اس عنوان سے جناب مولانا حسین احمد صاحب صدر دارالعلوم دیوبند کا ایک رسالہ حال میں شائع ہوا ہے{ FR 2972 } ایک نامور عالم دین اور ہندستان کی سب سے بڑی دینی درسگاہ کے صدر ہونے کی حیثیت سے مصنف کا جو مرتبہ ہے،ا س کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہمیں توقع تھی‘ کہ اس رسالہ میں ’’قومیّت‘‘ کے اہم اور نہایت پیچیدہ مسئلہ کی تنقیح و تحقیق خالص علمی طریقہ پر کی گئی ہو گی، اور اس باب میں اسلام کا نقطۂ نظر پوری طرح واضح کردیا گیا ہو گا۔ لیکن ہمیں افسوس ہے‘ کہ ہم نے اس رسالہ کو اپنی توقعات سے اور مصنف کی ذمّہ دارانہ حیثیت سے بہت فروتر پایا۔ یہ ایسا زمانہ ہے‘ جس میں جاہلی تصوّرات نے ہر طرف سے اسلامی حقائق پر نرغہ کر رکھا ہے‘ اور اسلام اپنے گھر ہی میں غریب ہو رہا ہے۔ خود مسلمان کا یہ حال ہے‘ کہ وہ خالص اسلامی نگاہ سے مسائل کو نہیں دیکھتے اور قلتِ علم کی وجہ سے نہیں دیکھ سکتے۔ پھر قومیّت کا مسئلہ اتنا اہم ہے‘ کہ اس کے صاف اور واضح فہم و ادراک ہی پر ایک قوم کی زندگی کا مدار ہوتا ہے۔ اگر کوئی قوم اپنی قومیّت کے ا ساسیات ہی کو اجنبی اصول و مبادی میں خلط ملط کر دے تو وہ قوم سرے سے قوم ہی نہیں رہ سکتی۔ ایسے نازک مسئلہ پر قلم اٹھاتے ہوئے مولانا حسین احمد صاحب جیسے شخص کو اپنی ذمّہ داری کا پورا احساس ہونا چاہیے تھا۔ اس لیے کہ وہ امانت انبیاء کے امین ہیں، اور جب اسلامی حقائق جاہلیت کے گردو غبار میں چھپ رہے ہوں، تو ان ہی جیسے لوگوں کا کام ہے‘ کہ انہیں صاف اور منقح کر کے روشنی میں لائیں۔ان کو یہ سمجھنا چاہیے تھا‘ کہ اس فتنہ کے دور میں ان کی ذمّہ داری عام مسلمانوں کی ذمّہ داری سے زیادہ سخت ہے‘ اور اگر مسلمان کسی گمراہی میںمبتلا ہوں تو سب سے پہلے اور سب سے بڑھ کر وہی ماخوذ ہونے والے ہیں۔ لیکن ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے‘ کہ مولانا کا یہ سارا رسالہ اس ذمّہ داری کے احساس سے بالکل خالی ہے۔
غیر علمی زاویۂ نظر
ایک مصنف کی تصنیف میں سب سے پہلے جس چیز کو تلاش کرنا چاہیے وہ اس کا زاویۂ نظر ہے۔ اس لیے کہ اپنے موضوع کے ساتھ مصنف کا برتاؤ، اور اس کا صحیح یا غلط نتائج پر پہنچنا، تمام تر اس کے زاویۂ نظر ہی پر منحصر ہوتا ہے۔ سیدھا اور صحیح زاویۂ نظریہ ہے‘ کہ آدمی محض امرِ حق کا طالب ہو‘ اور مسئلہ کو، جیسا کہ وہ فطرۃً و حقیقۃً ہے، اس کے اصلی رنگ میں دیکھے، اور حقیقت کا یہ مشاہدہ جس نتیجہ پر پہنچاتا ہو اس پر پہنچ جائے، بلا اس لحاظ کے کہ وہ کس کے خلاف پڑتا ہے‘ اور کِس کے موافق۔، یہ بحث و تحقیق کا فطری اور علمی زاویۂ نظر ہے‘ اور اسلامی زاویۂ نظر بھی اس کے سوا کوئی نہیں کہ اسلام کی روح ہی الحب فی اللّٰہ والبغض فی اللّٰہ ہے۔ اس سیدھے زاویۂ نظر کے علاوہ بہت سے ٹیڑھے زاویۂ ہائے نظر بھی ہیں۔مثلاً ایک یہ کہ آپ کسی کی محبت میں مبتلا ہیں اس لیے صرف اسی نتیجہ پر جانا چاہتے ہیں‘ جو اس کے موافق ہو۔ اور دوسرا یہ کہ آپ کو کسی سے بغض و عداوت ہے اس لیے آپ کو تلاش صرف ان ہی چیزوں کی ہے‘ جو آپ کے مبغوض کی مخالف ہوں۔ اس قسم کے ٹیڑھے زاویے جتنے بھی ہیں سب کے سب خلاف حق ہیں۔ انہیں اختیار کرکے کوئی بحث کسی صحیح نتیجہ پر نہیں پہنچ سکتی۔ کسی عالم اور متقی انسان کے لیے زیبا نہیںکہ ایسے کسی زاویہ سے کسی مسئلہ پر نگاہ ڈالے، اس لیے کہ یہ اسلامی نہیں‘ بلکہ جاہلی زاویۂ نظر ہے۔
اب ہمیں یہ دیکھنا چاہیے‘ کہ مولانا نے اس رسالہ میں کون سا زاویۂ نظر اختیار فرمایا ہے۔ اپنی بحث کے آغاز میں وہ فرماتے ہیں :
ضروری معلوم ہوا کہ ان غلطیوں کا ازالہ کر دوں جو اس قسم کی قومیّت متحدہ سے مخالفت اور اس کو خلافِ دیانت قرار دینے کے مطابق شائع ہوئی ہیں، یا شائع کی جا رہی ہیں، کانگریس ۱۸۸۵ء سے اہلِ ہندوستان سے بنا بر وطنیت اس اتحاد قومی کا مطالبہ کرتی ہوئی بیش از بیش جدوجہد عمل میں لارہی ہے۔ اور اس کی مقابل و مخالف قوتیں اس کے غیر قابلِ قبول ہونے بلکہ ناجائز اور حرام ہونے کی انتہائی کوششیں عمل میں لارہی ہیں۔ یقینا برٹش شہنشاہیت کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی خطرناک چیز نہیں ہے۔ یہ چیز میدان میں آج سے نہیں‘ بلکہ تقریبا ۱۸۸۷ء یا اس سے پہلے سے لائی گئی ہے‘ اور مختلف عنوانوں سے اس کی وحی ہندستانیوں کے دل و دماغ پر عمل میں لائی جاتی ہے۔ (ص۵-۶)
پھر چند سطروں کے بعد فرماتے ہیں :
اگرچہ بہت سے ان لوگوں سے جن کو برطانیہ سے گہرا تعلق ہے‘ یا جن کے دماغ اور قلب برطانوی مدبّرین کے سحر سے ماؤف ہو چکے ہیں اُمید نہیں ہے‘ کہ وہ اس کو قبول کریں گے۔
اسی سلسلہ میں ڈاکٹر اقبال مرحوم کے متعلق فرماتے ہیں کہ ’’ان کی ہستی کوئی معمولی ہستی نہ تھی۔ وہ ایسے اور ایسے تھے مگر‘‘باوجود کمالات گوناگوں کے ساحرین برطانیہ کے سحر میں مبتلا ہو گئے تھے‘‘۔
پھر ایک طویل بحث کے بعد اپنے زاویۂ نظر کا صاف صاف اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں:
ہندستانیوںکا وطنیت کی بنا پر متحدہ قومیّت بنا لینا انگلستان کے لیے جس قدر خطرناک ہے وہ ہماری اس شہادت سے ظاہر ہے‘ جو ہم نے پروفیسر سیلے کے مقالہ سے نقل کی ہے‘ جس سے معلوم ہوتا ہے‘ کہ یہ جذبہ ضعیف سے ضعیف بھی اگر ہندستانیوں میں پیدا ہو جائے‘ تو اگرچہ ان میں انگریزوں کے نکالنے کی طاقت موجود نہ بھی ہو مگر فقط اس وجہ سے کہ ان میں یہ خیال جا گزیں ہو جائے گا کہ اجنبی قوم کے ساتھ ان کے لیے اشتراکِ عمل شرمناک امر ہے، انگریزی شہنشاہیت کا خاتمہ ہو جائے گا۔ (ص۳۸)
آگے چل کر ایک حیرت انگیز رائے کا اظہار فرماتے ہیں جسے پڑھ کر آدمی ششدر رہ جاتا ہے‘ کہ کیا یہ کسی متقی عالم کی تحریر ہو سکتی ہے:
اگر قومیّت ایسی ہی ملعون اور بدترین چیز ہے‘ تو چونکہ یورپ نے اس کو استعمال کرکے اسلامی پادشاہوں اور عثمانی خلافت کی جڑ کھو دی ہے، مسلمانوں کو چاہیے تھا‘ کہ اسی ملعون ہتھیار کو برطانیہ کی جڑ کھودنے کے لیے استعمال کرتے۔ (ص۳۸)
اسی بحث کے دوران میں مولانا پہلے تو اس امر کا اعتراف فرماتے ہیں‘ کہ پچھلی دو صدیوں میں مسلمان سلطنتوں کو جس قدر بھی نقصان پہنچا ہے اسی وجہ سے پہنچا ہے‘ کہ یورپ نے اسلامی وحدت کے خلاف سخت پراپیگنڈا کیا ’’اور مسلمانوں میں نسلی، وطنی، لسانی امتیاز و افتراق پیدا کر دیا‘‘ اور ان میں یہ اسپرٹ پیدا کی کہ ’’جہاد مذہبی و روحانی نہ ہو بلکہ نسلوں اور اوطان کے لیے کیا جائے‘ اور مذہبیت کی اسپرٹ درمیان سے نکال دی جائے‘‘ (صفحہ ۳۵-۳۶) لیکن امرِ حق کے اس قدر قریب پہنچ جانے کے بعد پھر وہی برطانیہ کا ہوّا مولانا کے سامنے آن کھڑا ہوتا ہے‘ اور وہ فرماتے ہیں:
افسوس مسلمانوں میں اس وقت کوئی شخص مسلمانوں کی متحدہ قومیّت اور الغائے وطنیت، نسل و لسان وغیرہ کا واعظ کھڑا نہ ہوا۔ اور نہ یورپ کے اخبار و رسائل اور لکچراروں کی بے حد و بے شمار آندھیوں کا مقابلہ کیا گیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پان اسلام ازم ایک قصہ پارینہ ہو کر فنا کے گھاٹ اتر گیا‘ اور ممالک اسلامیہ یورپین اقوام کے لیے لقمہ تر بن کر رہ گئے۔ اب جب کہ مسلمانوں کو افریقہ، یورپ، ایشیاء وغیرہ میں پارہ پارہ کرکے فنا کی گود میں ڈال دیا گیا ہے‘ تو ہم کو کہاجاتا ہے‘ کہ اسلام صرف ملی اتحاد کی تعلیم دیتا ہے۔ وہ کسی غیر مسلم جماعت سے متحد نہیں ہو سکتا‘ اور نہ کسی غیر مسلم قوم کے ساتھ متحدہ قومیّت بنا سکتا ہے‘‘۔ (ص۳۶-۳۷)
مندرجہ بالا عبارات سے صاف ظاہر ہے‘ کہ مولانا کی نگاہ میں حق اور باطل کا معیار صرف برطانیہ بن کر رہ گیا۔ وہ مسئلہ کو نہ تو علمی زاویۂ نظر سے دیکھتے ہیں‘ کہ حقائق اپنے اصلی رنگ میں نظر آسکیں، نہ وہ مسلمانوں کی خیر خواہی کے زاویۂ نظر سے اس پر نگاہ ڈالتے ہیں‘ کہ جو کچھ مسلمانوں کے لیے زہر ہے وہ انہیں زہر دکھائی دے سکے۔ ان دونوں زاویوںکے بجائے ان پر فقط برطانیہ کی عداوت کا زاویۂ نظر مستول ہو گیا ہے۔ جس کی وجہ سے ہر وہ چیز ان کو تریاق نظر آتی ہے‘ جس کے متعلق کسی طرح ان کو معلوم ہو جائے‘ کہ وہ برطانیہ کے لیے زہر ہے۔ اب اگر کوئی شخص اسی چیز کو مسلمانوں کے لیے زہر سمجھتا ہو‘ اور اس بنا پر اس کی مخالفت کرے تو وہ ان کے نزدیک برطانیہ پرست کے سوا کچھ اور ہو ہی نہیں سکتا، کیونکہ ان کو مسلمانوں کی زندگی سے اتنی دلچسپی نہیں جتنی برطانیہ کی موت سے ہے‘ اور جب یہ بات ان کے دل میں بیٹھ چکی ہے‘ کہ ’’متحدہ قومیّت‘‘برطانیہ کے لیے مہلک ہے‘ تو جو شخص اس کی مخالفت کرتا ہے وہ ’’برطانیہ پرست‘‘ کے سوا اور ہو ہی کیا سکتا ہے۔خیریت ہو گئی کہ کسی نے مولانا کو برطانیہ کی ہلاکت کا ایک دوسرا نسخہ نہ بتا دیا جو متحدہ قومیّت سے بھی زیادہ کارگر ہے، یعنی یہ کہ ہندستان کی ۳۵ کروڑ آبادی یک بارگی خود کشی کر لے جس سے برطانوی سلطنت آن کی آن میں ختم کی جا سکتی ہے۔ یہ تیر بہدف تدبیر اگر مولانا کے دل میں بیٹھ جاتی تو وہ بے تکلف فرماتے کہ جو شخص ہندستان کے باشندوں کو خود کشی سے روکتا ہے وہ برطانیہ پرست ہے۔ خود کشی اگرچہ ’’ملعون‘‘اور ’’بدترین‘‘ فعل سہی مگر جب کہ اس سے برطانیہ کی جڑ کھو دی جا سکتی ہے‘ تو فرض ہو جاتا ہے‘ کہ اس فعلِ قبیح کا ارتکاب کیا جائے۔ ایسی ہی باتوں سے یہ راز سمجھ میں آتا ہے‘ کہ دین میںالحب فی اللّٰہ والبغض فی اللّٰہ کو معیار حق کیوں قرار دیا گیا ہے۔ اگر خدا کا واسطہ درمیان سے ہٹ جائے‘ اور بجائے خود کوئی شے محبوب یا مبغوض بن جائے‘ تو عصبیت جاہلیہ کی سرحد شروع ہو جاتی ہے، جس میں وہ تمام ذرائع و وسائل جائز کر لیے جاتے ہیں‘ جن سے انسان کے جذبات ِمحبت و عداوت کی تشفی ہو سکے، قطع نظر اس سے کہ وہ قانون الٰہی کے مطابق ہوں یا اس کے خلاف، اسی لیے کہنے والے نے کہا کہ ذاتی عداوت تو شیطان سے بھی نہ ہونی چاہیے۔ا س میں بھی خدا کا واسطہ بیچ میں رہنا ضروری ہے، ورنہ وہ خود ایک قانون بن جائے گی‘ اور تم شیطان کی دشمنی میں خدا کے حدود توڑو گے، یعنی اپنے دشمن شیطان ہی کا کام کرو گے۔
اثبات مدعا کے لیے حقائق سے چشم پوشی
اسی ذہنیت کا نتیجہ ہے‘ کہ مولانا اپنے مدعا کو ثابت کرنے کے لیے تاریخ کے مشہور اور بیّن واقعات کو بھی صاف نظر انداز کر جاتے ہیں۔ یورپ جب مسلمانوں میں نسلی، وطنی اور لسانی قومیّتوں کی تبلیغ کر رہا تھا تو کیا مسلمانوں میں کوئی اس کا مقابلہ کرنے کے لیے کھڑا نہیں ہوا؟ کیا ٹیپو سلطان، جمال الدین افغانی، مفتی محمد عبدہٗ، مصطفی کامل مصری، امیر شکیب ارسلان، انور پاشا، جلال نوری بے، شبلی نعمانی، سیّد سلیمان ندوی، محمود الحسن، محمد علی، شوکت علی، اقبال، ابوالکلام مرحوم کسی کا نام بھی مولانا نے نہیں سنا؟ کسی کے کارنامے ان تک نہیں پہنچے؟ کیا ان میں سے کسی نے بھی مسلمانوں کو متنبہ نہیں کیا کہ یہ جاہلیت کی تفریق تم کو تباہ کر نے کے لیے برپا کرائی جا رہی ہے؟ شاید مولانا اب سوالات کا جواب نفی میں نہ دیں گے مگر دوران سب واقعات کی طرف سے آنکھیں بند کرکے فرماتے ہیںکہ ’’افسوس مسلمانوں میں اس وقت کوئی مسلمانوں کی متحدہ قومیّت کا واعظ کھڑا نہ ہوا‘‘ ایسا غلط دعویٰ کرنے کی آخر ضرورت کی تھی؟ مقصود صرف یہ ثابت کرنا تھا‘ کہ پہلے مسلمانوں کی قومی وحدت برطانوی مفاد کے خلاف تھی اس لیے سب مسلمان نسلی، وطنی اور لسانی امتیازات پھیلانے میں لگے ہوئے تھے، اور اب اسلامی وحدت برطانوی اغراض کے لیے مفید ہو گئی ہے، اس لیے اس کا وعظ ابھی ابھی شروع ہوا ہے۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ وطن پرستی کے مخالف سب کے سب برطانیہ پرست ہیں‘ اور محض ساحر برطانیہ کا سحر ان کے اندر بول رہا ہے! یہ ہے نتیجہ عصبیت ِجاہلیہ کا۔ چونکہ حق و باطل کا معیار ’’برطانیہ‘‘ ہو گیا ہے اس لیے خلافِ واقعہ باتوں کی تصنیف بھی جائزہو گئی اگر ان سے برطانیہ کے خلاف کوئی کام لیا جا سکے۔
