Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دیباچہ
مقدمہ طبع اوّل
تعارف مقصد
تحریک اِسلامی کا تنزل
ضمیمہ
نسلی مسلمانوں کے لیے دوراہیں عمل‘ خواہ انفرادی ہویااجتماعی‘ بہرحال اس کی صحت کے لیے دو چیزیں شرط لازم ہیں:
اقلیت واکثریت
شکایات ناظرین’’ترجمان القرآن‘‘میں سے ایک صاحب لکھتے ہیں:
راہ رَوپِشت بمنزل
اسلام کی دعوت اور مسلمان کا نصب العین
اصلی مسلمانوں کے لیے ایک ہی راہِ عمل
اسلام کی راہِ راست اور اس سے انحراف کی راہیں
۱۔اسلامی نصب العین
۲- اس نصب العین تک پہنچنے کا سیدھا راستہ
۳-مشکلات
۴-انحراف کی راہیں
۵- منحرف راستوں کی غلطی
پاکستانی خیال کے لوگ
۶-مشکلات کا جائزہ
اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے؟
استدراک
ایک صالح جماعت کی ضرورت
مطالبۂ پاکستان کو یہود کے مطالبہ ’’قومی وطن‘‘ سے تشبیہ دینا غلط ہے
مسلم لیگ سے اختلاف کی نوعیت
وقت کے سیاسی مسائل میں جماعت ِاسلامی کا مسلک
نظام کفر کی قانون ساز مجلس میں مسلمانوں کی شرکت کا مسئلہ
مجالس قانون ساز کی رکنیت شرعی نقطۂ نظر سے
پُر امن اِنقلاب کا راستہ
۱۹۴۶ء کے انتخابات اور جماعت ِاسلامی
جواب
تقسیم سے قبل ہندستان کے مسلمانوں کو آخری مشورہ (یہ وہ تقریر ہے‘ جو ۲۶اپریل ۱۹۴۷ء کو جماعت ِاسلامی کے اجلاس منعقدہ مدراس میں کی گئی تھی)
صوبہ سرحد کے ریفرنڈم میں جماعت ِاسلامی کا مسلک
تقسیم ہند‘ حالات پر تبصرہ
تقسیم کے وقت مسلمانوں کی حالت کا جائزہ
تقسیم کے بعد سامنے آنے والے مسائل
کیا پاکستان کو ایک مذہبی ریاست ہونا چاہئے؟
پاکستان میں اسلامی قانون کیوں نہیں نافذ ہوسکتا؟
اسلامی نظامِ زندگی کا مآخذ
پاکستان میں اسلامی قانون کس طرح نافذ ہوسکتا ہے؟
مطالبہ نظام اسلامی

تحریک آزادی ہند اور مسلمان (حصہ دوم)

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

اسلام کی دعوت اور مسلمان کا نصب العین

جب کسی شخص پر بار بار تشنج‘ ہذیان اور بحران کے دورے پڑتے ہوں ‘اور درمیانی وقفوں میں بھی وہ ہر وقت کسی نہ کسی تکلیف سے بے تاب رہتا ہو‘ تو اس کی حالت کو دیکھ کر عقل مند لوگ کیا نتیجہ اخذ کرتے ہیں؟وہ اسے محض اوپر ی خلل کا اثر قرار دیتے ہیں‘ یا یہ سمجھتے ہیں‘ کہ خود اس کے اپنے نظام جسمانی کے اندر کوئی خرابی موجود ہے؟وہ تشنج کا علاج ہاتھ پائوں باندھنے سے‘ ہذیان کا علاج منہ بند کرنے سے اور بخار کا علاج برف میں دبانے سے کرتے ہیں‘ یا ان کی تمام تر کوشش یہ ہوتی ہے‘ کہ اس اصلی خرابی کو سمجھیں جو کارگاہِ بدن کی ترکیب میں پیدا ہوگئی ہے‘ اور ساری تدبیریں اسی کو دور کرنے میں صرف کر دیں؟
جہاں تک انفرادی حالات کا تعلق ہے‘ ہر صاحبِ عقل ایسے مواقع پر دوسری صورت ہی اختیار کیا کرتا ہے۔ مگر تعجب اور سخت تعجب ہے‘ کہ جو عقل ایک فرد کو اس حالت میں دیکھ کر صحیح نتیجہ اخذ کرتی ہے‘ وہ کہاں ماری جاتی ہے‘ جب پوری انسانیت اس کے سامنے اسی حال میں ہو۔ تمام عالمِ انسانی اس وقت ایک شدید بحران میں مبتلا ہے۔ اس پر تشنج کا ایک ایسا زبردست دورہ پڑا ہے‘ جس سے ساری زمین ہل گئی گئی ہے۔{ FR 2506 } اور یہ کوئی پہلا دورہ نہیں ہے۔ ایک مدّت سے پیہم اس پر ایسے ہی دورے پڑ رہے ہیں‘ اور دوروں کے درمیان جو وفقہ گزرتا ہے‘ اس میں بھی کبھی وہ چین سے نہیں رہتا۔ ہر وقت کسی نہ کسی درد سے بے چین ہی رہتا ہے۔ مگر باوجود یکہ مدّت ہائے دراز سے یہ صورت حال ساری دنیا میں مشاہدہ کی جا رہی ہے‘ کسی کا ذہن ادھر نہیں جاتاکہ انسانی تمدّن وعمران کی اساس میں ایک بنیادی خرابی موجود ہے۔ ساری دنیا کے بوجھ بجُھکڑ{ FR 2507 } اپنی اپنی نظریں صرف ان خارجی علامات ہی پر جمائے ہوئے ہیں‘ جو اندرونی خرابی کی وجہ سے سطح پر نمایاں ہوتی ہیں‘ اور ہر ایک کو سطح پر جو پھوڑا سب سے زیادہ نمایاں نظر آتا ہے‘ اسی پر انگلی رکھ کر کہہ دیتا ہے‘ کہ بس اس کا آپریشن کر دو‘ پھر سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ کوئی کہتا ہے‘ کہ بِس کی گانٹھ ڈکٹیٹرشپ ہے‘ اس کو کاٹ دو‘ کوئی کہتا ہے‘ کہ ساری خرابی امپیریل ازم کی وجہ سے ہے‘ اسے مٹا دو۔ کوئی کہتا ہے‘ کہ سرمایہ داری نے دنیا کو جہنم بنا رکھا ہے‘ اس کا خاتمہ کر دو‘ ان نادانوں کی عقل کہاں گم ہوگئی ہے؟یہ شاخوں کو جڑ سمجھ رہے ہیں۔ ان کو خبر نہیں کہ جڑ کہیں اور ہے‘ اور وہ جب تک زمین پکڑے رہے گی‘ شاخیں برابر نکلتی ہی رہیں گی خواہ قیامت تک ان کو کاٹنے میں وقت ضائع کیا جاتا رہے۔
