں آزماتے ہو؟ جزیہ کا سکّہ مجھے دکھائو۔ وہ دینار اس کے پاس لے آئے۔ اس نے ان سے کہا یہ صورت اور نام کس کا ہے؟ انہوں نے کہا قیصر کا۔ اِس پر اُس نے کہا جو قیصر کا ہے وہ قیصر کو اور جو خدا کا ہے خدا کو ادا کرو۔ (متی ۲۲:۱۵-۲۱)
اس قصہ سے معلوم ہوتا ہے‘ کہ دراصل یہ ایک چال تھی۔ فریسی اس تحریک کو ختم کرنے کے لیے چاہتے تھے‘ کہ حضرت مسیح علیہ السلام کا قبل از وقت حکومت سے تصادم کرا دیا جائے‘ اور تحریک کے جڑ پکڑنے سے پہلے حکومت کے زور سے اُسے کچلو اڈالا جائے۔ اسی لیے ہیرووی ریاست کی سی آئی ڈی کے سامنے یہ سوال اُٹھایا گیا کہ قیصر کو ٹیکس دیا جائے‘ یا نہیں۔ جواب میں حضرت مسیح علیہ السّلام نے جو ذُومعنی بات کہی اس کو دو ہزار برس سے مسیحی اور غیر مسیحی سب اس معنی میں لے رہے ہیں‘ کہ عبادت خدا کی کرو اور اطاعت ہر اس حکومت کی کرتے رہو‘ جو تمہارے زمانہ میں موجود ہو۔ لیکن دراصل مسیح علیہ السّلام نے نہ تو یہ فرمایا کہ قیصر کو ٹیکس دینا روا ہے‘ کیونکہ ایسا کہنا ان کی دعوت کے خلاف تھا‘ اور نہ یہ فرمایا کہ اسے ٹیکس نہ دیا جائے کیونکہ اس وقت تک ان کی تحریک اس مرحلہ تک نہیں پہنچی تھی کہ ٹیکس روکنے کا حکم دیا جاتا۔ اس لیے انہوں نے یہ لطیف بات کہہ دی کہ قیصر کا نام اور اس کی صورت تو قیصر ہی کو واپس کر دو اور سونا جو خدا نے پیدا کیا ہے وہ خدا کی راہ میں صرف کر دو۔
اس سازش میں ناکام ہونے کے بعد فریسیوں نے خود مسیح علیہ السّلام کے حواریوں میں سے ایک کو رشوت دے کر اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ کسی ایسے موقع پر مسیح علیہ السّلام کو گرفتار کرائے جب کہ عام بلوے کا خطرہ نہ ہو۔ چنانچہ یہ تدبیر کار گر ہوئی اور یہوداہ سکریوتی نے مسیح علیہ السّلام کو پکڑوا دیا۔
پھر ان کی ساری جماعت اُٹھ کر اسے پِیلا طُس (رومی حاکم) کے پاس لے گئی اور انہوں نے الزام لگانا شروع کیا کہ اسے ہم نے اپنی قوم کو بہکاتے اور قیصر کو خراج دینے سے منع کرتے اور اپنے آپ کو مسیح بادشاہ کہتے پایا۔ پیلا طُس نے سردار کا ہنوں اور عام لوگوں سے کہا کہ میں اس شخص میں کوئی قصور نہیں پاتا۔ مگر وہ اور بھی زور دے کر کہنے لگے کہ یہ تمام یہود یہ میں‘ بلکہ گلیل سے لے کر یہاں تک لوگوں کو سکھا سکھا کر ابھارتا ہے۔ وہ چِلّا چِلّا کر سر ہوتے رہے‘ کہ اِسے صلیب دی جائے‘ اور ان کا چِلّانا کار گر ہوا۔ (لوقا ۲۳:۱-۲۳)
اس طرح دنیا میں حضرت مسیح علیہ السّلام کا مشن ان لوگوں کی بدولت ختم ہوا جو اپنے آپ کو حضرت موسیٰ علیہ السّلام کا وارث کہتے تھے۔ تاریخی شواہد کی رُو سے حضرت مسیح علیہ السّلام کی نبوت کا کل زمانہ ڈیڑھ سال اور تین سال کے درمیان رہا ہے۔ اس مختصر مدّت میں انہوں نے اتنا ہی کام کیا جتنا حضرت محمدa نے اپنی مکی زندگی کے ابتدائی دو تین سال میں کیا تھا۔ اگر کوئی شخص انجیل کی مذکورہ بالا آیات کا مقابلہ قرآن مجید کی مکی سورتوں اور زمانہ قیامِ مکہ کی احادیث سے کرے گا‘ تو دونوں میں بڑی مماثلت پائے گا۔

شیئر کریں