کہا جاتا ہے‘ کہ اس قومی، جمہوری، لادینی اسٹیٹ میں مسلمانوں کے مفاد کی حفاظت کے لیے وہ بنیادی حقوق (fundamental rights) بالکل کافی ہوں گے جن کا اعلان کراچی کانگریس میںکیا گیا تھا۔ مگر کیا یہ حقیقت ہے؟
بنیادی حقوق کاماخذ ۱۶۸۹ء کا اعلان اہلِ انگلستان سے ہے‘ جسے ایک طویل نزاع اور کش مکش کے بعد رعایا کے نمائندوں کی ایک مجلس (convention) نے وضع کیا تھا تاکہ حکومت کے مستبدانہ افعال کی روک تھام کی جائے‘ اور حکومت ورعیت کے درمیان کچھ حدود متعین کر دئیے جائیںجنہیںتوڑا نہ جا سکے۔ اس کے بعد امریکہ کے ’’اعلان آزادی‘‘ اور ’’اعلان حقوق انسانی‘‘ میں انہیں حقوق کو بطور اصول عامہ کے درج کیا گیا۔ پھر ۱۸۳۱ء کے دستور نامہ بلجیم میں ان کو شامل کیا گیا، اور اس کے بعد سے یہ گویا ایک قاعدہ سا بن گیا ہے‘ کہ ہر دستور میں باشندوںکے ان حقوق کی تصریح کر دی جاتی ہے۔ چنانچہ جدید زمانہ کا کوئی دستور ان سے خالی نہیں ہوتا، بلکہ ہر بعد کے دستور میں چند حقوق کا اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ خلاصہ ان سب کا یہ ہے‘ کہ :
قانون کی نگاہ میںسب باشندے مساوی ہیں۔ کسی شخص کو کسی قسم کی سزا نہیں دی جا سکتی۔ جب تک کہ وہ قانون کی خلاف ورزی نہ کرے، اور سزا قانون ہی کے مطابق دی جا سکتی ہے۔ حکومت رعایا کی شخصی آزادی اور جائیداد میں صرف قانون ہی کے ذریعے سے مداخلت کر سکتی ہے۔ تقریر اور نشرو اشاعت کی عام آزادی ہو گی۔ بشرطیکہ وہ قانون قذف (low of libel) کے خلاف نہ ہو۔ ڈاک اور تار کے پیغامات میں رازداری قائم رکھی جائے گی۔ باشندوں کو اجتماع کا حق حاصل ہو گا۔ بشرطیکہ غیر مسلح ہوں‘ اور امنِ عام کو نقصان نہ پہنچائیں۔ انتخابات آزاد ہوں گے۔ پارلیمنٹ کے ارکان باز پرس سے محفوظ رہیں گے۔ ان کو گرفتار نہیں کیا جا سکتا اِلاّ یہ کہ کوئی ممبر قانون کی خلاف ورزی کرتا ہوا پکڑا جائے۔
اس کے علاوہ جدید زمانہ کے دستوروں میںجن باتوں کا اضافہ کیا گیا ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے‘ کہ :
’’عورت اورمرد مساوی ہیں‘‘۔
یہ حقوق دراصل اس لیے وضع کیے گئے تھے‘ کہ جب کبھی حکومت اپنی حدود سے تجاوز کرنے لگے تو رعایا کے پاس اپنی آزادی اور اپنے ذاتی حدود کی حفاظت کے لیے کوئی قانونی بنیاد رہے جس کی بنا پر وہ حکومت سے اپنے حقوق کا مطالبہ کر سکے، یا اگر حکومت نہ مانے اور رعایا کو لڑنا پڑے تو حکومت کا اخلاقی پہلو کمزور ہو۔ لیکن اوّل تو زمانہ حال میں سیاسی تصوّرات کے انقلاب نے حکومت اور رعایا کے درمیان ہر اس حد بندی کو توڑ دیا ہے‘ جس کا خیال کیا جا سکتا ہے، حتیٰ کہ اب یہ بتانا قریب قریب محال ہو گیا ہے‘ کہ حکومت کے حدود کہاں جا کر ختم ہوتے ہیں‘ اور افراد رعیت کے حدود کہاں سے شروع ہوتے ہیں۔ ثانیاً یہ اعلان حقوق صرف اس صورت میں کام آسکتا ہے‘ جب کہ جمہور قوم کی مرضی کے خلاف حکومت کی طرف سے کوئی ناروا مداخلت ہو‘ اور باشندوں کی ایک کثیر تعداد اپنے حقوق کی حفاظت کے کے لیے کھڑی ہو جائے۔ مگر جہاں اکثریت کی حکومت ہو۔ اور وہ اقلیت کے حقوق میں مداخلت کرے وہاں یہ اعلان حقوق قطعی بیکار ثابت ہوتا ہے۔ ثالثاً کراچی کے ریزولیوشن میں جن بنیادی حقوق کا ذکر کیا گیا ہے ان کا تجزیہ کرکے دیکھئے تو معلوم ہوجائے گا کہ وہ بجائے خود بھی ہمارے کسی مرض کی دوا نہیں۔
ان تینوں نکات کی مختصر تشریح ضروری ہے تاکہ عام ناظرین اس بحث کو بآسانی سمجھ سکیں۔
۱- دور جدید میں حکومت کا دائرہ عمل
حکومت کے حدود عمل کیا ہیں؟ اس باب میں دنیا کے نظریات اور عملیات اٹھارویں اور انیسویں صدی میں جو کچھ تھے، آج ان سے بالکل مختلف ہیں۔ اٹھارہویں صدی میں شخصی حکومتوں کا دور دورہ تھا، اور لوگ ان کے استبداد سے نجات حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے تھے۔ اس لیے لوگوں کے ذہن پر حکومت اور رعیت کے تعلق کا مشینی نظریہ (mechanical theory) مستولی تھا، یعنی ان کاتصوّر یہ تھا‘ کہ افراد کا مجموعہ ایک الگ چیز ہے اور اسٹیٹ ایک دوسری چیز، اور ان دونوں میں باہم کچھ اس طور پر معاملہ ہوتا ہے جیسے بائع اور مشتری یا اجیر اور مستاجر کے درمیان ہوا کرتا ہے، اسی خیال نے اسٹیٹ کے حدود عمل کا انفرادی نظریہ (Individualism) پیدا کیا جس کا منشا یہ ہے‘ کہ اصل چیز فرد کی آزادی ہے، اسی کی حفاظت کے لیے فرد اس معاہدہ عمرانی میں social contract)) میںشریک ہوتا ہے‘ جس کی بدولت اسٹیٹ وجود میں آیا ہے۔ لہٰذا اسٹیٹ کا کام اس کے سوا کچھ نہیںکہ افراد کی شخصی آزادی کی حفاظت کرے اور ایک فرد کی آزادی میں دوسرے کی مداخلت کو روکے۔ جان و مال کی حفاظت، امن قائم کرنا، انصاف کرنا، اورحدود مملکت کو بیرونی حملوں سے بچانا، بس یہ اس کے فرائض ہیں۔ ان حدود سے آگے بڑھ کر اشخاص کے ذاتی معاملات میں مداخلت کرنا، خواہ وہ اشخاص کی بھلائی ہی کے لیے ہو‘ اور کیسی ہی نیک نیتی کے ساتھ ہو، بہرحال ناجائز ہے۔ اٹھارہویں صدی کے آخر اور انیسویں صدی کے آغاز میں یہ عام خیال تھا‘ اور اسی بنا پر بعض علمائے سیاست نے ان کاموں کی ایک فہرست بھی بنا دی تھی‘ جو حکومت کے دائرہ عمل میں آسکتے ہیں۔