دنیا میں جہاں جو خرابی بھی پائی جاتی ہے اس کی جڑ صرف ایک چیز ہے‘ اور وہ ہے اﷲ کے سوا کسی اور کی حاکمیت تسلیم کرنا‘ یہی اُمّ الخبائث ہے۔ یہی اصل بِس کی گانٹھ ہے۔ اسی سے وہ شجر خبیث پیدا ہوتا ہے‘ جس کی شاخیں پھیل پھیل کر انسانوں پر مصیبتوں کے زہریلے پھل ٹپکاتی ہیں۔ یہ جڑ جب تک باقی ہے آپ شاخوں کی جتنی چاہیں قطع وبرید کرلیں‘ بجز اس کے کچھ بھی حاصل نہ ہوگا کہ ایک طرف سے مصائب کا نزول بند ہوجائے‘ اور دوسری طرف سے شروع ہوجائے۔
ڈکٹیٹر شپ یا مطلق العنان بادشاہی کو مٹایا جائے گا‘ تو حاصل کیا ہوگا؟یہی ناکہ ایک انسان یا ایک خاندان خدائی کے مقام سے ہٹ جائے گا ‘اور اس کی جگہ پارلیمنٹ خدا بن جائے گی۔ مگر کیافی الواقع اس طریقہ سے انسانیت کا مسئلہ حل ہوجاتا ہے؟کیا ظلم اور بَغْی اور فسادفی الارض سے وہ جگہ خالی ہے‘ جہاں پارلیمنٹ کی خدائی ہے؟
امپیریل ازم کا خاتمہ کیا جائے گا‘ تو اس کا حاصل کیا ہوگا؟بس یہی کہ ایک قوم پر سے دوسری قوم کی خدائی اتر جائے گی۔ مگر کیا واقعی اس کے بعد زمین پر امن اور خوش حالی کا دور شروع ہوجاتا ہے؟کیا وہاں انسان کو چین نصیب ہے‘ جہاں قوم آپ اپنی خدا بنی ہوئی ہے؟
سرمایہ داری کا استیصال ہوجائے گا‘ تو اس سے کیا نتیجہ بر آمد ہوگا؟صرف یہ کہ محنت پیشہ عوام‘ مال دار طبقوں کی خدائی سے آزاد ہوکر‘ خود اپنے بنائے ہوئے‘ خدائوں کے بندے بن جائیں گے۔ مگر کیا اس سے حقیقت میں آزادی‘عدل‘اور امن کی نعمتیں انسان کو حاصل ہوجاتی ہیں؟کیا انسان کو وہاں یہ نعمتیں حاصل ہیں‘ جہاں مزدوروں کے اپنے بنائے ہوئے خدا حکومت کر رہے ہیں؟
اﷲ کی حاکمیت سے منہ موڑنے والے‘ زیادہ سے زیادہ بہتر نصب العین جو پیش کر سکتے ہیں‘ وہ بیش ازیں نیست کہ دنیا میں مکمل جمہوریت قائم ہوجائے‘ یعنی لوگ اپنی بھلائی کے لیے آپ اپنے حاکم ہوں۔ لیکن قطع نظر اس سے کہ یہ حالت واقعی دنیا میں رونما ہوبھی سکتی ہے‘ یا نہیں،{ FR 2508 } غور طلب سوال یہ ہے‘ کہ ایسی حالت اگر رونما ہوجائے‘ تو کیا اس فرضی جنت میں انسان خود اپنے نفس کے شیطان‘ یعنی اس جاہل اور نادان ’’خدا‘‘کی بندگی سے بھی آزاد ہوجائے گا‘ جس کے پاس خدائی کرنے کے لیے‘ علم‘ حکمت‘ عدل‘ راستی کچھ بھی نہیں‘ صرف خواہشات ہی خواہشات ہیں‘ اور وہ بھی اندھی اور جابرانہ خواہشات۔
غرض دنیا کے مختلف گوشوں میں انسانی مصائب اور پریشانیوں کے جتنے حل بھی سوچے جا رہے ہیں‘ ان سب کا خلاصہ بس اتناہی ہے‘ کہ خدائی یا حاکمیت بعض انسانوں سے سلب ہوکر بعض دوسرے انسانوں کی طرف منتقل ہوجائے۔ اور یہ مصیبت کا ازالہ نہیں ہے‘ بلکہ صرف اس کا اِمالہ ہے۔ اس کے معنی صرف یہ ہیں‘ کہ سیلابِ بلا اب تک جس راستہ سے آتا رہا ہے ادھر سے نہ آئے بلکہ دوسرے راستہ سے آئے۔ اس کو اگر حل کہا جا سکتا ہے‘ تو یہ ایسا ہی حل ہے جیسے دِق کی بیماری کو سرطان سے تبدیل کر لیا۔ اگر مقصود محض دِق کو دور کرنا تھا‘ تو بے شک آپ کامیاب ہوئے‘ لیکن اگر اصل مقصد جان بچانا تھا تو ایک پیامِ اجل کو دوسرے پیک ِاجل سے تبدیل کر کے آپ نے کوئی بھی کامیابی حاصل نہ کی۔
خواہ ایک انسان دوسرے کا خدا بنے‘ یا دوسرے کی خدائی تسلیم کرے یا آپ اپنا خدا بن جائے بہرحال ان تمام صورتوں میں تباہی اور خُسران کا اصل سبب جوں کا توں باقی رہتاہے۔ کیونکہ جو فی الواقع بادشاہ نہیں ہے وہ اگر بادشاہ بن بیٹھے‘ جو حقیقت میں بندہ اور غلام ہے‘ وہ اگر اپنے آپ کو خواجگی وخداوندی کے مقام پر متمکن سمجھ لے‘ جو دراصل ذمّہ دار اور مسئول رعیت ہے وہ اگر غیر ذمّہ دار اور خود مختار حاکم بن کر کام کرنے لگے‘ تو اس اِدّعا کو تسلیم کرنے کی حقیقت ایک غلط فہمی کے سوا کچھ نہ ہوگی۔ اصلیت جو کچھ ہے وہ تو بہرحال وہی کی وہی رہے گی۔ مگر جب بندہ اس عظم الشان بنیادی غلط فہمی پر اپنی زندگی کی ساری عمارت اُٹھائے گا کہ وہ خود حاکم اعلیٰ ہے‘ یا کوئی دوسرا بندہ اس کا حاکم اعلیٰ ہے‘ اور جب وہ یہ سمجھ کر کام کرے گا کہ اس سے بالا تر کوئی حاکم نہیں ہے‘ جس کے سامنے وہ جواب دہ ہو‘ اور اپنے امرونہی میں جس کی رضا لینے کا محتا ج ہو‘ تو یقینا اس کی زندگی کی عمارت از سر تا پا غلط ہوکر رہ جائے گی‘ اور اس میں راستی وصحت کو تلاش کرنا حماقت کے سوا کچھ نہ ہوگا۔
