(روزنامہ اسٹیٹسمین نے ڈاکٹر محمد اقبال کا ایک مضمون بعنوان ’’قادیانی اور راسخ العقیدہ مسلمان ‘‘ ادارتی تنقید کے ساتھ شائع کیاتھا۔ مندرجہ ذیل خط اس تنقید کے جواب میں اسٹیٹسمین کو لکھاگیاتھا اور اس کے شمارہ مورخہ ۱۰ جون ۱۹۳۵ء میں شائع ہواتھا)۔
’’میں آپ کے اس تنقیدی اداریے پر آپ کابہت شکرگزار ہوں جو آپ نے میرے مضمون شائع شدہ اسٹیٹسمین مورخہ ۱۴مئی کے بارے میں سپرد قلم کیاہے۔ اس اداریے میں آپ نے جو سوال اٹھایاہے وہ نہایت ہی اہم ہے۔ درحقیقت میں خوش ہوں کہ آپ نے یہ سوال اٹھایا۔ میں نے اپنے مضمون میں اس سوال کو نہیں چھیڑاتھا۔ کیونکہ میں محسوس کرتاتھاکہ فی الحقیقت یہ حکومت کا فرض ہے کہ وہ قادیانیوں کی علیحدگی پسندی کی اس روش پر جو انھوںنے مذہبی اور معاشرتی معاملات میں مسلسل اس وقت سے اختیار کررکھی ہے۔ جب سے ایک مد مقابل نبوت کی بنیاد پر ایک نئی قوم تعمیر کرنے کاخیال ان میں پیدا ہوا ہے۔ اور ان کی اس روش کے خلاف عام مسلمانوں کے شدید جذبات کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہندوستانی مسلمانوں کی طرف سے رسمی مطالبہ کا انتظار کیے بغیر ، خود ہی قادیانیوں اور مسلمانوں کے اس بنیادی اختلاف کا انتظامی طور پر نوٹس لے۔ سکھوں کے معاملے میں حکومت کے رویہ سے میرے اس احساس کو تقویت حاصل ہوئی تھی ۔ سکھ قوم کو ۱۹۱۹ء تک انتظامی طور پر ایک جداگانہ سیاسی وحدت شمار نہیں کیاجاتا تھا۔ لیکن اس کے بعد سکھوں کی طرف سے کسی رسمی مطالبہ کے بغیر انہیں ایک علیحدہ سیاسی وحدت قرار دیا گیا۔
تاہم اب جب کہ آپ نے اس سوال کو چھیڑا ہے میں اس اہم مسئلہ کے بارے میں جسے میں مسلمانوں اور حکومت برطانیہ دونوں کے نقطۂ ہائے نظر سے انتہائی اہمیت کا حامل سمجھتاہوں، چند معروضات پیش کروں گا۔
آپ کا مطالبہ یہ ہے کہ میں اس امر کی پوری پوری وضاحت کروں کہ میں ایک قوم کے باہمی مذہبی اختلافات میں سرکاری مداخلت کب اور کس مرحلہ پر برداشت کرسکتا ہوں؟
میری طرف سے اس کا جواب سنیے:
سب سے پہلی بات جو پیش نظر رہنی ضروری ہے ،یہ ہے کہ اسلام ایک ایسی مذہبی قوت کا علم بردار ہے جس کے حدود کا ملاً متعین ہیں۔ اور وہ حدود ہیں (۱) اللہ کی وحدانیت پر ایمان(۲) تمام انبیا علیہم السلام پر ایمان اور (۳) حضرت محمد مصطفیٰ ﷺکے خاتم النبیین ہونے پر ایمان۔موخر الذکر عقیدہ فی الحقیقت ایک ایسا عنصر ہے جو مسلم اور غیرمسلم کے درمیان ایک واضح خط امتیاز کھینچ دیتاہے اور صرف اسی کی بنیاد پر ایک آدمی یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ کون سا گروہ یا فرد ملت میں شامل ہے اور کون سانہیں ؟ مثلاً برہمو سماج کو لیجیے۔ یہ لوگ خدا پر ایمان رکھتے ہیں۔ محمد (ﷺ)کو بھی اللہ تعالیٰ کے انبیا میں سے ایک نبی خیال کرتے ہیں۔ لیکن ہم انہیں اسلام کاجزو نہیں سمجھتے اس لیے کہ وہ بھی قادیانیوں کی طرح وحی نبوت کے تسلسل کے نظریے کے قائل ہیں۔ اور حضور ﷺ کے خاتم النبیین ہونے پر ایمان نہیں رکھتے۔میرے علم کی حد تک اسلام کے اندر ایسا کوئی فرقہ آج تک نہیں اٹھا جس نے اس خط امتیازکوپھاندنے کی کوشش کی ہو۔ ایران میں بہائیوں نے کھلم کھلا ختم نبوت کے عقیدہ کو مستردکردیا ہے لیکن ساتھ ہی انھوںنے صا ف طور پر یہ بھی تسلیم کیاہے کہ وہ ایک نئی ملت ہیں اور اصطلاحاً مسلمان نہیں ہیں۔ ہمارے عقائد کے مطابق اسلام بطور ایک دین ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ وحی نازل کیاگیاتھا ۔ لیکن اس کے ایک ملت اور سوسائٹی کی حیثیت سے زندہ رہنے کاانحصار کلیتہً حضور ﷺ کی ذات گرامی پر ہے۔ میری رائے میں قادیانیوں کے لیے صرف وہی دو راستے کھلے ہیں۔یا تو وہ سیدھی طرح بہائیوں کے طرز عمل کو اختیار کریں یا ختم نبوت کے عقیدے کی خود ساختہ تاویلات سے دستبردار ہو کر اس عقیدہ کو اس کے تمام تر مضمرات کے ساتھ قبول کرلیں۔ ان کی عیارانہ تاویلات دراصل ان کی محض اس خواہش کی بنا پر ہیں کہ واضح سیاسی مفادات کے حصول کے لیے وہ اپنے آپ کو ملت اسلامیہ کاایک حصہ شمار کراتے رہیں۔
