(۱) ’’بنیادی اصولوںکی رپور ٹ میں علمائ
کی طرف سے پیش کردہ ترامیم ‘‘
پاکستان کے مختلف مکاتیب فکر کی نمائندگی کرنے والے تینتیس نامور علمائ دستور پاکستان کی ’’بنیادی اصولوں کی کمیٹی کی رپورٹ ‘‘ پر غور کرنے کے لیے جنوری ۱۹۵۳ء میں کراچی میں جمع ہوئے ، جہاں انھوںنے کافی غور و خوض کے بعد اس رپورٹ میں متعدد ترامیم اور کچھ نئی تجاویز پیش کیں ۔ اس سلسلہ میں انھوںنے قادیانیوں …کے متعلق جو تجویز متفقہ طور پر پیش کیں اس کی تفصیلات درج ذیل ہیں :۔
۱۔ ’’اس ضمیمہ میں ’’مسلم نشستوں ‘‘ کے عنوان کے کالم میں پنجاب کے بالمقابل ۸۸ کی جگہ ۸۷ درج کیاجائے اور ایک نئے کالم کااضافہ کیاجائے۔ جس کا عنوان ’’قادیانیوں کے لیے مخصوص نشستیں ‘‘ ہو۔ اس کالم میں پنجاب کے بالمقابل ایک کاعدد درج کیا جائے۔‘‘
نیز اس ضمیمہ کی تشریحات میں حسب ذیل دفعات کااضافہ کیاجائے۔
’’پنجاب میں قادیانیوں کی ایک نشست پر کرنے کے لیے پاکستان کے دیگر علاقوں کے قادیانی بھی ووٹ دینے اور مذکورہ نشست کے لیے رکن منتخب ہوسکنے کے مستحق ہوں گے۔‘‘
قادیانی کی تشریح اس طرح کی جائے:
’’قادیانی سے مراد وہ شخض ہو گا جو مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کو اپنا مذہبی پیشوا مانتاہو۔ ‘‘
یہ ایک نہایت ضروری ترمیم ہے جسے ہم پورے اصرار کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ ملک کے دستور سازوں کے لیے یہ بات کسی طرح موزوں نہیں ہے کہ وہ اپنے ملک کے حالات اور مخصوص اجتماعی مسائل سے بے پرواہ ہو کر محض اپنے ذاتی نظریات کی بنا پر دستور بنانے لگیں ۔ انہیں معلوم ہوناچاہیے کہ ملک کے جن علاقوں میں قادیانیوں کی بڑی تعداد مسلمانوں کے ساتھ ملی جلی آباد ہے وہاں اس قادیانی مسئلہ نے کس قدر نازک صورت حال پیدا کردی ہے ۔ ان کو پچھلے دور کے بیرونی حکمرانوں کی طرح نہ ہونا چاہیے ، جنھوں نے ہندو مسلم مسئلہ کی نزاکت کو اس وقت تک محسوس نہ کیا جب تک متحدہ ہندوستان کا گوشہ گوشہ …دونوں قوموں کے فسادات سے خون آلود نہ ہوگیا۔ جو دستور ساز حضرات اسی ملک کے رہنے والے ہیں ، ان کی یہ غلطی بڑی افسوس ناک ہوگی کہ وہ جب تک پاکستان میں قادیانی مسلم تصادم کو آگ کی طرح بھڑکتے ہوئے نہ دیکھ لیں، اس وقت تک انہیں اس بات کایقین نہ آئے کہ یہاں ایک قادیانی مسلم مسئلہ بھی موجود ہے جسے حل کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ اس مسئلہ کو جس چیز نے نزاکت کی آخری حد تک پہنچادیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ قادیانی ایک طرف مسلمان بن کر مسلمانوں میں گھستے ہیں اور دوسری طرف عقائد و عبادات اور اجتماعی شیرازہ بندی میں مسلمانوں سے نہ صرف الگ بلکہ ان کے خلاف صف آرا رہتے ہیں اور مذہبی طور پر تمام مسلمانوں کو اعلانیہ کافر قرار دیتے ہیں ۔ اس خرابی کاعلاج آج بھی یہی ہے اور پہلے بھی یہی تھا(جیساکہ علامہ اقبال مرحوم نے آج سے بیس سال پہلے فرمایاتھا) کہ قادیانیوں کو مسلمانوں سے الگ ایک اقلیت قرار دیاجائے۔
۲۔ اسی طر ح اقلیتی کمیٹی کی رپورٹ دفعہ نمبر۱ کے اختتام پر ’’اور قادیانی ‘‘ کے الفاظ کااضافہ کیاجائے۔