یہ بات آخر کس طرح انسان کی عقل قبول کر لیتی ہے‘ کہ خلق کسی کی ہو‘ اور امر کسی اور کا ہو؟پیدا کرنے اور پالنے والا کوئی ہو‘ اور حکم کسی اور کا چلے؟ ملک کسی کا ہو‘ اور بادشاہت کسی اور کی ہو؟
جس نے انسان کو بنایا‘ جس نے انسان کے لیے‘ زمین کی قیام گاہ بنائی‘ جواپنی ہوا‘ اپنے پانی‘ اپنی روشنی اور حرارت‘ اور اپنے پیدا کیے ہوئے سامانوں سے انسان کی پرورش کر رہا ہے‘ جس کی قدرت انسان کا‘ اور اس پوری زمین کا جس میں انسان رہتا ہے‘ احاطہ کیے ہوئے ہے‘ اور جس کے حیطہ قدرت سے انسان کسی حال میں نکل ہی نہیں سکتا ‘عقل اور فطرت کا تقاضا یہ ہے‘ کہ وہی انسان کا اور اس زمین کا مالک ہو‘ وہی خدا اور رب ہو‘ اور وہی بادشاہ اور حاکم بھی ہو۔ اس کی بنائی ہوئی دنیا میں خود اس کے سوا اور کس کو حکومت وفرماں روائی کا حق پہنچتا ہے؟کس طرح ایک مملوک یہ کہنے کا حق دار ہوسکتا ہے‘ کہ وہ اپنے جیسے دوسرے مملوکوں کا مالک ہے؟صانع اور پروردگار کے سوا اپنی مصنوعات اور اپنے پروردوں کی ملکیت اور کس کے لیے جائز ہوسکتی ہے؟کون اتنی قدرت رکھتا ہے کن کے پاس اتنا علم ہے‘ کس کا یہ ظرف ہے‘ کہ اس سلطنت میں فرمانروائی کر سکے؟اگر انسان اس سلطنت کے اصلی سلطان کی حاکمیت کو تسلیم نہیں کرتا‘ اور اس کے سوا کسی دوسرے کی حاکمیت مانتا ہے‘ یا خود اپنی حاکمیت کا اِدّعا کرتا ہے‘ تو یہ صریح واقعہ کے خلاف ہے۔ بنیادی طور پر غلط ہے۔ ایک عظیم الشّان جھوٹ ہے۔ سب سے زیادہ سفید جھوٹ۔ ایسا جھوٹ جس کی تردید زمین وآسمان کی ہر شے ہر وقت کر رہی ہے۔ ایسے بے بنیاد دعوے اور ایسی غلط تسلیم واطاعت سے حقیقت نفس الامری میں ذرہ برابر بھی فرق واقع نہیں ہوتا۔ جو مالک ہے وہ مالک ہی رہے گا‘ جو بادشاہ اور حاکم ہے وہ بادشاہ اور حاکم ہی رہے گا۔البتہ خود اس انسان کی زندگی از سرتا پا غلط ہوکر رہ جائے گی ‘جو واقعہ کے خلاف دوسرے کی حاکمیت تسلیم کر کے‘ یا خود اپنی حاکمیت کا مدعی بن کر کام کرے گا۔ حقیقت اس کی محتاج نہیں ہے‘ کہ تم اس کا ادراک کرو‘ تب ہی وہ حقیقت ہو۔ نہیں!تم خود اس کے محتاج ہوکہ اس کی معرفت حاصل کر کے‘ اپنی سعی وعمل کو اس کے مطابق بنائو۔ اگر تم حقیقت کو محسوس نہیں کرتے‘ اور کسی غلط چیز کو حقیقت سمجھ بیٹھتے ہو‘ تو اس میں نقصان تمہارا اپنا ہے۔ تمہاری غلط فہمی سے حقیقت میں کوئی تغیّر رونما نہیں ہوسکتا۔
ظاہر ہے‘ کہ جس چیز کی بنیاد ہی سرے سے غلط ہو‘ اس کو جزوی تر میمات اور فروعی اصلاحات سے کبھی درست نہیں کیا جا سکتا۔ ایک جھوٹ کے ہٹ جانے اور اس کی جگہ دوسرے جھوٹ کے آجانے سے حقیقت میں کوئی فرق بھی واقع نہیں ہوتا۔ اس قسم کی تبدیلی سے طفل تسلّی تو ہوسکتی ہے‘ مگر غیر حق پر زندگی کی عمارت قائم کرنے کا جو نقصان ایک صورت میں تھا وہی دوسری صورت میں بھی علیٰ حالہٖ باقی رہتا ہے۔
اس نقصان کو دور کرنے اور انسانی زندگی کو حقیقی فلاح وسعادت سے ہمکنار کرنے کی کوئی صورت اس کے سوا نہیں ہے‘ کہ غیر اﷲ کی حاکمیت سے کلیتہً انکار کیا جائے‘ اور اس کی حاکمیت تسلیم کی جائے‘ جو فی الواقع مالک الملک ہے۔ہر اس نظامِ حکومت کو ردّ کر دیا جائے‘ جو انسانی اقتدار اعلیٰ کے باطل نظریہ پر قائم ہو‘ اور صرف اس نظامِ حکومت کو قبول کیا جائے‘ جس میں اقتدارِ اعلیٰ اسی کا ہوجو فی الحقیقت مقتدر ِاعلیٰ ہے۔ ہر اس حکومت کے حق حکمرانی کو ماننے سے انکار کر دیا جائے‘ جس میں انسان بذاتِ خود حاکم اور صاحبِ امرو نہی ہونے کا مدعی ہو‘ اور صرف اس حکومت کو جائز قرار دیا جائے‘ جس میں انسان اصلی اور حقیقی حاکم کے ماتحت خلیفہ ہونے کی حیثیت قبول کرے۔ یہ بنیادی اصلاح جب تک نہ ہوگی‘ جب تک انسان کی حاکمیت‘ خواہ وہ کسی شکل اور کسی نوعیت کی ہو‘ جڑ پیڑ سے اُکھاڑ کر نہ پھینک دی جائے گی‘ اور جب تک انسانی حاکمیت کے غیر واقعی تصوّر کی جگہ خلافت الٰہی کا واقعی (realistic)تصوّر نہ لے لے گا‘ اس وقت تک انسانی تمدّن کی بگڑی ہوئی کل کبھی درست نہ ہوسکے گی‘ چاہے سرمایہ داری کی جگہ اشتراکیت قائم ہوجائے‘ یا ڈکٹیٹر شپ کی جگہ جمہوریت متمکن ہوجائے‘ یا امپیرل ازم کی جگہ قوموں کی حکومت خود اختیاری کا قاعدہ نافذ ہوجائے۔ صرف خلافت ہی کا نظریہ انسان کو امن دے سکتا ہے‘ اسی سے ظلم مٹ سکتا ہے‘ اور عدل قائم ہوسکتا ہے‘ اور اسی کو اختیار کر کے انسان اپنی قوّتوں کا صحیح مصرف اور اپنی سعی وجہد کا صحیح رخ پا سکتا ہے۔ رب العالمین اور عالم الغیب والشّہادۃ کے سوا اور کوئی انسانی تمدّن وعمران کے لیے ایسے اصول اور حدود تجویز کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا‘ جو بے لاگ ہوں‘ جن میں جانب داری‘ تعصّب اور خود غرضی کا شائبہ تک نہ ہو‘ جو ٹھیک ٹھیک عدل پر قائم ہوں‘ جن میں تمام انسانوں کے مفاد اور حقوق کا یکساں لحاظ کیا گیا ہو‘ جو گمان وقیاس پر نہیں‘ بلکہ حقائقِ فطرت کے یقینی علم پر مبنی ہوں۔ ایسے ضابطہ کی نعمتوں سے انسان صرف اِسی طرح بہرہ ور ہوسکتا ہے‘ کہ وہ خود صاحب ِامرا ور قانون ساز بننے کے زعم سے دست بردار ہوجائے‘ خدا پر اور اس کے بھیجے ہوئے قانونِ زندگی پر ایمان لائے اور آخرت کی جوابدہی کا احساس رکھتے ہوئے اس ضابطہ کو دنیا میں قائم کرے۔
اسلام انسانی زندگی میں یہی بنیادی اصلاح کرنے آیا ہے‘ اس کو کسی ایک قوم سے دلچسپی اور کسی دوسری قوم سے عداوت نہیں ہے‘ کہ ایک کوچڑھانا اور دوسری کو گرانا اس کا مقصود ہو۔ بلکہ اسے تمام نوعِ انسانی کی فلاح وسعادت مطلوب ہے‘ جس کے لیے وہ ایک عالمگیر کلیّہ وضابطہ پیش کرتا ہے وہ ایک تنگ زاویہ سے کسی خاص ملک یا کسی خاص گروہِ انسانی کو نہیں دیکھتا‘ بلکہ وسیع نظر سے‘ تمام روئے زمین کو‘ اس کے تمام باشندوں سمیت دیکھتاہے‘ اور چھوٹے چھوٹے وقتی حوادث ومسائل سے بالاتر ہوکر‘ ان اصولی وبنیادی مسائل کی طرف توجہ کرتا ہے‘ جن کے حل ہوجانے سے تمام زمانوں اور تمام حالات ومقامات میں سارے فروعی وضمنی مسائل آپ سے آپ حل ہوجاتے ہیں۔ اسے ظلم کی شاخوں اور فساد کی فروعی شکلوں سے بحث نہیں ہے‘ کہ آج ایک جگہ ایک شاخ کو کاٹنے پر زور صرف کرے‘ اور کل دوسری جگہ کسی دوسری شاخ سے طبع آزمائی کرنے لگے‘ بلکہ وہ ظلم کی جڑ اور فساد کے سر چشمے پر براہِ راست حملہ کرتا ہے‘ تاکہ ان شاخوں کی پیدائش ہی بند ہوجائے‘ اور جگہ جگہ آئے دن کی کاٹ چھانٹ کا جھگڑا ہی باقی نہ رہے۔
یہ چھوٹے چھوٹے ضمنی مسائل جن میں آج دنیا کی مختلف قومیں اور جماعتیں اُلجھ رہی ہیں‘ مثلاً یورپ میں ہٹلر کا طغیانِ ناز‘ یا حبش میں اٹلی کا فساد‘ یاچین میں جاپان کا ظلم‘یا ایشیاء وافریقہ میں برطانیہ وفرانس کی قیصریت‘اسلام کی نگاہ میں ان کی اور ایسے تمام مسائل کی کوئی اہمیت نہیں۔ اس کی نگاہ میں ایک ہی سوال اہمیت رکھتا ہے۔ وہ تمام دنیا سے پوچھتا ہے:
ءَ اَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَيْرٌ اَمِ اللہُ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُo یوسف 39:12
متفرق چھوٹے چھوٹے خدائوں کی بندگی اچھی ہے‘ یا اس ایک اﷲ کی جو سب پر غلبہ وتسلّط رکھتا ہے؟
جو لوگ پہلی صورت کے پسند کرنے والے ہیں اسلام ان سب کو ایک سمجھتا ہے خواہ وہ آپس میں کتنے ہی مختلف شعبوں میں بٹے ہوئے ہوں۔ ان کی ایک دوسرے کے خلاف جدوجہد اسلام کی نظر میں ایک فسادکے خلاف دوسرے فساد کی جدوجہد ہے۔ ان میں سے کسی کی دشمنی بھی نفسِ فساد سے نہیں ہے‘ بلکہ فساد کی کسی خاص شاخ سے ہے‘ اور اس لیے ہے‘ کہ جس فساد کا جھنڈا ایک فریق نے بلند کر رکھا ہے وہ سرنگوں ہو‘ اور اس کی جگہ وہ فساد سر بلند ہو‘ جس کا جھنڈا دوسرا فریق اُٹھائے ہوئے ہے۔ ظاہر ہے‘ کہ ایسے فریقین میں سے کسی کے ساتھ بھی اس کا اشتراکِ عمل نہیں ہوسکتا جو اصل فساد کا دشمن ہو۔ اس کے لیے تو ایک جھوٹے رب کے پرستاروں اور دوسرے جھوٹے رب کے بندوں میں ترجیح کا سوال ہی نہیں۔ اس کی توبیک وقت سب سے لڑائی ہے۔ وہ تو اپنا سارا زور صرف ایک ہی مقصد پر صرف کرے گا‘ اور وہ یہ ہے‘ کہ انسان کو متفرق غیر حقیقی ربوں اور الٰہوں کی بندگی سے نکالا جائے‘ اور اس اﷲ واحد قہار کی حاکمیت تسلیم کرائی جائے‘ جو فی الحقیقت رَبُّ النَّاس‘ مَلِکِ النَّاس اور الٰہِ النَّاس{ FR 2578 } ہے۔
