’’یہ بات اکثر لوگ سمجھ چکے ہیں کہ کوئی گورنمنٹ، خواہ وہ کسی پارٹی کی ہو ، ان سفارشات (یعنی مطالبات ) کو نہیں مان سکتی۔ تاہم قیام پاکستان کے بعد ،یہ وہ اہم ترین مسئلہ ہوگا جس پر اس امید کے ساتھ لیگ کو چیلنج کیاجائے گا کہ برسراقتدار حکومت ان مطالبات کو رد کرنے کا فیصلہ کردے تو مسلمانوں کی اکثریت اس کی مخالف ہوجائے گی۔ اس نتیجے کے رونما ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے اگر اس دوران میں حکومت اس شرارت کا توڑ کرنے کے لیے ذرائع و وسائل اختیار نہیں کرتی اور یہ شرارت اب پورے زور کے ساتھ شروع ہوچکی ہے۔ ‘‘ (نوٹ مورخہ ۱۴جولائی ۱۹۵۲ء )
اس تحریر میں خان قربان علی خان ایک سرکاری ملازم کے بجائے ایک سیاسی آدمی نظر آ رہے ہیں جو حکومت کی پالیسی پر عمل درآمد کرنے والے نہیں بلکہ پالیسی بنانے والے ہیں،جن کو فکر بھی لاحق ہے کہ آئندہ کسی انتخاب میں مسلم لیگ کی حکومت عوامی ناراضی کے سبب سے ہارنہ جائے اور اس کے ساتھ انہیں یہ فکر بھی ہے کہ حکومت ان مطالبات کو تسلیم نہ کرے جو چاہے عوام کو پسند ہوں مگر خود انہیں پسند نہیں ہیں۔ ان کی دلچسپی اس معاملے میں یہاں تک بڑھی ہوئی ہے کہ وہ ان مطالبات کو ، یا لیگ کے لیے خطرہ پیدا کرنے والے طریقہ سے انہیں پیش کرنے کو ، ایک شرارت (mischeif) قرار دیتے ہیں اور حکومت کو اس کامقابلہ کرنے کے لیے اکساتے ہیں۔