Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دیباچہ
مقدمہ طبع اوّل
تعارف مقصد
تحریک اِسلامی کا تنزل
ضمیمہ
نسلی مسلمانوں کے لیے دوراہیں عمل‘ خواہ انفرادی ہویااجتماعی‘ بہرحال اس کی صحت کے لیے دو چیزیں شرط لازم ہیں:
اقلیت واکثریت
شکایات ناظرین’’ترجمان القرآن‘‘میں سے ایک صاحب لکھتے ہیں:
راہ رَوپِشت بمنزل
اسلام کی دعوت اور مسلمان کا نصب العین
اصلی مسلمانوں کے لیے ایک ہی راہِ عمل
اسلام کی راہِ راست اور اس سے انحراف کی راہیں
۱۔اسلامی نصب العین
۲- اس نصب العین تک پہنچنے کا سیدھا راستہ
۳-مشکلات
۴-انحراف کی راہیں
۵- منحرف راستوں کی غلطی
پاکستانی خیال کے لوگ
۶-مشکلات کا جائزہ
اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے؟
استدراک
ایک صالح جماعت کی ضرورت
مطالبۂ پاکستان کو یہود کے مطالبہ ’’قومی وطن‘‘ سے تشبیہ دینا غلط ہے
مسلم لیگ سے اختلاف کی نوعیت
وقت کے سیاسی مسائل میں جماعت ِاسلامی کا مسلک
نظام کفر کی قانون ساز مجلس میں مسلمانوں کی شرکت کا مسئلہ
مجالس قانون ساز کی رکنیت شرعی نقطۂ نظر سے
پُر امن اِنقلاب کا راستہ
۱۹۴۶ء کے انتخابات اور جماعت ِاسلامی
جواب
تقسیم سے قبل ہندستان کے مسلمانوں کو آخری مشورہ (یہ وہ تقریر ہے‘ جو ۲۶اپریل ۱۹۴۷ء کو جماعت ِاسلامی کے اجلاس منعقدہ مدراس میں کی گئی تھی)
صوبہ سرحد کے ریفرنڈم میں جماعت ِاسلامی کا مسلک
تقسیم ہند‘ حالات پر تبصرہ
تقسیم کے وقت مسلمانوں کی حالت کا جائزہ
تقسیم کے بعد سامنے آنے والے مسائل
کیا پاکستان کو ایک مذہبی ریاست ہونا چاہئے؟
پاکستان میں اسلامی قانون کیوں نہیں نافذ ہوسکتا؟
اسلامی نظامِ زندگی کا مآخذ
پاکستان میں اسلامی قانون کس طرح نافذ ہوسکتا ہے؟
مطالبہ نظام اسلامی

تحریک آزادی ہند اور مسلمان (حصہ دوم)

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

تحریک اِسلامی کا تنزل

دنیا میں جب کوئی تحریک کسی اخلاقی یا اجتماعی یا سیاسی مقصد کو لے کر اُٹھتی ہے‘ تو اس کی طرف وہی لوگ رجوع کرتے ہیں‘ جن کے ذہن کو اس تحریک کے مقاصد اور اس کے اصول اپیل کرتے ہیں‘ جن کی طبیعتیں اس کے مزاج سے مناسبت رکھتی ہیں‘ جن کے دل گواہی دیتے ہیں‘ کہ یہی تحریک صحیح اور معقول ہے‘ اور جو اپنے نفس کی پوری آمادگی کے ساتھ اس کو چلانے اور دنیا میں قائم کرنے کے لیے آگے بڑھتے ہیں۔ ان کے سوا باقی تمام لوگ جن کی طبیعت کی اُفتاد اس تحریک کے مقاصد اور اصولوں سے مختلف ہوتی ہے‘ پہلے ہی اسے قبول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ اس کے دائرے میں آنے والے لائے نہیں جاتے بلکہ خود آتے ہیں۔ انہیں کوئی چیز مجبور کر کے خواہ مخواہ اس میں داخل نہیں کر دیتی‘ نہ کوئی طاقت انہیں لاکر اس میں چھوڑ جاتی ہے‘ جیسے کوئی کسی اندھے کو جنگل میں لے جا کر چھوڑ دے اور اسے کچھ پتہ نہ ہوکہ میں کہاں ہوں ‘اور کس لیے لایا گیا ہوں۔ بلکہ وہ اسے جانچ کر‘ پرکھ کر‘ سمجھ کر‘ پورے شعور اور کامل قصد کے ساتھ آتے ہیں‘ اور جب آجاتے ہیں‘ تو اس کے مقصد کر اپنا مقصد بنا کر کام کرتے ہیں‘ کیونکہ وہی مقصد ان کے دل ودماغ کو اپیل کرتا ہے۔ اس کے اصولوں کو وہ اپنے اصول بنا کر چلتے ہیں‘ کیونکہ ان اصولوں کو صحیح وبرحق سمجھ کر ہی وہ اس تحریک میں شامل ہوتے ہیں۔ ان کے لیے اس تحریک کو چلانا زندگی کا مشن بن جاتا ہے‘ کیونکہ جو چیز ان سے ان کا پچھلا مسلک ومشرب چھڑاتی ہے‘ اور ان کو اس نئے مسلک کی طرف کھینچ کر لاتی ہے وہ دراصل ان کے قلب وروح کا یہ فیصلہ ہوتا ہے‘ کہ یہی مسلک حق اورراست ہے۔ دراصل اس تحریک میں ان پر حق منکشف ہوتا ہے۔ اس کا انکشاف ہی ان کو اس تحریک کی طرف کھینچتا ہے۔ اور انکشاف حق کی خاصیت یہ ہے‘ کہ وہ آدمی کو کبھی اس مقام پر نہیں ٹھیرنے دیتا جہاں وہ انکشاف سے پہلے تھا‘ بلکہ وہ اسے کشاں کشاں اس مقام کی طرف کھینچ لے جاتا ہے جدھر حق کی روشنی اسے نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے‘ کہ جو لوگ کسی تحریک کی صداقت کے معترف ہوکر اسے قبول کرتے ہیں ان کی زندگیوں کا رنگ بدل جاتا ہے وہ پہلے سے بالکل مختلف ہوجاتے ہیں۔ ان سے ایسی باتوں کا ظہور ہوتا ہے‘ جن کی توقع عام حالات میں انسان سے نہیں کی جاتی۔ وہ اپنے اصول کی خاطر دوستیوں اور خونی وقلبی رشتوں تک کو قربان کر دیتے ہیں۔ وہ اپنے کاروبار‘ اپنی پوزیشن‘ اپنے منافع اور اپنی ہر چیز کا نقصان گوارا کرتے ہیں حتیٰ کہ قید وبند کی تکالیف اور موت کے خطرا ت تک سہنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ یہ انقلاب ایسا ہمہ گیر ہوتا ہے‘ کہ ان کی عادات بدل جاتی ہیں ان کے خصائل میں تغیّر آجاتا ہے‘ یہاں تک کہ ان کی شکل‘ صورت‘ لباس‘ خوراک اور عام طرز زندگی پر بھی اس کے اثرات ایسے نمایاں ہوتے ہیں‘ کہ گردو پیش کے لوگوں میں وہ اپنی ہر ادا سے الگ پہچان لیے جاتے ہیں۔ ہر شخص ان کو دیکھ کر کہہ دیتا ہے‘ کہ وہ جارہے ہیں فلاں تحریک کے حامی۔
ہر تحریک کی ابتدایوں ہی ہوتی ہے۔ ایسے ہی لوگوں سے وہ جماعت بنتی ہے‘ جو اسے چلانے کے لیے اُٹھتی ہے۔ اس کے مقاصد اور اس کے اصول خود ہی آدمیوں کی اس بھیڑ میں سے‘ جو دنیا میں چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے‘ اپنے مطلب کے آدمی چھانٹتے ہیں‘ اور صرف انہی لوگوں کو اس تحریک کے دائرے میں لاتے ہیں‘ جنہیں اس سے مناسبت ہوتی ہے۔
اس کے بعد ایک دوسرا دور آتا ہے۔ جو لوگ اس تحریک میں شامل ہوتے ہیں ان کی یہ فطری خواہش ہوتی ہے‘ کہ ان کی اولاد بھی اسی مسلک پر اُٹھے جس کو خود انہوں نے حق پا کر قبول کیا ہے۔ اس غرض کے لیے وہ اپنی نئی نسلوں پر تعلیم‘تربیت‘ گھر کی زندگی اور باہر کے ماحول سے اس قسم کے اثرات ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں‘ کہ ان کے خیالات‘ اخلاق‘ عادات اور خصائل سب کے سب اس مسلک کی روح اور اس کے اصولوں کے مطابق ڈھل جائیں۔ اس میں انہیں ایک حد تک کامیابی ہوتی ہیں‘ مگر بس ایک حد تک ہی ہوتی ہے۔ پوری کامیابی ہونا ممکن نہیں ہے۔ اس میں شک نہیں کہ تعلیم وتربیت اور سوسائٹی کے ماحول اور خاندانی روایات کو طبائع کے ڈھالنے میں بہت کچھ دخل حاصل ہے‘ مگر فطرت‘ دماغ کی ساخت‘ مزاج کی پیدائشی افتاد بھی ایک اہم چیز ہے‘ اور حقیقت میں دیکھا جائے‘ تو بنیادی چیز یہی ہے۔ فطری طور پر دنیا میں ہر قسم کے آدمی‘ ہر مزاج‘ ہر رُجحان‘ ہر ساخت کے آدمی ہمیشہ سے پیدا ہوتے رہے ہیں۔ جس طرح اُس تحریک کے ظہور کے وقت ہر طرح کے آدمی دنیا میں موجود تھے‘ اور اُن سب نے اُس کو قبول نہیں کر لیا تھا‘ بلکہ صرف وہی اس کی طرف کھنچے تھے‘ جو اس سے ذہنی مناسبت رکھتے تھے۔ اسی طرح بعد میں بھی یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ سب لوگ جو اس تحریک کے حامیوں کی نسل سے پیدا ہوں گے‘ انہیں لامحالہ اس تحریک سے مناسبت ہی ہوگی۔ ان میں ابوجہل اور ابولہب بھی ہوں گے۔ عمر ؓ اور خالدؓ بھی ہوں گے۔ اور ابوبکر ؓ بھی ہوں گے۔ جس طرح آزر کے گھر میں ابراہیمعلیہ السلام حنیف پیدا ہوسکتا ہے‘ اسی طرح نوح علیہ السلام کے گھر میں ’’عمل غیر صالح‘‘{ FR 2484 } بھی پیدا ہوسکتا ہے‘ اور ہوا ہے۔ قانونِ فطرت کے مطابق یہ امر لازمی ہے‘ کہ اس سوسائٹی سے باہر بہت سے آدمی ایسے پیدا ہوں‘ جو اپنے مزاج کی افتاد اور اپنی طبیعت کے رُجحان کے لحاظ سے اس کے ساتھ مناسبت رکھتے ہوں ‘اور خود اس کے اندر بہت سے آدمی ایسے پیدا ہوں‘ جو اس کے ساتھ کوئی مناسبت نہ رکھتے ہوں۔ پس یہ ضروری نہیں کہ تعلیم وتربیت کا وہ نظام جو تحریک کے ابتدائی حامی آئندہ نسلوں کے لیے قائم کرتے ہیں وہ ان کی پوری نئی پود کو ان کے مسلک کا حقیقی متبع بنا دے۔
اس خطرے کے سدّ باب اور تحریک کو اس کے بنیادی اصولوں پر بر قرار رکھنے کے لیے دو صورتیں اختیار کی جاتی ہیں:۔
ایک یہ کہ جو لوگ تعلیم وتربیت اور اجتماعی ماحول کی تاثیرات کے باوجود ناکارہ نکلیں‘ تکفیر{ FR 2486 }کے ذریعہ سے ان کو جماعت سے خارج کر دیا جائے‘ اور اس طرح جماعت کو غیر مناسب عناصر سے پاک کیا جاتا رہے۔