لفظ ’’مسلمان‘‘ اگر کوئی بے معنی لفظ ہے‘ اور محض علم کے طورپر انسانوں کے کسی گروہ کے لیے استعمال ہونے لگا ہے‘ تب تو مسلمانوں کوپوری آزادی حاصل ہونی چاہئے کہ اپنی زندگی کے لیے جو مقصد چاہیں قرار دے لیں‘ اور جن طریقوں پر چاہیں کام کریں۔ لیکن اگر یہ لفظ ان لوگوں کے لیے استعمال ہوتا ہے‘ جنہوں نے اسلام کو بطور مسلک ومشرب قبول کیا ہے‘ تو یقینا مسلمانوں کے لیے کوئی نظریہ‘ کوئی مقصد اور کوئی طریق کار اسلام کے نظریہ‘ مقصد اور طریق کار کے سوا نہیں ہوسکتا۔ غیراسلامی نظریہ اور پالیسی اختیار کرنے کے لیے حالاتِ زمانہ اور مقتضیاتِ وقت کا بہانہ کوئی بہانہ نہیں ہے۔مسلمان جہاں جس ماحول میں بھی ہوں گے ان کو وقتی حوادث اور مقامی حالات ومعاملات سے بہرحال سابقہ پیش ہی آئے گا۔پھر وہ اسلام آخر کس کام کا اسلام ہے‘ جس کا اتّباع صرف مخصوص حالات ہی میں کیا جائے‘ اور جب حالات دگر گوں ہوں تو اسے چھوڑ کر حسب سہولت کوئی دوسرا نظریہ اختیار کر لیا جائے؟دراصل تمام مختلف حالات میں اسلام کے اساسی نظریہ اور بنیادی مقصد کے مطابق طرزِعمل اختیار کرنا ہی مسلمان ہونا ہے‘ ورنہ اگر مسلمان ہر حادثہ اور ہر حال کو ایک جدا گانہ نقطۂ نظر سے دیکھنے لگیں اور ہمیشہ موقع ومحل دیکھ کر ایک نئی پالیسی وضع کر لیا کریں‘ جس کو اسلام کے نظریہ ومقصد سے کوئی لگائو نہ ہو‘ تو ایسے مسلمان ہونے میں اور نامسلمان ہونے میں قطعاً کوئی فرق نہیں۔ ایک مسلک کی پیروی کے معنی ہی یہ ہیں‘ کہ آپ جس حال میں بھی ہوں‘ آپ کا نقطۂ نظر اور طریق کار اس مسلک کے مطابق ہو‘ جس کے آپ پیرو ہیں۔ ایک مسلمان‘ سچا مسلمان اسی وقت ہوسکتا ہے‘ جب کہ وہ زندگی کے تمام جزئی معاملات اور وقتی حوادث میں اسلامی نقطۂ نظر اور اسلامی طریقہ اختیار کرے۔ جو مسلمان کسی موقع ومحل میں اسلامی پہلو چھوڑ کر غیراسلامی پہلو اختیار کرتا ہے‘ اور یہ عذر پیش کرتا ہے‘ کہ اس موقع اور اس محل میں تو مجھے غیراسلامی طریقہ ہی پر کام کر لینے دو‘ بعد میں جب حالات ساز گار ہوجائیں گے‘ تو مسلمان بن کر کام کرنے لگوںگا۔ وہ دراصل یہ ظاہر کرتا ہے‘ کہ یا تو اسلام کو وہ بجائے خود کوئی ایسا ہمہ گیر نظامِ زندگی ہی نہیں سمجھتا‘ جو زندگی کے ہر معاملہ اور زمانہ کی ہر گردش پر یکساں حاوی ہوسکتا ہو‘ یا پھر اس کا ذہن اسلام کے سانچے میں پوری طرح نہیں ڈھلا ہے‘ جس کی وجہ سے اس میں یہ صلاحیت نہیں ہے‘ کہ اسلام کے کلیات کو جزئی حوادث پر منطبق کر سکے‘ اور یہ سمجھ سکے کہ مختلف احوال میں مسلمان ہونے کی حیثیت سے اس کی پالیسی کیا ہونی چاہیے۔
ایک حقیقی مسلمان ہونے کی حیثیت سے جب میں دنیا پر نگاہ ڈالتا ہوں‘ تو مجھے اس امر پر اظہار مسرت کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ ٹرکی پر ترک‘ ایران پر ایرانی اور افغانستان پر افغانی حکمران ہیں۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے میں حکم النَّاس علی النّاس للنّاس{ FR 2510 }کے نظریہ کا قائل نہیں ہوں کہ مجھے اس پر مسرت ہو۔ میں اس کے برعکس حکم اﷲ علی النّاس بالحق{ FR 2511 }کا نظریہ رکھتا ہوں ‘اور اس اعتبار سے میرے نزدیک انگلستان پر انگریزوں کی حاکمیت اور فرانس پر اہلِ فرانس کی حاکمیت جس قدر غلط ہے‘ اسی قدر ٹرکی اور دوسرے ملکوں پر ان کے اپنے باشندوں کی حاکمیت بھی غلط ہے۔ بلکہ اس سے زیادہ غلط اس لیے کہ جو قومیں اپنے آپ کو مسلمان کہتی ہیں ان کا خدا کی حاکمیت کے بجائے انسانوں کی حاکمیت اختیار کرنا اور بھی زیادہ افسوس ناک ہے۔ غیر مسلم اگر ضالین کے حکم میں ہیں‘ تو یہ اس طرزِعمل کی بنا پر مَغْضُوْبٌ عَلَیْھِمْ کی تعریف میں آجاتے ہیں۔
مسلمان ہونے کی حیثیت سے میرے لیے اس مسئلہ میں بھی کوئی دلچسپی نہیں ہے‘ کہ ہندوستان میں جہاں مسلم کثیر التعداد ہیں‘ وہاں ان کی حکومت قائم ہوجائے‘ میرے نزدیک جو سوال سب سے اَقْدم ہے‘ وہ یہ ہے‘ کہ آپ کے اس ’’پاکستان‘‘میں نظامِ حکومت کی اساس خدا کی حاکمیت پر رکھی جائے گی یا مغربی نظریہ جمہوریت کے مطابق عوام کی حاکمیت پر؟اگر پہلی صورت ہے‘ تو یقینا یہ ’’پاکستان‘‘ہو گا ورنہ بصورت دیگر یہ ویسا ہی ’’نا پاکستان‘‘ ہوگا جیسا ملک کا وہ حصّہ ہوگا جہاں آپ کی اسکیم کے مطابق غیر مسلم حکومت کریں گے۔ بلکہ خدا کی نگاہ میں یہ اس سے زیادہ ناپاک‘ اس سے زیادہ مبغوض وملعون ہوگا کیونکہ یہاں اپنے آپ کو مسلمان کہنے والے وہ کام کریں گے‘ جو غیر مسلم کرتے ہیں۔ اگر میں اس بات پر خوش ہوں کہ یہاں رام داس کے بجائے عبداﷲ خدائی کے منصب پر بیٹھے گا‘ تو یہ اسلام نہیں ہے‘ بلکہ نرانیشنل ازم ہے‘ اور یہ ’’مسلم نیشنل ازم‘‘بھی خدا کی شریعت میں اتنا ہی ملعون ہے‘ جتنا ’’ہندستانی نیشنل ازم‘‘۔
