Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دیباچہ
مقدمہ طبع اوّل
تعارف مقصد
تحریک اِسلامی کا تنزل
ضمیمہ
نسلی مسلمانوں کے لیے دوراہیں عمل‘ خواہ انفرادی ہویااجتماعی‘ بہرحال اس کی صحت کے لیے دو چیزیں شرط لازم ہیں:
اقلیت واکثریت
شکایات ناظرین’’ترجمان القرآن‘‘میں سے ایک صاحب لکھتے ہیں:
راہ رَوپِشت بمنزل
اسلام کی دعوت اور مسلمان کا نصب العین
اصلی مسلمانوں کے لیے ایک ہی راہِ عمل
اسلام کی راہِ راست اور اس سے انحراف کی راہیں
۱۔اسلامی نصب العین
۲- اس نصب العین تک پہنچنے کا سیدھا راستہ
۳-مشکلات
۴-انحراف کی راہیں
۵- منحرف راستوں کی غلطی
پاکستانی خیال کے لوگ
۶-مشکلات کا جائزہ
اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے؟
استدراک
ایک صالح جماعت کی ضرورت
مطالبۂ پاکستان کو یہود کے مطالبہ ’’قومی وطن‘‘ سے تشبیہ دینا غلط ہے
مسلم لیگ سے اختلاف کی نوعیت
وقت کے سیاسی مسائل میں جماعت ِاسلامی کا مسلک
نظام کفر کی قانون ساز مجلس میں مسلمانوں کی شرکت کا مسئلہ
مجالس قانون ساز کی رکنیت شرعی نقطۂ نظر سے
پُر امن اِنقلاب کا راستہ
۱۹۴۶ء کے انتخابات اور جماعت ِاسلامی
جواب
تقسیم سے قبل ہندستان کے مسلمانوں کو آخری مشورہ (یہ وہ تقریر ہے‘ جو ۲۶اپریل ۱۹۴۷ء کو جماعت ِاسلامی کے اجلاس منعقدہ مدراس میں کی گئی تھی)
صوبہ سرحد کے ریفرنڈم میں جماعت ِاسلامی کا مسلک
تقسیم ہند‘ حالات پر تبصرہ
تقسیم کے وقت مسلمانوں کی حالت کا جائزہ
تقسیم کے بعد سامنے آنے والے مسائل
کیا پاکستان کو ایک مذہبی ریاست ہونا چاہئے؟
پاکستان میں اسلامی قانون کیوں نہیں نافذ ہوسکتا؟
اسلامی نظامِ زندگی کا مآخذ
پاکستان میں اسلامی قانون کس طرح نافذ ہوسکتا ہے؟
مطالبہ نظام اسلامی

تحریک آزادی ہند اور مسلمان (حصہ دوم)

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

۴-انحراف کی راہیں

یہی تین مشکلات ہیں‘ جن کو اس راہ میں حائل دیکھ کر لوگ دائیں اور بائیں رخ پر راستہ کَترا کر نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جزئیات کے اعتبار سے مختلف لوگوں کے نظریات اور عملی طریقوں میں جو اختلافات ہیں ان کو نظر انداز کر کے بڑی اور اصولی تقسیم اگر کی جائے‘ تو یہ صرف تین گروہوں میں منقسم ہوجاتے ہیں:۔
ایک وہ گروہ جو کہتا ہے‘ کہ پہلے ہمیں ہندستان کی غیر مسلم آبادی کے ساتھ موافقت کر کے اس ملک کو انگریزی اقتدار سے آزاد کر ا لینا چاہئے‘ تاکہ یہاں ایک مشترک جمہوری اسٹیٹ قائم ہوجائے۔ یہ مرحلہ طے ہوجانے کے بعد ہم بتدریج اس اسٹیٹ کو اسلامی اسٹیٹ میں تبدیل کر نے کے لیے کوشش کریں گے۔
دوسرا وہ گروہ جس کا خیال ہے‘ کہ پہلے انگریزی اقتدار کی موجودگی سے فائدہ اُٹھا کر ہمیں مستقل ہندو اکثریت کے تسلّط کا سدّ باب کرنا چاہئے‘ اور ایسی تدبیر کرنی چاہئے کہ اس ملک میں ایک جمہوری اسٹیٹ کے بجائے دو اسٹیٹ قائم ہوں۔‘ ایک وہ اسٹیٹ جس میں مسلم اکثریت کی وجہ سے اقتدار مسلمانوں کے ہاتھ میں آئے اور دوسرا وہ اسٹیٹ جس میں ہندو اکثریت کی وجہ سے اقتدار ہندوئوں کے ہاتھ میں جائے مگر زیادہ سے زیادہ جو آئینی تحفظات ممکن ہیں ان کے ذریعہ سے مسلمانوں کی پوزیشن محفوظ ہوجائے۔ یہ مرحلہ طے ہوجانے کے بعد ہم مسلم اکثریت والے اسٹیٹ کو بتدریج اسلامی اسٹیٹ میں تبدیل کر لیں گے‘ اور پھر ہندو اکثریت والے اسٹیٹ میں تغیّرو اصلاح کی کوشش کریں گے۔
تیسرا گروہ جو موجودہ حالات میں دعوتِ عام اور ایک انقلابی پارٹی کی تشکیل کو آسان بنانے کے لیے اسلام کو ایک دوسرے سانچے میں ڈھالنا چاہتا ہے‘ تاکہ وہ ان لوگوں کے لیے قابلِ قبول ہوجائے‘ جو اسلامی عقائد اور عبادات اور نظامِ شریعت کی بندشوں سے گھبراتے ہیں۔ اس گروہ نے اگرچہ کوئی مستقل جماعتی صورت اختیار نہیں کی ہے‘ مگر مجھے معلوم ہے‘ کہ اس طرز خیال کے لوگ ایک اچھی خاصی تعداد میں پیدا ہوگئے ہیں‘ اور ان کی تجویزیں اس وقت حالت جَنِینی سے گزر رہی ہیں۔

شیئر کریں