دوسرے یہ کہ تبلیغ کے ذریعہ سے جماعت میں ان نئے لوگوں کو بھرتی کا سلسلہ جاری رہے‘ جو کہ رُجحان وذہنیت کے اعتبار سے اس تحریک کے ساتھ مناسبت رکھتے ہوں‘ اور جن کو اس کے اصول ومقاصد اسی طرح اپیل کریں جس طرح ابتدائی پیروئوں کو انہوں نے اپیل کیاتھا۔
یہ اور صرف یہی دو صورتیں ایسی ہیںجو کسی تحریک کو زوال سے اور کسی جماعت یا پارٹی کو انحطاط سے بچا سکتی ہیں۔ لیکن ہوتا یہ ہے‘ کہ رفتہ رفتہ لوگ ان دونوں تدبیروں کی اہمیت سے غافل ہوتے جاتے ہیں۔ جماعت کے باہر سے نئے لوگوں کو اندر لانے کی کوشش کم ہونے لگتی ہے۔ جماعت کی افزائش کے لیے تمام تر نسلی افزائش ہی پر اعتماد کر لیا جاتا ہے۔ اور جو لوگ اس طرح جماعت کے اندر پیدا ہوتے ہیں ان میں سے ناکارہ لوگوں کو خارج کرنے میں بھی خونی رشتوں اور معاشرتی تعلقات اور دنیوی مصلحتوں کی خاطر تساہل برتا جاتا ہے۔طرح طرح کے بہانوں سے جماعتی مسلک میں ایسی گنجائشیں نکالی جاتی ہیں‘ کہ ہر قسم کے رطب ویا بس اس میں سما سکیں۔ اور اس مسلک کو اتنا وسیع کر دیا جاتا ہے‘ کہ سرے سے اس کے سرحدی نشانات اور امتیازی حدود باقی ہی نہیں رہتے‘ یہاں تک کہ بھانت بھانت کے آدمی جماعت کے دائرے میں جمع ہوجاتے ہیں‘ جن کو کسی قسم کی مناسبت اس کے مسلک سے‘ اس کے اصولوں سے اور اس کے مقاصد سے نہیں ہوتی۔
پھر جب جماعت میں اس کے اصولوں سے حقیقی مناسبت رکھنے والے کم اور مناسبت نہ رکھنے والے زیادہ ہوجاتے ہیں‘ تو اجتماعی ماحول اور تعلیم وتربیت کا نظام بھی بگڑنے لگتا ہے۔نتیجہ یہ ہوتا ہے‘ کہ ہر نئی نسل پہلے کی نسل سے بدتر اُٹھتی ہے۔ جماعت کا قدم روز بروز تنزل وانحطاط کی طرف بڑھنے لگتا ہے‘ یہاں تک کہ ایک وقت ایسا آتا ہے‘ کہ اس مسلک کا اور ان اصول ومقاصد کا تصوّر بالکل ہی ناپید ہوجاتا ہے‘ جن پر ابتدا میں وہ جماعت بنی تھی۔ اس مقام پر پہنچ کر حقیقت میں جماعت ختم ہوجاتی ہے‘ اور محض ایک نسلی اور معاشرتی قومیّت اس کی جگہ لے لیتی ہے۔ وہ نام جو ابتدا میں ایک تحریک کے علم برداروں کے لیے بولا جاتا تھا‘ اس کو وہ لوگ استعمال کر نے لگتے ہیں‘ جو اس تحریک کو مٹانے والے اور اس کے جھنڈے کو سرنگوں کرنے والے ہوتے ہیں۔ وہ نام جو ایک مقصد اور ایک اصول کے ساتھ وابستہ تھا‘ وہ باپ سے بیٹے کو ورثہ میں ملنے لگتا ہے بلالحاظ اس کے کہ صاحبزادے کی زندگی کے اصول اور مقاصد اس نام سے کوئی مناسبت بھی رکھتے ہیں‘ یا نہیں۔ درحقیقت ان لوگوں کے ہاتھ میں پہنچ کر وہ نام اپنی معنویت (significance) کھو دیتا ہے۔ وہ خود بھول جاتے ہیںاور دنیا بھی بھول جاتی ہے‘ کہ یہ نام کسی مقصد‘ کسی مسلک‘ کسی اصول کے ساتھ وابستہ ہے‘ بے معنی ومفہوم نہیں ہے۔
اسلام اس وقت اسی آخری مرحلے پر پہنچ چکا ہے۔ مسلمان کے نام سے جو قوم اس وقت موجود ہے وہ خود بھی اس حقیقت کو بھول گئی ہے‘ اور اس کے طرزِعمل نے دنیا کو بھی یہ بات بھلا دی ہے‘ کہ اسلام اصل میں ایک تحریک کا نام ہے‘ جو دنیا میں ایک مقصد اور کچھ اصول لے کر اُٹھی تھی‘ اور مسلمان کا لفظ اس جماعت کے لیے وضع کیا گیا تھا‘ جو اس تحریک کی پیروی اور اس کی علم برداری کے لیے بنائی گئی تھی۔ تحریک گم ہوگئی۔ اس کا مقصد فراموش کر دیا گیا۔ اس کے اصولوں کو ایک ایک کر کے توڑا گیا۔ اور اس کا نام اپنی تمام معنویت کھو دینے کے بعد اب محض ایک نسلی ومعاشرتی قومیّت کے نام کی حیثیت سے استعمال کیا جا رہا ہے‘ حدیہ ہے‘ کہ اسے ان مواقع پر بھی بے تکلف استعمال کیا جاتا ہے ‘جہاں اسلام کا مقصد پامال ہوتا ہے‘ جہاں اس کے اصول توڑے جاتے ہیں‘ جہاں اسلام کے بجائے غیر اسلام ہوتا ہے۔