مسلمان ہونے کی حیثیت سے میری نگاہ میں اس سوال کی بھی کوئی اہمیت نہیں ہے‘ کہ ہندستان ایک ملک رہے یا دس ٹکڑوں میں تقسیم ہوجائے۔ تمام روئے زمین ایک ملک ہے۔ انسان نے اس کو ہزاروں حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ یہ اب تک کی تقسیم اگر جائز تھی تو آئندہ مزید تقسیم ہوجائے گی‘ تو کیا بگڑ جائے گا؟یہ کون سا ایسا بڑا مسئلہ ہے‘ جس پر مسلمان ایک لمحہ کے لیے بھی غور وفکر میں اپنا وقت ضائع کرے؟ مسلمان کو تو صرف اس چیز سے بحث ہے‘ کہ یہاں انسان کا سر حُکْمُ اﷲ کے آگے جھکتا ہے‘ یا حُکْمُ النّاس کے آگے‘ اگر حُکْمُ اﷲ کے آگے جھکتا ہے تب تو ہندستان کو اور زیادہ وسیع کیجیے۔ ہمالیہ کی دیوار کو بیچ میں سے ہٹا ئیے اور سمندر کو بھی نظر انداز کر دیجیے‘ تاکہ ایشیا‘ افریقہ‘ یورپ‘ امریکہ سب ہندستان میں شامل ہوسکیں۔ اور اگر یہ حُکْمُ النّاس کے آگے جھکتا ہے‘ تو جہنم میں جائے‘ ہندستان اور اس کی خاک کا پرستار‘ مجھے اس سے کیا دل چسپی کہ یہ ایک ملک رہے‘ یا دس ہزار ٹکڑوں میں بٹ جائے۔ اس بت کے ٹوٹنے پر تڑپے وہ جو اسے معبود سمجھتا ہو۔ مجھے تو اگر یہاں ایک مربع میل کا رقبہ بھی ایسا مل جائے‘ جس میں انسان پر خدا کے سوا کسی کی حاکمیت نہ ہو‘ تو میں اس کے ایک ذرّہ خاک کو تمام ہندستان سے زیادہ قیمتی سمجھوں گا۔
مسلمان ہونے کی حیثیت سے‘ میرے نزدیک یہ امر بھی کوئی قدر وقیمت نہیں رکھتاکہ ہندستان کو انگریزی امپیریل ازم سے آزاد کرایا جائے۔ انگریز کی حاکمیت سے نکلنا تو صرف لاالہ کا ہم معنی ہوگا۔فیصلہ کا انحصار محض اس نفی پر نہیں ہے‘ بلکہ اس پر ہے‘ کہ اس کے بعد اثبات کس چیز کا ہوگا؟اگر آزادی کی یہ ساری لڑائی صرف اس لیے ہے‘ اور مجاہدین حرّیت میں سے کون صاحب یہ جھوٹ بولنے کی ہمت رکھتے ہیں‘ کہ اس لیے نہیں ہے‘ کہ امپیریل ازم کے الٰہ کو ہٹا کر‘ ڈیمو کریسی کے الٰہ کو بت خانہ حکومت میں جلوہ افروز کیا جائے‘ تو مسلمان کے نزدیک درحقیقت اس سے کوئی فرق بھی واقع نہیں ہوتا۔ لات گیا مَنات آگیا۔ایک جھوٹے خدا نے دوسرے جھوٹے خدا کی جگہ لے لی۔ باطل کی بندگی جیسی تھی ویسی ہی رہی۔ کون مسلمان اس کو آزادی کے لفظ سے تعبیر کر سکتا ہے؟
اِنَّ اﷲَ لَا یَمْحُوا السَّیِّئَ بِالسَّیِّئَ وَلٰـکِنْ یَمْحُو السَّیِّئَ بِالْحَسِّنِ اِنَّ الْخَبِیْثَ لَا یَمْحُو الْخَبِیْثَ { FR 2512 }
اس وقت ہندستان میں مسلمانوں کی جو مختلف جماعتیں اسلام کے نام سے کام کر رہی ہیں۔ اگر فی الواقع اسلام کے معیار پر ان کے نظریات‘ مقاصد اور کارناموں کو پرکھا جائے‘ تو سب کی سب جنس کا سد نکلیں گی۔ خواہ مغربی تعلیم وتربیت پائے ہوئے سیاسی لیڈر ہوں‘ یا قدیم طرز کے مذہبی رہنما‘ دونوں ہی اپنے نظریہ اور اپنی پالیسی کے لحاظ سے یکساں گم کردہ راہ ہیں۔ دونوں راہِ حق سے ہٹ کرتا ریکیوں میں بھٹک رہے ہیں۔ دونوں اپنے اصلی ہدف کو چھوڑ کر ہوا میں چَوبائی تیر چلا رہے ہیں۔ ایک گروہ کے دماغ پر ہندو کا ہوّا سوار ہے‘ اور وہ سمجھتا ہے‘ کہ ہندوامپیریل ازم کے چنگل سے بچ جانے کا نام نجات ہے۔ دوسرے گروہ کے سر پر انگریز کا بُھوت مسلّط ہے‘ اور وہ انگریزی امپیریل ازم کے جال سے بچ نکلنے کو نجات سمجھ رہا ہے۔ ان میں سے کسی کی نظر بھی مسلمان کی نظر نہیں‘ ورنہ یہ دیکھتے کہ اصلی شیطان نہ یہ ہے نہ وہ‘ اصلی شیطان غیر اﷲ کی حاکمیت ہے۔ اس سے نجات نہ پائی تو کچھ نہ پایا۔ لڑنا ہے‘ تو اس کو مٹانے کے لیے لڑو۔ جو تیر چلانا ہے اس ہدف کی طرف شست باندھ کر چلائو۔ جس قدر قوّت صرف کرنی ہے اسے محو کرنے پر صرف کر دو‘ اس کے سوا جس کام میں بھی تم اپنی مساعی صرف کرو گے‘ وہ اسی طرح پر اگندہ اور رائگاں ہوکر رہیں گی‘ جس طرح ان لوگوں کی مساعی جن کے متعلق قرآن فیصلہ کرتا ہے‘ کہ:
قُلْ ہَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْاَخْسَرِيْنَ اَعْمَالًاo اَلَّذِيْنَ ضَلَّ سَعْيُہُمْ فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا وَہُمْ يَحْسَبُوْنَ اَنَّہُمْ يُحْسِنُوْنَ صُنْعًاo اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِ رَبِّہِمْ وَلِقَاۗىِٕہٖ فَحَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ فَلَا نُقِيْمُ لَہُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ وَزْنًاo الکہف 103-105:18