یہ تخیلات اس زمانے میں بھی قائم رہے، اور کافی مدت تک چلتے رہے، جب شخصی حکومتوںکی جگہ جمہوری حکومتیں لے رہی تھیں۔ مدتوں تک لوگوں کو محسوس نہ ہو سکا کہ جمہوریت اور دائرہ حکومت کی حد بندی دونوں باہم متضاد ہیں۔ جب سوسائٹی خود اسٹیٹ بناتی ہے‘ تو وہ اپنے اوپر خود کس طرح پابندی عائد کر سکتی ہے؟ اور اس کو اپنے اوپر پابندی عائد کرنے کی ضرورت بھی کیا ہے؟ وہ اسٹیٹ کو اسی لیے تو وجود میں لاتی ہے‘ کہ جبروز ور اور تنظیم کی طاقت سے اپنی ان اجتماعی ضروریات کو پورا کرے‘ جن کے لیے تنظیمی طاقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ پھر آخر کون سی معقول وجہ ہے‘ کہ وہ اس تنظیمی طاقت کے استعمال کو اپنی بعض ضروریات کے لیے جائز اور بعض کے لیے ناجائز ٹھہرائے؟ اس حد بندی کی ضرورت تو اس وقت تھی جب حکومت سوسائٹی سے بالکل الگ ایک چیز ہوتی تھی‘ اور کہیں اوپر سے آکر مسلط ہو جایا کرتی تھی۔ مگر جب خود سوسائٹی ہی سے حکومت پیدا ہو تو ایسی صورت میں اس حد بندی کی کیا جاجت؟
فرد، سوسائٹی اور اسٹیٹ کو ایک زندہ نظام جسمانی کی طرح سمجھنے کا تخیل (organic theory of state and society) جمہوری افکار کے ارتقاء کے ساتھ ساتھ برابر ترقی کرتا چلا گیا‘ اور سوشل ازم نے آکر اسے پایۂ تکمیل کو پہنچا دیا۔ اب دنیا میں ہر جگہ حکومت کے دائرہ عمل کی حدیں ٹوٹ کر پوری اجتماعی زندگی پر پھیل رہی ہیں۔ تمدّن، معاشرت اور معیشت کی جڑوںتک میں اترتی جا رہی ہیں، اور جزئی سے جزئی معاملات تک کو اپنی لپیٹ میں لیتی چلی جاتی ہیں۔ باشندوں کی روٹی کا بندوبست کرنا، ان کے لیے کام مہیا کرنا، ان کے معیار زندگی کو بلند کرنا، اور ان کے لیے زیادہ سے زیادہ آسائش بہم پہنچانا، یہ ہیں اب حکومت کے فرائض، ان فرائض کو انجام دینے کے لیے وہ ملک کے معاشی ذرائع کو زیادہ سے زیادہ بہتر طریقہ سے استعمال کرنے پر مجبور ہے، اور اس طرح گویا پوری معاشی زندگی اپنی صنعتی تجارتی اور مالی شعبوں سمیت حکومت کے دائرے میں آجاتی ہے۔ پھر وہ اپنے ان فرائض کی انجام دہی کے لیے تعلیم کا بھی پورا انتظام اپنے ہاتھ میں لینے پر مجبور ہے تاکہ باشندوں کو ان اغراض کے لیے کارآمد بنا سکے۔ مزید برآں ان فرائض کی بجا آوری میں یہ بھی ممکن نہیں ہے‘ کہ افراد یا افراد کے مختلف مجمعوں کی شخصی آزادی یا ان کی انفرادی خواہشات، یا ان کے مخصوص حقوق کا ہر حال میں لحاظ کیا جاسکے۔ ان سب چیزوں کا صرف اسی حد تک خیال رکھا جا سکتا ہے‘ اور اسی شرط کے ساتھ رکھا جا سکتا ہے‘ کہ وہ حکومت کے فرائض کی ادائیگی میں حائل نہ ہوں۔ جہاں وہ حائل ہوں گے وہاں ان کی انفرادیت کو پامال کر دیا جائے گا۔ اب یہ ممکن نہیں ہے‘ کہ کوئی شخص یا کوئی گروہ اس فیصلہ میں خود مختار ہو کر اپنے بچوں کو کس قسم کی تعلیم دلائے۔ یہ حکومت کا کام ہے‘ کہ اجتماعی فلاح کے نقطۂ نظر سے جس طرح مناسب سمجھے ان کو تیار کرے۔ تمدّنی اور معاشرتی معاملات میں بھی اب انفرادی آزادی کا حق مسلم نہیں ہے۔حکومت اجتماعی فلاح کے لیے تمدّن اور معاشرت میںجس قسم کا تغیّر ضروری سمجھے کر سکتی ہے حتیٰ کہ وہ یہ بھی کہہ سکتی ہے‘ کہ فلاں طرز کا لباس پہنو اور فلاں طرز کا لباس نہ پہنو۔ فلاں رسم الخط استعمال کرو اور فلاں کو چھوڑ دو۔ اس عمر میں شادی کرو اور اور اس عمر میں نہ کرو، دھلم جرا۔ اسی طرح جب کہ وہ باشندوں کی معاشی فلاح و ترقی کی ذمّہ دار ہے‘ تو وہ تجارت، صنعت و حرفت، زراعت اور اموال و املاک کے باب میں بھی لوگوں کے شخصی حقوق کی رعایت ہمیشہ ملحوظ نہیں رکھ سکتی۔ وہ مجبور ہے‘ کہ معیشت کی پوری مشین کو اجتماعی مقصد کے مطابق چلائے اور جو شخصی حقوق اس راہ میں حائل ہوں انہیں پامال کر دے۔ چنانچہ جنگ ِعظیم کے بعد جتنے جمہوری دساتیر بنائے گئے ہیں قریب قریب ان سب میں اس قسم کی دفعات رکھی گئی ہیں‘ جن کی بنا پر حکومت کو شخصی املاک اور شخصی کاروبار میں دخل دینے کے نہایت وسیع اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔ مثلاً تاجر کے مال کو جبراً فروخت کرا دینا۔ شخصی املاک پر بمعاوضہ یا بلا معاوضہ قبضہ کر{ FR 2959 } لینا۔ باشندوں کی سکونت یا نو آبادکاری یا ترقی زراعت کے لیے اگر ضرورت ہو تو زمینوں کو بلا معاوضہ ضبط کر لینا ۔{ FR 2960 } موروثی جائیداد اگر ایک حد خاص سے زیادہ ہو تو اسے چھین کر تقسیم کر دینا ۔{ FR 2961 } وراثت میں اسٹیٹ کا حصہ مقرر کرنا{ FR 2962 }حتیٰ کہ پرائیویٹ کاروبار کی تنظیم اور مراسلت و مخابرت میں بھی مداخلت کرنا اگر اجتماعی مفاد کے لیے اس کی حاجت ہو۔{ FR 2963 }
