دنیا میں ہمیشہ دو قسم کے آدمی کام کرتے ہیں۔ ایک وہ جو حالات کو جیسے کہ وہ فی الواقع ہیں‘ جوں کا توں قبول کر لیتے ہیں‘ اور ان کے مطابق کام کرتے ہیں۔ دوسرے وہ جو حالات کو اس نظر سے دیکھتے ہیں‘ کہ انہیں کیا ہونا چاہئے‘ اور اس نقطہ نگاہ سے وہ حاضر الوقت نظام پر تنقید کرتے ہیں۔ پہلا گروہ حال کی گاڑی کو چلاتا ہے‘ اور دوسرا مستقبل کی اصلاح وترقی کے لیے راستہ صاف کرتا ہے۔ ان دونوں گروہوں میں تعاون ضروری ہے‘ مگر ان کے تعاون کی فطری صورت یہی ہے‘ کہ ان میں تصادم ہو۔
’’کیا ہے‘‘پر نظر رکھنے والے ہمیشہ حال پر فریفتہ ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں‘ کہ جو کچھ ہورہا ہے خوب ہورہا ہے۔ اس میں کسی تنقید کی گنجائش نہیں۔ اور بالفرض اگر ہوبھی تو یہ وقت تنقید کا نہیں ہے‘ کیونکہ اس وقت تنقید کی جائے گی‘ تو یہ یہ خرابیاں پیدا ہونگی‘ اور فلاں فلاں مصلحتوں کو ٹھیس لگے گی۔ یہ سب باتیں وہ اس لیے کرتے ہیں‘ کہ ان کی نگاہ وقتی مصالح اور فوری فوائد میں اُلجھی رہتی ہے۔ عاجلہ کی محبت انہیں اتنی فرصت ہی نہیں دیتی کہ آجلہ کی فکر کریں۔ ان کے نقطۂ نظر کو دیکھا جائے‘ تو کوئی وقت بھی تنقید کے لیے موزوں نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ جس وقت جو کچھ بھی ہورہا ہوگا خوب ہی ہورہا ہوگا۔ ہر وقت کچھ نہ کچھ وقتی مصلحتیں ٹھیس کھانے کے لیے موجود ہوں گی۔ ہر وقت ان مصلحتوں کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے وہ یہی کہیں گے کہ ابھی تنقید کا وقت نہیں ہے‘ اور سچ یہ ہے‘ کہ وہ خود کبھی نہ بتا سکیں گے کہ کون سا وقت تنقید کے لیے موزوں ہے۔
لیکن جن کی نظر ’’کیا ہونا چاہئے‘‘پر ہوتی ہے وہ چونکہ حالات کو ایک دوسری نگاہ سے دیکھتے ہیں اس لیے وہ اسی وقت کو تنقید کے لیے موزوں سمجھتے ہیں‘ جو ’’اہلِ حال‘‘ کے نزدیک سخت غیر موزوں ہوتا ہے۔ انہیں اپنا کام پر ستارانِ عاجلہ کی چیخوں اور فریادوں‘ بلکہ گالیوں کے درمیان کرنا پڑتا ہے‘ کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کریں‘ تو اصلاح وترقی ناممکن ہوجائے۔ ظاہر ہے‘ کہ ’’جو کچھ ہورہا ہے خوب ہورہا ہے‘‘ کی ذہنیت عام لوگوں پر مستولی ہوجانے کے بعد کسی اصلاح کی ضرورت محسوس نہیں ہوسکتی۔ خامیوں کا احساس یا تو پیدا ہی نہ ہوگا کہ انہیں دور کرنے کی طرف توجہ ہو‘ یا اگر تھوڑا سا احساس ابھرا بھی تو حال کے شیدائی اسے دبانے کے لیے بیسیوں قسم کی تاویلیں کریں گے‘ تاکہ ان خامیوں کو ناگزیر ثابت کریں‘ اور بس چلے تو خوبیوں میں تبدیل کر دکھائیں۔