اے نبی ان سے کہو، کیا ہم تمہیں بتائیں کہ اپنے اعمال میں سب سے زیادہ ناکام و نامراد کون لوگ ہیں؟ وہ کہ دنیا کی زندگی میں جن کی ساری سعی و جدو راہ راست سے بھٹکی رہی اور وہ سمجھے رہے کہ وہ اسے ٹھیک کر رہے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنے رب کی آیات کو ماننے سے انکار کیا اور اس کے حضور پیشی کا یقین نہ کیا۔ اس لیے ان کے سارے اعمال ضائع ہوگئے، قیامت کے روز ہم انھیں کوئی وزن نہ رہیں گے۔
مغربی طرز کے لیڈروں پر توچنداں حیرت نہیں کہ ان بے چاروں کو قرآن کی ہوا تک نہیں لگی ہے‘ مگر حیرت اور ہزار حیرت ہے ان علمائے کرام پر‘ جن کا رات دن کا مشغلہ ہی قال اﷲ وقال الرّسول ہے۔سمجھ میں نہیں آتاکہ آخر ان کو کیا ہوگیا ہے۔ یہ قرآن کو کس نظر سے پڑھتے ہیں‘ کہ ہزار بار پڑھنے کے بعد بھی انہیں اس قطعی اور دائمی پالیسی کی طرف ہدایت نہیں ملتی جو مسلمان کے لیے اصولی طور پر مقرر کر دی گئی ہے‘ جن مسائل کو انہوں نے اہم اور اَقْدم قرار دے رکھا ہے‘ قرآن میں ہم کو ان کی فروعی اور ضمنی اہمیت کا بھی نشان نہیں ملتا۔ جن معاملات پر بے چین ہوکر‘ انہوں نے دہلی میں آزاد مسلم کانفرنس منعقد فرمائی اور تڑپ تڑپ کر تقریریں کیں‘ اس نوعیت کے معاملات کہیں اشارۃ بھی قرآن میں زیر بحث نہیں آتے۔ برعکس اس کے قرآن میں ہم دیکھتے ہیں‘ کہ نبی پر نبی آتا ہے‘ اور ایک ہی بات کی طرف اپنی قوم کو دعوت دیتا ہے:یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اﷲَ مَالَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ۔{ FR 2513 }خواہ بابل کی سرزمین ہویا ارضِ سَدُوم‘ یاملک ِمدین‘ یا حِجر کا علاقہ یا نیل کی وادی۔ خواہ وہ چالیسویں صدی قبل مسیح ہو‘ یا بیسویں یادسویں۔ خواہ وہ غلام قوم ہویا آزاد‘ خستہ ودرماندہ ہویا تمدّنی وسیاسی حیثیت سے بام عروج پر‘ ہر جگہ‘ ہر دور میں‘ ہر قوم میں اﷲ کی طرف سے آنے والے رہنمائوں نے انسان کے سامنے ایک ہی دعوت پیش کی اور وہ یہ تھی کہ ’’اﷲ کی بندگی کرو‘ اس کے سوا کوئی الہ نہیں ہے۔‘‘ حضرت ابراہیمؑ نے اپنی قوم سے صاف کہہ دیا کہ میرے اور تمہارے درمیان کوئی تعاون‘ کوئی اشتراکِ عمل نہیں ہوسکتا‘ جب تک کہ تم اس اصل الاصول کو تسلیم نہیں کرتے۔كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَۃُ وَالْبَغْضَاۗءُ اَبَدًا حَتّٰى تُؤْمِنُوْا بِاللہِ وَحْدَہٗٓ { FR 2579 } الممتحنہ60:4 حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کے پاس جا کر فَاَرْسِلْ مَعِيَ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَo{ FR 2581 } الاعراف 105:7کا مطالبہ کرنے سے پہلے اِنِّىْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِيْنo { FR 2582 } الاعراف104:7کا اعلان کیا‘ اورفَقُلْ ہَلْ لَّكَ اِلٰٓى اَنْ تَـزَكّٰىo وَاَہْدِيَكَ اِلٰى رَبِّكَ فَتَخْشٰىo{ FR 2583 } النازعات 18-19:79کی دعوت دی‘ اور اسے آگاہ کیا کہ تو رب نہیں ہے‘ بلکہ رب وہ ہے‘ جس نے ہر چیز کو پیدا کیا اور جینے کا طریقہ بتایا رَبُّنَا الَّذِيْٓ اَعْطٰي كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَہٗ ثُمَّ ہَدٰىo { FR 2584 } طٰہٰ50:20 حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے‘ جن کی قوم رومیوں کی غلام ہوچکی تھی‘ بنی اسرائیل اور آس پاس کی قوموں کو رومن امپیریل ازم کے خلاف جنگ ِآزادی کے جھنڈے کی طرف دعوت نہ دی بلکہ اس چیز کی طرف دعوت دی کہ اِنَّ اللہَ رَبِّيْ وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْہُ۝۰ۭ ھٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيْمٌo { FR 2585 } آل عمران 51:3 ظاہر ہے‘ کہ یہ واقعات جو قرآن میں بیان کیے گئے ہیں‘ کسی اور دنیا کے نہیں‘ اسی دنیا کے ہیں‘ جس میں ہم رہتے ہیں‘ اور ایسے ہی انسانوں سے تعلق رکھتے ہیں جیسے ہم انسان ہیں۔ یہ نہیں کہا جا سکتاکہ جن ملکوں اور قوموں میں ابنیاء علیہم السّلام آئے‘ ان میں سرے سے کوئی سیاسی‘ معاشی‘ تمدّنی مسئلہ حل طلب تھا ہی نہیں‘ جس کی طرف توجہ کی ضرورت ہوتی۔ پس جب یہ واقعہ ہے‘ کہ اسلامی تحریک کے ہر رہنما نے ہر ملک اور ہر زمانے میں تمام وقتی اور مقامی مسائل کو نظر انداز کر کے اسی ایک مسئلہ کو آگے رکھا اور اسی پر اپنا سارا زور صرف کیا تو اس سے صرف یہی نتیجہ نکالا جا سکتا ہے‘ کہ ان کے نزدیک یہ مسئلہ اُمّ المسائل تھا‘ اور وہ اسی کے حل پر زندگی کے تمام مسائل کا حل موقوف سمجھتے تھے۔