یہی ذہنیت ہے‘ جو ہمیں پورے رسالہ میں کارفرما نظر آتی ہے، لُغت کو، آیات قرآنی کو، اخبار و احادیث کو، تاریخی واقعات کو، غرض ہر چیز کو توڑ مروڑ کر اپنا مدعا ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے،ا ور ہر اس چیز کو بلا تکلف نظر انداز کر دیا گیا ہے‘ جو مدعا کے خلاف ہو، چاہے وہ کیسی ہی ظاہر و باہر حقیقت کیوں نہ ہو۔ حد یہ کہ لفظی مغالطے دینے اور قیاس مع الفارق اور بناء فاسد علی الفاسد کا ارتکاب کرنے میں بھی تامّل نہیں فرمایا گیا۔ ایک عالم اور متقی عالم کا یہ کارنامہ دیکھ کر آدمی انگشت بدنداں رہ جاتا ہے‘ کہ اسے کیا کہیے۔
قومیں او طان سے کہاں بنتی ہیں؟
مولانا فرماتے ہیں کہ ’’فی زمانہ قومیں اوطان سے بنتی ہیں‘‘ لیکن یہ ایک قطعی غلط اور سرا سر بے بنیاد و دعویٰ ہے۔ پوری انسانی تاریخ سے ایک مثال بھی ایسی پیش نہیں کی جا سکتی کہ کوئی قوم محض وطن سے بنی ہو۔ آج اس زمانہ میں بھی دنیا کی تمام قومیں مولانا کے سامنے موجود ہیں۔ وہ فرمائیں کہ ان میں سے کون سی قوم وطن سے بنی ہے؟ کیا امریکہ کے حبشی اور ریڈ انڈین اور سفید فام ایک قوم ہیں؟ کیا جرمنی کے یہودی‘ اور جرمن ایک قوم ہیں؟ کیا پولینڈ، روس، ٹرکی، بلغاریہ، یونان، یوگوسلاویہ، چیکوسلواکیہ، لتھوانیا، فن لینڈ، کسی جگہ بھی خاکِ وطن کے اشتراک نے ایک قوم بنائی؟ کیا انگلستان، فرانس، اٹلی اور جاپان میں وحدت کا رنگ محض خاک ِوطن نے پیدا کیا ہے؟ کیا ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ یہودی جو روئے زمین کے اطراف و اکناف میں منتشر ہیں، کسی جگہ بھی وطنی قومیّت میں جذب ہو گئے ہیں؟ کیا یورپ کے مختلف ممالک میں جرمن، مگیار، سلافی، مورا وِین وغیرہ مختلف قومی اقلیتیں کسی جگہ بھی وطنی رشتہ اشتراک میں گم ہوئیں؟ واقعات تو بہرحال واقعات ہیں۔ آپ ان کو اپنی خواہشات کا تابع نہیں بناسکتے۔ آپ کو یہ کہنے کا حق ہے، اگر آپ ایسا کہنا چاہیں‘ کہ اب قوموں کو اوطان سے بننا چاہیے۔ لیکن آپ کو ثبوت اور شہادت سے بے نیاز ہو کر دنیا کو یہ غلط خبر دینے کا کیا حق ہے‘ کہ اب قومین اوطان سے بننے لگی ہیں؟
ھَاتُوْا بُرْھَانَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَo البقرہ 111:2
اگر (اپنے دعویٰ میں) سچے ہو تو اس کی دلیل لاؤ۔
اس میں شک نہیںکہ ایک ملک کے باشندوں کو باہر والے ان کے ملک کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ مثلاً امریکن، خواہ حبشی ہو یا فرنگی، باہر والے اس کو امریکن ہی کہیں گے۔ مگر کیا اس سے یہ حقیقت بدل جاتی ہے‘ کہ امریکہ میں دو الگ الگ قومیں ہیں نہ کہ ایک قوم؟ یہ بھی صحیح ہے‘ کہ بین الاقوامی تعلقات میں ایک شخص اصطلاحاً اس سلطنت کا ’’نیشنل‘‘ کہلاتا ہے‘ جس کی وہ رعایا ہو۔ مثلاً اگر مولانا حسین احمد صاحب بیرون ہند تشریف لے جائیں تو ان کو ’’برٹش نیشنلٹی‘‘(برطانوی قومیّت) سے منسوب کیا جائے گا۔ لیکن کیا یہ اصطلاحی قومیّت حقیقت میں بھی مولانا کی قومیّت بدل دے گی؟ پھر بھلا علمی حیثیت سے اس استدلال کی کیا وقعت ہو سکتی ہے‘ کہ ’’اس وطن کے رہنے والے کی حیثیت سے سب (یعنی ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی، پارسی وغیرہ) ایک ہی قوم شمار ہوتے ہیں؟‘‘ شمار ہونے اور فی الواقع ہونے پر بڑا فرق ہے۔ ایک کو دوسرے کے لیے نہ تو دلیل بنایا جا سکتا ہے، اور نہ یہ کہا جا سکتا ہے‘ کہ ان کو فی الواقع وہی ہونا چاہیے جیسے وہ شمار کیے جاتے ہیں۔
لغت اور قرآن سے غلط استدلال
اس کے بعد مولانا لغت ِعربی کی طرف رجوع فرماتے ہیں‘ اور شواہد سے یہ ثابت کرتے ہیں‘ کہ عربی زبان میں قوم کے معنی ہیں’’مردوں کی جماعت‘‘ یا ’’مردوں اور عورتوں کا مجموعہ‘‘یا ’’ایک شخص کے اقربا‘‘ یا ’’دشمنوں کی جماعت‘‘ اس کا ثبوت انہوں نے آیات قرآنی سے بھی پیش فرمایا ہے۔ مثلاً وہ آیات جن میں کفّار کو نبی کی یا ’’مسلمانوں کی قوم‘‘ قرار دیا گیا ہے‘ جو صریحاً تیسرے اور چوتھے معنی پر دلالت کرتاہے۔ یا وہ آیات جن میں لفظ ِ’’قوم‘‘ پہلے یا دوسرے معنوں میں مستعمل ہوا ہے۔ لیکن اس پوری بحث میں مولانا کو ایک مرتبہ بھی یہ خیال نہ ا ٓیا کہ اس وقت جو بحث درپیش ہے وہ لفظ قوم کے لغوی معنی یا قدیم معنی سے متعلق نہیں ہے‘ بلکہ موجودہ زمانہ کی اصطلاح سے تعلق رکھتی ہے۔ جواہر لال اور سیّد محمود لغت عرب اور قرآنی زبان میں کلام نہیں کرتے۔ نہ کانگریس کی کارروائیوں میں یہ پرانی زبان استعمال ہوتی ہے۔ ان کے الفاظ کا تو وہی مفہوم ہے‘ اور وہی ہو سکتا ہے‘ جو آج کل ان سے مراد لیا جاتا ہے۔ آج کل اردو زبان میں ’’قوم‘‘ اور ’’قومیّت‘‘ کے الفاظ انگریزی زبان کے الفاظ (nation) اور (nationality) کے مقابلہ میںبولے جاتے ہیں‘ جن کی تشریح لارڈ برائس نے اپنی کتاب ’’بین الاقوامی تعلقات‘‘ (international relations) میںبدیں الفاظ کی ہے :
ایک قومیّت سے مراد اشخاص کا ایسا مجموعہ ہے‘ جن کو چند مخصوص جذبات (sentiments) نے ملا کر باہم مربوط کر دیا ہو۔ ان میں سے بڑے اور طاقتور جذبے تو دو ہیں۔ ایک جذبہ نسل، دوسرا جذبہ دین، لیکن ایک مشترک زبان کے استعمال اور مشترک لٹریچر سے دلچسپی اور زمانہ ماضی کے مشترک قومی کارناموں اور مشترک مصائب کی یاد اور مشترک رسوم و عوائد، مشترک تخیلات و افکار اور مشترک مقاصد اور حوصلوں کا بھی اس احساسِ جمعیت کی پیدائش میں بہت کچھ دخل ہوتاہے کبھی یہ سب رابطے یک جا موجود ہوتے ہیں‘ اور مجموعۂ افراد کو بستہ و پیوستہ رکھتے ہیں۔ اور کبھی ان میں سے بعض رابطے موجود نہیں ہوتے لیکن قومیّت پھر بھی موجود ہوتی ہے۔ (صفحہ ۱۱۷)