’’کیا ہونا چاہئے‘‘کے نقطۂ نظر سے جو تنقید کی جاتی ہے اس کا نتیجہ کبھی یہ نہیں ہوتاکہ حال میں جو کچھ ہورہا ہے‘ وہ یکلخت بند ہوجائے‘ اور اس وقت تک جمودو تعطل کی حالت طاری رہے جب تک کہ وہ مثالی(ideal)حالت رونما نہ ہوجائے جسے مقصود قرار دے کر ناقد تنقید کرتا ہے۔ ایسا نہ کبھی ہوا ہے‘ اور نہ ہوسکتا ہے‘ فطری طور پر تنقید کا اثر ہمیشہ بتدریج ہوا کرتا ہے۔ اوّل اول تو اسے سخت تلخی اور ناگواری کے ساتھ دیکھا جاتا ہے‘ کیونکہ عام طبیعتیں نقد سے مانوس اور نِسیْہ سے نَفور ہوتی ہیں۔ پھر ایک دور شبہات کا گزرتا ہے‘ جس میں صداقت اور نیک نیتی کے سوا ہر ممکن چیز ناقد کی طرف منسوب کی جاتی ہے۔ اس کے بعد اگر فی الواقع تنقید میں کوئی جان ہوتی ہے‘ اور درحقیقت حاضر الوقت نظام میں وہ خامیاں پائی جاتی ہیں‘ جن کی نشان دہی تنقید میں کی گئی ہے‘ اور سننے والوں کا ضمیر بھی راست بازی کے ساتھ اسی معیار کو حق تسلیم کرتا ہے‘ جسے مدّ نظر رکھ کرناقد نے تنقید کی ہے‘ تب کہیں آہستہ آہستہ لوگ اصلاح کی ضرورت محسوس کرنی شروع کرتے ہیں‘ اور جوں جوں اصلاح کے حق میں رائے عام تیار ہوتی جاتی ہے‘ وقت کی قیادت پر دبائو بڑھتا چلا جاتا ہے حتیٰ کہ یا تو پچھلے قائدوں کو اپنی پالیسی بدلنی پڑتی ہے‘ یا پھر تغیّر پذیر حالات کے اقتضاء سے ایک نئی قیادت (leadership)خود بخود نشوو نما پا کر سامنے آجاتی ہے۔ اس عمل کے دوران میں کبھی تاریخ کی رفتار میں خلا یا شگاف پیدا نہیں ہوتاکہ تعطل کی وہ حالت پیش آئے جس کی بھیانک تصویر کھینچ کھینچ کر ’’اہلِ حال‘‘ حضرات اصلاح وترقی کی ہر کوشش کو سم قاتل ثابت کیا کرتے ہیں۔
کسی حالت کو مثال یا آئیڈیل قرار دے کر اس کے لحاظ سے حال پر تنقید کرنے کا مطلب یہ نہیں ہوتاکہ ہم موجودہ حالت سے دفعتہ چھلانگ لگا کر اس مثالی حالت میں پہنچ جانا چاہتے ہیں۔ کوئی صاحبِ عقل آدمی ظاہر ہے‘ کہ ایسے اچانک تغیّر کا تصوّر بھی نہیں کر سکتا۔ کیونکہ تغیّر بہرحال تدریجاً ہی ہوگا۔ مگر کسی صاحب ِعقل آدمی سے شاید یہ توقع بھی نہیں کی جا سکتی کہ وہ جس حاللت کو مثالی حالت قرار دیتا ہواس کے بالکل برعکس حالت کی طرف جانے پر کسی درجہ میں بھی راضی ہوجائے۔ وہ اگر ذوی العقول میں سے ہے‘ تو اس میں کم از کم اس بات کی طلب بلکہ تڑپ ہونی چاہیے کہ حالات کی رفتار اسی منزل کی سمت میں ہو‘ جسے وہ مقصود قرار دے رہا ہے خواہ وہ ابتدائً چند قدم ہی کیوں نہ ہو۔ مثلاً اگر میرا خیال یہ ہے‘ کہ مسلمانوں کے لیے خلافتِ راشدہ کے طرز کی قیادت‘ سیاست اور زندگی مثال کی حیثیت رکھتی ہے‘ تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے‘ کہ اب جو مسلمانوں کا لیڈر ہو‘ وہ فاروق اعظم ؓ سے کم نہ ہو‘ اور اس کے ساتھی سب کے سب علی مرتضیٰ ؓ اور ابوعبیدہ ؓ بن الجراح اور عبدالرحمانؓ ابن عوف کے مثیل ہوں۔ مگر اس کا مطلب یہ بھی نہ ہونا چاہئے کہ میری آخری منزل مقصود تو ہووہ مقام جس پر صحابہ کرامؓ تھے‘ اور اس منزل کی طرف جانے کے لیے میرے رہبر ورہنما ہوں وہ لوگ جو نہ اس راہ سے واقف ہیں‘ نہ اس کی طرف جانے کا ارادہ رکھتے ہیں‘ بلکہ اس کے عین مخالف سمت میں جا رہے ہیں۔