حکومت کے دائرے کی اس وسعت اور لامحدودیت نے اوّل تو بنیادی حقوق کو محض بے معنی بنا دیا ہے۔ کیونکہ جن حقوق کو انسان کے بنیادی‘ اور پیدائشی حقوق کہا جاتا ہے، ان سب کو آج کی حکومت اجتماعی فلاح کے نام سے سلب کر سکتی ہے۔ دوسری اور زیادہ اہم بات یہ ہے‘ کہ جمہوری نظام میں حکومت کے قوانین بنانے اور نافذ کرنے والی چیز اکثریت ہوتی ہے، اور یہ فیصلہ کرنا بھی اکثریت کا کام ہوتا ہے‘ کہ اجتماعی فلاح کیا ہے‘ اور اس کا اقتضاکیا ہے۔ لہٰذا اب اکثریت کے ظلم و جور اور استبداد کی کوئی حد نہیں رہ جاتی۔ اقلیت کی پوری زندگی کے دروازے اس کی قاہرانہ مداخلت کے لیے کھل جاتے ہیں، وہ اس کے تمدّن، اس کی معیشت و معاشرت اور اس کے مذہبی قوانین میں اجتماعی مفاد کے نام سے جس طرح اور جتنی چاہے مداخلت کر سکتی ہے‘ اور تعلیم کے نظام کو اپنے ہاتھ میں لے کراس کی قومیّت کو بالکل مٹا دینے کی بھی کوشش کر سکتی ہے۔
۲-بنیادی حقوق کی افادیت
بنیادی حقوق اگر کسی حد تک کام آسکتے ہیں‘ تو صرف اس صورت میں جب کہ باشندگانِ ملک کی بڑی اکثریت ان کی حفاظت کا ارادہ رکھتی ہو‘ اور اتفاقاً کوئی ایسی حکومت ملک پر مسلط ہو گئی ہو‘ جو ان حقوق کو سلب کرنا چاہتی ہو۔ رہی یہ صورت کہ خود وہ اکثریت ہی ظلم پر اتر آئے جو حکومت جمہوریہ کو چلا رہی ہو، تو ایسی صورت میںبنیادی حقوق کی کوئی لمبی سے لمبی فہرست بھی اقلیت کے کام نہیں آسکتی۔
خود برطانیہ عظمیٰ کی مثال لے لیجئے‘ جہاں سے ان بنیادی حقوق کی ابتداء ہوئی ہے۔ ۱۸۲۸ء تک وہاں پارلیمنٹ اور مجالس بلدیہ اور سرکاری ملازمتوں میں داخل ہونے کے لیے چرچ آف انگلینڈ کے طریقہ پر عشائے ربانی (lord”s supper) لینا لازم تھا۔ ۱۸۲۹ء تک کیتھولکس ہر قسم کی نمائندگی سے محروم تھے۔ ۱۸۶۷ء تک یہودی پارلیمنٹ میں نہ جا سکتے تھے۔ ۱۸۵۴ء تک آکسفورڈ اور کیمبرج کے دروازے ان لوگوں کے لیے بند تھے‘ جو پراٹسٹنٹ مذہب کے ’’۳۹‘‘ اصولوں پر ایمان نہ لاتے ہوں‘ اور ۱۸۷۱ء تک ان دونوں یونی ورسٹیوں میں ایسے کسی شخص کو کسی قسم کا عہدہ یا امتیاز یا وظیفہ تعلیمی نہ مل سکتا تھا۔ ۱۸۸۱ء تک چرچ آف انگلینڈ کی پیروی نہ کرنے والوں کے لیے دفن اموات کے بارے میں طرح طرح کی قیود موجود تھیں۔ ۱۸۸۸ء تک عدالت میں شہادت دینے والوں کے حلف کی ناروا قیود پائی جاتی تھیں۔ اور آئنر لینڈ کی اقلیت کے ساتھ تو ۱۹۲۰ء تک جو کچھ ہوتا رہا وہ ساری دنیا پر عیاں ہے۔
ممالک متحدہ امریکہ کی مثال اس سے بھی زیادہ سبق آموز ہے۔ وہاں ایک کروڑ ۲۰ لاکھ حبشی آباد ہیں‘جن کا تناسب کل آبادی میں ۹ فیصدی سے کچھ زیادہ ہے۔ دستور کی رو سے ان کو سفید فام امریکنوں کے برابر پورے شہری حقوق حاصل ہیں۔جمہوری دولت مشترکہ میں وہ بھی برابر کے حصہ دار ہیں‘ اور قانون میںکوئی چیز ایسی نہیں جس کی بنا پر سفید فام اور سیاہ فام میں امتیاز کیا جا سکتا ہو۔ مگر عملاً کیا ہو رہا ہے؟ سفید فاموں کی اکثریت ان کے ساتھ کھلا کھلا امتیازی برتاؤ کر رہی ہے۔ شہری حقوق تو درکنار ان کے معمولی انسانی حقوق تک علانیہ سلب کیے جا رہے ہیں‘ اور دستور کے عطا کردہ بنیادی حقوق ان کے کسی کام نہیں آتے۔ سفید فاموں کے کلیساؤں میں وہ گھس نہیں سکتے۔ ان کے ہوٹلوں، ریسٹورانوں اور تھیٹروں میں وہ قدم نہیں رکھ سکے۔ ان کی تفریح گاہوںمیںکوئی حبشی اگر چلا جاتا ہے‘ تو سخت ذلت کے ساتھ نکالا جاتا ہے۔ موٹر بسوں اور ریل کے ڈبوں میں بھی سفید فام کے ساتھ حبشی کا بیٹھنا جائز نہیں رکھا جاتا۔سفید فاموںکے محلوں میںکوئی حبشی مکان نہیں لے سکتا۔ ان کے بچوں کے ساتھ حبشی بچہ ایک مدرسہ میں بیٹھ نہیں سکتا۔ ان کی جان، مال، عزت، آبرو، کسی چیز کی کوئی قیمت نہیں۔ حتیٰ کہ ان کے ساتھ انتہائی وحشیانہ برتاؤ کرنے سے بھی مہذب گوروں کا ضمیر اِبا نہیںکرتا۔ اور بہت ہی کم کبھی ایسا ہوتا ہے‘ کہ کسی حبشی کی خاطر کسی گورے کے خلاف قانون کی مشین حرکت میں آتی ہو۔
یہاں اس برتاؤ کی تفصیلات بیان کرنے کا موقع نہیں جو امریکہ کی اکثریت حبشی اقلیت کے ساتھ کر رہی ہے۔ مگر میں اختصار کے ساتھ یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ جہاں اکثریت اور اقلیت کونسل یا رنگ یا مذہب یا کسی اور چیز نے حقیقۃً ایک دوسرے سے جدا کر رکھا ہو وہاں اکثریت کی حکومت کیا رنگ ڈھنگ اختیار کرتی ہے‘ اور دستور اور اس کے بنیادی حقوق اور قانون اور اس کی کاغذی دفعات کا کیا حشر ہوا کرتا ہے۔