اسی کی تشریح اخلاق و ادیان کی دائرۃ المعارف (encyclopaedia of religionand ethics) میں یوں کی گئی ہے :
قومیّت وہ وصف ِعام یا متعدّد اوصاف کا ایسا مرکب ہے‘ جو ایک گروہ کے افراد میں مشترک ہو‘ اور اس کو جوڑ کر ایک قوم بنا دے۔ ہر ایسی جماعت ان افراد پر مشتمل ہوتی ہے‘ جو نسل، مشترک روایات، مشترک مفاد، مشترک عادات و رسوم اور مشترک زبان کے رابطوں سے باہم مربوط ہوتے ہیں، اور ان سب سے اہم رابطہ ان کے درمیان یہ ہوتا ہے‘ کہ وہ باہم ایک دوسرے کو اچھی طرح سمجھتے ہیں، بلا ارادہ ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں، اور ان کے درمیان مختلف حیثیات سے الفت و موانست ہوتی ہے۔ غیر قوم کا آدمی ان کو غیر اور اجنبی محسوس ہوتا ہے اس لیے کہ اس کی دل چسپیاں اور اس کی عادات انہیں نرالی معلوم ہوتی ہیں‘ اور ان کے لیے اس کے انداز طبیعت اور اس کے خیالات و جذبات کو سمجھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ا سی وجہ سے قدیم زمانہ کے لوگ غیر قوم والوں کو شُبہ کی نظر سے دیکھتے تھے، اور اسی وجہ سے آج کا مہذب آدمی بھی غیر قوم والے کی عادات اور طرزِ زندگی کو اپنے مذاق کے خلاف پا کر ناک بُھوں چڑھاتا ہے۔
کیا کوئی شخص کہہ سکتا ہے‘ کہ قرآن مجید نے اس معنی میں کفار و مشرکین اور مسلمانوں کا ایک قومیّت میں جمع ہونا جائز رکھا ہے؟ یا کوئی نبی دنیا میں کبھی اس غرض کے لیے بھی بھیجا گیا ہے‘ کہ مومن اور غیر مومن سب کو اس معنی میں ایک قوم بنائے؟ اور اگر نہیں تو یہ فضول لغوی بحث آخر کیوں چھیڑی جاتی ہے؟ لفظ اپنے معنی تاریخ کے دوران میں بار ہا بدلتا ہے۔ کل ایک لفظ کسی معنی میں استعمال ہوتا تھا۔ آج کسی اور معنی میں ہوتا ہے۔ اب یہ لفظی مغالطہ نہیں تو اور کیا ہے‘ کہ آپ معنوی تغیّرات کو نظر انداز کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش فرمائیںکہ قرآن کی رُو سے ’’قومیّت میں اشتراک مسلم اور کافر کا ہو سکتا ہے‘‘ دراں حالیکہ قومیّت کا جو مفہوم قرآن کی زبان میں تھا اس کو آج کے مفہوم سے ذرّہ برابر کوئی علاقہ نہیں۔ متقدمین نے ’’مکروہ’‘‘ اور ’’حرام‘‘میں اصطلاحی فرق نہیںکیا تھا اس لیے اکثر مقامات پر ان کی عبارتوں میں مکروہ بمعنی حرام مستعمل ہوا ہے، لیکن اب کہ ممنوعیت کے ان دونوں مدارج کے لیے الگ اصطلاحیں بن چکی ہیں اگر کوئی شخص کسی حرام کو محض مکروہ بمعنی اصطلاحی ٹھہرائے اور حجت کے طور پر سلف کی کوئی عبارت پیش کرے تو کیا یہ مغالطہ کے سوا کچھ اور ہو گا؟ اسی طرح لفظ قومیّت بھی اب اصطلاح بن چکا ہے۔ اب مسلم و کافر کے لیے مشترک قومیّت کا لفظ استعمال کرنا، اور معترض کا منہ بند کرنے کے لیے اس لفظ کے پرانے استعمالات کو حجت میں پیش کرنا بھی محض ایک مغالطہ ہے‘ اور اس کے سوا کچھ نہیں۔
ایک اور لفظی مغالطہ
آگے چل کر مولانا دعویٰ فرماتے ہیںکہ نبی a نے مدینہ طیبہ میں یہود اور مسلمانوں کی متحدہ قومیّت بنائی تھی۔ اور اس کے ثبوت میںوہ معاہدہ پیش کرتے ہیں‘ جو ہجرت کے بعد حضور اکرمa اور یہودیوں کے درمیان ہوا تھا۔ اس معاہدہ میں کہیں یہ فقرہ مولانا کے ہاتھ آگیا کہ:
وان یہود بنی عوف امۃ مع المومنین۔
بنی عوف کے یہودی مسلمانوںکے ساتھ ’’ایک امت‘‘ ہوں گے۔
بس یہ فقرہ کہ ’’یہودی‘ اور مسلمان ایک اُمت ہوں گے‘‘ یہ دعویٰ کرنے کے لیے کافی سمجھ لیا گیا کہ آج بھی مسلمانوں اور غیر مسلموں کی متحدہ قومیّت بن سکتی ہے‘ لیکن یہ پھر لفظی مغالطہ ہے۔ لغت ِعرب میں اُمت سے مراد وہ جماعت ہے‘ جس کو کوئی چیز جمع کرتی ہو، عام اس سے کہ وہ زمانہ ہو، مقام ہو، دین ہو یا کوئی اور چیز، اس لحاظ سے اگر دو مختلف قومیں کسی ایک مشترک مقصد کے لیے عارضی طور پر متفق ہو جائیں تو ان کو بھی ایک اُمت کہاجا سکتا ہے۔ چنانچہ صاحب لسان العرب لکھتے ہیں :
وقولہ فی الحدیث ان یہود بنی عوف امۃ من المومنین یرید انہم بالصلح الذی وقع بینھم و بین المومنین کجماعۃ منھم کلمتھم وایدیھم واحدۃ۔
حدیث میں رسول اللہ a کا یہ ارشاد کہ ان یہود بنی عوف امۃ من المومنین اس سے مراد یہ ہے‘ کہ یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان جو صلح واقع ہوئی ہے اس کی وجہ سے وہ گویا مسلمانوںہی کی ایک جماعت ہو گئے ہیں‘ اور ان کا معاملہ واحد ہے۔
اس لغوی ’’امت‘‘ کو آج کی اصطلاحی ’’متحدہ قومیّت‘‘سے کیا واسطہ؟ زیادہ سے زیادہ اس کو آج کل کی سیاسی زبان میں فوجی اتحاد (miitary alliance) کہہ سکتے ہیں۔ یہ محض ایک تحالف تھا جس کا خلاصہ یہ تھا‘ کہ یہود اپنے دین پر رہیں گے، دونوں کی تمدّنی و سیاسی ہیئتیں الگ الگ رہیں گی، البتہ ایک فریق پر جب کوئی حملہ کرے گا تو دونوں فریق مل کر لڑیں گے، اور دونوں اس جنگ میں اپنا اپنا مال خرچ کریں گے۔ دو تین سال کے اندر ہی اس تحالف کا خاتمہ ہو گیا‘ اور مسلمانوں نے کچھ یہودیوں کو جلا وطن کیا اور کچھ کو ہلاک کر دیا۔ کیا اسی کا نام ’’متحدہ قومیّت‘‘ ہے؟ کیا کسی معنی میں بھی یہ چیز اس ’’متحدہ قومیّت‘‘ سے مماثلت رکھتی ہے‘ جو اس وقت معرض بحث میں ہے؟ کیا وہاں کوئی مشترک اسٹیٹ بنایا گیا تھا؟ کیا وہاں کوئی مشترک مجلسِ قانون ساز بنائی گئی تھی اور یہ طے ہوا تھا‘ کہ یہودی‘ اور مسلمان ایک مجموعہ ہوں گے‘ اور اس مجموعہ میں سے جس کی اکثریت ہو گی وہی مدینہ پر حکومت کرے گا اور اسی کے منظور کیے ہوئے قوانین مدینہ میں نافذ ہوں گے؟ کیا وہاں مشترک عدالتیں قائم ہوئی تھیں جن میں یہودیوں اور مسلمانوں کے قضا یا کایک جا اور ایک ہی ملکی قانون کے تحت فیصلہ ہوتا ہو؟ کیا وہاںکوئی وطنی کانگرس بنائی گئی تھی جس میں یہودی اکثریت کا منتخب کیا ہوا ہائی کمانڈ اپنی انگلیوں پر یہودی‘ اور مسلمان سب کو رقص کراتا ہو؟ کیا وہاں رسول اللہa سے معاہدہ کرنے کے بجائے کعب بن اشرف اور عبد اللہ بن ابی براہِ راست افراد مسلمین سے ماس کانٹیکٹ (muslim mass contact) کرنے آئے تھے؟ کیا وہاں بھی واردھا سکیم کے طرز کی کوئی تعلیمی اسکیم تصنیف کی گئی تھی تاکہ مسلمان اور یہودی بچے ایک مشترک سوسائٹی بنانے کے لیے تیار کیے جائیں‘ اور ان کو یہودیت اور اسلام کی صرف مشترک سچائیاں ہی پڑھائی جائیں؟ کیا وہاں بھی کسی ابو رافع نے کوئی ’’صومعہ اسکیم‘‘ تمام اہلِ مدینہ کے لیے بنائی تھی‘ اور رسول اللہ a نے ان تعلیمی صومعوں میں مسلمان بچوں کا بھیجا جانا قبول فرما لیا تھا؟ مولانا آخر فرمائیں تو کہ جس ’’متحدہ قومیّت‘‘ کو وہ رسولِ خداa کی طرف منسوب کر رہے ہیں اس میںآج کل کی ’’متحدہ قومیّت‘‘ کے عناصر ترکیبی میں سے کون سا عنصر پایا جاتا تھا؟ اگر وہ کسی ایک عنصر کا بھی پتہ نہیں دے سکتے، اور میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ ہرگز نہیں دے سکتے، تو کیا مولانا کو خدا کی باز پرس کا خوف نہیںکہ محض امۃ المؤمنین یا امۃ مع المومنین کے الفاظ معاہدئہ نبویa میں دیکھ کر وہ مسلمانوں کو باور کرانا چاہتے ہیں‘ کہ جیسی متحدہ قومیّت آج کانگریس بنا رہی ہے، وہی متحدہ قومیّت کل نبی a بھی بنا چکے ہیں، لہٰذاآؤاور اطمینان سے اس میںجذب ہوجاؤ، الفاظ کا سہارا لے کر مولانا نے اپنا مدعا ثابت کرنے کی کوشش تو بہت خوبی کے ساتھ کر دی، مگر انہیں یہ خیال نہ آیا کہ حدیث کے الفاظ کو مفہوم نبویa کے خلاف کسی دوسرے مفہوم پر چسپاں کرنا، اور اس مفہوم کو نبی کی طرف مسنوب کر دینا من کذب علی متعمدا کی زد میں آجاتا ہے۔ مولانا خود ایک جلیل القدر عالم اور محدث ہیں۔ میں ان سے پوچھتا ہوں کہ اگر کوئی شخص حدیث عائشہ رضی اللہ عنھا کان النبی یقبل و یباشر وھو صائم کے لفظ مباشرت کو اردو کے معروف معنوں میں لے لے اور اس سے یہ استدلال کرے کہ روزے میں مباشرت کرنا نعوذ باللہ سنّت سے ثابت ہے، لہٰذا سب مسلمانوں کو روزے میں مباشرت کرنی چاہیے، تو آپ اس پر کیا حکم لگائیں گے؟ دونوں استدلالوں کی نوعیت ایک ہے لہٰذا ان کا حکم بھی ایک ہی ہونا چاہیے‘ اور کوئی وجہ نہیںکہ مستدل کی شخصیت کو دیکھ کر اس باب میں رعایت کی جائے۔ بلکہ اگر مُستدِلّ ان لوگوں میں سے ہے‘ جن کی طرف مسلمان اعتماد اور بھروسے کے ساتھ اپنے دین کا علم حاصل کرنے کے لیے رجوع کرتے ہیں، تو معاملہ اورزیادہ اشد ہو جاتا ہے۔ جب شفاء خانہ ہی سے زہر تقسیم ہونے لگے، تو امرت کہاں تلاش کیا جائے؟
بناء فاسد علی الفاسد
پھر مولانا اس متحدہ قومیّت کے جواز میں ایک اور دلیل پیش کرتے ہیں‘ اور وہ یہ ہے:
ہم روزانہ مفاد ہائے مشترکہ کے لیے ہئیات ِاجتماعیہ بناتے ہیں‘ اور ان میں نہ صرف شریک ہوتے ہیں‘ بلکہ ان کی ممبری اور شرکت کے لیے انتہائی جدوجہد کرتے ہیں … ٹاؤن ایریا، نوٹیفائڈ ایریا، میونسپل بورڈ، ڈسٹرکٹ بورڈ، کونسلات، اسمبلیاں، ایجوکیشنل ایسوسی ایشن اور اس قسم کی سینکڑوں ایسوسی ایشنیں اور انجمنیں ہیں‘ جو کہ انہی اصولوں اور قواعد سے عبارت ہیں‘ جو کہ خاص مقصد کے ماتحت ہیئت ِاجتماعیہ کے لیے بنائے گئے ہیں۔ تعجب ہے‘ کہ ان میں حصہ لینا اور مکمل یا غیر مکمل جدوجہد کرنا ممنوع قرار نہیںدیا جاتا۔ مگر اسی قسم کی کوئی انجمن آزادیٔ ملک اور برطانوی اقتدار کے خلاف قائم ہو تو وہ حرام، خلاف دیانت، خلاف تعلیمات اسلامیہ اور خلاف عقل و دانش وغیرہ ہو جاتی ہے۔
(صفحہ ۴۱)
یہ بنا فاسد علی الفاسد ہے۔ ایک گناہ کو جائز فرض کرکے اس کی حجت پر مولانا اسی قسم کے دوسرے گناہ کو جائز ثابت کرنا چاہتے ہیں، حالانکہ دونوں میں ایک ہی علت حرمت پائی جاتی ہے‘ اور مقیس و مقیس علیہ دونوں ناجائز ہیں تاوقتیکہ یہ علت ان سے دور نہ ہو۔ علماء کرام مجھے معاف فرمائیں، میں صاف کہتا ہوں کہ ان کے نزدیک کونسلوں اور اسمبلیوں کی شرکت کو ایک دن حرام اور دوسرے دن حلال کر دینا ایک کھیل بن گیا ہے، اس لیے کہ ان کی تحلیل و تحریم حقیقت نفس الامری کے ادراک پر تو مبنی ہے نہیں، محض گاندھی جی کی جنبشِ لب کے ساتھ ان کا فتویٰ گردش کیا کرتاہے۔ لیکن میں اسلام کے غیر تغیر پذیر اصولوں کی بنا پر یہ کہتا ہوں کہ ہر اس اجتماعی ہیئت کو تسلیم کرنا مسلمانوں کے لیے ہمیشہ گناہ تھا، آج بھی گناہ ہے‘ اور ہمیشہ گناہ رہے گا‘ جس کا دستور انسانوں کو اس امر کا اختیار دیتا ہو‘ کہ وہ ان مسائل کے متعلق قانون بنائیں یا ان مسائل کا تصفیہ کریں، جن پر خدا اور اس کا رسول پہلے اپنا ناطق فیصلہ دے چکا ہے، اور یہ گناہ اس صورت میں اور زیادہ شدید ہو جاتا ہے‘ جبکہ ایسے اختیارات رکھنے والی اجتماعی ہیئیت میں اکثریت غیر مسلموں کی ہو‘ اور فیصلہ کا مدار کثرتِ رائے پر ہو۔ ان اجتماعی ہیئتوں کے حدود اختیار و عمل کو خدا کی شریعت کے حدود سے الگ کر دینا مسلمانوںکا اولین فرض ہے‘ اور اصلی جنگِ آزادی ان کے لیے یہی ہے۔ اگر یہ حدود الگ ہو جائیںتو البتہ کسی ایسی جماعت سے دوستی یا معاہدہ اور تعاون کرنا مسلمانوں کے لیے جائز ہو گا جو مسلمانوں اور غیر مسلموں کی مشترک اغراض کے لیے بنائی جائے، عام اس سے کہ وہ کسی مشترک دشمن کے مقابلہ میں مدافعت کے لیے ہو، یا کسی معاشی یا صنعتی کاروبار کے لیے۔ لیکن جب تک حدود ایک دوسرے سے گڈ مڈ ہیں، اشتراک و تعاون و درکار، ایسے دستور کے تحت زندگی بسر کرنا بھی مسلمانوں کے لیے گناہ ہے۔ا ور یہ اجتماعی گناہ ہے‘ جس میں من وتو کی تمیز نہیں۔ ساری قوم اس وقت تک گناہ گار رہے گی جب تک کہ وہ ا س دستور کو پارہ پارہ نہ کر دے۔ا ور اس میں ان لوگوں کا گناہ شدید تر ہو گا جو اس دستور پر راضی ہوں گے‘ اور اسے چلانے میں حصہ لیں گے۔ اور اس شخص کا گناہ شدید ترین ہو گا جو خدا کی شریعت اور اس کے رسولﷺ کی سنّت کو اس کے لیے دلیل جواز بنائے گا۔ کائناً من کان۔