بازاروں میں جائیے۔’’مسلمان رنڈیاں‘‘ آپ کو کوٹھوں پر بیٹھی نظر آئیں گی‘ اور ’’مسلمان زانی‘‘ گشت لگاتے ملیں گے۔ جیل خانوں کا معائنہ کیجئے۔’’مسلمان چوروں‘ ‘‘ مسلمان ڈاکوئوں‘‘ اور ’’مسلمان بدمعاشوں‘‘ سے آپ کا تعارف ہوگا۔ دفتروں اور عدالتوں کے چکر لگائیے۔ رشوت خوری‘ جھوٹی شہادت‘ جعل‘ فریب‘ ظلم اور ہر قسم کے اخلاقی جرائم کے ساتھ آپ لفظ’’مسلمان‘‘ کا جوڑ لگا ہوا پائیں گے۔ سوسائٹی میں پھریے۔ کہیں آپ کی ملاقات ’’مسلمان شرابیوں‘‘ سے ہوگی۔کہیں آپ کو ’’مسلمان قمارباز‘‘ ملیں گے کہیں ’’مسلمان سازندوں‘‘ اور ’’مسلمان گوّیوں‘‘ اور ’’مسلمان بھانڈوں‘‘ سے آپ دو چار ہوں گے۔ بھلا غور تو کیجیے‘ یہ لفظ ’’مسلمان‘‘ کتنا ذلیل کر دیا گیا ہے‘ اور کن کن صفات کے ساتھ جمع ہورہا ہے۔ مسلمان اور زانی!مسلمان اور شرابی! مسلمان اور قمار باز! مسلمان اور رشوت خور! اگر وہ سب کچھ جو ایک کافر کر سکتا ہے وہی ایک مسلمان بھی کرنے لگے تو پھر مسلمان کے وجود کی دنیا میں حاجت ہی کیا ہے؟ اسلام تو نام ہی اس تحریک کا تھا‘ جو دنیا سے ساری بداخلاقیوں کو مٹانے کے لیے اُٹھی تھی۔ اس نے تو مسلمان کے نام سے ان چیدہ آدمیوں کی جماعت بنائی تھی جو خود بلند ترین اخلاق کے حامل ہوں ‘اور اصلاح اخلاق کے علمبر دار بنیں۔ اس نے اپنی جماعت میں ہاتھ کاٹنے کی‘ پتھر مار مار کر ہلاک کر دینے کی‘ کوڑے برسا برسا کر کھال اڑا دینے کی‘ حتیٰ کہ سولی پر چڑھا دینے کی ہولناک سزائیں اس لیے تو مقرر کی تھیں کہ جو جماعت دنیا سے زنا کو مٹانے اُٹھی ہے خود اس میں کوئی زانی نہ پایاجائے‘ جس کا کام شراب کا استیصال ہے وہ خود شراب خوروں کے وجود سے خالی ہو‘ جسے چوری اور ڈاکہ کا خاتمہ کرنا ہے خود اس میں کوئی چور اور ڈاکو نہ ہو۔ اس کا تو مقصد ہی یہ تھا‘ کہ جنہیں دنیا کی اصلاح کرنی ہے وہ دنیا بھر سے زیادہ نیک سیرت‘ عالی مرتّبہ اور باوقار لوگ ہوں۔اسی لیے قمار بازی‘ جعل سازی‘ اور رشوت خوری تو درکنار‘ اس نے تو اتنا بھی گورارانہ کیا کہ کوئی مسلمان سازندہ اور گوّیا ہو‘ کیونکہ مصلحینِ اخلاق کے مرتّبہ سے یہ بھی گری ہوئی چیز ہے‘ جس اسلام نے ایسی سخت قیود اور اتنے شدید ڈسپلن کے ساتھ اپنی تحریک اُٹھائی تھی‘ اور جس نے اپنی جماعت میں چھانٹ چھانٹ کر بلند ترین کیرکٹر کے آدمیوں کو بھرتی کیا تھا اس کی رسوائی اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتی ہے‘ کہ رنڈی اور بھڑوے اور چور اور زانی تک کے ساتھ لفظ’’مسلمان‘‘ کا جوڑ لگ جائے۔ کیا اس قدر ذلیل اور رسوا ہوجانے کے بعد بھی ’’اسلام‘‘ اور ’’مسلمان‘‘ کی یہ وقعت باقی رہ سکتی ہے‘ کہ سر اس کے آگے عقیدت سے جھک جائیں‘ اور آنکھیں اس کے لیے فرشِ راہ بنیں؟ جو شخص بازار بازار اور گلی گلی خوار ہورہا ہوکیا کبھی اس کے لیے بھی آپ نے کسی کو ادب سے کھڑے ہوتے دیکھا ہے؟
یہ تو بہت ذلیل طبقہ کی مثال تھی۔ اس سے اونچے تعلیم یافتہ طبقہ کی حالت اور بھی زیادہ افسوس ناک ہے۔ یہاں یہ سمجھا جاتا ہے‘ کہ اسلام ایک نسلی قومیّت کا نام ہے‘ اور جو شخص مسلمان ماں باپ کے ہاں پیدا ہوا ہے وہ بہرحال مسلمان ہے خواہ عقیدہ مسلک اور طرزِزندگی کے اعتبار سے وہ اسلام کے ساتھ کوئی دور کی مناسبت بھی نہ رکھتا ہو۔ سوسائٹی میں آپ چلیں پھریں تو آپ کو ہر جگہ عجیب وغریب قسم کے ’’مسلمانوں‘‘ سے سابقہ پیش آئے گا۔ کہیں کوئی صاحب علانیہ خدا اور رسول a کا مذاق اڑا رہے ہیں‘ اور اسلام پر پھبتیاں کس رہے ہیں‘ مگر ہیں‘ پھر بھی ’’مسلمان‘‘ ہی۔ ایک دوسرے صاحب خدا اور رسالت اور آخرت کے قطعی منکر ہیں‘ اور کسی مادّہ پر ستانہ مسلک پر پورا ایمان رکھتے ہیں‘ مگر ان کے ’’مسلمان‘‘ ہونے میں کوئی فرق نہیں آتا۔ ایک تیسرے صاحب سو دکھاتے ہیں‘ اور زکوٰۃ کا نام تک نہیں لیتے‘ مگر ہیں یہ بھی ’’مسلمان‘‘۔ ایک اور بزرگ بیوی اور بیٹی کو میم صاحبہ یا شریمتی جی بنائے ہوئے سینما لیے جا رہے ہیں‘ یا کسی رقص وسرود کی محفل میں صاحب زادی سے وایولین بجوا رہے ہیں‘ مگر آپ کے ساتھ بھی لفظ’’مسلمان‘‘ بدستور چپکا ہوا ہے۔ ایک دوسری ذاتِ شریف نماز‘ روزہ‘ حج‘ زکوٰۃ تمام فرائض سے مستثنیٰ ہیں‘ شراب‘ زِنا‘ رشوت‘ جُوّا اور ایسی سب چیزیں ان کے لیے جائز ہوچکی ہیں۔ حلال اور حرام کی تمیز سے نہ صرف خالی الذہن ہیں‘ بلکہ اپنی زندگی کے کسی معاملہ میں بھی ان کو یہ معلوم کرنے کی پروا نہیں ہوتی کہ خدا کا قانون اس بارے میں کیا کہتا ہے۔ خیالات‘ اقوال اور اعمال میں ان کے اور ایک کا فر اور مشرک کے درمیان کوئی فرق نہیں پایا جاتا۔ مگر ان کا شمار بھی ’’مسلمانوں‘‘ ہی میں ہوتا ہے۔ غرض اس نام نہاد مسلم سوسائٹی کا جائزہ لیں گے تو اس میں آپ کو بھانت بھانت کا ’’مسلمان‘‘ نظر آئے گا۔ مسلمان کی اتنی قسمیں ملیں گی کہ آپ شمار نہ کر سکیں گے۔ یہ ایک چڑیا گھر ہے‘ جس میں چیل‘ کوّے‘ گدھ‘ بٹیر‘ تیتر اور ہزاروں قسم کے جانور جمع ہیں‘ اور ان میں سے ہر ایک ’’چڑیا‘‘ ہے‘ کیونکہ چڑیا گھر میں ہے۔
پھر لطف یہ ہے‘ کہ یہ لوگ اسلام سے انحراف کرنے ہی پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ ان کا نظریہ اب یہ ہوگیا ہے‘ کہ ’’مسلمان‘‘ جو کچھ بھی کرے‘ وہ ’’اسلامی‘‘ ہے‘ حتیٰ کہ اگر وہ اسلام سے بغاوت بھی کرے تو وہ اسلامی بغاوت ہے۔یہ بنک کھولیں تو اس کا نام ’’اسلامی بنک‘‘ ہوگا۔ یہ انشورنس کمپنی قائم کریں‘ تو وہ ’’اسلامی انشورنس کمپنی‘‘ ہوگی۔ یہ جاہلیت کی تعلیم کا ادارہ کھولیں تو وہ ’’مسلم یونی ورسٹی‘‘‘ ’’اسلامیہ کالج‘‘ یا ’’اسلامیہ اسکول‘‘ ہوگا۔ ان کی کافرانہ ریاست کو ’’اسلامی ریاست‘‘ کے نام سے موسوم کیا جائے گا۔ ان کے فرعون اور نمرود’’اسلامی بادشاہ‘‘ کے نام سے یاد کئے جائیں گے۔ ان کی جاہلانہ زندگی ’’اسلامی تہذیب وتمدّن‘‘ قرار دی جائے گی۔ ان کی موسیقی‘ مصوری اور بت تراشی کو ’’اسلامی آرٹ‘‘ کے معزز لقب سے ملقب کیا جائے گا۔ ان کے زندقے اور اوہامِ لاطائل کو ’’اسلامی فلسفہ‘‘ کہا جائے گا۔ حتیٰ کہ یہ سوشلسٹ بھی ہوجائیں گے‘ تو ’’مسلم سوشلسٹ‘‘ کے نام سے پکارے جائیںگے۔ ان سارے ناموں سے آپ اشنا ہوچکے ہیں۔ اب صرف اتنی کسر باقی ہے‘ کہ ’’اسلامی شراب خانے‘‘‘ ’’اسلامی قحبہ خانے‘‘ اور ’’اسلامی قمار خانے‘‘جیسی اصطلاحوں سے بھی آپ کا تعارف شروع ہوجائے۔ مسلمانوں کے اس طرزِعمل نے اسلام کے لفظ کو اتنا بے معنی کر دیا ہے‘ کہ ایک کافرانہ چیز کو ’’اسلامی کفر‘‘ یا ’’اسلامی معصیت‘‘کے نام سے موسوم کرنے میں اب کسی کو تَنَاقض فی الاصطلاح (contradiction in terms)کا شبہ تک نہیں ہوتا۔ حالانکہ اگر کسی دکان پر آپ ’’سبزی خوروں کی دکان گوشت‘‘‘ یا ’’ولائتی سو دیشی بھنڈار‘‘ کا بورڈ لگا دیکھیں یا کسی عمارت کا نام ’’موحدین کا بت خانہ‘‘ سنیں تو شاید آپ سے ہنسی ضبط نہ ہوسکے گی۔
جب افراد کی ذہنیتوں کا یہ حال ہے‘ تو قومی مقاصد اور قومی پالیسی کا اس تناقض سے متاثر نہ ہونا امرِ محال ہے۔ آج مسلمانوں کے اخباروں اور رسالوں میں‘ مسلمانوں کے جلسوں اور انجمنوں میں‘ مسلمان پڑھے لکھے طبقہ میں آپ ہر طرف کس چیز کی پکار سنتے ہیں؟ بس یہی ناکہ سرکاری ملازمتوں میں ہمیں جگہیں ملیں۔ غیر الٰہی نظامِ حکومت کو چلانے کے لیے جس قدر پرزے درکار ہیں ان میں سے کم از کم اتنے پرزے ہم پر مشتمل ہوں۔ شریعت ساز مجلسوں (legislatures)کی نشستوں میں کم از کم اتنا تناسب ہمارا ہو۔وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ { FR 2487 }میں کم سے کم اتنے فی صد ہم بھی ہوں۔وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ الطَّاغُوْتِ { FR 2488 }میں غالب حصّہ ہمارا ہی رہے۔ اسی کی ساری چیخ پکار ہے۔ اسی کا نام اسلامی مفاد ہے۔اسی محور پر مسلمانوں کی قومی سیاست گھوم رہی ہے۔ یہی گروہ عملاً اس وقت مسلم قوم کی پالیسی کو کنٹرول کر رہا ہے۔ حالانکہ ان چیزوں کو نہ صرف یہ کہ اسلام سے کوئی تعلق نہیں‘ بلکہ یہ اس کی عین ضد ہیں۔ غور کرنے کا مقام ہے‘ کہ اگر اسلام ایک تحریک کی حیثیت سے زندہ ہوتا‘ تو کیا اس کا نقطۂ نظر یہی ہوتا؟ کیا کوئی اجتماعی اصلاح کی تحریک اور کوئی ایسی جماعت جو خود اپنے اصول پر دنیا میں حکومت قائم کرنے کا داعیہ رکھتی ہوکسی دوسرے اصول کی حکومت میں اپنے پیروئوں کو کل پرزے بننے کی اجازت دیتی ہے؟