امریکہ میں حبشیوں کے متعلق بغیر کسی سائنٹی فِک بنیاد کے یہ نظریہ قائم کیا گیا تھا‘ کہ حیاتی نقطۂ نظر سے (biologiclaly) وہ تعلیم کے لیے نا اہل ہیں‘ اور عمرانی نقطۂ نظر سے (socially) ان کو تعلیم دینا انہیں ناکارہ بنا دیتا ہے، یعنی پھر وہ خدمت گار بننے کے بجائے برابر والے بننے لگیں گے۔ اس بنا پر بعض ریاستوں میں انہیں تعلیم دینا حکماً ممنوع تھا‘ اور بعض ریاستوں میں اسے بُرا سمجھا جاتا تھا۔ کئی سال تک حبشی خود اپنی کوششوں سے اپنے روپے میںمدارس قائم کرتے اور اپنے بچوں کو تعلیم دلواتے رہے۔ یہاں تک کہ جب انہوں نے اپنی دماغی قابلیت دنیا پر ثابت کر دی تب ۱۹۰۵ء سے ان کے مدارس کو سرکاری امداد ملنے کا سلسلہ شروع ہوا۔
قانون کی نگاہ میں حبشی اور سفید امریکن عملاً برابر نہیںہیں اگرچہ لفظاً برابر ہیں۔ حبشی کے لیے قید کی مدت ہمیشہ زیادہ رکھی جاتی ہے۔ ۱۹۱۰ء کے اعدادو شمار سے معلوم ہوتاہے‘ کہ حبشیوں کو اوسطاً ۱۷ مہینہ اور سفید فاموں کو اوسطاً ۵ مہینہ کی سزائیںدی گئیں۔ آبادی میں تو حبشیوں کا تناسب ۹ فیصدی ہے‘ مگر جیل خانوں کی آبادی میںان کا تناسب ۳۱ فیصدی۔
۱۸۸۰ء میں حبشی قیدی فی لاکھ آبادی میں ۲۴۴ تھے‘ اور سفید فام۹۶
۱۸۹۰ء ” ” ۲۶۴ ” ۸۴
۱۸۹۰ء ” ” ۲۷۸ ” ۷۷
۱۹۱۰ء ” ” ۲۸۴ ” ۷۹
۱۸۹۰ء ” ” ۳۲۷ ” ۷۷
اسی طرح سفید فاموں کی تعداد تو جیل خانوںکی آبادی میںبرابر کم ہوتی جا رہی ہے‘ مگر حبشیوں کی تعداد بڑھ { FR 3053 }رہی ہے۔اس کی وجہ یہ نہیں ہے‘ کہ حبشی زیادہ جرائم کرتے ہیں۔شکاگو میں ایک کمیشن نسلی تعلقات کی تحقیق کے لیے مقرر کیا گیا تھا جو (chicago commission of racial relations) کے نام سے مشہور ہے۔{ FR 2965 } اس کمیشن کے سامنے ایک جج نے بیان دیتے ہوئے کہا ’‘’جس شہادت کو جیوری ایک حبشی کومجرم قرار دینے کے لیے کافی سمجھتی ہے وہی شہادت ایک سفید فام کو سزا دینے کے لیے ناکافی سمجھی جاتی ہے‘‘۔ ایک دوسرے جج نے کہا کہ ’’ایک ہی طرح کے حالات اور واقعات میں سیاہ فام کو سزا دینا آسان ہے‘ اور سفید فام کو سزا دینا مشکل۔ حبشیوں اور سفید فاموں کے فسادات میں پولیس تمام تر حبشیوں کو پکڑتی ہے‘ اور سفید فام پر شاذو نادر ہی ہاتھ ڈالا جاتاہے۔‘’‘شکاگو کمیشن اپنی تحقیقات کے نتائج بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے :
تمام شہادتیں قریب قریب متفق ہیں‘ کہ حبشی بہ نسبت سفید فاموں کے زیادہ پکڑے جاتے ہیں، کیونکہ پولیس کا عام مفروضہ یہ ہے‘ کہ حبشی زیادہ جرائم پیشہ ہوتے ہیں، اور پولیس یہ بھی جانتی ہے‘ کہ حبشی کو گرفتار کر لینے میں کوئی خطرہ نہیں، رہا سفید فام تو اس پر ذرا احتیاط سے ہاتھ ڈالنا چاہیے … ایک ایک جرم میں بہت سے حبشی پکڑ لیے جاتے ہیں۔ لہٰذا محض قید خانوں میں حبشیوں کی آبادی زیادہ دیکھ کر یہ نہ سمجھ لینا چاہیے‘ کہ وہ زیادہ جرم کرتے ہیں۔ سفید فاموں کی نسبت حبشی کم ہی گرفتاری سے بچ سکتا ہے۔
یہ قانون کا حال ہوا۔ اور وہ اکثریت جو جمہوری نظام کو چلا رہی ہے۔ اس کا کیا حال ہے؟ حق رائے دہی پر عملاً ایسی پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں‘ کہ حبشیوں کی ایک بڑی تعداد شہری (citizens) ہونے کے باوجود خود بخود ووٹ دینے کے حق سے محروم ہو جاتی ہے۔ سرکاری ملازمتوں کے دروازے ان کے لیے گویا بند ہیں۔ آج تک کوئی حبشی کسی ذمّہ داری کے منصب پر فائز نہ ہو سکا۔ البتہ جنگ میں توپوں کا ایندھن بننے کے لیے وہ ضرور بھیج دئیے گئے تھے۔ اور اب بھی اس کام کے لیے تیار کیے جا رہے ہیں۔
عامۃ النّاس ان کو صرف ملیچھ ہی نہیں سمجھتے بلکہ بات بات پرفساد ہوتے ہیں‘ اور ان کو نہایت بے دردی سے قتل کیا جاتاہے۔ ۱۹۱۹ء کا واقعہ ہے‘ کہ شکاگو میں یکایک افواہ اڑی کہ کسی حبشی نے ایک اٹالین لڑکی کو مار ڈالا ہے۔ اس پر سفید فام لوگوں کا ایک مجمع اکٹھا ہو گیا‘ اور اس نے ایک راہ چلتے حبشی پر حملہ کر دیا۔ کارونر کی عدالت میں جب اس کی لاش پیش ہوئی تو ۱۴ گولیاں اس کے جسم سے نکلیں، کھوپڑی چور چور پائی گئی اور پسلیوں کے ٹکڑے ہو چکے تھے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اٹالین لڑکی کے واقعہ کی کوئی اصلیت نہ تھی۔{ FR 2966 }پریذیڈنٹ ولسن جب پیرس میںبیٹھے ہوئے جرمنوں کے مظالم پر محاکمہ فرما رہے تھے اس وقت شکاگو میں ایک حبشی زندہ آگ پر بھونا جا رہا تھا۔ امریکہ میں انصاف کا ایک نرالا طریقہ رائج ہے‘ جسے لِنش کرنا (lynching) کہتے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں‘ کہ عوام جب عدالت کے فیصلہ سے مطمئن نہ ہوں یا قانون کی سست رفتار مشین کو آہستہ چلتے دیکھ کر صبر نہ کر سکیں تو قانون کو خود اپنے ہاتھ میںلے لیں‘ اور جس شخص کو وہ مجرم سمجھتے ہوں اسے اپنے نزدیک جو منصفانہ سزا چاہیں دے دیں۔اس طریق انصاف کا وار عموماً حبشیوں پر ہی ہوتا ہے۔ چنانچہ ’’نیو یارک ورلڈ‘‘نے ۱۸۸۵ء سے ۱۹۲۶ء تک کے جو اعدادو شمار شائع کیے ہیں،ان سے معلوم ہوتا ہے‘ کہ ۴۱ سال کی مد ت میں ۳۲۰۵ حبشی برسرِ عام لِنش کیے گئے۔ لنشنگ عموماً اس قصور میںہوتا ہے‘ کہ کسی گوری عورت سے کسی حبشی کا تعلق پایا جائے یا ایسے تعلق کا شبہ کیا جائے۔ لیکن سفید فام امریکن کا ضمیر صرف اسی وقت آمادہ شورش ہوتاہے‘ جب کالا مرد گوری عورت کے پاس پایا جائے۔ رہی کالی عورت تو اس پر گوروں کے پیدائشی حقوق ہیں۔حبشی کے متعلق عام رائے گورے صاحبان کی یہ ہے‘ کہ وہ وحشی جانور(brute) ہوتا ہے۔ اس کا معیار اخلاق بہت پست ہوتا ہے۔ بلکہ اس میں اخلاقی احساس ہوتا ہی نہیں۔ عورتوں اور بچوں پر حملہ آور ہونا اور بد معاشی کرنا اس کی سرشت میں داخل ہے۔ گویا ہمارے ملک کے ہندو اخبارات کی زبان میں وہ ایک پیدائشی ’’غنڈا‘‘ ہوتا ہے۔ لیکن شکاگو کمیشن نے باقاعدہ تحقیقات کرکے ثابت کیا ہے‘ کہ حبشی کا معیار اخلاق صاحب لوگوں سے بہت بلند ہوتاہے‘ اور صاحب لوگ خود اپنی قوم کی عورتوں پر حملہ کرنے میں جس قدر بے باک ہیں۔ حبشی غریب اس کا عشر عشیر بھی نہیں۔البتہ حبشی سے جب یہ قصور ہو جاتا ہے (اور وہ بھی زیادہ ترمیم صاحبات ہی کی دعوت اور اشتعال کا نتیجہ ہوتا ہے) تو صاحب لوگوںمیں اس پر شور مچ جایا کرتا ہے۔ اور یہی حبشی کے بدنام ہونے کی اصلی وجہ ہے۔ کمیشن کے سامنے ایک جج نے بیان دیتے ہوئے کہا کہ نابالغ لڑکیوں کے ساتھ زنا بالجبر کرنے والا حبشی تو میری عدالت میں کبھی آیا ہی نہیں۔ البتہ سفید فام بہت سے آئے۔ ایک دوسرے جج نے بیان کیا کہ میری کُل مدت ملازمت میں صرف ایک حبشی اس جرم میں ماخوذ ہو کر آیا ہے،حالانکہ سفید فام اکثر پکڑے ہوئے آتے ہیں۔
۱۸۶۵ء سے امریکہ میں ایک خفیہ جماعت کام کر رہی ہے‘ جس کا نام کو کلکس کلاں (ku klux klan) ہے۔ اس کے قیام کا مقصد یہ ہے‘ کہ سیاہ فاموں پر سفید فاموں کے تفوّق کی حفاظت کی جائے‘ اور امریکہ میں کالی نسل کے مسئلہ (negroe problem) کو اس طرح حل کیا جائے‘ کہ ریڈ انڈین قوم کی طرح یہ قوم بھی رفتہ رفتہ فنا{ FR 2967 } ہو جائے۔ یہ امریکہ کی سب سے زیادہ طاقت ور سنگھٹن ہے‘ جس کے ارکان کی تعداد ۱۹۲۳ء میں پندرہ لاکھ تھی۔ ملک کے اعلیٰ تعلیم یافتہ، اونچی سوسائٹی والے، اور حکومت کے حلقوں سے قریبی تعلق رکھنے والے لوگ اس میں شریک ہیں۔ صوبوں کے گورنر، پولیس اور جیل اور عدالت کے حکام تک ان سے ساز باز رکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے یہ بڑے بڑے ہولناک جرائم کر جاتے ہیں‘ اور قانون کی مشین ساکت و صامت کھڑی رہتی ہے۔امریکہ کَمز آف ایج (America comes of age) کا مصنف لکھتا ہےکہ ’’وہی مہذب و شائستہ جنٹل مین جس سے آپ گفتگو کر رہے ہیں، ہو سکتا ہے‘ کہ رات کو وہ جنگل میں کسی آدمی کو قتل کر کے آیا ہو‘ اور اس کے ساتھ اس جرم میں بہت سے وہ لوگ شریک ہوں جنہیں آپ دن کے وقت نہایت عزت و افتخار سے ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں۔ چند ہولناک جرائم کے سلسلہ میں ریاست ٹکساس (taxes) کے گورنر نے تحقیقات کرائی تو پتہ چلا کہ مجرموں میں ایک تو پادری صاحب تھے‘ اور متعدّد ایسے لوگ تھے جو خود گورنر صاحب کے احباب سے تعلق رکھتے تھے۔
یہ مہذب لوگ حبشیوں کے مسئلہ کو کس طرح حل کر رہے ہیں؟ چند مثالیںملاحظہ ہوں:
ایک حبشن کو مارتے مارتے بیہوش کر دیا اور ننگا کرکے جنگل میں چھوڑ آئے تاکہ سردی میں مر جائے۔ ایک حبشی کی ہنٹروں سے کھال ادھیڑ دی، یہاں تک کہ مجبور ہو کر اس نے اپنی زمین کم قیمت پر ایک سفید فام شخص کے ہاتھ بیچ دی۔ ایک حبشی کو پکڑ کر جنگل لے گئے، رسیوں اور خاردار تاروں سے اسے باندھا۔ ہنٹر مار مار کر اس کی کھال ادھیڑی۔ پھر اس کے زخموں پر کریا زوٹ چھڑک کر چل دئیے اور وہ گھنٹوں تڑپ تڑپ کر مرا۔ ایک حبشن اور اس کے لڑکے کو پکڑ لے گئے‘ اور دونوںکو ایک ریل کے پل سے باندھ دیا۔ ایک غریب کو ہسپتال سے اُٹھا کر لے گئے‘ اور اس کو زندہ آگ پر بھون ڈالا۔ ایک بے چارےکو ٹیلی فون کے کھمبے سے باندھا اور مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگا دی۔{ FR 2968 }