میرے نزدیک یہ نہ تفقہ ہے‘ اور نہ تقویٰ کہ جس چیز میں ایک علت حرمت کی‘ اور دوسری علت جواز کی بیک وقت پائی جاتی ہو اس میں سے محض علت جواز کو الگ نکال کر حکم لگا دیا جائے‘ اور علت حرمت کی طرف سے آنکھیںبندکر لی جائیں۔ آپ آزادیٔ ملک اور برطانوی اقتدار کے خلاف جدوجہد کا نام تو جھٹ لے دیتے ہیں‘ کہ اسے کون نا جائز بلکہ فرض کہے گا۔ لیکن یہ نام لیتے وقت آپ کو یہ یاد نہیں آتا کہ جو انجمن اس زُعم کے مطابق آزادی کے لیے جدوجہد کر رہی ہے، وہی انجمن، اس دستور کو قبول کرتی ہے، اسے چلاتی ہے‘ اور اسی کو درجہ کمال تک پہنچانے کے لیے لڑ رہی ہے‘ جو انسانی مجلس قانون ساز کو خدا کے قانون میں ترمیم کرنے کا اختیار دیتا ہے۔ جس کی رو سے خدا کا قانون اگر نافذ ہو بھی سکتا ہے‘ تو صرف اس وقت جبکہ اسے لیجس لیچر (legistlature) کی منظوری حاصل ہو جائے، جس کے تحت غیر مسلم اکثریت کو مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کا نقشہ بنانے اور بگاڑنے کے پورے اختیارات حاصل ہوتے ہیں‘ اور وہ ان کے اخلاق، ان کی معاشرت اور ان کی آئندہ نسلوں کی تعلیم و تربیت پر ہر قسم کے اثرات ڈال سکتی ہے۔ ایسے دستور کے ساتھ جو آزادیٔ ملک حاصل ہوتی ہو آپ اس کے پیچھے دوڑ سکتے ہیں، کیونکہ آپ کو صرف برطانوی اقتدار کا زوال مطلوب ہے، عام اس سے کہ وہ کسی صورت میںہو، اسی لیے آپ ایسی انجمن کے معاملہ میں صرف علت جواز ہی ڈھونڈتے ہیں‘ اور علت حرمت جو سامنے منہ کھولے کھڑی ہے، آپ کو کسی طرح نظر نہیں آتی۔ لیکن ہم مجبور ہیںکہ ان دونوں پہلوؤں کو ساتھ ساتھ دیکھیں‘ اور علت حرمت کو دفع کیے بغیر علت جواز کوقبول نہ کریں۔ اس لیے کہ ہم کو برطانوی اقتدار کا زوال اوراسلام کا بقا دونوں ساتھ ساتھ مطلوب ہیں۔ اس کا نام اگر کوئی برطانیہ پرستی رکھتا ہے‘ تو رکھے، ہمیں اس کے طعن کی ذرّہ برابر پرواہ نہیں۔
افسوناک بے خبری
مولانا ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں :
(متحدہ وطنی قومیّت) کی مخالفت کا فتویٰ صرف اس بنا پر کہ وطنیت کا مفہوم مغرب کی اصطلاح میں آج ایسے اصولوں پر اطلاق کیا جاتا ہے‘ جو کہ ہیئت ِاجتماعیہ انسانیہ سے تعلق رکھتے ہیں‘ اور وہ یکسر مخالف ِمذہب ہیں، اسی مفہوم مصطلح سے مخصوص ہو گا۔ مگر یہ مفہوم نہ عام طور پر لوگوں کے ذہن نشین ہے‘ اور نہ اس کا کوئی مسلمان دیانت دار قائل ہو سکتا ہے‘ اور نہ ایسے مفہوم کی اس وقت تحریک ہے۔ کانگریس اور اس کے کارکن اس کے محرک نہیں ہیں‘اور نہ اس کو ہم ملک کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔ (صفحہ۴۱)
اس دعوے کے ثبوت میں وہی پامال چیز پھر سامنے لائی گئی ہے‘ جس کی حقیقت ایک سے زیادہ مرتبہ کھولی جا چکی ہے، یعنی ’’بنیادی حقوق کا اعلان‘‘ اور اس سے یہ نتیجہ نکالا گیا ہے‘ کہ :
خود کانگریس بھی جس متحدہ قومیّت کو ہندستان میںپیدا کرنا چاہتی ہے اس میںکوئی ایسی بات نہیں چاہتی جس سے اہلِ ہند کے مذاہب یا ان کے کلچر و تہذیب اور پرسنل لاء پر کسی قسم کا ضرر رساں اثر پڑے۔ وہ فقط انہی امور کو درست کرنا اور سلجھانا چاہتی ہے‘ جو کہ مشترکہ مفاد اور ضروریات ملکیہ سے تعلق رکھتے ہیں‘ اور جن کو پردیسی حکومت نے اپنے قبضہ میں لے کر عام باشندگانِ ہند کو فنا کے گھاٹ اتار دیا ہے۔عموماً یہ امور وہی ہیں‘ جو کہ نو ٹائیفائیڈ ایریا، میونسپل بورڈوں، ڈسٹرکٹ بورڈوں، کونسلوں، اسمبلیوں وغیرہ میں داخلی اور خارجی حیثیات سے طے کیے جاتے ہیں۔ ان میں کسی قوم کا مذہب میں جذب ہو جانا ملحوظ نظر نہیں ہے۔ (صفحہ ۷۵)
یہ تحریر ایک روشن نمونہ ہے اس امر کا کہ اس نازک وقت میں کیسی سطح بینی اور سہل انگاری کے ساتھ مسلمانوں کی پیشوائی کی جا رہی ہے۔ جن مسائل پر آٹھ کروڑ مسلمانوں کے صلاح و فساد کا انحصار ہے، جن میں ایک ذرا سی چوک بھی ان کی آئندہ صورتِ اجتماعی و اخلاقی کو بگاڑ کر کچھ سے کچھ کر سکتی ہے، ان کے تصفیہ کو ایسا ہلکا اور آسان کام سمجھ لیا گیا ہے‘ کہ اس کے لیے اتنے مطالعہ اور غور و خوض اور تدبر کی بھی ضرورت نہیں سمجھی جاتی جس کا اہتمام ایک فرد واحد کو طلاق اور وراثت کا کوئی جزئی مسئلہ بتانے میںکیا جاتا ہے۔ عبارت کا ایک ایک لفظ شہادت دے رہا ہے‘ کہ مولانا نہ تو قومیّت کے اصطلاحی مفہوم کو جانتے ہیں، نہ کانگریس کے مقصد و مدعا کو سمجھتے ہیں، نہ بنیادی حقوق کے معنی پر انہوں نے غور کیا ہے، نہ ان کو خبر ہے‘ کہ جن اجتماعی مجلسوں کا وہ بار بار اس قدر سادگی کے ساتھ ذکر فرما رہے ہیں ان کے حدود اختیار و عمل موجودہ دستور کے تحت کن کن راہوں سے اس دائرے میں نفوذ کرتے ہیںجن کو تہذیب و تمدّن اور عقائد و اخلاق کا دائرہ کہا جاتا ہے۔ حد یہ ہے،اورمیں یہ بات میں خوب سوچ سمجھ کر کہہ رہا ہوں، کہ مولانا بایں ہمہ علم و فضل کلچر، تہذیب، پرسنل لا، وغیرہ الفاظ بھی جس طرح استعمال کر رہے ہیں‘ اس سے صاف ظاہر ہو رہا ہے‘ کہ وہ ان کے معنی و مفہوم سے نا آشنا ہیں۔ میری یہ صاف گوئی ان حضرات کو یقینا بُری معلوم ہو گی‘ جو رجال کو حق سے پہچاننے کے بجائے حق کو رجال سے پہچاننے کے خوگر ہیں، اور اس کے جواب میں چند اور گالیاں سننے کے لیے میں نے اپنے آپ کو پہلے ہی تیار کر لیا ہے۔ مگر میں جب دیکھتا ہوں کہ مذہبی پیشوائی کی مسند مقدّس سے مسلمانوں کی غلط رہنمائی کی جا رہی ہے، ان کو حقائق کے بجائے اوہام کے پیچھے چلایا جا رہا ہے، اور خندقوں سے بھری ہوئی راہ کو شاہراہ مستقیم بنا کر انہیں اس کی طرف دھکیلا جا رہا ہے، تو میں کسی طرح اس پر صبر نہیں کر سکتا، کوشش بھی کروں تو میرے اندر اس پر صبر کی طاقت نہیں ہے۔ لہٰذا مجھے اس پر راضی ہو جانا چاہیے‘ کہ جو کوئی میری صاف گوئی پر ناراض ہوتا ہو تو ہو جائے وَاُفَوِّضُ اَمْرِیْ اِلَی اللّٰہِ۔ میں اپنا کام اللہ کو سونپتا ہوں۔