فرض کیجیے کہ میں سطح زمین سے دس ہزار فیٹ کی بلندی پر جانا چاہتا ہوں‘ تو بہرحال میں وہی ذریعہ تلاش کروں گا‘ جو مجھے اوپر کی طرف لے جا سکتا ہو‘ خواہ ابتداً وہ مجھے دس فیٹ سے زیادہ نہ اُٹھائے۔ ایسا ذریعہ مجھے نہ ملے گا‘ تو میں سطح زمین ہی پر قیام کرنا پسند کر لوں گا…… لیکن اگر آپ دیکھیں کہ میں اوپر جانے کے ارادہ سے ایک برقی جھولے میں بیٹھ کر کسی کوئلے کی کان میں اترنا شروع کر دیتا ہوں ‘اور اس راستے سے اس بلندی پر جانا چاہتا ہوں‘ تو کیا آپ کو میرے فاتر العقل ہونے میں ذرا سا شبہ بھی ہوگا؟بالکل اسی طرح آپ کو میرے فتور عقل میں اس وقت بھی شبہ نہ ہونا چاہیے جب آپ دیکھیں کہ میں اسلامی تہذیب کو زندہ کرنے اور فاروقی حکومت کے نصب العین تک پہنچنے کے لیے ان لوگوں کے پیچھے چلا جا رہا ہوں‘ جن کی عملی زندگی میں‘ اور جن کے خیالات‘ نظریات‘ طرز سیاست اور رنگ ِقیادت میں خورد بین لگا کر بھی اسلامیت کی کوئی چھینٹ نہیں دیکھی جا سکتی‘ جن کا حال یہ ہے‘ کہ چھوٹے سے چھوٹے مسائل سے لے کر بڑے سے بڑے مسائل تک کسی معاملہ میں بھی انہیں قرآن کا نقطۂ نظر نہ تو معلوم ہی ہے نہ وہ اسے تلاش کرنے کی ضرورت ہی محسوس کرتے ہیں۔{ FR 2504 } جن کو نور ہدایت صرف مغربی قوانین ودساتیر ہی میں ملتا ہے‘ اسی کی طرف وہ رجوع کرتے ہیں‘ اور اس کے بعد اگر کوئی چیز ان کی نگاہ میں قابلِ لحاظ ہوتی ہے‘ تو محض وقتی سیاست کی مصلحتیں جنہیں وہ خالص مادّہ پر ستانہ نقطۂ نظر سے دیکھتے ہیں۔
منزل مقصود وہ اور راستہ یہ !کون عقل مندیہ مان لے گا کہ اس چیز کو مقصود قرار دینے والا انسان اس راستہ پر قدم رکھنے کا خیال بھی کر سکتا ہے؟
پشت بمنزل چلنے والا تو خیر نادان بن کر چُھوٹ سکتا ہے‘ مگر اس شخص کا معاملہ بڑا ہی عجیب ہے‘ جو اپنے ہی آئیڈیل سے …… جس کو وہ خود آئیڈیل کہتا ہو…… گھبرائے‘ اس کا نام سن کر چیں بہ جبیں ہوجائے‘ اس کو پا مال ہوتے دیکھ کر آفرین ومرحبا کے نعرے بلند کرے‘ اس کی حمایت کرنے والے کا منہ نوچنے کے لیے دوڑے اور ساتھ ہی یہ بھی کہتا جائے کہ آئیڈیل تو میرا وہی ہے۔ یہ آئیڈیل کی ایک بالکل ہی نرالی قسم دریافت ہوئی ہے‘ جس سے ہم اب تک آشنانہ تھے۔ ہمیں تو یہی معلوم تھا‘ کہ آئیڈیل انسان کی محبوب ترین چیز ہوتی ہے۔ اس کا نام سن کر دلوں میں حرارت پیدا ہونے لگتی ہے۔ اگر آدمی اس تک پہنچنے سے عاجز ہوتا ہے‘ تو رنجیدہ اور غم گین ہوتا ہے۔ اگر کسی مجبوری سے اس کے خلاف چلتا ہے‘ تو شرمندہ ہوتا ہے۔ اور اگر کہیں اس غلط روی پر اسے ٹوک دیا جاتا ہے‘ تو اس کی نگاہ شرم کے مارے اُٹھ نہیں سکتی۔ مگر اب ہمارا تعارف اس نئی قسم کے آئیڈیل سے ہوا ہے‘ جو ہے‘ تو آئیڈیل ہی‘ لیکن اس کا نام لیجیے تو چہرے بگڑنے لگتے ہیں‘ اس کی طرف چلنے کے لیے کہیے تو شدّتِ غضب سے تیوریاں چڑھ جاتی ہیں‘ اس کے خلاف چلنے پر ٹوکئے‘ تو شرمندگی کے بجائے کمال دیدہ دلیری وجسارت کے ساتھ تا ویلیں کی جاتی ہیں‘ اس کی حمایت کرنے والے سے بڑھ کر نگاہ میں مبغوض کوئی نہیں ہوتا‘ اور اسے پا مال کرنے والوں سے بڑھ کر محبوب کوئی نہیں ہوتا‘ ……کیسا عجیب ہے یہ آئیڈیل اور کتنے عجیب ہیں اس کے پرستار!
طرفہ تماشایہ ہے‘ کہ کانگریس اور اس کے نیشنل ازم کی مخالفت میں تو اسلام اور اسلامی تہذیب کا نام لیا جاتا ہے‘ اور انہی نعروں کو نعرئہ جنگ بنا کر مسلمانوں کو اجتماع کی دعوت دی جاتی ہے۔ مگر جہاں یہ اسلام اور اس کی تہذیب کا تحفظ کرنے والے جمع ہوتے ہیں وہاں اسی اسلام کے قوانین علانیہ توڑے جاتے ہیں‘ اسی تہذیب کو ذبح کیا جاتا ہے‘ اور ایسا محسوس ہوتا ہے‘ کہ ان لوگوں کی ساری جنگ صرف اس لیے ہے‘ کہ دوسروں کے ہاتھوں اس تہذیب کا جھٹکا نہ ہونے پائے بلکہ یہ خود اپنے ہاتھوں سے اس کو حلال کریں۔
وہاں’’مسلمان‘‘ عورت اسی تبرّج جاہلیت کے ساتھ شمعِ انجمن بنی نظر آتی ہے جس طرح کوئی شریمتی جی یا کوئی میم صاحبہ ہوسکتی ہیں۔ وہاں عین نماز کے وقت جلسے ہوتے رہتے ہیں‘ اور اگر بادل نخواستہ ملتوی کیے بھی جاتے ہیں‘ تو پیشوائوں سے لے کر پیروئوں تک شاذونادر ہی کوئی نماز کے لیے اُٹھتا ہے۔ وہاں لباسوں میں‘ نشست وبرخاست میں‘ دعوتوں اور پارٹیوں میں اسلامی تہذیب کا کہیں نام ونشان تک نظر نہیں آتا اور ایک معمولی مسلمان ان حامیانِ اسلام اور محافظینِ تہذیب اسلامی کی صحبت میں پہنچ کر اپنے آپ کو اتنا ہی اجنبی محسوس کرتا ہے جتنا ہندوئوں اور پارسیوں کی کسی محفل میں کر سکتا ہے۔ وہاں کے مباحث آپ گھنٹوں سنتے رہیں‘ مگر بھولے سے بھی کہیں قرآن وحدیث کا ذکر نہیں آئے گا‘ کسی مسئلے کا حل دریافت کرنے کے لیے اﷲ اور اس کے رسول کی طرف رجوع نہ کیا جائے گا بلکہ قرآن وسنّت کا نقطۂ نظر صریح طور پر ان کے سامنے رکھ دیا جائے تب بھی بلا تکلف اس کے خلاف طرزِعمل اختیار کیا جائے گا۔ان کی کمیٹیوں اور ان کے جلسوں میں آپ مسلمان کا ذکر کبھی اس حیثیت سے نہ سنیں گے کہ اس کا کوئی جماعتی نصب العین بھی ہے‘ وہ دنیا میں کوئی اخلاقی منصب بھی رکھتا ہے‘ اور کوئی الٰہی مشن بھی اس کے سپرد کیا گیا ہے۔ ان باتوں کے بجائے وہاں ساری گفتگو صرف اس حیثیت سے ہوگی کہ مسلمان کے نام سے جو ایک مجموعہ افراد پایا جاتا ہے اس کو دنیوی نقصانات سے کس طرح بچایا جائے‘ اور دنیوی فوائد سے کس طرح متمتع کیا جائے۔ پھر وہ لوگ جو اس طائفہ کے سرخیل ہیں ان کا حال کیا ہے؟ان میں سے اکثر کے گھروں میں آپ جائیے تو آپ کو نماز کے وقت کوئی یہ بتانے والا نہ ملے گا کہ سمت ِقبلہ کدھر ہے‘ اور اسباب عیش وعشرت سے بھری ہوئی کوٹھیوں میں سے ایک جا نماز بھی فراہم نہ ہوسکے گی۔ سارے لیڈروں کو بٹھا کراسلام کے بنیادی اور ابتدائی مسائل کے متعلق امتحان لیجیے تو شاید کوئی صاحب دو فی صدی سے زیادہ نمبر نہ لے سکیں گے‘ الاماشاء اﷲ۔
کیا وہ کلچر جسے کانگریس اور اس کی تحریک ِو طنیت سے بچانے کا دعویٰ کیا جاتا ہے یہی ہے؟اور یہی اس کے تحفظ اور احیا کے ڈھنگ ہیں؟اور انہی طریقوں سے‘ ایسے ہی رہنمائوں کی قیادت میں اس حکومت ِالٰہیہ تک پہنچا جائے گا‘ جسے منتہائے نظر اور نصب العین قرار دیا جاتا ہے؟……یہ سوال اتنا خطر ناک ہے‘ کہ اسے زبان پر لانا اپنی شامت کو خود دعوت دینا ہے۔ آپ کی زبان سے اسلام اور اس کی تہذیب کا ذکر سنتے ہی ہر طرف سے شور برپا ہوگا کہ یہ کیا صدائے بے ہنگام بلند کرنی شروع کر دی؟ آخر اس ذکر کا یہ کون سا موقع تھا؟دیکھتے نہیں کہ ابھی ہم تہذیب کی حفاظت کے لیے جمع ہورہے ہیں۔ بھلا جمع ہونے کے دوران میں بھی کہیں‘ اس کا تحفظ کیا جاتا ہوگا؟
یہی دورنگی اور گندم نمائی وجو فروشی ہے‘ جسے دیکھ کر غیروں کو یہ کہنے کا موقع ملتا ہے‘ کہ اصل سوال محض معاشی وسیاسی ہے‘ اور تہذیب ومذہب کو محض عام مسلمانوں کے جذبات برانگیختہ کرنے کے لیے بہانہ بنا لیا گیا ہے۔ ظاہر ہے‘ کہ ان حرکات کو دیکھ کر کون سمجھے گا کہ اپنے دین اور کلچر کی حمیّت میں واقعی آپ مخلص ہیں؟زبان سے کہیے کہ دل میں درد ہے‘ مگر ہاتھ سے بار بار پیٹ ہی کو بھینچے جائے‘ تو دیکھنے والا یہی خیال کرے گا کہ درد آپ کے پیٹ میں ہے نہ کہ دل میں۔ ایسی ہی باتوں سے ایک قوم کی ہوا اکھڑتی ہے‘ اور دوسری قوموں کے دل سے اس کا رُعب اُٹھ جاتا ہے۔
تفرقہ وانتشار اور بے نظمی کے تلخ نتائج دیکھ کر مسلمانوں میں اجتماع وتنظیم اور مرکزیت کی ضرورت کا احساس تو پیدا ہوا‘ مگر افسوس کہ عقل وخرد کی کمی نے اس مفید احساس کو بھی غلط راستہ پر لگا دیا۔ عام طور پر لوگ اب اس غللط فہمی میں مبتلا ہوتے جا رہے ہیں‘ کہ اجتماع اور تنظیم اور مرکزیت بجائے خود رحمت ہیں‘ لہٰذا جو مرکز سامنے آئے اس کے گرد جمع ہوجائو اور سب مل کر چلو‘ ان شاء اﷲ کہیں نہ کہیں پہنچ ہی جائو گے۔ گویا جس طرح کبھی یہ خبط پیدا ہوا تھا‘ کہ ’’آرٹ محض آرٹ کی خاطر‘‘اور ’’ادب محض ادب کے لیے‘‘ اسی طرح اب یہ ایک نیا خبط پیدا ہورہا ہے‘ کہ ’’اجتماع بس اجتماع کی خاطر‘‘ اور ’’تنظیم محض بغرض تنظیم‘‘ اور ’’مرکزیت صرف مرکزیت کے لیے‘‘۔حالانکہ ان چیزوں کے مفید ہونے کا تمام تر انحصار اجتماع کی روح اور تنظیم کے اصولوں اور مرکز کی نوعیت پر ہے۔ کسی غلط مرکز کے گرد بے مقصد جمع ہوجانا‘ یا غلط مقصد کے لیے جمع ہونا بجائے مفید ہونے کے اُلٹا مضر ہوجاتا ہے۔
مسلمانوں کو خوب اچھی طرح سوچ سمجھ کر سب سے پہلے یہ فیصلہ کرنا چاہئے کہ آخر ان کا مطمع نظر کیا ہے‘ اور وہ کس غرض کے لیے اجتماع اور تنظیم چاہتے ہیں۔
اگر آپ اصلی معنوں میں ایک ایسی مسلم جماعت کی تنظیم چاہتے ہیں‘ جو اسلام اور اس کی تہذیب کا تحفظ کر سکتی ہو‘ اور بالآخر اسلامی حکومت کی منزل تک پہنچ سکتی ہو‘ تو آپ کو جان لینا چاہئے کہ جوصورتِ تنظیم اس وقت بن رہی ہے وہ بالکل غلط ہے۔ اس تنظیم میں جو لوگ سب سے آگے کی صف میں نظر آتے ہیں‘ اسلامی جماعت میں ان کا صحیح مقام سب سے پیچھے کی صف ہے‘ بلکہ بعض تو وہاں بھی برعایت ہی جگہ پا سکتے ہیں۔ اس قسم کے لوگوں کو پیشوا بنانا بالکل ایسا ہی ہے جیسے ریل کے سب سے پچھلے ڈبہ کو انجن کی جگہ لگا دینا۔ جس چڑھائی پر آپ جانا چاہتے ہیں‘ یہ نام نہاد انجن آپ کی گاڑی کو اس کی طرف ایک انچ بھی لے کر نہیں جا سکتا‘ البتہ گاڑی اپنے وزن سے آپ نشیب کی طرف لڑھکے گی‘ اور آپ لوگ کچھ مدّت تک اس غلط فہمی میں مبتلا رہیں گے کہ ماشاء اﷲ ہمارا ’’انجن‘‘ اسے خوب اڑائے لیے جا رہا ہے۔ اس حقیقت کو جتنے جلدی سمجھ لیا جائے اتنا ہی بہتر ہے‘ کیونکہ ہر لمحہ جو گزر رہا ہے‘ وہ آپ کو اوپر کے بجائے نیچے کی طرف لے جا رہا ہے۔ جو لوگ آپ کی تہذیب کو جانتے ہی نہیں وہ اس کا تحفظ کیا کریں گے؟جو اس سے علانیہ بر سر بغاوت ہیں کس طرح اُمید کی جا سکتی ہے‘ کہ ان کے ہاتھوں سے اس کا احیاء اور ارتقاء ہوسکے گا؟وہ اپنی زبان سے کلچر کلچر ضرور پکارتے ہیں‘ لیکن اگر حقیقت میں کلچر ہی کا دردان کے دل میں اُٹھا ہوتا‘ تو یقینا ان کی زندگیاں بدل گئی ہوتیں‘ ان کی ذہنیتیں بدل گئی ہوتیں‘ اور ان کا طرز فکر بدل گیا ہوتا۔ یہ علامت ان کی زندگیوں میں ناپید ہے‘ ادریہ اس بات کاصریح ثبوت ہے‘ کہ اس گروہ میں حقیقی اسلامی جذبہ ہر گز مشتعل نہیں ہوا ہے۔
