Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

مقدّمہ
حصہ اوّل : ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ایک تاریخی جائزہ
تقدیم{ FR 2891 }
باب ۱: آنے والا انقلاب اور مسلمان
باب ۲ : حالات کا جائزہ اور آئندہ کے امکانات
باب ۳ : ہمارا سیاسی نصب ُالعین
باب ۴ : راہِ عمل
حصہ دوم : اِصلاح کا راستہ قرآن و سنّت کی روشنی میں مسلمانوں کے لیے صحیح راہِ عمل
باب ۵ : مسائلِ حاضرہ میں
باب ۶ اسلام … ایک جامع تہذیب دین و دنیا کی علیحدگی کا جاہلی تصوّر اور ہماری قومی سیاست میں اس کے اثرات
باب ۷ : شُبہات اور جوابات
حصہ سوم : کانگریس، متحدہ قومی تحریک اور مسلمان
تقدیم
باب ۸: مسلمانوں کی غلط نمائندگی اوراس کے نتائج
باب ۹: آزادی اور قومی تشخّص
باب ۱۰ : قوم پرستوں کے نظریات
باب ۱۱ : آزادی کی فوج کے مسلمان سپاہی
باب ۱۲ : حصول آزادی کا طریقہ
باب ۱۳ : جنگ ِ آزادی کا مطمح نظر
باب ۱۴ : قومی، جمہوری، لادینی اسٹیٹ کیا مسلمان اس کو قبول کر سکتے ہیں؟
باب ۱۵: بنیادی حقوق
باب ۱۶ : متحدہ قومیّت اور اسلام
باب ۱۷ : کیا ہندستان کی نجات نیشل ازم میں ہے؟
باب ۱۸ : اسلامی قومیّت کا حقیقی مفہوم 
باب ۱۹ : جنگِ آزادی کی نوعیت
باب ۲۰ : کانگریس اور مسلمان
حصہ چہارم : ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کے حل کی راہیں تین تجاویز
باب ۲۱ : مسلمان کیا کریں؟ تین تجاویز

تحریک آزادی ہند اور مسلمان (حصہ اول)

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

باب ۲ : حالات کا جائزہ اور آئندہ کے امکانات

پچھلے باب میں ہم نے محض سرسری طور پر مسلمانوں کو اس انقلاب سے آگاہ کیا تھا جو عنقریب ہندستان میں رونما ہونے والا ہے‘ اور جس کے آثار اب پوری طرح نمایاں ہو چکے ہیں، ہمارا اصل مقصد مسلمانوں کو اس نئے آنے والے انقلاب میں اپنے قومی تشخص اور اپنی تہذیب کی حفاظت کے لیے تیار کرنا ہے۔ مگر یہ مقصد اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتا‘ جب تک کہ وہ اپنی موجودہ پوزیشن اور اس جدید انقلاب کو اچھی طرح سمجھ نہ لیں، اور یہ نہ جان لیں کہ اس پوزیشن میں اس نوعیت کا انقلاب ان کی قومی تہذیب پر کس طرح اثر انداز ہو گا‘ اور اس کے نتائج کیا ہوں گے۔
مسلمانوں کی چار بنیادی کمزوریاں
پچھلی صحبت میں ہم مسلمانوں کی موجودہ پوزیشن پر جو سرسری تبصرہ کر چکے ہیں‘ اس سے آپ نے اندازہ کر لیا ہو گا‘ کہ اجتماعی حیثیت سے اس وقت مسلمانوں میں کس قسم کی کمزوریاں پائی جاتی ہیں۔ لیکن آگے جو کچھ ہم کو کہنا ہے اس کو پوری طرح سمجھنے کے لیے یہ ضروری ہے‘ کہ آپ واضح طور پر ان چار اہم ترین کمزوریوں سے واقف ہو جائیں‘ جو مسلمانوں کی قومی طاقت کی گھن کی طرح کھا گئی ہیں‘ اور درحقیقت انہی کی وجہ سے یہ سوال پیدا بھی ہوا ہے‘ کہ آنے والے انقلاب میں کیا مسلمان اپنی اسلامی تہذیب کی حفاظت کر سکیں گے۔ ورنہ اگر یہ کمزوریاں نہ ہوتیں تو کسی مسلمان کے دماغ میں یہ سوال پیدا ہی نہیں ہو سکتا تھا۔
(۱) اسلام سے نا واقفیت