وطنی قومیّت کا حقیقی مدعا
معنی قومیّت کی تشریح کے لیے ان عبارات پر پھر ایک نظر ڈال لیجئے جو اسی مضمون میں لارڈ برائس کی کتاب ’’بین الاقوامی تعلقات‘‘ اور ’’اخلاق و ادیان کی دائرۃ المعارف‘‘ سے نقل کی گئی ہیں۔ اس معنی کے اعتبار سے افراد کو قوم بنانے والی چیز اصلاً اور ابتدائً ایک ہی ہے‘ اور وہ کوئی ایسا جذبہ ہے‘ جو ان سب میں روح بن کر پھیل جائے‘ اور ان کو ایک دوسرے سے مربوط کر دے۔ لیکن محض اس جذبہ کا موجود ہونا قوم بنانے کے لیے کافی نہیں ہے‘ بلکہ اس کو اتنا طاقتور ہونا چاہیے کہ وہ تمام ان داعیات کو دبا دے جو افراد کو یا افراد کے چھوٹے چھوٹے مجموعوں کو ایک دوسرے سے الگ کرنے والے ہیں۔ اس لیے کہ علیحدہ کرنے والی چیزیں اگر جوڑنے والے جذبہ کی مزاحمت کرنے کے لیے کافی مضبوط ہوں تو وہ جوڑنے کے عمل میں کامیاب نہیں ہو سکتا، یا بالفاظِ دیگر ’’قوم‘‘ نہیں بن سکتا۔ علاوہ بریں تشکیل قومیّت کے لیے زبان، ادب، تاریخی روایات، رسوم و عادات، معاشرت اور طرز زندگی، افکار و تخیلات، معاشی مفا داور مادّی اغراض کی مدد بھی درکار ہوتی ہے۔ یہ سب چیزیں ایسی ہونی چاہئیں جو اس جوڑنے والے جذبے کی فطرت سے مناسبت رکھتی ہوں، یعنی ان کے اندر کوئی عنصر ایسا نہ ہو‘ جو علیحدگی کے احساس کو زندہ رکھنے والا ہو۔ا س لیے کہ یہ سب کی سب ایسی طاقتیں ہیں‘ جو افراد کومجتمع کرنے میں اثر رکھتی ہیں‘ اور یہ جوڑنے کے عمل میں اس کلمہ جامعہ کی مدد گار صرف اسی طرح ہو سکتی ہیں‘ کہ ان سب کا میلان اسی مقصود کی طرف ہو‘ جو اس کلمہ جامعہ کا مقصود ہے، ورنہ بصورت دیگر یہ دوسرے ڈھنگ پر جماعت سازی کریں گے‘ اور قوم بنانے کا عمل ناقص رہے گا۔
اب غور کیجئے‘ کہ جس ملک میں اس معنی کے لحاظ سے مختلف قومیں رہتی ہوں ان کو متفق کرنے کی کیا صورتیں ممکن ہیں۔ آپ جتنا بھی غور کریں گے، آپ کو صرف دو ہی ممکن العمل صورتیں نظر آئیں گی :
ایک یہ کہ ان قوموں کو ان کی قومیّتوں کے ساتھ برقرار رکھ کر ان کے درمیان واضح اور متعین شرائط کے ساتھ ایک ایسا وفاقی معاہدہ ہو جائے ‘جس کی رو سے وہ صرف مشترک اغراض و مقاصد کے لیے مل کر عمل کریں‘ اور باقی امور میں بالفعل مختار ہوں۔ کیا کانگریس نے فی الواقع یہ طریقہ اختیار کیا ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔
دوسری صورت یہ ہے‘ کہ ان قوموں کو ’’ایک قوم‘‘ بنا دیا جائے۔ یہی دوسری صورت کانگریس چاہتی ہے۔
سوال یہ ہے‘ کہ یہ قومیں ایک قوم کس طرح بن سکتی ہیں؟ لامحالہ ان کے لیے سب سے پہلے تو ایک مشترک جذبہ، ایک کلمہ جامعہ درکار ہے، اور وہ جذبہ یا کلمہ صرف تین چیزوں ہی سے مرکب ہو سکتا ہے :
وطن پرستی، بیرونی دشمن سے نفرت اور معاشی مفاد سے دلچسپی۔ پھر جیسا کہ میں اوپر کہہ چکا ہوں، قوم بنانے کے لیے شرط لازم یہ ہے‘ کہ یہ جذبہ اتنا قوی ہو‘ کہ دوسرے تمام جذبے جنہوں نے ان قوموں کو الگ الگ اقوام بنا رکھا ہے اس کے سامنے دب جائیں۔ کیونکہ اگر مسلمان کو اسلام سے، ہندو کو ہندویت سے، سکھ کو سکھیت سے اتنی دل چسپی ہو‘ کہ جب مذہب یا قومیّت کا معاملہ سامنے آئے تو مسلمان، مسلمان کے ساتھ اور ہندو ہندو کے ساتھ اور سکھ سکھ کے ساتھ جُڑ جائے‘ اور اس وقت (یا وطن پرستوں کی زبان میں فرقہ وارانہ) معاملہ کی حمایت کے لیے ایک جماعت بن کر اُٹھ کھڑا ہو، تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ جذبہ وطن نے ان کو ایک قوم نہیںبنایا۔ یہ امر دیگر ہے‘ کہ مسلمان اسلام کا قائل رہے‘ اور نماز بھی پڑھ لیا کرے، اور ہندو ہندویت کا معتقد رہے‘ اور مندر بھی چلا جایا کرے، لیکن ایک قوم بننے کے لیے شرط اوّل یہ ہے‘ کہ اس کی نگاہ میں وطنیت کی کم از کم اتنی اہمیت ضرور ہو‘ کہ اسلام کو اور ہندویت یا سکھیت کو وہ اس پر قربان کر سکتا ہو۔ اس کے بغیر ’’وطنی قومیّت‘‘ قطعاً بے معنی ہے۔
یہ تو وطنی قومیّت کا تخم ہے۔ مگر یہ تخم بار آور نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کے لیے مناسب آب و ہوا اور مناسب موسم نہ ہو۔ اوپر عرض کیا جا چکا ہے‘ کہ جذبہ قومی کی مدد کے لیے ضروری ہے‘ کہ زبان، ادب، تاریخی روایات، رسوم و عادات، معاشرت اور طرز زندگی، افکار و تخیلات، معاشی اغراض اور مادّی مفاد، غرض تمام وہ چیزیں جو انسانی جماعتوں کی تالیف و ترکیب میں فی الجملہ اثر رکھتی ہیں، اسی ایک جذبۂ قومی کی فطرت میں دھلی ہوئی ہوں۔ اس لیے کہ افراد کو جوڑنے والی ان مختلف طاقتوںکا میلان اگر علیحدگی کی جانب ہو تو یہ جذب اور تالیف اور اجتماع کے عمل میں اس جاذبہ کی الٹی مزاحمت کریں گی‘ اور متحدہ قوم نہ بننے دیں گی۔ لہٰذا ایک وطنی قوم بنانے کے لیے یہ بالکل ناگزیر ہے‘ کہ ان سب چیزوں میں سے ان عناصر کو نکالا جائے‘ جو مختلف قوموں کے اندر جُدا گانہ قومیّت کی روح پیدا کرتے اور زندہ رکھتے ہیں‘ اور ان کے بجائے ایسے رنگ میں ان کو ڈھالا جائے‘ کہ وہ آہستہ آہستہ تمام افراد اور طبقوں اور گروہوں کو ہمرنگ کر دیں، ان کو ایک سوسائٹی بنا دیں، ان کے اندر ایک طرح کے جذبات و احساسات پھونک دیں، اور ان کو ایسا بنا دیں‘ کہ ان کی معاشرت ایک ہو، طرز زندگی ایک ہو، ذہنیت اور اندازِفکر ایک ہو، ایک ہی تاریخ کے سر چشمے سے وہ افتخار کے جذبات اور روح کو حرکت میں لانے والے محرکات حاصل کریں‘ اور ان کے درمیان ایک دوسرے کے لیے کسی چیز میں بھی کوئی نرالا پن باقی نہ رہے۔