اب یا تو یہ کہہ دیجیے کہ اسلامی تحریک کے وہ رہنما جو خدا کی طرف سے آئے تھے سب کے سب عملی سیاسیات سے نابلد تھے‘ نہ جانتے تھے‘ کہ انسانی زندگی کے معاملات میں کون سی چیز مقدّم اور کون سی موخّر ہونی چاہئے‘ اور انہیں خبر نہ تھی کہ آزادی کے لیے جدوجہد کس طرح کی جاتی ہے‘ اور ملکی معاملات کو حل کرنے کی کیا تدبیر یں ہیں۔ یا پھر یہ تسلیم کیجیے کہ اس دور میں جو حضرات اسلام کے نمائندے اور مسلمانوں کے قائد ورہنما بنے ہوئے ہیں وہ جزئیات شرع پر کتنا ہی عبور رکھتے ہوں۔ بہرحال اسلامی تحریک کے مزاج کو وہ نہیں سمجھتے اور نہیں جانتے کہ اس تحریک کو چلانے اور آگے بڑھانے کا طریقہ کیا ہے۔
تمام مسلمانوں کو جان لینا چاہئے کہ بحیثیت ایک مسلم جماعت ہونے کے ہمارا تعلق اس تحریک سے ہے‘ جس کے رہبر ورہنما انبیا علیہم السّلام تھے۔ ہر تحریک کا ایک خاص نظامِ فکر اور ایک خاص طریق کار ہوتا ہے۔ اسلام کا نظامِ فکر اور طریق کار وہ ہے‘ جو ہم کو ابنیا علیہم السّلام کی سیرتوں میں ملتا ہے۔ ہم خواہ کسی ملک اور کسی زمانہ میں ہوں‘ اور ہمارے گردو پیش زندگی کے مسائل ومعاملات خواہ کسی نوعیت کے ہوں‘ ہمارے لیے مقصد ونصب العین وہی ہے‘ جو انبیا کا تھا‘ اور اس منزل تک پہنچنے کا راستہ وہی ہے‘ جس پر ابنیا ہر زمانے میں چلتے رہے۔ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ ہَدَى اللہُ فَبِہُدٰىہُمُ اقْتَدِہْ۝۰ۭ{ FR 2514 } الانعام 90:6 ہمیں زندگی کے سارے معاملات کو اسی نظر سے دیکھنا چاہئے جس سے انہوں نے دیکھا۔ ہمارا معیار قدر وہی ہونا چاہیے جو ان کا تھا۔ اور ہماری اجتماعی پالیسی انہی خطوط پر قائم ہونی چاہئے‘ جن پر انہوں نے قائم کی تھی۔ اس مسلک کو چھوڑ کر اگر ہم کسی دوسرے مسلک کا نظریہ اور طرزِعمل اختیار کریں گے تو گمراہ ہوجائیںگے۔ یہ بات ہمارے مرتّبہ سے فروتر ہے‘ کہ ہم اس تنگ زاویہ سے معاملات دنیا پر نگاہ ڈالیں‘ جس سے ایک قوم پرست‘ یا ایک جمہوریت پسند‘ یا ایک اشتراکی ان کو دیکھتا ہے۔ جو چیزیں ان کے لیے بلند ترین منتہائے نظر ہیں وہ ہمارے لیے اتنی پست ہیں‘ کہ ادنی التفات کی بھی مستحق نہیں۔ اگر ہم ان کے سے رنگ ڈھنگ اختیار کریں گے‘ انہی کی زبان میں باتیں کریں گے‘ اور انہی گھٹیا درجہ کے مقاصد پر زور دیں گے‘ جن پر وہ فریفتہ ہیں‘ تو اپنی وقعت کو ہم خود ہی خاک میں ملا دیں گے۔ شیر اگر بکری کی سی بولی بولنے لگے‘ اور بُزغالوں{ FR 2515 } کی طرح گھاس پر ٹوٹ پڑے تو اس کے معنی یہ ہیں‘ کہ جنگل کی بادشاہی سے وہ آپ ہی دست بردار ہوگیا۔ اب وہ اس کی توقع کیسے کر سکتا ہے‘ کہ جنگل کے لوگ اس کی وہ حیثیت تسلیم کریں گے‘ جو شیر کی ہونی چاہئے؟یہ تعداد کی بنا پر قومی حکومت کے مطالبے‘ یہ اکثریت واقلیت کے نوحے‘ یہ تحفظات اور حقوق کی چیخ پکار‘ یہ انگریزی سلطنت اور والیانِ ریاست کے ظل عاطفت میں قومی مفاد کے تحفظ کی تدبیریں‘ اور دوسری طرف یہ آزادی وطن کے نعرے اور پنڈت نہرو کے سُروں میں امپیریلزم کی مخالفت یہ سب ہمارے لیے بکری کی بولیاں ہیں۔ یہ بولیاں بول کر ہم خود ایک غلط حیثیت اختیار کرتے ہیں‘ اور اپنی حیثیت اس قدر غلط طور پر دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں‘ کہ دنیا ہمیں بکری ہی سمجھنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ خدا نے ہمیں اس سے بہت اونچا منصب دیا ہے۔ ہمارا منصب یہ ہے‘ کہ ہم کھڑے ہوکر تمام دنیا سے غیر اﷲ کی حاکمیت مٹا دیں اور خدا کے بندوں پر خدا کے سوا کسی کی حاکمیت باقی نہ رہنے دیں۔ یہ شیر کا منصب ہے‘ اور اس منصب کو ادا کرنے کے لیے کسی قسم کی خارجی شرائط درکار نہیں ہیں۔ بلکہ صرف شیر کا دل درکار ہے۔ وہ شیر‘ شیر نہیں ہے‘ جو اگر پنجرے میں بند ہو‘ تو بکری کی طرح ممیانے لگے‘ اور شیر وہ بھی نہیں‘ جو بکریوں کی کثرت تعداد کو دیکھ کر یا بھیڑیوںیا چیرہ دستی دیکھ کر اپنی شیریّت بھول جائے۔ (ترجمان القرآن۔ مئی وجون۱۹۴۰ء)

خ خ خ

شیئر کریں