کیا کبھی آپ نے سنا ہے‘ کہ اشتراکیوں نے بینک آف انگلینڈ کے نظام میں اشترا کی مفاد کا سوال اُٹھایا ہو؟ یا فاشسٹ گرانڈ کونسل میں اپنی نمائندگی کے مسئلہ پر اشترا کیت کی بقاء وفنا کا انحصار رکھا ہو؟ اگر آج روسی کمیونسٹ پارٹی کا کوئی ممبر نازی حکومت کا وفادار خادم بن جائے‘ تو کیا آپ توقع کرتے ہیں‘ کہ ایک لمحہ کے لیے بھی اسے پارٹی میں رہنے دیا جائے گا؟ اور اگر کہیں وہ نازی آرمی میں داخل ہوکر نازیت کو سر بلند کرنے کی کوشش کرے تو کیا آپ اس کی جان کی سلامتی کی بھی اُمید کر سکتے ہیں؟ مگر یہاں آپ کیا دیکھ رہے ہیں؟اسلام جس روٹی کو زبان پر رکھنے کی اجازت بھی شاید انتہائی اضطرار کی حالت میں دیتا‘ اور جس کو حلق سے اتارنے کے لیے غَيْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ{ FR 2489 } کی شرط لگاتا‘ اور پھر تاکید کرتاکہ جس طرح سخت بھوک کی حالت میں جان بچانے کے لیے سور کھایا جا سکتا ہے اسی طرح بس یہ روٹی بھی بقدر سدِّر مق کھا لو‘ یہاں اس روٹی کو نہ صرف یہ کہہ ہَنِيْۗـــــًٔـا مَّرِيْۗــــــًٔـاo { FR 2490 } کر کے پوررے انبساط کے ساتھ کھایا جاتا ہے‘ بلکہ اسی پر کفر اور اسلام کے معرکے سر ہوتے ہیں‘ اور اسی کو اسلامی مفاد کا مرکزی نقطہ قرار دیا جاتا ہے! اس کے بعد تعجب نہ کیجئے اگر ایک اخلاقی واجتماعی مسلک کی حیثیت سے اسلام کے دعوائے حکمرانی کو سن کر دنیا مذاق اڑانے لگے‘ کیونکہ اسلام کی نمائندگی کرنے والوں نے خود اس کے وقار کو اور اس کے دعوے کو اپنے معبودِ شکم کے چرنوں میں بھینٹ چڑھا دیا ہے۔
اور دیکھئے۔ آپ کے ہاں ایک صاحب بڑے طنطنہ کے ساتھ ایک فوجی تحریک لے کر اُٹھتے ہیں‘ اور دعوے کرتے ہیں‘ کہ تمہاری شوکتِ رفتہ کو پھر تازہ کردوں گا ‘اور تمہیں زمین میں غلبہ دلوا کر چھوڑوں گا۔ آپ کے ہزاروں نہیں‘ لاکھوں آدمی ان کی طرف دوڑتے ہیں۔ لاکھوں ان سے فلاح وکامرانی کی آس لگاتے ہیں۔ آپ کا پریس اِدھر سے اُدھر تک ان کی حمایت کرتا ہے‘ اور دیکھتے دیکھتے یہ صاحب اسلام کے سپہ سالار اور ملّت کے امیرِ مُطاع بن جاتے ہیں۔ مگر آپ میں سے بہت کم لوگوں کو یہ خیال آتا ہے‘ کہ ان کے عقائد‘ ان کے فہمِ قرآن‘ ان کے اخلاق‘ ان کی گفتار‘ ان کے اعمال‘ اور ان کے طریق کار کا بھی جائزہ لے کر دیکھیں۔ ایک شخص اسلامی اصطلاحات کے پردے میں میکیا ویلی‘ ڈارون‘ ارنسٹ ھیگل اور کارل پیرسن جیسے لوگوں کے نظریات پیش کرتا ہے‘ قانونِ طبعی اور قانونِ شرعی کو خلط ملط کر کے اسلام کی جڑ بنیاد تک اُکھاڑ پھینکتا ہے‘ ایمان‘ اسلام‘ تقویٰ‘ عبادت‘ توحید‘ رسالت‘ جہاد‘ ہجرت‘ اطاعتِ امر‘ جماعت‘ سب کے مفہوم بدل کر رکھ دیتا ہے‘ اور تم زہر کے یہ سارے گھونٹ محض اس لالچ میں حلق سے نیچے اُتار جاتے ہوکہ ’’یہ مسلم قوم‘‘ کی عسکری تنظیم تو کر ہی دے گا۔ ایک شخص علانیہ جھوٹ بولتا ہے‘ جھوٹ پر اپنی تحریک کی پوری عمارت کھڑی کرتا ہے‘ غیر مسلموں تک کے سامنے اپنے کذب ودروغ سے اسلام اور مسلمانوں کو رُسوا کرتا ہے‘ اپنی بدزبانی اور لاف زنی سے مسلمانوں کے قومی اخلاق کی خوب تذلیل وتضحیک کراتا ہے‘ غیر مسلموں کے مقابلہ پر آکر پہلی ضرب کھاتے ہی معافی مانگتا ہے‘ پھر اپنے وقار کو بچانے کے لیے علیٰ الاعلان جھوٹ بولتا ہے‘ کہ میں نے معافی نہیں مانگی‘ اور پھر لاف زنی کرتا ہوا وہیں لڑنے پہنچ جاتا ہے ‘جہاں اس نے واپس نہ جانے کا عہد کیا تھا۔ تم یہ سب کچھ دیکھتے ہو‘ اور اس کے باوجود اس کے پیچھے لگے رہتے ہو‘ محض اس اُمید پر کہ یہ ہمیں دنیوی کامرانیوں سے ہمکنار تو کر دے گا۔ ایک شخص کی تحریر وتقریر اور ایک ایک حرکت سے دنائت‘ سِفْلہ پن اور بازاریت ٹپکی پڑتی ہے‘ تقویٰ‘ صداقت‘ اور وقار کا نام ونشان تک نظر نہیں آتا‘ اور تم اس کی امارت تسلیم کرنے میں ذراتا مل نہیں کرتے۔ حدیہ ہے‘ کہ وہ پچاس ہزار مسلمانوں کی جانیں غیر الٰہی حکومت کے لیے بار بار پیش کرتا ہے‘ اور اس خدمت گزاری کا فائدہ تمہیں یہ بتاتا ہے‘ کہ اس بہانے تم کو عسکری ٹریننگ مل جائے گی‘ اور تمہاری فوجی پوزیشن مضبوط ہوجائے گی۔ تم اس ذلیل تدبیر کی خوراک بھی حلق سے اتار لیتے ہو‘ اور خوش ہوتے ہوکہ ہمیں ایک فوجی تنظیم کرنے والا میر تو مل گیا۔{ FR 2491 } یہ سب باتیں بتا رہی ہیں‘ کہ تمہارا معیار اخلاق وانسانیت کس قدر گر گیا ہے۔ تم جس اسلام کی نمائندگی کا دعویٰ کرتے ہووہ دنیا میں یہ اصول قائم کرنے آیا تھا‘ کہ انسان کا مقصد ہی صرف پاک نہ ہونا چاہئے بلکہ اس کو حاصل کرنے کے ذرائع بھی پاک ہونے چاہئیں۔ مگر تمہارا حال یہ ہے‘ کہ جس ذریعہ سے بھی تم کو کامیابی کے حصول کی اُمید نظر آتی ہے‘ خواہ وہ کتنا ہی ناپاک اور ذلیل ذریعہ کیوں نہ ہو‘ تم دوڑ کر اسے دانتوں سے پکڑ لیتے ہو‘ اور جو تمہیں اس سے روکنا چاہئے اُلٹا اسی کو پھاڑ کھانے پر آمادہ ہوجاتے ہو۔ ذرائع کی پاک ونا پاکی سے قطع نظر کر کے محض کامیابی کو مقصود بالذّات بنانا تو دہریوں اور کافروں کا شیوہ ہے۔ اگر مسلمان نے بھی یہی کام کیا تو اس کی خصوصیت کیا باقی رہی؟ بلکہ یہ طریقہ اختیار کرنے کے بعد دوسری جاہل قوموں سے الگ ’’مسلمان‘‘ کے جدا گانہ وجود کے لیے کون سی وجہ جواز رہ جاتی ہے؟
اور اوپر چلیے‘ آپ کی سب سے بڑی قومی مجلس‘ مسلم لیگ‘ جس کو نوکروڑ مسلمانوں کی نمائندگی کا دعویٰ ہے‘ ذرا اس کو دیکھئے کہ اس وقت وہ کس روش پر چل رہی ہے‘ موجودہ{ FR 2492 }جنگ کے آغاز میں اس نے اپنی جس پالیسی کا اعلان کیا اور پھر وائسرائے کے اعلان پر جس رائے کا اظہار کیا‘ اس کو پڑھیئے اور بار بار پڑھیئے۔{ FR 2493 } اگر آپ ایک اصول پرست جماعت کے طرزِعمل اور ایک ایسی جماعت کے طرزِعمل میں جو محض اپنی قوم کی سیاسی اغراض کی خدمت کے لیے بنی ہو‘ فرق وامتیاز کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں‘ تو اوّل نظر میں آپ کو محسوس ہوجائے گا‘ کہ جنگ کے موقع پر جو پالیسی لیگ نے اختیار کی ہے وہ اصول پرستی کے ہر نشان سے خالی ہے۔ اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ درحقیقت یہی پالیسی مسلمانوں کے ذہن کی ترجمانی کرتی ہے‘ تو اس کے آئینے میں صاحب ِنظر آدمی دیکھ سکتا ہے‘ کہ ان نام کے مسلمانوں پر پوری اخلاقی موت وارد ہوچکی ہے۔ مقامی طور پر ہندستان میں مسلمانوں کی جو سیاسی پوزیشن اس وقت ہے اس پوزیشن میں اگر دنیا کی کوئی اور قوم ہوتی تو اس کی لیگ بھی ایسی ہی پالیسی اختیار کرتی اور قریب قریب انہی الفاظ میں اپنا ریزولیوشن مرتّب کرتی۔ آپ مسلم کے بجائے سکھ‘ پارسی‘ جرمن‘ اٹالین‘ جو نام چاہیں رکھ سکتے ہیں۔ یہی سیاسی موقف اور یہی مقامی حالات اس کے ساتھ وابستہ کر دیجئے اور پھر بڑی آسانی کے ساتھ آپ اس ریزو لیوشن کو ان میں سے ہر قوم کی طرف منسوب کر سکتے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ مسلمان اب اسی سطح تک گر گیا ہے جس سطح پر دنیا کی تمام قومیں ہیں۔ ایک موقع ومحل پر دنیا کی کوئی کا فرو مشرک قوم جو طرزِعمل اختیار کر سکتی ہے وہی مسلمان بھی اختیار کر رہا ہے۔ وہ بھول گیا ہے‘ کہ میں اوّلاً اور بالذّات ایک اخلاقی اصول کا نمائندہ اور وکیل ہوں‘ اسی حیثیت سے میرا نام مسلمان ہے‘ میرا کام سب سے پہلے ایک معاملہ کے اخلاقی پہلو کو دیکھنا ہے‘ اور میری مسلمان ہونے کی حیثیت کا تقاضا یہ ہے‘ کہ اسی پہلو پر اپنے فیصلہ کا مدار رکھوں۔ اگر میں نے بھی صرف یہی دیکھا کہ پیش آمدہ معاملہ خود مجھ پر اور میری قوم پر کیا اثر ڈالتا ہے‘ اور یہ کہ میں اس صورت حال میں اپنے لیے کس طرح فائدہ حاصل کر سکتا ہوں‘ تو پھر ’’مسلمان‘‘ کے نام سے میرے الگ وجود کی کوئی وجہ باقی ہی نہیں رہتی۔ ایسا طرزِعمل تو اگر میں نامسلمان ہوتا‘ اور کسی آسمانی کتاب کی ہوا بھی مجھے نہ لگی ہوتی تب بھی میں اختیار کر سکتا تھا۔