دوم:یہ کہ دنیائے اسلام کے ساتھ خودقادیانیوںکے اپنے رویے اورطرزعمل کو ہمیں نہیںبھولناچاہیے۔اس تحریک کے بانی نے ملت اسلامیہ کوسڑے ہوئے دودھ سے اور اپنے متبعین کوتازہ دودھ سے تشبیہ دی ہے۔اورموخرالذکرکواول الذکر(مسلمانوں) کے ساتھ گھلنے ملنے سے خبردارکیاہے۔
مزیدبرآںان کابنیادی اصولوںکوماننے سے انکارکرنا،ان کااپنے آپ کوایک نیا قومی نام(احمدی)دینا،ان کامسلمانوںکی نمازباجماعت میںشریک نہ ہونا،بیاہ شادی وغیرہ میںان کی طرف سے مسلمانوںکاسماجی مقاطعہ کرنااوران سب سے بڑھ کران کا پوری دنیائے اسلام کوکافرقراردینا…یہ سب باتیںخودان کی طرف سے اس امر کا واشگاف الفاظ میںاعلان ہے کہ وہ ملت اسلامیہ سے ایک علیحدہ قوم ہیں۔
مندرجہ بالاحقائق اس بات کوپوری طرح واضح کردیتے ہیںکہ قادیانیت اور اسلام کا بُعداس سے کہیںزیادہ ہے جوسکھ مذہب اورہندومت میںہے۔اس لیے کہ سکھ اگرچہ ہندوئوںکے مندروںمیںعبادت نہیںکرتے لیکن ان کے ساتھ کم ازکم بیاہ شادی کے تعلقات توقائم کرلیتے ہیں۔
سوم:یہ بات سمجھنے کے لیے کچھ زیادہ غوروفکرکرنے کی ضرورت نہیںکہ قادیانی حضرات مذہبی اورسماجی معاملات میںعلیحدگی کی روش پرگامزان رہنے کے ساتھ ساتھ ملت مسلمہ کاایک جزوشمارکیے جانے پرکیوںمصرہیں۔
ملت اسلامیہ کے اندررہنے کاپھل جوانہیںسرکاری ملازمتوںکے دائرہ میںسیاسی مفادات کے حصول کی صورت میںملتاہے‘ اس سے قطع نظر‘یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ ان کی موجودہ آبادی کی بنیادپرجوتازہ ترین مردم شماری کے اعدادوشمارکی روشنی میںصرف چھپن ہزارہے، انہیںملک کی کسی مقننہ میںایک نشست کابھی استحقاق حاصل نہیںہوتا۔اس لیے وہ ان معنوںمیںسیاسی اقلیت قرارنہیںدیے جاسکتے جن معنوںمیںآپ اس اصطلاح کو استعمال کرتے معلوم ہوتے ہیں۔
یہ حقیقت کہ قادیانیوںنے ابھی تک ایک الگ سیاسی وحدت کی حیثیت سے علیحدگی کا مطالبہ نہیںکیاہے، یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ موجودہ حالت میںوہ خودبھی اپنے آپ کوکسی مجلس مقننہ میںنمائندگی حاصل کرنے کامستحق نہیںسمجھتے ۔نیاآئین ایسی اقلیتوں (جیسی کہ قادیانی ہیں)کے تحفظ کی دفعات خالی نہیںہے۔میرے نزدیک یہ بات یقینی ہے کہ قادیانی حکومت سے یہ مطالبہ کرنے میںکبھی پہل نہیںکریںگے کہ انہیںملت اسلامیہ سے الگ ایک وحدت قرردیاجائے۔(اس لیے)خودملت اسلامیہ ان کوجسدملت سے علیحدہ کرنے کے مطالبہ میںبالکل حق بجانب ہے۔حکومت کی طرف سے اس مطالبہ کوفی الفورتسلیم نہ کرنے سے ہندی مسلمانوںکے ذہن میںلازماًیہ شبہ پیداہوگاکہ حکومت برطانیہ اس نئے مذہب کوکسی آڑے وقت کے لیے رکھناچاہتی ہے،جیساکہ وہ رکھتی رہی ہے اور علیحدگی کے مسئلہ کے حل میںمحض اس لیے تاخیرکررہی ہے کہ اس مذہب کے پیروکار تعداد میںکم ہونے کی وجہ سے اس وقت ایک ایسی چوتھی قومیت کی حیثیت سے صوبہ کی سیاست میںنہیںابھرسکتے جوپنجابی مسلمانوںکی مجلس مقننہ میںمعمولی سی اکثریت کوکاری ضرب لگا سکے۔۱۹۱۹ء میںسکھوںکی ہندوئوںسے علیحدگی کے معاملہ میںحکومت نے کسی رسمی مطالبہ کا انتظارنہیںکیاتھاتوپھرقادیانیوںکی طرف سے رسمی مطالبہ کاانتظارکیوں؟ (ص،۱۰۷)