مسلمانوں کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے‘ کہ ان کا سوادِاعظم اسلامی تہذیب اور اس کی اسلامی خصوصیات سے ناواقف ہے، حتیٰ کہ اس میں ان حدود کا شعور تک باقی نہیں رہا ہے‘ جو اسلام کو غیر اسلام سے ممیز کرتی ہیں۔ اسلامی تعلیم، اسلامی تربیت اور جماعت کا ڈسپلن تقریبا مفقود ہو چکا ہے، ان کے افراد منتشر طور پر ہر قسم کے بیرونی اثرات کو قبول کر رہے ہیں، اور جماعت اپنی کمزوری کی بنا پر بتدریج ان اثرات کو اپنے اندر جذب کرتی چلی جاتی ہے۔ ان کا قومی کیرکٹر اب مردانہ کیرکٹر نہیں رہا بلکہ زنانہ کیریکٹر بن گیا ہے‘ جس کی نمایاں خصوصیت تاثر اور انفعال ہے۔ ہر طاقت ور ان کے خیالات کو بدل سکتا ہے، ان کے عقائد کو پھیر سکتا ہے، ان کی ذہنیت کو اپنے سانچے میں ڈھال سکتا ہے، ان کی زندگی کو اپنے رنگ میں رنگ سکتا ہے، ان کے اصولِ حیات میں اپنی مرضی کے مطابق جیسا چاہے تغیّر و تبدل کر سکتا ہے۔ اوّل تو وہ اتنا علم ہی نہیں رکھتے کہ یہ امتیاز کر سکیں کہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم کس خیال اور کس عملی طریقے کو قبول کر سکتے ہیں‘ اور کس کو قبول نہیں کر سکتے۔ دوسرے ان کی قومی تربیت اتنی ناقص ہے‘ کہ ان کے اندر کوئی اخلاقی طاقت ہی باقی نہیں رہی۔ جب کوئی چیز قوّت کے ساتھ آتی اور گرد و پیش میں پھیل جاتی ہے، تو خواہ وہ کتنی ہی غیراسلامی ہو، یہ اس کی گرفت سے اپنے آپ کو نہیں بچا سکتے‘ اور غیر اسلامی جاننے کے باوجود طوعاً و کرہاً اس کے آگے سپر ڈال ہی دیتے ہیں۔ اس پر مزید یہ کہ نظامِ جماعت حد سے زیادہ مضمحل ہو چکا ہے۔ ہماری سوسائٹی میں اتنی قوّت ہی نہیں رہی‘ کہ وہ اپنے افراد کو حدودِ اسلامی کے باہر قدم رکھنے سے باز رکھ سکے، یا اپنے دائرے میں غیر اسلامی خیالات اور طریقوں کی اشاعت کو روک سکے۔ افراد کو قابو میں رکھنا تو درکنار ہماری سوسائٹی تو اب افراد کے پیچھے چل رہی ہے۔ پہلے چند سرکش افراد اسلامی قانون کے خلاف بغاوت کرتے ہیں، سوسائٹی چند روز اس پر ناک بھوں چڑھاتی ہے، پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہی بغاوت ساری قوم میں پھیل جاتی ہے۔
(۲) قومی انتشار اور بدنظمی
انفرادیت اور لامرکزیت کی روز افزوں ترقی نے مسلمانوں کے شیرازئہ قومیّت کو پارہ پارہ کر دیا ہے،ا ور اجتماعی عمل کی کوئی صلاحیّت اب ان میں نہیں پائی جاتی۔ شخصی اغراض اور ذاتی مفاد کی بنا پر جماعتیں بنتی ہیں‘ اور پھر خود غرضی کی چٹان ہی سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جاتی ہیں۔ کوئی بڑی سے بڑی قومی مصیبت بھی آج مسلمانوں کے رہنماؤں اور ان کے قومی کارکنوں کو اتحادِ عمل اور مخلصانہ اور بے غرضانہ عمل پر آمادہ نہیں کر سکتی۔ تحریک خلافت کی ناکامی کے بعد سے مسلسل مصیبتیں مسلمانوںپر نازل ہوئیں۔ پیہم خطرات ان کے سامنے آئے۔ مگر کوئی ایک چیز بھی ان کو اشتراکِ عمل کے لیے جمع نہ کر سکی۔ تازہ ترین واقعہ مسجد شہید گنج کا ہے‘ جس نے اس قوم کی کمزوری کا راز اپنوں سے زیادہ غیروں پر فاش کر دیا۔ ان کے اندر اتنی زندگی تو ضرور باقی ہے‘ کہ جب کوئی مصیبت پیش آتی ہے، تو تڑپ اٹھتے ہیں، مگر وہ اخلاقی اوصاف باقی نہیں ہیں جن کی بدولت یہ قومی مفاد کی حفاظت کے لیے اجتماعی کوشش کر سکیں۔ ان میں اتنی تمیز نہیں کہ صحیح رہنما کا انتخاب کر سکیں۔ ان میں اطاعت کا مادّہ نہیں کہ کسی کو رہنما تسلیم کرنے کے بعد اس کی بات کو مانیں اور اس کی ہدایت پر چلیں۔ ان میں اتنا ایثار نہیں کہ کسی بڑے مقصد کے لیے اپنے ذاتی مفاد، اپنی ذاتی رائے، اپنی آسائش، اپنے مال ا ور اپنی جان کی قربانی کسی حد تک بھی گوارا کر سکیں۔
(۳) نفس پرستی