اسی مقصد کے لیے وردھا اسکیم بنائی گئی ہے‘ اور یہی مقصد ودیا مندر اسکیم کا ہے، جیسا کہ دونوں اسکیموںمیں صاف صاف لکھ بھی دیا گیا ہے۔ مگر مولانا نے ان اسکیموں اور ان کے نصاب کو نہیں دیکھا۔ اس قومیّت کا صور برسوں سے پنڈت جواہر لال پھونک رہے ہیں مگر ان کی بھی کوئی تحریر و تقریر مولانا کی سماعت و بصارت تک پہنچنے کا موقع نہ پا سکی۔ یہی چیز کانگریس کا ایک ایک ذمّہ دار آدمی کہہ رہا ہے، لکھ رہا ہے، اور اس کے لیے ان حاکمانہ طاقتوں سے کام لے رہا ہے‘ جو نئے دستور نے عطا کی ہیں، مگر نہ مولانا کے کان ان باتوں کو سنتے ہیں‘ اور ان کی آنکھیں ان چیزوں کو دیکھتی ہیں۔ اسی چیز کے لیے ان تمام اجتماعی ہیئتوں اور مجلسوں سے کام لیا جا رہا ہے‘ جن کی فہرست مولانا بار بار گنایا کرتے ہیں، اور یہ مجالس محض اس وجہ سے اس کام میں ان کی مدد گار بن گئی ہیں‘ کہ ان کا دائرہ عمل ان تمام معاملات پر چھایا ہوا ہے‘ جن کو آپ تہذیب، کلچر، پرسنل لا وغیرہ ناموں سے یاد فرماتے ہیں۔ مگر یہ عمل جو ہر آن ہندستان کے ہر حصہ میں ہو رہا ہے، اس کی بھی کسی جنبش کو مولانا کے حواسِ خمسہ تک رسائی حاصل نہ ہو سکی۔ اس پورے مواد میں سے صرف ایک ہی دستاویزان تک پہنچی ہے‘ جس کا نام ’’بنیادی حقوق‘‘{ FR 2973 }ہے‘ اور بس اسی کے اعتماد پر مولانا اس ’’متحدہ قومیّت‘‘ کو رسول اللہa کے اسوئہ حسنہ سے تشبیہ دینے کی جرأت فرما رہے ہیں، حالانکہ ان بنیادی حقوق کی حیثیت ملکہ وکٹوریہ کے مشہور اعلان سے کچھ بھی مختلف نہیں ہے‘ اور مغربی ڈپلومیسی کی ایسی چالوں کا رشتہ رسول پاکa کے عمل سے جوڑنے کی جسارت ہم جیسے گناہ گاروں کے بس کی تو بات نہیں۔ ہاں جن کے پاس تقویٰ کا زاد راہ اتنا زیادہ ہے‘ کہ وہ ایسی جسارتیں کرنے پر بھی بخشے جانے کی اُمید رکھتے ہیں، انہیں اختیار ہے‘ کہ جو چاہیں کہیں‘ اور جو چاہیں لکھیں۔
اشتراک لفظی کا فتنہ
مولانا نے اپنے ذہن میں ’’متحدہ قومیّت‘‘ کا ایک خاص مفہوم متعین کر رکھا ہے‘ جس کے حدود انہوں نے تمام شرعی شرائط کو ملحوظ رکھ کر اور تمام امکانی اعتراضات سے پہلو بچا کر خود مقرر فرمائے ہیں، اور ان کو وہ ایسی پُر احتیاط مفتیانہ زبان میں بیان فرماتے ہیں‘ کہ قواعد شرعیہ کے لحاظ سے کوئی اس پر حرف نہ لاسکے۔ لیکن اس میں خرابی بس اتنی ہی ہے‘ کہ اپنے مفہوم ذہنی کو مولانا کانگریس کا مفہوم و مدعا قرار دے رہے ہیں۔ حالانکہ کانگریس اس سے بمراحل دور ہے۔ اگر مولانا صرف اتنا کہنے پر اکتفا کرتے کہ ’’متحدہ قومیّت‘‘ سے میری مرا دیہ ہے‘ کہ تو ہمیں ان سے جھگڑا کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ لیکن وہ آگے قدم بڑھا کر فرماتے ہیں‘ کہ نہیں، کانگریس کی مراد بھی یہی ہے‘ اور کانگریس بالکل نبی a کے اسوئہ پر چل رہی ہے‘ اور مسلمانوں کو مامون و مطمئن ہو کر اپنے آپ کو اس متحدہ قومیّت کے حوالے کر دینا چاہیے جسے کانگریس بنانا چاہتی ہے۔ یہیں سے ہمارے اور ان کے درمیان نزاع کا آغاز ہوتا ہے۔ فرض کیجئے‘ کہ ’’پانی ڈالنے‘‘ سے آپ کا مفہوم ذہنی ’’پانی ڈالنا‘‘ ہی ہو، لیکن دوسرے نے ’’آگ لگانے‘‘ کا نام ’’پانی ڈالنا‘‘ رکھ چھوڑا ہو، تو آپ کتنا ظلم کریں گے‘ اگر اختلاف معنی کو نظر انداز کرکے لوگوں کو مشورہ دینے لگیں کہ اپنا گھر اس شخص کے حوالے کر دو جو ’’پانی ڈالنے’‘‘ کے لیے کہتا ہے۔ ایسے ہی موقع کے لیے تو قرآن مجید میں ہدایت کی گئی تھی‘ کہ جب ایک لفظ ایک صحیح معنی اور ایک غلط معنی میں مشترک ہو جائے‘ اور تم دیکھو کہ اعدائے دین اس اشتراک لفظی سے فائدہ اُٹھا کر فتنہ برپا کر رہے ہیں‘ تو ایسے لفظ ہی کو چھوڑ دو۔
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَقُوْلُوا انْظُرْنَا وَاسْمَعُوْا۰ۭ وَلِلْكٰفِرِيْنَ عَذَابٌ اَلِــيْمٌo البقرہ 104:2
اے ایمان لانے والو ! راعنا نہ کہا کرو بلکہ اُنْظُرْنَا کہا کرو اور توجہ سے بات سنو، کافر تو عذاب الیم کے مستحق ہیں۔
لہٰذا مولانا کو اپنے مفہوم ذہنی کے لیے تحالُف یا وفاق یا اسی قسم کا کوئی مناسب لفظ اختیار کرنا چاہیے تھا، اور اس وفاق یا تحالُف کو بھی اپنی تجویز کی حیثیت سے پیش کرنا چاہیے تھا، نہ اس حیثیت سے کہ یہ کانگریس کا عمل ہے۔ کم از کم اب وہ اُمت پر رحم فرما کر اپنی غلطی محسوس فرما لیں ورنہ اندیشہ ہے‘ کہ ان کی تحریریں ایک فتنہ بن کر رہ جائیں گی‘ اور اس پرانی سنّت کا اعادہ کریں گی کہ ظالم امرا اور فاسق اہلِ سیاست نے جو کچھ کیا اس کو علما کے ایک گروہ نے قرآن و حدیث سے درست ثابت کرکے ظلم و طغیان کے لیے مذہبی ڈھال فراہم کر دی۔
رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَۃً لِّلْقَوْمِ الظّٰلِــمِيْنَo یونس 85:10
اے ہمارے رب! ہمیں ظالم لوگوں کے لیے فتنہ نہ بنا۔
مولانا کے اس رسالہ کی اشاعت کے بعد یہ ضروری ہو گیا ہے‘ کہ خالص علمی حیثیت سے ’’قومیّت‘‘ کے مسئلہ کی تحقیق کی جائے‘ اور اس باب میں اسلامی نظریات اور غیر اسلامی یا جاہلی نظریات کے درمیان جو اصولی فرق ہے اسے پوری طرح نمایاں کر دیا جائے، تاکہ جو لوگ غلط فہمی کی بنا پر دونوںکو خلط ملط کرتے ہیں ان کے ذہن کا الجھاؤ دور ہو‘ اور وہ دونوں راستوں میں سے جس راستے کو بھی اختیار کریں علیٰ وجہ البصیرت کریں۔ اگرچہ یہ کام علمائے کرام کے کرنے کا تھا۔ مگر جب ان کے سر خیل تک ’’متحدہ قومیّت ا ور اسلام‘‘ لکھنے میں مصروف ہوں‘ اور ان میں سے کوئی بھی اپنے اصلی فرض کو انجام دینے کے لیے آگے نہ بڑھے، تو مجبوراً ہم جیسے عامیوں ہی کو یہ خدمت اپنے ذمہ لینی پڑے گی۔
(ترجمان القرآن، ذی الحجہ ۱۳۵۷ھ(فروری ۱۹۳۹ء)
خ خ خ