حبشی کا سب سے بڑاقصور جسے معاف نہیں کیا جا سکتا، یہ ہے‘ کہ وہ سفید فام آبادی میں یا اس کے قریب جائیداد رکھتا ہو، یا سکونت اختیار کرے، ۱۹۱۷ء اور ۱۹۲۱ء کے درمیان صرف شہر شکاگو میں ۵۸ مرتبہ ایسے مکانات کو بم سے اڑایا گیا جو حبشیوں نے خریدے تھے یا جو کسی سفید فام نے حبشی کو کرایا پر دئیے تھے۔ ایک حبشی بینکر (binga) کے مکان اور دفتر پر ایک سال کے اندر ۶ مرتبہ بم پھینکا گیا صرف اس قصور میںکہ وہ حبشیوں کے لیے مالی تقویت کا موجب بن گیا ہے، اس کے بینک سے حبشیوں کو اچھی شرائط پر روپیہ مل جاتا ہے،ا ور اس کی بدولت حبشی لوگ جائیدادیں خریدنے لگے ہیں، یہ واقعات ہیں‘ جن کا نتیجہ یہ ہے‘ کہ جو حبشی ۱۷۹۰ء میں ممالک متحدہ امریکہ کی آبادی کا ۱۹ فیصدی حصہ تھے وہ آج ۹ فیصدی رہ گئے ہیں ۔{ FR 2969 } اور لطف یہ ہے‘ کہ امریکہ کے کانسٹیٹیوشن میںحبشی اقلیت کے بنیادی حقوق بالکل محفوظ ہیں۔
جرمنی کی ایک اور مثال آپ کے سامنے ہے۔ جرمن کانسٹیٹیوشن کی رو سے تمام باشندگانِ ملک کے بنیادی حقوق مسلم ہیں۔ مگر آج وہاں کی غیر آریہ نسل کے ساتھ جو کچھ ہوتا رہا ہے{ FR 2970 }وہ کس سے پوشیدہ ہے۔ ان کے لیے جرمنی کی حدود میں عزت کی روٹی کمانا قریب قریب محال ہو گیا ہے‘ اور وہاں سے نکل جانا بھی اتنا ہی محال ہے۔ سرکاری اور خانگی دونوں قسم کی ملازمتوں کے دروازے ان کے لیے بند ہیں۔ تجارت بھی وہ آزادی سے نہیں کر سکتے۔ دوسرے آزاد پیشوں سے بھی ان کو نکالا جا رہا ہے۔ عدالتوں میں ان کے ساتھ کھلم کھلا نسلی امتیاز برتا جاتا ہے۔ ان کے لیے انصاف کا نظریہ یہ قائم کیا گیا ہے‘ کہ ہر غیر آریہ ناپاک اور پیدائشی مجرم ہے تاوقتیکہ وہ اپنے آپ کو غیر مجرم نہ ثابت کر دے۔ عام باشندے اگر ان سے لین دین یا کسی قسم کا معاملہ کرتے ہیں‘ تو ان پر حکومت کا عتاب ہوتا ہے۔ ملک کے مدارس میں ان کے بچوں پر ناقابلِ برداشت پابندیاں ہیں‘ اور اگر وہ ملک سے باہر تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیجے جاتے ہیں‘ تو ان کو صرف ہجرت کا پاسپورٹ دیا جاتا ہے تاکہ واپس نہ آسکیں۔ ان کے والدین اگر ان سے ملنے کے لیے باہر جانا چاہیں تو انہیں بھی مہاجر کی حیثیت سے جانے کی اجازت دی جاتی ہے‘ اور مہاجر کے لیے یہ قانون بنا دیا گیا ہے‘ کہ وہ اپنے مال و دولت کا صرف دس فیصدی حصہ جرمنی سے باہر لے جا سکتا ہے، باقی سب ضبط۔
یورپ کے دوسرے ممالک میں بھی کون سا ایسا ملک ہے‘ جس کے دستور اساسی میں بنیادی حقوق موجود نہیں ہیں؟ اور کون سا ملک ایسا ہے‘ جہاں دستور کے بنیادی حقوق نے اقلیت کو اکثریت کے ظلم سے بچایا ہو۔ ہر جگہ ملک کی پوری آبادی کو ایک قوم فرض کرکے ایک جمہوری اسٹیٹ بنا دیا گیا‘ اور دستور اساسی میں بنیادی حقوق مقرر کر دئیے گئے۔ مگر جہاں بھی اکثریت اور اقلیت کے درمیان مذہب یا نسل یا زبان کی بنیاد پر قومی امتیاز موجود ہے،و ہاں اکثریت کی یہی کوشش ہے‘ کہ یا تو اقلیت اپنے قومی وجود کو اکثریت کی قومیّت میں گم کر دے، یا پھر اسے شودر بنا کر رکھا جائے یا مختلف طریقوں سے اس کو فنا کر دیا جائے۔ یوگو سلیویا میں جب کروٹس نے مطالبہ کیا کہ ان کی قوم کا ایک الگ صوبہ بنایا جائے‘ اور اسے اٹانومی (حکومت خود اختیاری) دے دی جائے، تو آپ کو معلوم ہے‘ کہ سربیوں نے ان کو کیا جواب دیا؟ اس جواب کو لفظ بلفظ سن لیجئے۔
سرب، کروٹ اور سلافینی درحقیقت ایک قوم ہیں۔ غیر ملکی سامراج نے ان کو زبردستی الگ کر رکھا تھا۔ اب جب کہ بیرونی جُوأ ہمارے کندھوں پر سے اتر گیا ہے‘ تو قومی وحدت کا احساس فتح یاب ہو کر اُبھر آیا ہے‘ اور اس نے ان تمام حد بندیوں کو توڑ دیا ہے‘ جو سیاسی ادارات اور زبان اور مذہب نے پیدا کر دی تھیں۔ وحدت کے اس احساس کو برقرار رکھنے اور بڑھانے کے لیے ضروری ہے‘ کہ قدیم جغرافی تقسیم، جس کے ذریعے سے غیر ملکی حکمرانوں نے قوم کو تقسیم کر دیا تھا، منسوخ کر دی جائے۔ مقامی نظم و نسق کے لیے صوبوں کی بالکل نئی تقسیم ہونی چاہیے تاکہ پرانے صوبوں کی حد بندیاں نسلی حلقے (racial groups) نہ بنا سکیں ۔{ FR 3054 }
بالکل یہ معلوم ہوتاہے یا نہیں کہ آزاد ہندستان میں جواہر لال نہرو تقریر فرما رہے ہیں؟ یہ گویا ایک قاعدہ کلیہ سا بن گیا ہے‘ کہ واحد قومیّت کا جوشیلا وعظ وہی قوم کیا کرتی ہے‘ جس کا سو فیصدی فائدہ اسی وعظ میں ہوتا ہے، اور وہ بے وقوف لوگ بعد میں پچھتاتے ہیں‘ جو آزادی کے جوش میں تو ’’ایک قوم ایک ملک‘‘ کی صدائیں بلند کیا کرتے ہیں‘ مگر جب آزادی کے بعد واحد قومیّت اژدھے کی طرح ان کو نگلنا شروع کرتی ہے‘ تو غیظ و غضب کے مارے بل کھاتے ہیں‘ اور قدرت کا بے لاگ قانون ان احمقوں سے پکار کر کہتا ہے‘ کہ موتوا بغیظکُم۔ جس وقت یوگوسلیویا کی نیشنل اسمبلی میں کروٹس کے اعتراضات کا مذکورہ بالا جواب دیا گیا‘ تو سنا ہے‘ کہ کروٹ نمائندے احتجاجاً اسمبلی سے اُٹھ گئے‘ اور جانے کے بعد سربی اکثریت نے اور زیادہ آسانی کے ساتھ وہ سب کچھ پاس کر لیا جو پاس کرنا چاہتی تھی۔ا س وقت بنیادی حقوق دور کھڑے ہنستے رہے‘ اور کہتے رہے‘ کہ ’’کہو ! کیسا بیوقوف بنایا!‘‘