افلاس، جہالت اور غلامی نے ہمارے افراد کو بے غیرت اور بندئہ نفس بنا دیا ہے۔ وہ روٹی ا ور عزت کے بھوکے ہو رہے ہیں۔ ان کا حال یہ ہو گیا ہے‘ کہ جہاں کسی نے روٹی کے چند ٹکڑے اور نام و نمود کے چند کھلونے پھینکے، یہ کتوں کی طرح ان کی طرف لپکتے ہیں، اور ان کے معاوضے میں اپنے دین و ایمان، اپنے ضمیر، اپنی غیرت و شرافت، اپنی قوم و ملت کے خلاف کوئی خدمت بجا لانے میں ان کو باک نہیں ہوتا، مسلمانوں کا ایمان جو کبھی سارے جہان کی دولت سے بھی زیادہ قیمتی تھا‘ آج اتنا سستا ہو گیا ہے‘ کہ ایک حقیر سی تنخواہ اُسے خرید سکتی ہے، ایک ادنیٰ درجہ کی کرسی پر وہ قربان ہو سکتا ہے، ایک آبرو باختہ عورت کے قدموں پر وہ نثار کیاجا سکتا ہے، ایک خطاب یا ذرا سی شہرت عطا کرکے‘ یا دو چار ’جے‘ کے نعرے لگا کر اس کو خرید لیا جا سکتا ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ سو برس کا تجربہ بتا رہا ہے‘ کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف دشمنوں نے جو کچھ کرنا چاہا، اس کے لیے خود مسلمانوںہی کی جماعت سے ایک دو نہیں ہزاروں اور لاکھوں خائن اور غداران کو مل گئے، جنہوں نے تقریر سے، تحریر سے، ہاتھ اور پاؤں سے، حتیٰ کہ تلوار اور بندوق تک سے اپنے مذہب اور قوم کے مقابلہ میں دشمنوں کی خدمت کی، یہ ناپاک اور ذلیل ترین وصف جب ہمارے افراد میں موجود ہے‘ تو جس طرح چھ ہزار میل دور کے رہنے والوں نے اس سے فائدہ اٹھایا، اسی طرح ہم سے ایک دیوار بیچ رہنے والے بھی اس سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں، اور اگر ہماری فاش گوئی کسی کو بری نہ معلوم ہو تو ہم صاف کہہ دیں‘ کہ انہوں نے اس سے فائدہ اٹھانا شروع کر دیا ہے۔ پرانی مارکیٹ میں جب سے سرد بازاری کے آثار نمایاں ہوئے ہیں، نئی مارکیٹ میں ایمان کی خرید و فروخت کا بیوپار بڑھ رہا ہے۔ ہمارے کان خود اپنی قوم کے لوگوںکی زبان سے جب کمیونزم کا پروپیگنڈا سنتے ہیں، متحدہ ہندی قومیّت میں جذب ہو جانے کی دعوت سنتے ہیں، اور یہ آوازیں سنتے ہیں‘ کہ اسلامی کلچر کوئی جُدا گانہ کلچر نہیں ہے، تو ہمارا حافظہ ہم کو یاد دلاتا ہے‘ کہ کچھ اسی نوعیت کی آوازیں اس وقت بھی بلند ہونی شروع ہوئی تھیں جب سرکار برطانیہ کی غلامی کا زرّیں پھندا ہمارے گلوں میں پڑ رہا تھا۔
(۴) منافقت
ہماری قوم میں منافقین کی ایک بڑی جماعت شامل ہے، اور اس کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔ بکثرت اشخاص، تعلیم یافتہ، صاحب ِقلم، صاحب ِزبان، صاحب ِمال و زر، صاحب ِاثر اشخاص ایسے ہیں‘ جو دل سے اسلام اور اس کی تعلیمات پر یقین نہیں رکھتے، مگر نفاق اور قطعی بے ایمانی کی راہ سے مسلمانوں کی جماعت میں شریک ہیں۔ اسلام سے عقیدۃً اور عملاً نکل چکے ہیں، مگر اس سے برأت کا صریح اعلان نہیں کرتے، اس لیے مسلمان ان کے ناموں سے دھوکہ کھا کر انہیں اپنی قوم کا آدمی سمجھتے ہیں، ان سے شادی بیاہ کرتے ہیں، ان سے معاشرت کے تعلقات رکھتے ہیں، اور ان زہریلے جانوروں کو اپنی جماعت میںچل پھر کر اور رہ بس کر زہر پھیلانے کا موقع دے رہے ہیں۔ نفاق کا خطرہ ہر زمانے میں مسلمانوں کے لیے سب سے بڑا خطرہ رہا ہے‘ مگر اس نازک زمانہ میں تو یہ ہمارے لیے پیامِ موت ہے۔ آنکھیں کھول کر دیکھیے کہ یہ منافقین کیسا مہلک زہر ہماری قوم میں پھیلا رہے ہیں۔ یہ اسلام کا مذاق اڑاتے ہیں۔ اس کی اساسی تعلیمات پر حملے کرتے ہیں۔ مسلمانوں کو دہریت اور الحاد کی طرف دعوت دیتے ہیں، ان میں بے دینی اور بے حیائی اور قانون اسلامی کی خلاف ورزی کو نہ صرف عملاً پھیلاتے ہیں‘ بلکہ کھلم کھلا زبان و قلم سے اس کی تبلیغ کرتے ہیں۔ان کی تہذیب کو مٹانے کی ہر کوشش میں‘ آپ دیکھیں گے کہ یہ دشمنوں سے چار قدم آگے ہیں۔ ہر وہ اسکیم جو اسلام اور مسلمانوں کی بیخ کنی کے لیے کہیں سے نکلی ہو‘ اس کو مسلمانوںکی جماعت میں نافذ کرنے کی خدمت یہی ناپاک گروہ اپنے ذمہ لیتا ہے{ FR 2898 } اور اسلامی قومیّت کا ایک جزو ہونے کی وجہ سے اس کو اپنا کام کرنے کا خوب موقع مل جاتا ہے۔