میں اس معاملہ کو ہندستانی وطن پرست کے نقطۂ نظر سے نہیں دیکھتا۔ مجھے اس سے بھی کوئی بحث نہیں کہ سیاسی حیثیت سے مسلم لیگ کی یہ پالیسی مسلمان نام کی اس قوم کے لیے‘ جو ہندستان میں بستی ہے مفید ہوگی یا مُضر۔ میرے لیے جو سوال اہمیت رکھتا ہے وہ صرف یہ ہے‘ کہ جو قوم اس وقت مسلمان کے نام سے پکارے جانے کے باعث دنیا میں اسلام کی نمائندہ سمجھی جاتی ہے‘ اس کی سب سے بڑی مجلس نے دنیا کے سامنے اسلام کو کس رنگ میں پیش کیا ہے؟ اس نقطۂ نظر سے جب میں مسلم لیگ کے ریزو لیوشن کو دیکھتا ہوں‘ تو میری روح بے اختیار ماتم کرنے لگتی ہے۔{ FR 2494 } ان لوگوں کو ایک موقع اور نادر موقع ملا تھا‘ کہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے دنیا کی ساری قوموں پر اپنے اخلاقی مرتّبہ کی برتری کا سکّہ جما دیتے۔ ان کو ایک بیش قیمت موقع ملا تھا اس حقیقت کے اظہار کا کہ ہم ایک اخلاقی اصول کے پیرو کار ہیں‘ اور وہ اخلاقی اصولِ حق اور عدل کی پاک ترین روح کا حامل ہے‘ اور دنیا میں صرف ہماری جماعت ہی وہ ایک جماعت ہے‘ جو شخصی یا قومی نفع ونقصان کے تصوّرات سے بالاتر ہوکر مجرد اخلاق کی بنیاد پر کام کرتی ہے۔ اگر لیگ کے رہنمائوں میں اسلامی حِس کا شائبہ بھی موجود ہوتا‘ تو وہ اس موقع کو ہاتھ سے جانے نہ دیتے۔ اور اس کا جو گہرا اخلاقی اثر مرتّب ہوتا‘ اس کی قدرو قیمت کے مقابلہ میں کوئی نقصان جو ایسا طرزِعمل اختیار کرنے کی وجہ سے حاصل ہونے کی توقع ہے‘ قطعاً کوئی وقعت نہیں رکھتا۔ مگر افسوس کہ لیگ کے قائد اعظم سے لے کر چھوٹے مقتدیوں تک ایک بھی ایسا نہیں‘ جو اسلامی ذہنیت اور اسلامی طرز فکر رکھتا ہو‘ اور معاملات کو اسلامی نقطۂ نظر سے دیکھتا ہو۔ یہ لوگ مسلمان کے معنی ومفہوم اور اس کی مخصوص حیثیت کو بالکل نہیں جانتے۔ ان کی نگاہ میں مسلمان بھی ویسی ہی ایک قوم ہیں جیسی دنیا میں دوسری اور قومیں ہیں‘ اور یہ سمجھتے ہیں‘ کہ ہر ممکن سیاسی چال اور ہر مفید مطلب سیاسی تدبیر سے اس قوم کے مفاد کی حفاظت کر دینا ہی بس ’’اسلامی سیاست‘‘ ہے…… حالانکہ ایسی ادنیٰ درجہ کی سیاست کو اسلامی سیاست کہنا اسلام کے لیے ازالہ حیثیت ِعرفی سے کم نہیں!
’’مسلمانوں‘‘ کی زندگی کے مختلف شعبوں اور مختلف پہلوئوں سے یہ چند مثالیں جو میں نے پیش کی ہیں‘ یہ سب ایک ہی نتیجہ کی طرف رہنمائی کر رہی ہیں‘ اور وہ یہ ہے‘ کہ اسلامی تحریک اس وقت تنزّل وانحطاط کے اس آخری مرحلے پر پہنچ گئی ہے ‘جہاں ایک تحریک کی روح ناپید ہوجاتی ہے‘ صرف اس کا نام باقی رہ جاتی ہے‘ اور اس نام کا اطلاق‘ برعکس نہند نامِ زنگی کا فور کے مصداق‘ ان چیزوں پر ہونے لگتا ہے‘ جو اس کے اصل معنی کی ضد ہوتی ہیں۔ نظریات غیراسلامی اور نام ان کا مسلمان۔ مقاصد غیراسلامی اور ان کا نام بھی مسلمان۔ سیرت غیراسلامی اور اس پر بھی لفظ مسلمان چسپاں۔ روّیہ غیراسلامی اور اس پر بھی لفظ مسلمان کا بے تکلّف اطلاق۔ افراد سے لے کر جماعتوں تک‘ سوسائٹی کے ادنیٰ ترین طبقوں سے لے کر بلند ترین طبقوں تک‘ چھوٹی انجمنوں سے لے کر بڑی سے بڑی مجلسوں تک‘ ہر طرف اسی ایک وبائے عام کے اثرات پھیلے ہوئے نظر آتے ہیں۔ میرے دل نے بار ہا یہ سوال کیا ہے‘ کہ اسلام جو کبھی آندھی اور طوفان کی طرح اُٹھا تھا‘ جس کے سامنے دنیا کی کوئی طاقت نہ ٹھیر سکتی تھی‘ آج اس کی کشور کشائی اور عالم گیری آخر کس چیز نے چھین لی؟ اس کا جواب ہر بار مجھے یہی ملاکہ اسلامی تحریک پر تنزل وانحطاط کے اسی قانون کا عمل جاری ہوا ہے‘ جسے میں ابتدا میں بیان کر آیا ہوں۔ اب اصلاح کی صورت اس کے سوا کچھ نہیں کہ اسلام کو از سرِنو ایک تحریک کی حیثیت سے اُٹھایا جائے‘ اور مسلم کے معنی کو پھر سے تازہ کیا جائے۔ مُردوں کی اس بستی میں جو تھوڑے بہت مسلمان دل ابھی حرکت کر رہے ہیں‘ اور جن کی گہرائیوں سے ابھی تک یہ شہادت بلند ہورہی ہے‘ کہ اسلام ہی حق اور صدق ہے‘ اور انسانیت کی فلاح صرف طریق اسلامی ہی میں ہے‘ ان کو جان لینا چاہئے کہ اب کرنے کا کام یہی ہے……… مگر اس کام کو کرنا کھیل نہیں ہے۔ یہ وہ کوہ کنی ہے‘ جس کے تصوّر ہی سے فرہاد کا زَہرہ آب ہوجاتا ہے۔ (ترجمان القرآن۔ نومبر ۱۹۳۹ء)

شیئر کریں