اور اگر اسلامی نصب العین آپ کے سامنے نہیں ہے‘ بلکہ محض سادہ معنی میں ایک قوم کی حیثیت سے آپ اپنی انفرادیت کا تحفظ چاہتے ہیں‘ اور اپنے اندر نیشنل ازم کی روح پیدا کر کے دوسری قوموں کے ساتھ کامیاب مسابقت کرنا‘ آپ کا آخری مطمع نظر ہے‘ تو بلاشبہ آپ کو اپنے پیشوائوں میں اسلام کا رنگ دیکھنے کی ضرورت نہیں‘ اور مجھے آپ سے کسی بحث کی ضرورت بھی نہیں۔ آپ کا راستہ جدا ہے‘ اور میرا راستہ جدا۔ البتہ وہی بات پھر کہوں گا‘ جو اس سے پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ اپنی اس قوم پرستانہ تحریک کے لیے آپ کو اسلام کا نام استعمال کرنے کا حق نہیں ہے‘ کیونکہ اسلام ہر قسم کی قوم پرستی کا دشمن ہے خواہ وہ ہندستانی قوم پرستی ہویا نام نہاد’’مسلم قوم پرستی‘‘۔
بعض حضرات اس قسم کے غیراسلامی اجتماع اور مرکزیت کے حق میں قرآن وحدیث سے اس طرح استد لال کرتے ہیں‘ کہ گویا یہی وہ ’’جماعت‘‘ ہے‘ جس کے التزام کا حکم دیا گیا ہے‘ اور جس سے الگ ہونے یا الگ رہنے پر جہنم کی وعید سنائی گئی ہے‘ لیکن میں حیران ہوں کہ اسے ناواقفیت کا کرشمہ سمجھا جائے‘ یا خدا اور رسول کے مقابلہ میں جسارت۔ قرآن تو اس مسجد تک میں کھڑے ہونے کی اجازت نہیں دیتا‘ جس کی بنیاد تقویٰ پر نہ ہو۔ اور یہاں تقویٰ کا نام لینے والے خبطی سمجھے جاتے ہیں۔ قرآن کہتا ہے‘ کہ ’’اﷲ کی رسی‘‘کو مضبوط تھامو۔ اور یہاں کہا جا رہا ہے‘ کہ بس لوگوں کا متفق ہوکر کسی رسی کو تھام لینا ہی ذریعہ نجات ہے‘ قطع نظر اس سے کہ وہ اﷲ کی رسی ہویا نہ ہو۔قرآن صاف کہتا ہے‘ کہ:
اِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللہُ وَرَسُوْلُہٗ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوا الَّذِيْنَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَيُؤْتُوْنَ الزَّكٰوۃَ وَہُمْ رٰكِعُوْنَo المائدہ 55:5
مسلمانو! تمہارے حقیقی دوست اور ساتھی صرف اﷲ اور رسول اﷲ اور وہ لوگ ہیں‘ جو ایمان لائے ہیں‘ جو نماز قائم کرتے ہیں‘ اور زکوٰۃ دیتے ہیں‘ اور خدا کے آگے جھکنے والے ہیں۔
بلکہ یہاں تک کہتا ہے‘ کہ:
فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ فَاِخْوَانُكُمْ فِي الدِّيْنِ۰ۭ التوبہ 11:9
پس اگر وہ توبہ کریں‘ اور نماز قائم کریں‘ اور زکوٰۃ دیں تب وہ تمہارے دینی بھائی ہیں۔
مگر یہاں نماز اور زکوٰۃ کی شرط کو محض بے معنی سمجھا جاتا ہے۔ برادری اور ولایت تو درکنار‘ امامت اور سرداری تک کے لیے یہ چیزیں شرط نہیں ہیں۔ بلکہ خدا کی مقرر کی ہوئی ان شرطوں کا نام لے لیجیے تو تیوریوں میں بل پڑ جاتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے‘ کہ احادیث میں التزامِ جماعت اور اطاعت ِامام کے متعلق جو احکام ہیں‘ اور مَنْ شَذَّ شَذَّ فِی النَّارِ { FR 2505 }اور اسی قسم کی جو وعیدیں جماعت اور امام سے الگ ہونے والوں کو سنائی گئی ہیں انہیں کوئی واسطہ ان جماعتوں اور امامتوں سے نہیں ہے‘ جو محض قوم پرستی کے اصولوں پر دنیوی اغراض کے لیے بنی ہوں۔ وہاں تو التزامِ جماعت سے مراد دراصل اس جماعت کا التزام ہے‘ جو دنیوی اغراض سے پاک ہوکر خالصتہً لوجہ اﷲ اسلام کے مشن کی خدمت کے لیے بنی ہو۔ ایسی جماعت سے الگ ہونے کا نتیجہ یقینا نارِجہنم ہے‘ اور ہونا چاہئے۔ مگر ان ہدایات کو دنیوی جتھہ بندی اور سیاسی پارٹیوں کی وفاداری کے لیے دلیل بنانا‘ خدا کے رسول پر بہتان گھڑنا ہے۔ کسی قوم کو کسی دوسری قوم کے مقابلہ میں‘ اگر معاشی یا سیاسی اغراض کے لیے جدوجہد کرنی ہو‘ تو وہ عام قوانین طبیعی کے مطابق اپنا جتھہ بنائے اورقوّت فراہم کرنے کی کوشش کرے۔ اُسے خدا کو بیچ میں لانے کا کیا حق ہے؟دو قوموں کی خالص نفسانی کش مکش میں آخر خدا کو جانبدار بننے کی کیا حاجت پیش آئی ہے‘ کہ ایک کی جتھہ بندی سے الگ ہونے والوں کو تو وہ جہنم کی سزا نہ دے اور دوسری کے جتھے کو تقویت پہنچانے کے لیے وہ ہر اس شخص کے سامنے جہنم پیش کر دے جو اس سے الگ ہویا الگ رہے؟
بعض لوگ اس دھوکے میں مبتلا ہیں‘ کہ مسلمانوں کی اکثریت کا نام ’’سوا داعظم‘‘ ہے‘ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید فرمائی ہے‘ کہ سوادِاعظم کا ساتھ دو‘ لہٰذا مسلمانوں کی اکثریت جس سیاسی پارٹی کی حامی اور جس قیادت کی متبع ہے اس کے ساتھ رہنا ضروری ہے‘ لیکن یہ ارشاد نبویa کی سراسر غلط تعبیر ہے۔ نبی a نے جس سوادِاعظم کے ساتھ رہنے کا حکم دیا ہے اس سے مراد دراصل ان مسلمانوں کی اکثریت ہے‘ جن کے اندر اسلامی شعور موجود ہو‘ جو حق اور باطل کی تمیز رکھتے ہوں ‘اور جن کو اسلام کی روح اور اس کے بنیادی اصولوں سے کم از کم اتنی واقفیت ضرور ہوکہ اسلام اور غیر اسلام میں فرق کر سکتے ہوں۔ ایسے مسلمانوں کی اکثریت کبھی باطل پر مجتمع نہیں ہوسکتی‘ اور اگر وہ کبھی کسی غلط فہمی میں مبتلا ہوبھی جائے‘ تو اس پر زیادہ دیر تک جمی نہیں رہ سکتی۔ اسی بنا ء پر حضورa نے سوادِاعظم کا ساتھ دینے کی تاکید فرمائی۔ مگر جو لوگ ان ضروری صفات سے عاری ہوں ‘اور جن میں کھرے اور کھوٹے کی بالکل ابتدائی پرکھ بھی نہ ہو‘ ان کے ہُلّڑ کا نام ہرگز ’’سوادِاعظم‘‘نہیں ہے۔ نہ ان کی جماعت‘ اسلامی مفہوم کے اعتبار سے ’’جماعت‘‘ہے‘ نہ ان کی امارت‘ اسلامی اصطلاح کی رُو سے ’’امارت‘‘ ہے‘ نہ ان کی اس امارت کو کسی حیثیت سے بھی سمع وطاعت کا حق پہنچتا ہے۔ محض لفظ’’مسلمان‘‘سے دھوکا کھا کر جو لوگ جاہلیت کی پیروی کرنے والوں کی تنظیم کو تنظیم سمجھتے ہیں‘ اور یہ سمجھتے ہیں‘ کہ اس نوعیت کی کوئی تنظیم خالص اسلامی نقطۂ نظر سے مفید ثابت ہوگی ان کی کُند ذہنی ماتم کی مستحق ہے۔
(ترجمان القرآن۔ جنوری۱۹۴۰ء)
خ خ خ