یہ حالت ہے اس وقت ہماری قوم کی،ا ور اس حالت میں یہ ایک بڑے انقلاب کے سرے پر کھڑی ہے۔انقلاب کی فطرت بحرانی اور طوفانی فطرت ہوتی ہے۔ وہ جب آتا ہے‘ تو آندھی اور سیلاب کی طرح آتا ہے۔اس کے زور کا مقابلہ اگر کچھ کر سکتی ہیں‘ تو مضبوط جمی ہوئی چٹانیں ہی کر سکتی ہیں۔ بوسیدہ عمارتیں جو اپنی جڑ چھوڑ کر محض فضا کے سکون و جمود کی بدولت کھڑی ہوں، ان کا کسی انقلابی طوفان میں ٹھہرنا غیر ممکن ہے۔اب جو کوئی صاحب ِبصیرت انسان اس وقت مسلمانوں کی حالت پر نگاہ ڈالے گا‘ وہ بیک نظر معلوم کر لے گا کہ ان کمزوریوںکے ساتھ یہ قوم ہرگز کسی انقلاب کا مقابلہ نہیںکر سکتی۔ اس کے لیے انقلابی دور میں اپنے قومی تشخص اور اسلامی تہذیب کے خصائص کو بچا لے جانا، ا ور اپنے آپ کو پامالی سے محفوظ رکھنا بہت ہی مشکل ہے۔ اوّل تو جہالت کی بنا پر وہ بہت سے اجنبی اثرات کو بے جانے بوجھے قبول کر لے گی۔ پھر زنانہ کیرکٹر اس کو بہت سی ایسی چیزوں سے متاثر کر دے گا‘ جن کو وہ جانتی ہو گی کہ اسلامی تعلیمات کے خلاف اور اسلامی تہذیب کے منافی ہیں۔ اس طرح ایک بڑی حد تک تو بلا مقابلہ ہی شکست واقع ہو گی۔ اس کے بعد جو تھوڑے بہت احساسات باقی رہ جائیں گے‘ وہ اگر کسی شدید حملے پر بیدار بھی ہوئے، اور اس قوم نے اپنے وجود کی حفاظت کرنی بھی چاہی تو نہ کر سکے گی، کیونکہ اپنی بدنظمی اور انتشار کی بدولت اس کے لیے کوئی متحدہ جدوجہد کرنا مشکل ہو گا، اور اسی گروہ سے ہزارووں لاکھوں خائن، غدار اور منافق اس کے قومی وجود کو پامال کرانے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں گے۔
قومی تحریک کی حقیقت
مسلمانوںکی حالت کا جائزہ آپ لے چکے۔ اب آئندہ انقلاب کے نتائج کا صحیح اندازہ کرنے کے لیے ان قوتوں کا بھی جائزہ لینا ضروری ہے‘ جو اس انقلابی تحریک میں کام کر رہی ہیں۔
ہندستان کی جدید وطنی حرکت دراصل نتیجہ ہے اس تصادم کا جو انگریزی اقتدار اور ہندستان کے درمیان گزشتہ ڈیڑھ سو سال سے ہو رہا ہے۔ یہ تصادم محض سیاسی نہیں ہے، بلکہ فکری اور عمرانی بھی ہے، اور یہ عجیب بات ہے‘ کہ فکری اور عمرانی تصادم کا جو نتیجہ ہوتا ہے وہ سیاسی تصادم کے نتیجہ سے بالکل برعکس ہے۔ انگریزی سیاست کے جورواستبداد اور معاشی لوٹ نے تو ہندستان کے باشندوں کو آزادی کا سبق دیا ‘اور ان میں یہ جذبہ پیدا کیا کہ بند ِغلامی کو توڑ کر پھینک دیں۔ لیکن انگریزی علوم و فنون اور انگریزی تہذیب و تمدّن نے ان کو پوری طرح مغرب کا غلام بنا دیا، اور ان کے دماغوں پر اتنا زبردست قابو پا لیا‘ کہ اب وہ زندگی کا کوئی نقشہ ‘اس نقشہ کے خلاف نہیں سوچ سکتے‘ جو ان کے سامنے اہلِ مغرب نے پیش کیاہے۔ وہ جس قسم کی آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اس کی نوعیت صرف یہ ہے‘ کہ ہندستان سیاسی حیثیت سے آزاد ہو، اپنے گھر کا انتظام آپ کرے، اور اپنے وسائلِ معیشت کو خود اپنے مفاد کے لیے استعمال کرے۔ لیکن یہ آزادی حاصل کرنے کے بعد اپنے گھر کے انتظام اور اپنی زندگی کی تعمیر کا جو نقشہ ان کے ذہن میں ہے‘ وہ ازسرتاپا فرنگی ہے۔ ان کے پاس جتنے اجتماعی تصوّرات ہیں، جس قدر عمرانی اصول ہیں سب کے سب مغرب سے حاصل کیے ہوئے ہیں۔ ان کی نظر فرنگی نظر ہے،ان کے دماغ فرنگی دماغ ہیں، ان کی ذہنیت پوری طرح فرنگیت کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہے۔ بلکہ انقلابیت کے بحران نے ان کو (یا کم از کم ان کے سب سے زیادہ پُرجوش طبقوں کو) فرنگیوں میں سے بھی اس قوم کا متبع بنا دیا ہے، جو انتہا پسندی میں تمام فرنگی اقوام کو پیچھے چھوڑ چکی ہے۔ وہ پکّے مادہ پرست ہیں۔ ان کی نگاہ میں اخلاقی و روحانیت کی کوئی قیمت نہیں۔ ان کو خدا پرستی سے نفرت ہے۔ مذہب کو وہ شرو فساد کا ہم معنی سمجھتے ہیں۔مذہبی اور اخلاقی قدروں کو وہ پرِکاہ کے برابر بھی وقعت دینے کے لیے تیار نہیں۔ ان کو ہر ایسی قومیّت اور ہر ایسے قومی امتیاز سے چِڑ ہے‘ جس کی بنیاد مذہب پر ہو۔ وہ زیادہ سے زیادہ رواداری جو مذہب کے ساتھ برت سکتے ہیں‘ وہ صرف یہ ہے‘ کہ اس کی عبادت گاہوں اور اپنے مراسم میں جینے دیں۔ باقی رہی اجتماعی زندگی تو اس میں مذہب اور مذہبیت کے ہر اثر کو مٹانا ان کا نصب العین ہے، اور ان کے نزدیک اس اثر کو مٹائے بغیر کوئی ترقی ممکن نہیں۔ ہندستانی قومیّت کا جو نقشہ ان کے پیشِ نظر ہے، اس میں مذہبی جماعتوں کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔وہ تمام امتیازی حدود کو توڑ کر وطنیت کی بنیاد پر ایک ایسی قوم بنانا چاہتے ہیں‘ جس کی اجتماعی زندگی ایک ہی طرز پر تعمیر ہو‘ اور وہ طرز اپنے اصول و فروع میں خالص مغربی ہو۔
قومی تحریک میں شامل ہونے کے نتائج
چونکہ اس جماعت کے مقاصد میں سیاسی آزادی کا مقصد سب سے مقدّم ہے، اور وہی اس وقت حالات کے لحاظ سے نمایاں ہو رہا ہے، اس لیے مسلمانوں کے آزادی پسند طبقے اس کی طرف کھنچ رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انگریز کی غلامی ہندوستان کے تمام باشندوں کے لیے ایک مشترک مصیبت ہے، اس مصیبت سے نجات حاصل کرنے کے لیے مشترک جدوجہد کرنا ہر آئینہ معقول ہے،ا ور جو گروہ اس جدوجہد میں سب سے زیادہ سرگرم ہو، اس کی طرف دلوں کا مائل ہونا اور اس کے ساتھ شریک عمل ہو جانا بظاہر ضروری نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے‘ کہ ہندستان کے علما اور سیاسی رہنماؤں میں سے ایک بڑی جماعت اور مخلص جماعت کانگریس کی طرف جا رہی ہے‘ اور عامہ مسلمین کو بھی ترغیب دے رہی ہے‘ کہ اس میں شریک ہو جائیں۔ لیکن عمل کی طرف قدم بڑھانے سے پہلے ایک مرتبہ اچھی طرح سوچ لینا چاہیے‘ کہ اس کے نتائج کیا ہوں گے۔
مسلمانوں کی جو کمزوریاں ہم نے اوپر بیان کی ہیں‘ وہ سب آپ کے سامنے ہیں۔ ان کو پیشِ نظر رکھ کر غور کیجئے‘ کہ ان کمزوریوں کے ساتھ جب یہ قوم کانگریس میں شریک ہو گی‘ اور اس کے عوام سے کانگرسی کارکنوںکا رابطہ قائم ہو گا‘ تو آزادیٔ وطن کی تحریک کے ساتھ ساتھ اور کس کس قسم کی تحریکیں ان کے درمیان پھیلیں گی۔ کس کس طرح مسلمانوں کے عوام ان اجتماعی نظریات، ان ملحدانہ افکار اور ان غیر اسلامی طریقوں سے متاثر ہوں گے‘ جو اس جماعت میں شائع و ذائع ہیں۔ کس طرح اسلامی جماعت کے رگ و ریشہ میں اس فکری و عمرانی انقلاب کے عناصر پھیلائے جائیں گے‘ جو سیاسی انقلاب کے ساتھ ہم رشتہ ہے۔ کس طرح مسلمانوں کے اندر ایک ایسی رائے عام تیار کرنے کی کوشش کی جائے گی‘ جو علی رغمِ انف علماء و زعما، جدید ترین مغربی و اشتراکی بنیادوں پر اجتماعی زندگی کی تعمیر کے ہر نقشہ کی تائید کرنے و الی ہو۔ کس طرح مسلمانوں کی نمائندگی کے لیے خود مسلمانوں کی جماعت سے وہ لوگ تیار کیے جائیں گے‘ جو اسلامی کلچر کے خلاف ہر قسم کے طریقے رائج کرنے اور ہر قسم کے قوانین وضع کرنے میں حصہ لیں گے۔ان حالات میں آپ کے پاس کون سی قوّت ہے‘ جس سے آپ اپنی قوم کو قابو میں رکھ سکیں گے؟ آپ نے اپنے عوام کو اسلامی تہذیب کے حدود میں رکھنے کا کیا بندوبست کیا ہے؟ آپ نے ان کو غیر اسلامی اثرات سے بچانے کا کیا انتظام کیا ہے؟ آپ نے اپنے غدّاروں اور منافقوںکے فتنے کا کیا علاج سوچا ہے؟ آپ کے پاس یہ اطمینان کرنے کا کون سا ذریعہ ہے‘ کہ کسی سخت دِقت میں آپ اسلامی مقاصد کی خدمت کے لیے مسلمانوں کو جمع کر سکیں گے‘ اور ان کی متحدہ طاقت آپ کی پشت پر ہو گی؟
باطل کی جگہ باطل
انگریز کے اقتدار کا خاتمہ کرنا یقینا ضروری ہے۔بلکہ فرض ہے۔، کوئی سچا مسلمان غلامی پر ہرگز راضی نہیں ہو سکتا۔ جس شخص کے دل میں ایمان ہو گا وہ ایک لمحہ کے لیے بھی یہ نہ چاہے گا کہ ہندوستان انگریز کے پنجۂ استبداد میں رہے۔ لیکن آزادی کے جوش میں یہ نہ بھول جائیے‘ کہ انگریزی اقتدار کی مخالفت میں مسلمان کا نظریہ‘ ایک وطن پرست کے نظریہ سے بالکل مختلف ہے۔ اگر آپ کو انگریز سے اس لیے عداوت ہے‘ کہ وہ انگریز ہے، چھ ہزار میل دور سے آیا ہے، آپ کے وطن کا رہنے والا نہیں ہے، تو یہ اسلامی عداوت نہیں‘ بلکہ جاہلی عداوت ہے۔ اور اگر آپ اس سے اس لیے عداوت رکھتے ہیں‘کہ وہ غیر صالح ہے،ناجائز طریقے سے حکومت کرتا ہے، عدل کے بجائے جور پھیلاتا ہے، اصلاح کی جگہ فساد کرتا ہے، تو یہ بلا شبہ اسلامی عداوت ہے۔ لیکن اس لحاظ سے آپ کو دوستی اور دشمنی کا معیار اصول کو قرار دینا پڑے گا نہ کہ وطنیت کو۔ جو کچھ انگریز کرتاہے، اگر وہی کچھ دوسرے کریں تو آپ محض اس بنا پر ان کی حمایت نہیں کر سکتے کہ وہ ہمارے ہم وطن ہیں۔ مسلمان کی نگاہ میں وطنی اور غیر وطنی کوئی چیز نہیں۔ وہ غیر ملک کے صُہَیب اور سلمان کو گلے لگا سکتا ہے‘ مگر اپنے وطن کے ابو جہل اور ابولہب سے دوستی نہیںکرسکتا۔ پس اگر آپ مسلمان ہیں‘ تو وطنیت کے ڈھنگ پر نہ سوچئے‘ بلکہ حق پرستی کے ڈھنگ پر سوچئے۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے انگریز کی غلامی کے بند توڑنا ضرور آپ کا فرض ہے، مگر کسی ایسی حکومت کے قیام میں مدد گار بننا‘ آپ کے لیے ہرگز جائز نہیں‘ جس کی بنیاد انہی اصولوں پر ہو‘ جن پر انگریزی حکومت کی بنیاد قائم ہے، عام اس سے کہ وہ وطنی حکومت ہو یا غیر وطنی۔ آپ کا کام باطل کو مٹا کر دوسرے باطل اور بد تر باطل کو قائم کرنا نہیں ہے۔ آپ انگریزی حکومت کے خلاف ہر اس گروہ سے موالات کیجئے‘ جو اس کو مٹانا چاہتا ہو۔ مگر یہ بتائیے کہ اس ظالم حکومت کو مٹا کر ایک عادل حکومت قائم کرنے کے لیے آپ نے کیا انتظام کیا ہے؟ کون سی طاقت آپ نے فراہم کی ہے‘ جس سے آپ نے دوسری حکومت کی تشکیل حق کے اصولوں پر کرا سکیں؟ یہ نہیں تو جانے دیجئے، یہی بتا دیجئے کہ آپ نے خود اپنی قوم کو باطل کے اثرات سے بچانے کا کیا بندوبست فرمایا ہے؟
کیا آئینی ضمانتیں اور تحفظات کافی ہو سکتے ہیں؟