۳- کراچی ریزولیوشن کا تجزیہ
اب ذرا ان بنیادی حقوق کا بھی تجزیہ کر دیکھیے جو کراچی ریزو لیوشن میں تجویز کیے گئے ہیں‘ اور جن کی بنا پر ہمارے بہت سے سادہ لوح بھائی ملک بھر میں مسلمانوں کو سمجھاتے پھرتے ہیں‘ کہ بھائیو ! کانگریس تو پہلے ہی تمہارے حقوق کی حفاظت کا ذمہ لے چکی ہے، اب تم کیوں متحدہ قومیّت کی بنیاد پر ایک آزاد جمہوری اسٹیٹ کی تعمیر میں حصہ نہیں لیتے؟
پہلی دفعہ میں ہندستان کے ہر باشندے کو اظہار رائے اور اجتماع کی آزادی دی گئی ہے، بشرطیکہ وہ ایسے مقاصد کے لیے ہو‘ جو قانون اور اخلاق کے خلاف نہ ہوں۔ قانون اور اخلاق کی شرط اس آزادی کو ہر وقت باطل کر سکتی ہے۔ اصول جمہوریت کی بنا پر قانون بنانا اور اخلاق کا معیار مقرر کرنا مطلقاً اکثریت کے اختیار میں ہو گا، اور اکثریت ہی کی حکومت اس کو نافذ کرے گی۔ لہٰذا اقلیت کی آزادی کے حدود گھٹانا یا بڑھانا محض ان کے اختیار تمیزی پر موقوف ہو گا۔
دوسری دفعہ میں ہر باشندہ ہند کو ضمیر کی آزادی، اور اپنے مذہب پر اعتقاد رکھنے اور اس پر عمل کرنے کی آزادی عطا کی گئی ہے، بشرطیکہ وہ امن عام اور اخلاق کے خلاف نہ ہو، یہاں پھر وہی شرط ہے‘ اور یہ شرط اس آزادی کو ہر وقت سلب کر سکتی ہے۔ تاہم اگر اکثریت نے بڑی فیاضی سے کام لیا اوریہ آزادی ہم کو پوری طرح بخش بھی دی، تو اس سے ہمارا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ ایسی آزادی تو انگریزی حکومت نے بھی ہم کو دے رکھی ہے، مگر اس کے باوجود ڈیڑھ سو برس کے اندر ہماری مذہبیت مضمحل اور ہماری تہذیب نیم مردہ ہو کر رہ گئی۔ جب کہ حکومت کے اختیارات ہمارے ہاتھ میں نہ ہوں، اور ایک ایسی جماعت ان اختیارات کو استعمال کرے جو ہمارے اصول تہذیب سے قطعاً ناآشنا اور بالکل مختلف قسم کے نظریاتِ تہذیب و اخلاق و تمدّن کی گرویدہ ہو،تو اس حکومت کے ماتحت ہمیں مذہبی آزادی حاصل ہونے کا فائدہ اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ ہمیں زبردستی نماز پڑھنے سے نہیں روکا جائے گا بلکہ ہمارے اندر وہ ارتداد آہستہ آہستہ اتارا جائے گا‘ جس سے ہم خود نماز پڑھنا چھوڑ دیں۔ ہماری مسجدیں توڑی نہیں جائیں گی بلکہ ہمارے دل و دماغ کو اندر سے بدلا جائے گا تاکہ یہ مسجدیں ویران ہو کر خود بخود آثار قدیمہ میں تبدیل ہو جائیں۔ ہماری عورتوں کے چہروں سے پولیس کے سپاہی زبردستی نقاب نہ نوچیں گے بلکہ مدرسہ کے معلّم نہایت شفقت و رحمت کے ساتھ ان کے ذہن میں وہ معیار اخلاق پیوست کریں گے‘ جس کی بِنا پر وہ گھر کی ملکہ بننے کے بجائے اسٹیج کی رقاصہ بننا زیادہ پسند کریں گی۔ یہ آزادی محض ایک افیون ہے تاکہ اس کی پینک میں ہم پڑے سوتے رہیں، اور ہمارے گردو پیش زمین و آسمان بدلتے چلے جائیں۔ اس آزادی کے پروانے کو لے کر جو حضرات یہ سمجھ رہے ہیں‘ کہ آئندہ کے قومی جمہوری لادینی اسٹیٹ میں ان کے مذہب اور ان کی تہذیب کا پورا تحفظ ہو گا، انہیں معلوم ہونا چاہیے‘ کہ یہ تحفظ اسی نوعیت کا تحفظ ہے جیسا کہ پرانی تاریخی عمارتوں کا ہوا کرتا ہے۔ یہ محض اس امر کی ضمانت ہے‘ کہ موجودہ نسل کے جو لوگ اپنی مذہبیت کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں‘ ان کی گردن پر چھری رکھ کر زبردستی کلمہ کفر نہیں کہلوایا جائے گا۔ مگر یہ اس امر کی ضمانت نہیں ہے‘ کہ ان کی آئندہ نسل کو غیر مسلم بنانے والی تعلیم و تربیت نہ دی جائے گی۔ اس تحفظ کے معنی صرف یہ ہیں‘ کہ آپ اگر چاہیں تو قال اللّٰہ وقال الرسول میں مشغول رہیں۔ آپ کی داڑھی زبردستی نہیں مونڈی جائے گی۔ نہ آپ کی عبا ضبط کی جائے گی۔ نہ آپ کی تسبیح چھینی جائے گی۔ نہ آپ کی زبان درسِ حدیث و قرآن سے روکی جائے گی۔ مگر اس کے معنی یہ نہیںہیں کہ آئندہ نسل کو بھی اس ’’غلط فہمی‘‘ میں مبتلا رہنے دیا جائے گا کہ اسلام ہی سچا دین ہے‘ اور تمام مذاہب سے برتر اور اصلح ہے۔ مذہبی آزادی کا یہ پروانہ لے کر جو صاحب خوش ہونا چاہتے ہیں، وہ خوش ہو لیں۔ ہمیں تو اس پروانہ کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارے مذہب اور ہماری تہذیب کی فطرت تو مفعولانہ نہیں‘ بلکہ فاعلانہ آزادی مانگتی ہے۔ ہم تو استقلالِ وطن اس لیے اور صرف اس لیے چاہتے ہیں‘ کہ ہماری حکومت ہمارے اپنے ہاتھ میں ہو، اپنا نظامِ تعلیم ہم خود بنائیں، اپنی تہذیب و تمدّن کے مسخ شدہ نظام کو ہم خود اپنی طاقت سے درست کر سکیں۔ اگر یہ نہیں تو ہمارے لیے یکساں ہے، چاہے حکومت باہر کے کفار کی ہو یا گھر کے کفار کی۔