آپ کہتے ہیںکہ ہم اپنی تہذیب اور اپنے قومی طریقوں کی حفاظت کے لیے آئینی ضمانتیں لیں گے۔ ہم دستورِ اساسی میں ایسے تحفظات رکھوائیں گے‘ جن سے اسلامی مفاد پر آنچ نہ آنے پائے، بلا شبہ یہ سب کچھ آپ کر سکتے ہیں۔ مگر شاید آپ نے غور نہیں فرمایا کہ آئینی ضمانتیں اور دستور اساسی کے تحفظات اور دوسرے تمام کاغذی مواثیق صرف اسی قوم کے لیے مفید ہو سکتے ہیں‘ جس میں ایک طاقت ور رائے عام موجود ہو‘ جو اپنے آپ کو سمجھتی ہو، اپنی تہذیب کو جانتی ہو، اس کی خصوصیات کو پہچانتی ہو، اس کی حفاظت کا ناقابلِ تسخیر ارادہ رکھتی ہو‘ اور منفرداً و مجتمعاً اس کی طرف سے مدافعت کے لیے ہر وقت سینہ سپر ہو۔ یہ صفات اگر آپ کی قوم میں موجود ہیں‘ تو آپ کو کسی آئینی ضمانت اور کسی دستوری تحفظ کی بھی ضرورت نہیں، اور اگر آپ کی قوم ان صفات سے عاری ہے‘ تو یقین رکھیے کہ کوئی ضمانت اور کوئی تحفظ ایسی حالت میں کار آمد نہیں ہو سکتا۔ آپ دستور اساسی کی ضمانتوں کو زیادہ سے زیادہ خارجی حملوں کے مقابلہ میں استعمال کر سکتے ہیں۔ مگر اندرونی انقلاب کا آپ کے پاس کون سا علاج ہے؟ مثال کے طور پر فرض کیجئے‘ کہ کل مخلوط تعلیم شروع ہوتی ہے{ FR 2899 } اور آپ کی قوم کے افراد خود اپنی مرضی سے دھڑا دھڑا اپنی لڑکیوں اور لڑکوں کو مخلوط مدارس میں بھیجتے ہیں۔ کون سا دستوری تحفّظ اس تحریک کو اور اس کے زہریلے نتائج کو روکنے کے لیے استعمال کیا جائے گا؟ فرض کیجئے‘ کہ سول میرج کے طریقہ پر نکاحوںکا رواج پھیلتا ہے‘ اور آپ کی قوم خود اس تحریک سے متاثر ہو جاتی ہے، کونسی آئینی ضمانت اس کی روک تھام کر سکے گی؟ فرض کیجئے‘ کہ آپ کی اپنی قوم میں پروپیگنڈہ کی قوّت اور تعلیم کے وسائل سے ایک ایسی رائے عام تیار کر دی جاتی ہے‘ جو قوانینِ اسلامی میں ترمیم و تنسیخ پر راضی ہو‘ بلکہ مصر ہو، آپ کی اپنی قوم کے افراد ایسے قوانین کی حمایت کے لیے اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں‘ جو اصولِ اسلام کے خلاف ہوں، خود آپ ہی کے ووٹوں کی اکثریت سے ایسی تجویزیں پاس ہو جاتی ہیں‘ جو آپ کے تمدّن کو اسلامی مناہج سے ہٹا دینے والی ہوں۔ وہ کون سے ’’بنیادی حقوق‘‘ہیں جن کا واسطہ دے کر آپ ان چیزوں کو منسوخ کرا سکیں گے؟ فرض کیجئے‘ کہ آپ کی قوم بتدریج ہمسایہ قوم کے طرزِ معاشرت، آداب و اطوار، عقائد و افکار کو قبول کرنا شروع کرتی ہے، اور اپنے قومی امتیازات کو خود بخود مٹانے لگتی ہے۔ کون سا کاغذی میثاق اس تدریجی انجذاب کی روک تھام کر سکے گا‘ آپ اس کے جواب میں یہ نہیں کہہ سکتے‘ کہ یہ سب تمہارے خیالی مفروضات ہیں۔ اس لیے کہ جو مسلمان اس وقت وطنی تحریک میں شامل ہیں ان کے نمونے آپ کے سامنے موجود ہیں۔ دیکھ لیجئے کہ ان کا طرزِعمل انگریز کے غلاموں سے کچھ بھی مختلف نہیں۔ وہی ذہنی غلامی، وہی زنانہ انفعال و تاثر، وہی انجذابی کیفیت یہاں بھی نمایاں ہے‘ جو آستانۂ فرنگ کے طائفین وعا کفین میں نظر آتی ہے۔ پھر جب اپنی قوم کی کمزوری اور اس کی موجودہ مزاجی کیفیت کے کھلے ہوئے علائم اور آثار آپ کی آنکھیں دیکھ رہی ہیں‘ تو آخر کس بھروسا پر آپ ساری قوم کو دَھرلے جانا چاہتے ہیں؟ فرمائیے تو سہی کہ آپ نے باطنی انقلاب اور تدریجی انجذاب کو روکنے کے لیے کون سا تحفظ کیا ہے؟
عوام کا جمود اور سیاسی جماعتوں کی بے راہ رویاں
مسلمانوں میں اس وقت زیادہ تر تین گروہ پائے جاتے ہیں۔ ایک گروہ آزادی وطن کے لیے بے چین ہے‘ اور کانگریس کی طرف کھنچ رہا ہے‘ یا کِھنچ گیا ہے۔ دوسرا گروہ اپنی قومی تہذیب اور اپنے قومی حقوق کی حفاظت کے لیے انگریز کی گود میں جانا چاہتا ہے‘ اور آئندہ انقلاب کے خطرات سے بچنے کی یہی صورت مناسب سمجھتا ہے‘ کہ سرکار برطانیہ کا معاون بن کر آزادی کی تحریک کو روکے۔ تیسرا گروہ عالمِ حیرت میں کھڑا ہے‘ اور خاموشی کے ساتھ واقعات کو دیکھ رہا ہے۔
ہمارے نزدیک یہ تینوں گروہ غلطی پر ہیں۔ پہلے گروہ کی غلطی ہم نے اوپر واضح کر دی۔ دوسرے گروہ کی غلطی بھی کچھ کم خطرناک نہیں۔ یہ لوگ اپنی کمزوریوں کی اصلاح کرنے کی بجائے دوسروں کی ترقی کو روکنا چاہتے ہیں‘ اور یہ سمجھ رہے ہیں‘ کہ ان کے ضُعف کی تلافی غیروں کے سہارے سے ہو جائیگی۔ ایسی ذلیل پالیسی دنیا میں نہ کبھی کامیاب ہوئی ہے نہ ہو سکتی ہے۔ جو قوم خود رہنے کی طاقت نہ رکھتی ہو، جس میں خود اپنے موقف پر کھڑے رہنے کا بل بوتا نہ ہو، وہ کب تک دوسروں کے سہارے جی سکتی ہے؟ کب تک کوئی سہارا اس کے لیے قائم رہ سکتا ہے؟ کب تک زمانے کے انقلابات اس کی خاطر رُکے رہ سکتے ہیں؟ انگریز قیامت تک کے لیے ہندستان پر حکومت کرنے کا پٹہ لکھوا کر نہیں لایا ہے۔ ہر قوم کے لیے ایک مدّت ہوتی ہے۔ انگریز کے لیے بھی بہرحال ایک مدت ہے، اور وہ آج نہیں تو کل پوری ہو گی۔ اس کے بعد وہی قوم بر سر اقتدار آئے گی جس میں ہمت اور طاقت ہو گی۔ حاکمانہ اوصاف ہوں تو وہ قوم تم ہو سکتے ہو، اور اگر تم ان سے عاری ہو تو بہرحال تمہاری قسمت میں محکومی کی ذلت اور ذلت کی موت ہی ہے۔ جو گھن کھائی ہوئی لاش‘ کسی عصا کے سہارے پر کھڑی ہو‘ وہ ہمیشہ کھڑی نہیں رہ سکتی۔ عصا کبھی نہ کبھی ہٹ کے رہے گا اور لاش کبھی نہ کبھی گِر کے رہے گی۔
تیسرے گروہ کی غلطی سب سے زیادہ خطرناک ہے۔ یہ دنیا ایک عرصۂ جنگ ہے‘ جس میں تنازع للبقا کا سلسلہ جاری ہے۔ اس معرکہ میں ان کے لیے کوئی کامیابی نہیں جو زندہ رہنے کے لیے مقابلہ اور زحمت کی قوّت نہ رکھتے ہوں۔خصوصیت کے ساتھ ایک دور کے خاتمہ اور دوسرے دور کے آغاز کا وقت تو قوموں کی قسمتوں کے فیصلے کا وقت ہوتاہے۔ ایسے وقت میں سکون اور جمود کے معنی ہلاکت اور موت کے ہیں۔ اگر تم خود ہی مر جانا چاہتے ہو تو بیٹھے رہو‘ اور اپنی موت کی آمد کا تماشا دیکھے جاؤ۔ لیکن زندہ رہنے کی خواہش ہے ‘تو سمجھ لو کہ اس وقت کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہے۔ یہ سستی رفتار کا زمانہ نہیں ہے، صدیوں کے تغیّرات اب مہینوں اور برسوں میں ہو جاتے ہیں۔ جس انقلاب کے سامان اس وقت ہندستان اور ساری دنیا میں ہو رہے ہیں‘ وہ طوفان کی سی تیزی کے ساتھ آرہا ہے۔ اب تمہارے لیے زیادہ سے زیادہ دس پندرہ برس کی مہلت ہے۔ اگر اس مہلت میں تم نے اپنی کمزوریوں کی تلافی نہ کی‘ اور زندگی کی طاقت اپنے اند رپیدا نہ کی‘ تو پھر کوئی دوسری مہلت تمہیں نہ ملے گی۔ اور تم وہی سب کچھ دیکھو گے‘ جو دوسری کمزور قومیں اس سے پہلے دیکھ چکی ہیں۔ اللہ کا کسی قوم کے ساتھ رشتہ نہیں ہے‘ کہ وہ اس کی خاطر اپنی سنّت کو بدل ڈالے۔
جمود بہرحال ٹوٹنا چاہیے، حرکت کی ضرورت ہے‘ اور شدید ضرورت ہے۔ مگر نری حرکت کسی کام کی نہیں۔ حکمت اور تدبر کے ساتھ حرکت ہونی چاہیے۔ خصوصاً نازک اوقات میں تو حرکت ِبلا تدبر کے معنی خود اپنے پائوںچل کر خندق میں جا گرنے کے ہیں۔ یہ اندھے جوش اور ابلہانہ شتاب روی کا وقت نہیں۔ قدم اٹھانے سے پہلے ٹھنڈے دل و دماغ سے کام لے کر سوچئے کہ قدم کس سمت میں اٹھانا چاہیے؟ آپ کی منزلِ مقصود کیا ہے؟ اس کی طر ف جانے کا صحیح راستہ کون سا ہے؟ اس راستہ پرچلنے کے لیے آپ کو کس سامان کی ضرورت ہے؟ کن کن مرحلوں سے بسلامت گزر جانے کے لیے کیا تدبیریں اختیار کرنی پڑیں گی؟
خ خ خ

شیئر کریں