تیسری دفعہ اس امر کا اطمینان دلاتی ہے‘ کہ قلیل التعداد جماعتوں اور مختلف لسانی علاقوں کی کلچر، زبان اور رسم الخط کی حفاظت کی جائے گی، حکومت کے روپے اور اس کی طاقت سے ہندی کو ہندوستان کی ’’قومی‘‘ زبان بنانا اس دفعہ کے خلاف نہیںہے۔ اگر نظامِ تعلیم ایسا بنایا جائے‘ کہ اقلیتوں کی تہذیب کا رنگ اس سے بالکلیہ خارج کر دیا گیا ہو، بلکہ اگر نظامِ تعلیم کو اس قصد کے ساتھ ایسے نقشہ پر مرتب کیا جائے‘ کہ اقلیتوں کی تہذیب اپنی موت آپ مر جائے، تو ایسا کرنابھی اس دفعہ کے خلاف نہیں۔ درحقیقت اس دفعہ کا یہ مطلب ہے ہی نہیں کہ اقلیتوں کی زبان اور ان کے کلچر کو حکومت کے رسد خانے سے زندگی کی غذا دی جائے گی۔ بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے‘ کہ ان کو زبردستی قتل نہ کیا جائے گا۔ باقی رہی یہ بات کہ کمی غذا سے وہ خود سوکھ سوکھ کر مر جائیں تو حکومت پر اس کی کوئی ذمّہ داری نہیں، بلکہ یو-پی کے وزیر اعظم کی زبان سے ہم کو بتایا جاتا ہے‘ کہ ان کا سوکھ سوکھ کر مر جانا ہی مطلوب ہے تاکہ ان کی راکھ سے ’’ہندستانی تہذیب‘‘ کا قُقنس پیدا ہو سکے۔ ظاہر ہے‘ کہ اس نوعیت کا بنیادی حق بھی ہم کو انگریزی حکومت میں حاصل ہے۔ا س نے بھی ہم کو اردو بولنے اور لکھنے سے نہیں روکا (بلکہ ورما کیولر اسکول قائم کیے) اور کوئی ایسا آرڈی ننس پاس نہیںکیا کہ ہم اپنے کلچر کے مطابق زندگی بسر نہ کریں۔ لیکن اس بنیادی حق نے ہماری زبان اور ہمارے کلچر کو زندگی کی طاقت نہیں بخشی۔ اگر یہی اس حکومت میں بھی ہو‘ جس کو ’’قومی حکومت‘‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے‘ تو ہمارے لیے ایسی ’’قومی حکومت‘‘ بعینہٖ غیر قومی حکومت ہو گی۔ ہمیں قومی حکومت کی ضرورت تو اس لیے ہے‘ کہ ہم حکومت کے وسیع ذرائع سے اپنی زبان اور اپنے کلچر کو اس طرح غذا دے سکیں جس طرح آزاد قومیں دیا کرتی ہیں۔ ورنہ بطور خود اپنی ضروریات کا انتظام کر لینے کی آزادی تو ہمیں اب بھی حاصل ہے۔ اس کے لیے ہمیں کسی جنگ ِ آزادی کی کیا ضرورت ہے۔
چوتھی دفعہ کہتی ہے‘ کہ قانون کی نظر میں تمام شہری مساوی ہیں۔ ذات پات، مذہب اور صنف کا کوئی امتیاز ان کے درمیان نہ ہو گا۔ یہ نہایت عمدہ دفعہ ہے۔ لیکن مساوات کا تصوّر ہر تہذیب میں مختلف ہو تا ہے۔ اگر جمہوری اصول پر کل کوئی اکثریت میراث میں عورت اور مرد کا حصہ برابر کرنے کا قانون پاس کر دے اور اس کی مخالفت کرنے و الی اقلیت کا اسی طرح مذاق اڑائے جس طرح مسٹرد اس کے بل کی مخالفت کرنے والوں کا مذاق سنٹرل اسمبلی میں اڑایا جا چکا ہے‘ تو یہ دفعہ ہمارے کس کام آئے گی۔
پانچویں دفعہ اس امر کی ضمانت دیتی ہے‘ کہ کسی باشندہ ملک پر اس کے مذہب، یا ذات پات، یا عقیدہ و مسلک، یا کسی جنس کی وجہ سے ایسی پابندی عائد نہ کی جائے گی کہ وہ سرکاری ملازمت یا عزت و اقتدار کے کسی منصب یا کسی پیشے اور کاروبار میں داخل نہ ہو سکے۔ اس دفعہ کے اچھے اور برے دونوں پہلو ہیں۔ اگر نظامِ حکومت کسی ایسی جماعت کے ہاتھ میں ہو‘ جو ہماری تہذیب سے کوئی ہمدردی نہ رکھتی ہو تو اس دفعہ کے عطا کردہ حقوق شریف مسلمان بہو بیٹیوں کو فلم ایکٹرس کے مرتبہ عالی تک بھی پہنچا سکتے ہیں۔
چھٹی دفعہ باشندوں کو سٹرکوں اور تالابوں اور کنوؤں اور مدرسوں وغیرہ سے استفادہ کا مساوی حق دیتی ہے۔ یہاں ’’بشرطیکہ امن عام اور اخلاق کے خلاف نہ ہو‘‘ کی قید نہیں لگائی گئی جس طرح پہلی اور دوسری دفعہ میں لگائی گئی ہے۔د وسری دفعہ کی رو سے گائے کی قربانی بند کی جا سکتی ہے۔مگر چھٹی دفعہ سڑکوں کے استعمال پر کوئی ایسی پابندی عائد نہیں کرتی کہ نماز کے وقت باجا بجا کر مسلمانوں کو پریشان نہ کیا جائے۔
یہ ہیں وہ بنیادی حقوق جن کے اعلان کو ایک نعمت عظمیٰ قرار دیا جاتا ہے‘ اور ہم سے کہا جاتا ہے‘ کہ اس اعلان کے معاوضہ میں ایک ایسی حکومت کو خود اپنے اوپر مسلط کرنے کے لیے جنگ کریں جس کی پالیسی کی تشکیل، جس کے قوانین کی تشریع، اور جس کے احکام کی تنقید میں ہم واحد قومیّت اور اصول جمہوریت کی بنیاد پر کسی طرح اپنا اثر استعمال نہیں کر سکتے۔ دوسرے الفاظ میں ہماری خدمات اس لیے حاصل کی جا رہی ہیں‘ کہ بس فرعون کی جگہ اس کے بیٹے کو تخت نشین کرا دیں، رہا ہمارا اپنا حال تو جو بنی اسرائیل کی سی پوزیشن ہمیں فرعون کے عہد میں حاصل ہے، ابن فرعون اطمینان دلاتا ہے‘ کہ وہ میرے عہد میں بھی حاصل رہے گی۔
خ خ خ